بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس عظیم عید کی جو تاریخ کے تمام حق پرستوں اور ظلم کے مخالفین سے تعلق رکھتی ہے، آپ نوجوانوں کو جو حسین بن علی علیہ السلام کے حقیقی اور معنوی پیرو ہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ خداوندعالم آپ تمام بھائیوں اور فرزندان حسین بن علی علیہ السلام کو اس سیدھے راستے پر باقی رکھے۔

  حضرت سید الشہدا علیہ الصلوات والسلام کے واقعے میں ایک مسئلہ بہت اہم ہے جس کو آپ پاسداران انقلاب کے  اس مخلصانہ اجتماع میں بیان کرنا چاہئے۔اگرچہ ممکن ہے کہ دوسرے اداروں اور شہروں کی خواتین و حضرات بھی اس جلسے میں موجود ہوں لیکن یہ جلسہ آپ پاسداران انقلاب سے تعلق رکھتا ہے۔

  یہ ایک تاریخی اور انسانی سوال ہے اور اس کو پیش کرنے کی جگہ یہی ہے۔حسین بن علی علیہ السلام کی زندگی میں واقعات، باتیں، تاریخ اور اقوال و احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تب بھی، آپ کی زندگی، دیگر تمام آئمہ اطہار کی طرح، آثار،  حکمت، روایات اور احادیث کا منبع ہوتی۔ لیکن مسئلہ عاشورہ اتنا اہم ہے کہ آپ کی زندگی کی دیگر ممتاز اور نمایاں نشانیوں اور نکات پر کمتر توجہ دی جاتی ہے۔ عاشورہ کا واقعہ اتنا اہم ہے کہ آج کی زیارت یعنی تیسری شعبان کی زیارت میں یہ دعا آج کے لئے وارد ہوئی ہے، حسین بن علی  علیہ السلام کے بارے میں  کہا گیا ہے کہ "بکته السماء و من فیها والارض و من علیها ولمّایطألا بتیْها" ابھی اس دنیا میں قدم نہیں رکھے تھے کہ آسمان و زمین نے حسین بن علی پر گریہ کیا۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے۔ یعنی عاشورا کا واقعہ اور اس دن  ہونے والی  شہادت عظمی جو تاریخ میں بے نظیر ہے، ایسا واقعہ ہے کہ جس پر تمام نگاہیں مرکوز تھیں۔ واقعی یہ کیسا واقعہ تھا کہ جس کا پہلے سے ہی تذکرہ موجود تھا؟ " الموعد بشھادتہ قبل استھلالہ وولادتہ۔" (1) قبل اس کے کہ حسین بن علی علیہ السلام کا چہرہ انور سامنے آئے، شہادت کے ساتھ آپ کو منسوب کیا گیا اور بلایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں کوئی راز ہے جو ہمارے لئے سبق آموز ہے۔

البتہ شہادت حسین بن علی کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ اچھی اور صحیح باتیں کی گئی ہیں۔ ہر ایک نے اپنے فہم و ادراک کے مطابق اس واقعے کو سمجھا ہے۔ بعض نے آپ کو حکومت طلب کرنے تک محدود کیا ہے۔ بعض نے آپ کو دوسرے مسائل سے جوڑ کے چھوٹا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض نے آپ کے وسیع تر پہلووں کی شناخت حاصل کی ہے اور اس کے بارے میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے۔ میں ان باتوں کو عرض نہیں کروں گا۔ میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ وہ خطرات جو اسلام کو کسی بڑے واقعے سے لاحق ہو سکتے ہیں، اس واقعے کے رونما ہونے اور آغاز سے پہلے پروردگار نے ان کی پیش بینی کی ہے اور ان خطرات کو دفع کرنے کے وسائل بھی  اسی اسلام میں، اسی مجموعے میں فراہم کئے  گئے  ہیں۔ ایک تندرست بدن کی طرح جس کی دفاعی قوت خدا نے خود اس کے اندر رکھی ہے۔یا ایک صحیح وسالم مشین کی طرح جس کے انجینیئر اور بنانے والے نے اس کی تعمیر اور مرمت کے وسائل اس کے ہمراہ رکھے ہوں۔

اسلام ایک مخلوق ہے اور تمام مخلوقات کی طرح اس کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں جن کو دفع کرنے کے لئے اس کے پاس ضروری وسیلہ۔خدا وند عالم نے اس وسیلے کو خود اسلام کے اندر رکھا ہے۔

وہ خطرہ کیا ہے؟ اسلام کو دو اہم خطرات لاحق ہیں۔ایک بیرونی دشمن کا خطرہ ہے اور دوسرا اندرونی طور پر کمزور ہونے کا خطرہ ہے۔بیرونی دشمن یعنی وہ جو سرحدوں کے باہر سے انواع و اقسام کے اسلحے سے، کسی نظام کے وجود، اس کی فکر، اس کی عقدتی بنیادوں، اس کے قوانین اور اس کی تمام چیزوں کو ہدف قرار دیتا ہے۔اس کو آپ نے اسلامی جمہوریہ کے معاملے میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کہا گیا کہ " ہم اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں" یہ بیرونی دشمن تھے جنہوں نے اس نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ باہر سے کیا مطلب۔؟ ملک کے باہر سے نہیں، نظام کے باہر سے، چاہے ملک کے اندر سے ہو۔

