بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

سب سے پہلے تو میں آپ تمام برادران و خواہران عزیز کا خیر مقدم کرتا ہوں، خاص طور پر یہاں موجود شہداء کے اہل خانہ کا جن میں تین شہیدوں(2) کی والدہ بھی ہیں، اسی طرح اس اہم کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں کو بھی خوش آمدید کہتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں، میں واقعی اس گرانقدر کام کو شروع کرنے، اسے انجام دینے، ان شاء اللہ جاری رکھنے اور منزل تک پہنچانے کے لیے آپ سبھی کا شکر گزار ہوں۔ جن دوستوں نے آپ کے ذریعے سے مجھے سلام کہلوایا ہے، چاہے وہ نوجوان ہوں، چاہے انجمن والے ہوں، ان تک میرا بھی دلی سلام پہنچا دیجیے گا۔

تاریخ ایران میں زنجان کی حیثیت اور کردار

زنجان کے افتخارات ایک دو نہیں ہیں؛ زنجان پوری تاریخ میں ایک پرافتخار مرکز رہا ہے۔ علمی لحاظ سے بھی اور عملی لحاظ سے بھی۔ چاہے علم کا میدان ہو، جیسے دینی علوم، فقہ، فلسفہ، عرفان اور چاہے سماجی میدان ہوں، مختلف رجحانات والی نمایاں شخصیات زنجان میں رہی ہیں۔ لیکن سب کی سب خدا کے لیے اور خدا کی راہ میں کام کرتی رہی ہیں جیسے آخوند ملا قربان علی وغیرہ۔ زنجان واقعی ایک نمایاں اور ممتاز مرکز ہے۔ اگر جدید علوم کی بات کی جائے تو ہمارے نامور ایٹمی شہید، شہید شہریاری(3) زنجان کے مایہ ناز سپوت ہیں۔ بنابریں، زنجان کے افتخارات بہت زیادہ ہیں۔ شہداء بھی زنجان کے افتخارات میں سرفہرست ہیں۔ کچھ باتیں شہیدوں کے بارے میں عرض کروں گا اور ایک بات آپ کے اس کام اور شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے قدم کے بارے میں عرض کروں گا۔

شہیدوں کا مقام اور اہمیت

جہاں تک شہیدوں کی بات ہے تو شہداء، منتخب شدہ ہیں۔ خداوند متعال کی جانب سے منتخب شدہ ہیں۔ شہیدوں نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے، خدا نے منزل تک پہنچنے کے لیے ان کا انتخاب کیا۔ ہمارے مادی اور دنیوی معیارات اور کسوٹیوں سے شہیدوں کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جانا ممکن نہیں ہے۔ شہداء، دنیا کی سب سے برتر تجارت میں  کامیاب رہے ہیں: يًّـاَيُّھَا الَّذينَ ءامَنوا ھَـل اَدُلُّكُـم عَليّْ تِجـارۃٍ تُنجيكُم مِن عَذابٍ اَليمٍ. تُؤمِنونَ بِاللہِ وَ رَسولِہ؛ وَتُجاھِدونَ في سَبيلِ اللہِ بِاَموالِكُم وَ اَنفُسِكُم(4) ... الی آخرہ۔ اس تجارت کے سب سے بڑے فاتح ہمارے شہداء ہیں۔ یا اِنَّ اللہَ اش‍ـتری من المُ‍ـؤمِنين اَنفُسَھُم وَ اَموالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّ‍ـۃ(5) اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے؟

شہادت کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے روحانیت کے راستے اور دامن سے گزرنے کی ضرورت