کچھ دشمن ہیں جو خود کو اس نظام سے الگ اور مخالف سمجھتے ہیں۔یہ باہر ہیں۔یہ غیر ہیں۔یہ نظام کو ختم کرنے کے لئے،کوشش کرتے ہیں اور تلوار، انواع و اقسام کے آتشیں اسلحے، جدید ترین مادی اسلحے،پیسے اور پروپیگنڈوں سے، جو کچھ بھی ان کے پاس ہے، اس سے کام لیتے ہیں۔

 یہ ایک طرح کا دشمن ہے۔ دوسرا دشمن اور آفت اندرونی کمزوری ہے۔ یعنی نظام کے اندر، یہ غیروں سے متعلق نہیں ہے۔ یہ خود اپنی طرف سے ہے۔ کسی نظام میں ممکن ہے کہ اپنے  تھکن کی وجہ سے،صحیح راستے کے  فہم میں غلطی کی وجہ سے، نفسانی جذبات سے مغلوب ہوکر اور مادی جلووں کو دیکھ کر اور انہیں بڑا سمجھ کے اچانک اندر سے آفت کا شکار ہوجائیں۔ یہ  خطرہ پہلے  خطرے سے زیادہ ہے۔ یہ دو طرح کے  دشمن،  بیرونی آفت اور اندرونی آفت، ہر نظام کے لئے، ہر تنظیم کے لئے اور ہر وجود کے لئے  موجود ہوتے ہیں۔اسلام نے دونوں آفتوں کو دفع کرنے کے لئے علاج معین کیا ہے اور جہاد رکھا ہے۔جہاد صرف بیرونی دشمن کے لئے مخصوص نہیں ہے۔" جاہدالکفار و المنافقین۔" (2) منافقین نظام کے اندر موجود ہوتا ہے۔لہذا ان سب سے جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔جہاد اس دشمن کے لئے ہے جو بے اعتقادی اور نظام سے دشمنی کی وجہ سے اس پر حملہ کرتا ہے۔اسی طرح اندرونی خطرے اور اندرونی طور پر شیرازہ بکھرنے کا مقابلہ کرنے کے لئے، بہت اہم اخلاقی تعلیمات پائی جاتی ہیں جو دنیا کو اس کی حقیقی شکل میں انسان کے سامنے پیش کرتی ہیں اور سمجھاتی ہیں کہ " اعلموا انما الحیوات الدنیا لعب و لہو وزینت و تفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال و الاولاد۔۔۔ الی آخر۔" (3) یعنی یہ زر و زیور، یہ جلوے اور یہ دنیاوی لذتیں اگرچہ تمھارے لئے ضروری ہیں، اگرچہ تمھارے لئے  ان سے استفادہ ضروری ہے، اگرچہ تمھاری زندگی ان سے وابستہ ہے اس میں شک نہیں اور انہیں اپنے لئے فراہم کرنا چاہئے لیکن جان لو کہ انہیں پر انحصار کرنا اور ان ضرورتوں کی تکمیل کے لئے آنکھ بند کرکے چلنااور اہداف کو فراموش کردینا بہت خطرناک ہے۔

امیرالمومنین علیہ السلام دشمن سے جنگ کے میدان کے شیر ہیں اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو انسان توقع رکھتا ہے کہ آپ کے کلام کا آدھے سے زیادہ حصہ جنگ، جہاد، دلیری اور دلاوری کے بارے میں ہو، لیکن جب روایات اور نہج البلاغہ میں آپ کے خطبات پر نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ کے کلام کا اکثر حصہ زہد، تقوا، اخلاق، دنیا کی نفی اور تحقیر نیز معنوی اور اعلا انسانی اقدار کی اہمیت کے بارے میں ہے۔امام حسین علیہ السلام کا واقعہ ان دونوں حصوں کا مجموعہ ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں دشمن سے جہاد اور نفس سے جہاد دونوں اعلی مرتبے پر جلوہ گر ہوئے ہیں، واقعہ عاشورا ہے۔یعنی خداوندعالم جانتاہے کہ یہ واقعہ پیش آۓ گا اور اعلی نمونہ پیش ہونا چاہئے اور اس اعلی نمونہ کو اسوہ بننا چاہئے۔جس طرح کسی ملک میں کسی شعبے میں  مثالی ہستیاں اور قومی ہیرو  ابھر کے سامنے آتے ہیں اور اس  ہیرو سے کھیل کے  اس شعبے میں دوسروں کو حوصلہ ملتا ہے۔ البتہ یہ بہت چھوٹی مثال ہے جو ذہن کو قریب لانے کے لئے دی گئی ہے۔ واقعہ عاشورا دونوں محاذ پر مجاہدت کی عظیم تحریک تھی، بیرونی دشمن سے جہاد کے محاذ پر بھی جو وہی دربار خلافت اور اس سے وابستہ دنیا پرست تھے، اور جس   قوت سے    پیغمبر نے انسان کی نجات کے لئے کام لیا تھا اس کو وہ اسلام اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے کے برعکس لے جانا چاہتے تھے، اور اندرونی جہاد کے محاذ پر بھی۔ اس زمانے میں معاشرہ اندرونی انحراف اور بد عنوانی کے راستے پر جارہا تھا۔

دوسرا نکتہ میری نگاہ میں زیادہ اہم ہے۔ایک دور گذر چکا تھا۔ ابتدائی سختیوں کا زمانہ طے ہوچکا تھا۔فتوحات حاصل ہوچکی تھیں۔غنیمتیں مل گئ تھیں۔مملکت  وسیع تر ہوچکی تھی۔یہاں وہاں ہر طرف بیرونی دشمن کچلے جاچکے تھے۔غنیمت میں کافی دولت مل چکی تھی۔کچھ لوگ پیسے والے ہوگئے تھے۔کچھ لوگ اشراف میں شمار ہونے لگے تھے۔اسلام نے اشرافیت کا قلع قمع کردیا تھا مگر اب اسلامی دنیا میں جدید اشرافی طبقہ وجود میں آگیا تھا۔کچھ لوگ اسلام کے نام پر، اسلامی عہدوں اور منصبوں پر، فلاں صحابی کی اولادیں، پیغمبر کے  فلاں  ساتھی کی اولادیں، پیغمبر کے فلاں رشتے دار کی اولادیں، غلط کاموں میں مصروف ہوگئی تھیں جن میں سے بعض کے نام تاریخ میں ثبت ہیں۔ایسے لوگ  بھی تھے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کا مہر، پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیرالمومنین علیہ الصلوات والسلام اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے رائج کردہ چار سو اسی درہم کے بجائے دس لاکھ دینار اور دس لاکھ مثقال سونا رکھا تھا۔ یہ کون لوگ تھے؟ یہ پیغبمر کے بڑے صحابیوں کی اولادیں تھیں جیسے مصعب بن زبیر وغیرہ۔جب ہم نظام کا اندر سے فاسد ہونا  کہتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے۔یعنی معاشرے میں ایسے افراد کا وجود میں آجانا جو  اپنی دنیا پرستی اور عیاشی کی متعدی بیماری جو مہلک بھی ہے، معاشرے میں پھیلادیں۔ان حالات میں کس میں جرائت تھی کہ  یزید بن معاویہ کی حکومت کی مخالفت کرے؟ کس نے مخالفت کی؟   اس  دور کے ظلم و کجروی کے نظام کے خلاف مجاہدت کی فکر میں کون تھا۔؟ ان حالات میں حسین بن علی علیہ الصلوات والسلام اٹھے قیام کیا، دشمن سے جہاد بھی کیا اور مسلمانوں کے درمیان پھیلنے والی آرام طلبی، برائیوں اور تباہی کے خلاف مجاہدت بھی کی۔یہ اہم ہے۔امام حسین علیہ الصلوات والسلام نے وہ کام کیا کہ لوگوں کے ضمیر بیدار ہوگئے۔چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد یکے بعد دیگرے متعدد اسلامی تحریکیں اٹھیں اگر چہ انہیں کچل دیا گیا۔لیکن اہم یہ نہیں ہے کہ دشمن نے تحریک کو کچل دیا،یہ تلخ ہے لیکن اس سے زیادہ تلخ یہ ہے کہ معاشرے کی حالت یہ ہوجائے کہ کوئی عکس العمل ہی ظاہر نہ ہو۔ یہ بہت خطرناک ہے۔

  امام حسین علیہ السلام نے وہ کام کیا کہ طاغوتوں کی حکومت کے ہر دور میں کچھ لوگ اٹھے۔اگرچہ صدر اسلام سے زمانی فاصلہ زیادہ ہوچکا تھا مگر ظلم و جور کے خلاف مجاہدت کے لئے ان کے ارادے اور جذبات، امام حسن علیہ السلام کے دور کے مسلمانوں سے زیادہ تھے۔یہ سب کچل دیئے گئے۔مدینے کے عوام کے قیام سے جو حرہ کے نام سے معروف ہے، شروع کریں، اور بعد کے واقعات، توابین اور مختار کی تحریک، اور اسی طرح بنی اور بنی عباس کے دور میں اٹھنے والی تحریکوں کو دیکھیں۔یہ انقلابی تحریکیں کون وجود میں لایا تھا۔؟ حسین بن علی علیہ السلام۔اگر امام حسین علیہ الصلوات والسلام قیام نہ کرتے،تو کیا وہ آرام طلبی اور ذمہ داری سے بچنے کی فکر، ذمہ داری پوری کرنے اور ظلم کے خلاف مجاہدت کے جذبے میں تبدیل ہوسکتی تھی؟ ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ ذمہ داری قبول کرنے کا جذبہ مر گیا تھا؟ اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام مدینے سے جو مرکز اسلام تھا، چلے، مکے گئے، ابن عباس، ابن زبیر، ابن عمر، اور خلفائے صدر اسلام کی اولادیں، سب مدینے میں  تھیں لیکن اس تاریخی اور خونیں قیام میں امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دینے کے لئے کوئی تیار نہ ہوا۔

  بنابریں قیام امام حسین علیہ السلام سے پہلے خواص بھی قدم اٹھانے پر تیار نہیں تھے۔لیکن قیام امام حسین علیہ السلام کے بعد یہ جذبہ زندہ ہوگيا۔یہ واقعہ عاشورا جملہ عظیم درسوں میں سے ایک ہے۔اس واقعے کی عظمت یہ ہے کہ " الموعود بشہادتہ قبل استہلالہ و ولادتہ۔" یعنی آپ کی ولادت سے پہلے " بکتہ السماء ومن فیہا ومن علیہا" امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی۔ آپ کی عزا کا ہتمام کیا اور اس دعا یا زیارت کے الفاظ میں آپ پر گریہ کیا۔اسی لئے آج آپ جب دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے اسلام کو زندگی دی تو آپ کو پاسدار اسلام کہتے ہیں۔پاسدار مناسب لفظ ہے۔پاسداری اس وقت ہوتی ہے جب دشمن ہو۔یہ دو دشمن، بیرونی دشمن اور اندرونی کمزوری کی آفت، آج بھی موجود ہے اور آپ پاسدار ہیں۔یہ نہ سوچیں کہ دشمن سوگیا ہے۔یا دشمن دشمنی سے منصرف ہوگيا ہے۔یہ بات ممکن نہیں ہے۔

  ممکن ہے دشمن کسی دن دشمنی نہ کرسکے۔اور یقینا اسلامی جمہوریہ کے لئے وہ دن آئے گا۔جیسا کہ ہم اپنے اسی دور میں دیکھ رہے ہیں کہ دشمن آج بھی بہت سی دشمنیاں نہیں کرسکتے۔خباثتیں کررہے ہیں۔لیکن انشاء اللہ وہ دن آئےگا یہی سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی خباثتیں بھی نہیں کرسکیں گے۔مثلا فرض کریں کہ اسلامی جمہوریہ کی ضرورت کی بعض چیزیں ہمارے ہاتھ نہیں بیچتے ہیں۔لیکن جب اسلامی جمہوریہ خود ضرورت کی وہ چیزیں تیار کرلے یا وہ چیز تیار کرلے جن کی انہیں ضرورت ہے تو خطرہ ختم ہوجائے گا۔

   آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ دسیوں ریڈیو، ٹی وی اور خبررساں ادارے، اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔لیکن جس دن اسلامی جمہوریہ کی آواز اتنی قوی ہوگئی کہ پورے عالم میں پہنچ جائے تو یہ پروپیگنڈے بھی بے اثر ہوجائیں گے اور حتی بند ہوجائیں گے۔بنابریں دشمن ہے۔یہ نہ سوچیں کہ دشمن نہیں ہے یا سوگیا ہے۔بیدار ہے اور منتظر ہے کہ ہم غفلت کریں اور وہ وار لگائے۔اگر ہمارا ارادہ کمزور ہوگیا تو اور خدا نخواستہ ہم اندر سے بکھر گئے تو وار کھاجائیں گے۔لہذا دشمن ہمارا ارادہ کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج بہت سے پروپیگنڈے اس لئے ہورہے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کے ارادے کمزور ہوجائيں۔ انہوں نے انقلابی جدوجہد اور اس کی پیشرفت کے دوران اور جنگ کے میدانوں میں آپ کا ارادہ دیکھا ہے اور اب اس کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ہوشیار رہیں۔ حکام بھی ہوشیار رہیں۔تشہیراتی شعبے کے ذمہ داران بھی ہوشیار رہیں۔قلمکار اور خطباء بھی ہوشیار رہیں۔ایسا نہ ہوکہ کوئی قلمکار اپنے سلیقے اور ذوق کے مطابق یہ لکھ دے کہ اسلامی جمہوریہ اپنی اقدار سے دستبردار ہوگئی ہے اور اب دشمن سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے۔کوئی ایسی بات، جو چاہے اس کے ذاتی سلیقے اورذوق کے مطابق ہی کیوں نہ ہو، زبان پر کیوں لائے اور قلم سے کیوں لکھے؟ کسی کا سلیقہ یہ ہے، رہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ کے نظام کی اپنی سیاست اور  روش ہے۔نظام کی عام پالیسی کسی کے ذاتی سلیقے کی تابع تو نہیں ہے۔یہ انقلابی اور اسلامی نظام ہے اور یقینا انقلاب اور اسلام کے دشمنوں، سامراجی طاقتوں اور ان کا ہمیشہ مخالف رہے گا جنہوں نے اس کو نقصان پہنچایا ہے اور اس پر وار لگائے ہیں۔

  بعض لوگ کج فکری کی وجہ سے بولتے ہیں۔حتی ممکن ہے کہ کسی چھوٹے سے اجتماع میں بھی کوئی اس طرح کی بات کرے اور وہ بات خاص لوگوں کی زبان سے پھیلے۔اس وقت ہمارے نوجوانوں، ہمارے مومن بھائیوں ، ہمارے پاسداروں،  بسیجیوں  اور ہمارے مخلصین کا جنہوں نے اپنی پوری زندگی انقلاب کے اہداف کی راہ میں گزار دی ہے، کیا حال ہوگا؟ ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے حصول علم کا وقت میدان جنگ میں گزار دیا،کمانے کا موقع جنگ کے میدان میں گزار دیا،دوستی اور دوست بنانے کا زمانہ میدان جنگ میں گزار دیا، نہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا وقت ملا، نہ کمانے کا اور نہ دولت جمع کرنے کا موقع ملا۔خدا کےلئے، انقلاب کی حفاظت کے لئے، جو اصول اور اقدار امام نے انقلاب کے معین کئے ان کے تحفظ کے لئے، انہوں نے اپنی عمر لگادی۔اب یہی لوگ اچانک یہ دیکھیں کہ کسی گوشے سے کوئی اٹھے اور یہ کہے کہ بہتر ہوگا کہ ہم فلا سامراجی طاقت سے، فلاں دشمن سے، اور امام کے الفاظ میں فلاں " بھیڑیئے"  سے صلح کرلیں اور اس سے رابطہ برقرار کرنے کے بارے میں سوچیں۔یہ کیابات ہے؟ آپ اپنی بات اپنے پاس رکھیں۔ نظام کی بات انہیں کرنے دیں جو ذمہ دار ہیں۔میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ دشمنان انقلاب سے اسلامی جمہوری نظام کا دل کبھی صاف نہیں ہوگا۔یہ نہ کہا جائے کہ ہمیں آج وہاں کی ٹکنالوجی یا وہاں کے علم کی ضرورت ہے۔میں کہتا ہوں کہ اگر دشمن دشمنی اور وار لگانے کی فکر میں ہے توآپ کے خوش ہوکے اور مسکراکے دیکھنے سے وہ آپ کو ٹکنالوج اور علم نہیں دے گا۔جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے وہ دشمن اس وقت آپ کو دے گا جب آپ دکھادیں کہ اس سے مستغنی ہوکے رہ سکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں۔اگر آپ نے یہ دکھا دیا تو آپ کے لئے دروازے کھل جائيں گے۔لیکن اگر آپ نے یہ ظاہر کیا کہ آپ کا نگاہ ان کے ہاتھ پر ہے تو جان لیں کہ دروازے آپ پر بند رہیں گے۔

  وہ دور بھی ہم پر گذرا ہے کہ خاردار تار بھی ہمارے ہاتھ نہیں بیچتے تھے۔بہت سوں کو پتہ نہیں ہے کہ ہم نے کیسے دور گذارے ہیں۔ہم پر وہ دور گذرا ہے کہ ہلکے ترین اور معمولی ترین اسلحے اور معمولی گولہ بارود  بھی ہمارے ہاتھ نہیں بیچتے تھے اور ہمارے پاس تھا بھی نہیں۔سابق سوویت یونین کی حکومت نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاتھ اسلحہ نہیں بیچتی تھی بلکہ جو ہم نے دوسری جگہ سے خریدا تھا اور اس کی ‎سرزمین سے گذرکے اپنے ملک میں لانا چاہتے تھے، اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔کیا چیز؟ ایٹمی اسلحہ؟ پیچیدہ اسلحے؟ نہیں بلکہ خاردار تار جیسی چیزیں۔ ایک دن بھی تھا اور ایک دن وہ آیا کہ حکومتیں لائن سے کھڑی ہوگئیں کہ ہم یہ اسلحے اور یہ پیچیدہ ہتھیار تمہارے ہاتھ بیچنے کے لئے تیار ہیں۔اس وقت ہم نے کہا کہ ہم انتخاب کریں گے۔ہم سب سے نہیں خریدیں گے۔یہ دن بھی دیکھا۔ ایک دن وہ تھا جب نہیں تھا۔ وہ بھی جانتے تھے کہ نہیں ہے۔وہ حالت تھی ہماری۔لیکن جب ہمارے نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں سےکام لیا، استعدادیں بیدار ہوئیں، کارخانے چل پڑے تو سب نے سمجھ لیا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کوئی ایسا مجموعہ یہ کمیٹی نہیں ہے کہ جس میں کچھ ایسے نوجوانوں نے  جمع ہوکر بندوقیں ہاتھوں میں لے لی ہیں جن کے پاس کوئی جگہ نہیں تھی۔حالت بدل گئي۔ اب انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے پاسدار، اگر میدان جنگ میں اچھے مجاہد تھے تو علم کے میدان میں بھی اچھے تجربے کرنے والے اور اچھے موجد ہیں۔جب  ہماری سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے طورپر، فوج نے اپنے انداز میں، تعمیری جہاد نے اپنے طور پر، اور دوسرے اداروں نے اپنے طورپر پیشرفت کی اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تو دنیا نے بھی اپنے جگر کے ان ٹکڑوں کو جنہیں ہمارے ہاتھ بیچنے پر تیار نہیں تھی، اپنے ہاتھوں پر رکھا اور بیچنے کے لئے ہمارے پاس آئی۔ہماری قوم کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی کے پاس جائے التماس کرے اور رشوت دے۔ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ہماری قوم کو اپنی استعدادوں، اپنی اندرونی توانائیوں اور اپنی مادی اور بشری قوتوں سے کام لیکر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے اور الحمد اللہ آج تک آج تک اس نے یہی ثبوت دیا ہے۔

   الحمدللہ ملک کے حکام نے اس صورتحال کی حوصلہ افزائی کی ہے۔صدر مملکت، اعلی عہدیدار اور مسلح افواج کے کمانڈر،سبھی اسی راستے پر ہیں۔ہمیں کیا ضرورت ہے کہ کسی یورپی یا غیر یورپی حکومت سے وہ بات کہیں جو اس کے دل کو اچھی لگے یا اس کی خوشامدکریں کہ ہماری مدد کرے۔ہمیں ان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔انہیں تیل کی ضرورت ہے۔ انہیں چھے کروڑ کی اس قوم کی ضرورت ہے۔انہیں اس حساس علاقے کی ایک مضبوط حکومت سے دوستی کی ضرورت ہے۔البتہ دنیا میں ہر چیز کا تبادلہ ہوتا ہے۔کوئی چیز لیتے ہیں کوئی چیز دیتے ہیں۔مگر یہ کام اس قوم کی عظمت، عزت اور شرف کے تحفظ کے ساتھ ہونا چاہئے۔بعض لوگ ان مسائل پر توجہ دیئے بغیر حوصلے پست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ وہی اندرونی اضطراب پیدا کرنا ہے۔ اسلام اس کے خلاف بھی جدوجہد کرتا ہے۔آپ پاسداروں کو اس کے خلاف بھی جدوجہد کرنی ہے۔آپ اس دیمک سے بھی نمٹنا ہے جو اندر سے اسلامی نظام کو ختم کرنا چاہتی ہے اور نوجوانوں کے حوصلے کمزور کررہی ہے۔

  بھائیو' قوم والو' اسلامی جمہوریہ کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جو سامراج کو پسند نہیں ہیں، اس کا نہ وہ اظہار کرتا ہے اور نہ ہی زبان پر لاتا ہے کہ دہشتگردی کی مدد کی تات، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اسی طرح کے دیگر دعوے بیکار کے بہانے ہیں۔ وہ خود بھی جانتے ہیں۔اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کچھ اہم مسائل ہیں جن کی  اسلامی جمہوریہ پابند ہے۔امریکا اور ديگر سامراجی طاقتیں ان کی مخالف ہیں۔مسئلہ فلسطین میں ہم آشتی کے قائل نہیں ہیں۔ ہم نے کہا ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور حکومت اسرائیل غاصب ہے، اس کو جانا ہے اور فلسطینی حکومت کو برسراقتدار آنا ہے۔

  یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔اس مسئلے کی اساس پر اس ہدف کے مخالف ہر اقدام کے مخالف ہیں۔ ہم نے کہا ہے کہ یہ جو دنیا میں سامراج ہر جگہ مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے اور انہیں کمزور کررہا ہے، یہ اسلام کے خلاف سازش ہے۔آپ دیکھیں کہ دنیا میں مسلمانوں پر انواع واقسام کے مظالم کئے جارہے ہیں، انہیں کمزور کیا جارہا ہے جس کا ایک وحشیانہ  نمونہ بوسنیا ہرزے گووینا ہے۔ ایک اور نمونہ ہندوستان ہے جہاں مسلمانوں کی عظیم تاریخی مسجد شہید کردی گئ جو اسلامی آثار قدیمہ میں شمار ہوتی تھی اور اس کو مسلمانان ہند کے جذبات مجروح کرنے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لئے شہید کیا گيا ہے۔خبروں میں تھا کہ ان بے وقوف متعصبوں کی صیہونیوں نے مدد کی اور ان کے لئے اس کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ یہ بھی ایک نمونہ ہے۔

 آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وحشیانہ اقدام پر جس کے بعد مسلم کش فسادات میں کتنے مسلمان مارے گئے، دنیا کچھ نہیں کہرہی ہے، خاموش ہے۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ دنیا میں کہاں ممکن ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ایسا کوئی کام ہوجائے اور ہنگامہ نہ ہو؟ حتی  باطل مذاہب اور ان مسلکوں کے خلاف ایسا کوئی کام ہوجائے جو درحقیقت مذہب بھی نہیں ہیں، تو دیکھئے کیسا ہنگامہ ہوتا ہے مگر اسلام کے ماننےوالوں کے ساتھ کچھ بھی ہوجائے کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا۔

  ایک اور نمونہ تاجکستان ہے۔بعض حکومتیں، تاجکستان کے  مسلمانوں کاجو اچھے، مخلص اور مومن مسلمان ہیں،  خون بہانے میں  سابق کمیونسٹوں کی مدد  اور پشت پناہی کررہی ہیں۔ان کا خون بہایا جارہا ہے، انہیں بے گھر کیا جارہا ہے، ان کی زندگی تباہ کی جارہی ہے مگر دنیا میں کوئی کچھ نہیں بول رہا ہے۔ہزاروں لوگوں کو بے گھر کردیا گيا، کوئی اس کو اہمیت نہیں دےرہا ہے، بین الاقوامی اداروں سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔

  ایک نمونہ فلسطین ہے۔جہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ دنیا کے اطراف و اکناف میں اس کے متعدد نمونے مل جائيں گے۔ مسلمانوں کو کچلا جارہا ہے اور ان کے حوصلے پست کئے جارہے ہیں۔ہم یعنی  اسلامی جمہوریہ ایران، ممکن ہے کہ ان تمام معاملات میں عملا کچھ نہ کرسکے۔کوئی مددنہ کرسکے۔ لیکن  اپنے  ایمان، جذبات اور سیاسی موقف میں، ہم ہر جگہ مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور پوری صراحت اور استحکام کے ساتھ ہرجگہ اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں۔اسلامی جمہوریہ کے اس موقف سے وہ بر ہم ہیں اور اس کو کچلنا چاہتے ہیں۔  صراحت کے ساتھ یہ  بیان کرنا ان کے فائدے میں نہیں ہے کہ " ہم اسلامی جمہوریہ کے اس لئے مخالف ہیں کہ ہرجگہ مسلمانوں کا دفاع کرتی ہے۔" جانتے ہیں کہ یہ بات اسلامی جمہوریہ کے فائدے میں ہوگی۔اس لئے صراحت کے اس اظہار نہیں کرتے۔

  ایک اور مسئلہ، غنڈہ گردی کو قبول نہ کرنا ہے۔ہم غنڈہ گردی کے مخالف ہیں۔ اب غنڈہ گردی کرنے والا جو بھی ہو اور جس کے ساتھ بھی غنڈہ گردی کرے۔امریکا اس کونے میں بیٹھ کے کہتا ہے " ہم دنیا کے لیڈر ہیں اور دنیا کے امور کے بارے میں ہماری مرضی یہ ہے " یہ غنڈہ گردی ہے۔ہم  کہتے ہیں " تمہیں دوسرے ملکوں کے امور میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔تم کون ہو؟ جاؤ خود اپنے مسائل حل کرو۔" خود انسانی اور اخلاقی مسائل و مشکلات میں گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ امریکی معاشرے میں امن و سلامتی نہیں ہے۔سورج ڈوبنے کے ایک گھنٹے بعد کوئی چند ڈالر جیب میں رکھ کے سڑکوں پر نہیں نکل سکتا۔خود اپنی سلامتی کا مسئلہ حل نہیں کرسکے ہیں اور چلے ہیں دنیا کی اصلاح کرنے۔تم کون ہوتے ہو؟ کہتے ہیں"  اقوام متحدہ کی اس قرار داد پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ہمیں  اس کا نفاذ کرنا ہے۔" تم سے کیا مطلب؟ تم کون ہوتے ہو؟ ہم دنیا کی اس لیڈری کے جس کے وہ اپنے لئے قائل ہیں، ان کی غنڈہ گردی کے اور ہر جگہ ان کی موجودگی کے مخالف ہیں۔جہاں بھی تیل ہو، وہاں یہ موجود ہیں۔جہاں بھی کوئی اہم آبی راستہ اور  خلیج ہو، وہاں یہ موجود ہیں اس جدید دانش اور ٹکنالوجی کے سہارے، جو پوری بشریت سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی ایجاد میں سب شریک ہیں۔  لیکن انہوں نے غنڈہ گردی سے اس پر اپنی اجارہ داری جما رکھی ہے اور پوری دنیا پرزور زبردستی چلانا چاہتے ہیں۔ہم ان کے مقابلے پر ڈٹ گئے ہیں اور نہ اپنے ساتھ اور نہ ہی کسی دوسری قوم کے ساتھ ان کی غنڈہ گردی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ہمارا یہ موقف امریکا سے ہی مخصوص نہیں ہے۔دنیا میں جو بھی غنڈہ گردی کرنا چاہتا ہے  ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔البتہ ہم دوسرے ملکوں کے امور میں مداخلت نہیں کرتے لیکن غنڈہ گردی کو مسترد کرتے ہیں، ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ کوئی ملک دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ غنڈہ گردی کرے۔ان سب سے بالاتر اور سب سے اہم ملک کے اندر اسلام اور اسلامی اصولوں کی پابندی ہے۔یہ اس کو برداشت نہیں کرسکتے۔اس کو نہیں دیکھ سکتے کہ کوئی قوم قرآن کے احکام کو نافذ کرے اور اسلام کے احکام پر عمل کرے۔

  اصل مسائل یہ ہیں۔بھائیو' معاملہ یہ ہے۔دشمنی ان باتوں  کی وجہ ہے ۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ان علاقوں میں ہوتی ہے جو خود ان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام جھوٹ اوربہتان ہے ۔خود بھی جانتے ہیں کہ دہشتگردی کا مدد کا الزام اسلامی جمہوریہ پر نہیں بلکہ  خود انہیں پر صادق آتا ہے۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ سرافراز ایرانی قوم، احترام و تکریم کی مستحق ہے۔ اس قوم نے اپنی عظمت اور بڑائی کو  عمل سے ثابت کردیا ہے۔ خود بھی جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام، آج دنیا کا سب سے زیادہ عوامی نظام ہے۔نظام اور عوام کے درمیان خلوص، عوام کے احساسات و جذبات سے نظام کے حکام کی قربت، —کیونکہ وہ خود عوام کے درمیان سے ہی آئے ہیں --- اور  دنیاوی مال و دولت سے حکام کی بے اعتنائی – کا جس سے لگاؤ دنیا کے ديگر تمام ملکوں کے حکام کے لئے عام سی بات ہے --- ہمارے نظام کی  نمایاں امتیازی  خصوصیات ہیں۔ دنیا کے کس گوشے میں، کس علاقے کے حکام کے لئے، لذت کوشی، دنیا کا حصول  اور شہوت پرستی عیب ہے؟ اور حکام اس میں مبتلا نہیں ہوتے؟ اسلامی جمہوریہ ایران میں، خدا کے فضل سے اب بھی اور ہمیشہ ایسا ہی رہنا چاہئے، نظام کے ذمہ دار عہدیداروں کے لئے، اپنے ذاتی دنیاوی امور رپر توجہ عیب ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی اس کے برعکس عمل نہیں کرتا۔ لیکن جو ایسا کرتا ہے، سمجھتا ہے کہ غلط کام کررہا ہے۔یہ بہت اہم بات ہے۔اور الحمد للہ نظام کے بنیادی اہمیت کے ذمہ دار ان باتوں سے مبرا ہیں ۔

  وہ ان باتوں کو جانتے ہیں۔لیکن بہانے بازی کرتے ہیں اوران کا  بہانہ  وہی ہے جو عرض کیا گیا۔ان کی دشمنی کی اصلی وجہ وہی ہے جو عرض کی گئی : "وما نقموا منہم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید" ( 4)

    میں ان جلسوں میں جن میں آپ پاسداران  عزیز ہوں، عام طور پرزیادہ باتیں کرنا چاہتا ہوں اس لئے گفتگو معوملا طولانی ہوجاتی ہے۔مختصر الفاظ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے  عزیز نوجوانو' تاریخ میں ایسی مثالیں ہیں کہ نوجوانوں کو عظیم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔آج یہ عظیم ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔اپنی صلاحیتوں کی حفاظت کریں اور اپنی معنوی بنیادوں کی سب ‎سے زیادہ قدر کریں۔میں یہ نہیں کہتا کہ زندگی کی ضروریات کے بارے میں اپنے دل میں کوئی خواہش نہ رکھیں۔ لیکن زندگی کی ضروریات آپ کے طرزعمل کا تعین نہ کریں۔آپ کے طرز عمل کا تعین وہ مجاہدت کرے جو آپ کے ذمے ہے۔ آپ یہ نہیں کہتے کہ " اس دور کے میدان جنگ کے نوجوان، جو شہیدہوگئے، ان کا زمانہ استثنائی تھا جو ختم ہوگیا، جنگ ختم ہوگئی، وہ دور بھی ختم ہوگيا۔" یہی بات اسلامی جمہوریہ کے لئے بھی صادق آتی ہے۔آج آپ کا فریضہ ہے۔ اس نظام کی حفاظت کریں۔اس کو خالص، صحیح و سالم اور اس شکل میں  رکھنا کہ جس میں حضرت ولی عصر عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کو پیش کیا جاسکے، آپ مومن نوجوانوں کا فریضہ ہے۔

  البتہ یہ فریضہ پاسداروں سے ہی مخصوص نہیں ہے۔یہ پاسدار و غیر پاسدار،  سب کا فریضہ ہے۔ لیکن پاسداروں نے،ماضی کے سخت امتحانوں میں ثابت کردیا کہ اس راہ میں سب سے زیادہ سچے، ثابت قدم، اور استوار ہیں۔ہمارے مومن بسیجی نوجوانوں نے ثابت کردیا کہ ان عظیم مراحل میں معراج کی منزلیں طے کرسکتے ہیں۔آپ میدان جنگ کو آزما چکے ہیں۔ معنوی اور روحانی کیفیت و حالت کے شب وروز سے گذر  چکے ہیں۔میں آپ سے عرض کرتاہوں کہ اے معراج پر جانے والو' آج جب آپ  نے  عام زندگی میں قدم رکھا ہے تو خیال رہے کہ معراج میں جو حاصل کیا ہے وہ ہاتھ سے نکل نہ جائے۔وہاں اس معنوی بینش سے جو آپ نے محسوس کیا،اسے فراموش کردیں۔آپ پرخدا کی حجت تمام ہوچکی ہے۔اس دور میں عبادت، ذکر اور مناجات کے دریچوں سے جو مناظر آپ نے دیکھے ہیں، انہیں دیکھنا ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا، مادی آنکھیں ان چیزوں کو نہیں دیکھ سکتیں۔لیکن آپ نےدیکھا، اس لئے آپ حجت تمام ہے۔اپنی بھی حفاظت کریں اور اس راستے کی بھی۔اس عزت و شرف کی جو آپ نے خود بھی حاصل کی اور آپ کی مجاہدتوں سے اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کو بھی حاصل ہوئی، اس کو اپنے لئے، اسلام کے لئے، اسلامی جمہوریہ کے لئے اور ملت ایران کے لئے، حفاظت کریں اور جان لیں کہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ، و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف بیشک آپ کی حالت و کیفیت کو دیکھ رہے ہیں اور نیک اور اچھے لوگوں کے لئے دعا کرتے ہیں۔آپ کی پاکیزہ دعائیں ہر ایک کے لئے، بہت اہم ہیں۔ ایسا کام کریں کہ انشاء اللہ آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال ہوں اور ہمارے  امام کی روح مطہر ہے سے راضی ہو۔

  میں ایک بار پھر آپ عزیزوں بالخصوص، ان لوگوں کا جو دور سے آئے ہیں،  مخصوصا اس جلسے میں موجود،  اسلام اور انقلاب کی راہ میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں کا  شکریہ ادار کرتا ہوں اور خدا وند عالم سے آپ کے لئے لطف و کرم کی دعا کرتاہوں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- مفاتیح الجنان ؛ تیسری شعبان کی دعا۔

2- سورہ توبہ ؛ آیت 73

3- سورہ حدید ؛ آیت 20

4- سورہ بروج؛ آیت 8