یہاں پر ایک نکتہ ہے جو ہم سب کے مد نظر رہنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ شہادت، چوٹی ہے اور بغیر دامن کے چوٹی کا کوئي مطلب نہیں ہے۔ ہر چوٹی کا ایک دامن ہوتا ہے، ہم میں سے بہت سے لوگ، اس چوٹی تک پہنچنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ تو ہمیں دامن سے گزرنا ہوگا، اس چوٹی کے دامن میں راستہ تلاش کرنا ہوگا اور اس راستے پر چلنا ہوگا تاکہ ہم چوٹی تک پہنچ سکیں ورنہ دامن سے گزرے بغیر چوٹی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ یہ دامن اور یہ راستہ کیا ہے؟ اخلاص ہے، ایثار ہے، صداقت ہے، روحانیت ہے، مجاہدت ہے، عفو و درگزر ہے، اللہ کی جانب توجہ ہے، عوام کے لیے کام ہے، انصاف کے لیے کوشش ہے، دین کی حاکمیت کے قیام کی سعی ہے۔ یہ چیزیں ہیں جو راستے کا تعین کرتی ہیں اور اگر آپ اس راہ پر چلے تو ممکن ہے کہ چوٹی تک پہنچ جائيں۔ جو شخص چوٹی تک پہنچتا ہے اسے اسی راستے پر چلنا ہوگا، اسی راہ سے گزرنا ہوگا۔ روحانیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

میں نے کہیں پڑھا کہ شہید شہریاری ایک رات دیر تک ایک پیچیدہ سائنسی گتھی پر کام کر رہے تھے اور اسے حل نہیں کر پائے۔ ان کے شاگرد نقل کرتے ہیں -اس بات کو اس کتاب میں لکھا تھا- کہ شہید نے اس مسئلے پر بہت زیادہ کام کیا اور جب اسے حل نہیں کر سکے تو کہا کہ یونیورسٹی کی مسجد میں چلتے ہیں -میرے خیال میں شہید بہشتی یونیورسٹی تھی- ہم مسجد میں گئے، انھوں نے پوری توجہ سے دو رکعت نماز پڑھی، نماز کے بعد کہا کہ سمجھ میں آ گيا، اس کا حل خدا نے مجھے بتا دیا ہے۔ اٹھے، آئے اور گتھی کو سلجھا دیا۔ روحانیت یہ ہے؛ خدا کی راہ ایسی ہے۔ جب انسان نے یہ کام کر دیا، اس راستے پر آگے بڑھ گيا تو پھر چوٹی پر پہنچنا ممکن ہو جاتاہے، آسان ہو جاتا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ یقینا ہو جائے گا لیکن ممکن ہو جاتا ہے۔ اس راستے پر چلے بغیر، چوٹی پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام کے انعقاد کی اہمیت

جہاں تک آپ، اس اجلاس اور خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام کے انعقاد کرنے والوں کی بات ہے تو سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ یہ ایک بہت نیک کام ہے، اہم کام ہے جو انجام پا رہا ہے۔ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا پروگرام اور اس سلسلے میں ہونے والے دوسرے کاموں کو معمولی اور عام کام نہیں سمجھنا چاہیے۔ نہیں! واقعی یہ ایک بڑا نیک کام ہے جو آپ کر رہے ہیں۔ البتہ یہ ایک فرض ہے جو ابھی ادا نہیں ہوا ہے، پورا نہیں ہوا ہے۔ جیسا کہ ہمارے اس بھائي نے بھی اپنی گفتگو میں کہا، ایسا نہیں ہے کہ کچھ سال گزر چکے ہیں، بعض شہروں، ضلعوں اور صوبوں نے خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام منعقد کر دیے اور بات ختم ہو گئي۔ نہیں! ابھی تو آغاز ہوا ہے۔ مقدس دفاع کو کچھ سال گزر جانے کے بعد شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام شروع ہوئے ہیں اور جاری رہیں گے اور انھیں جاری رہنا ہی چاہیے۔

خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگراموں میں جدت عمل کی ضرورت

آپ کو جدت عمل سے کام لینا چاہیے۔ البتہ جن کاموں کا ذکر کیا گيا کہ وہ انجام پا چکے ہیں، وہ سب بہترین کاموں میں شامل ہیں۔ کتابیں لکھنا بھی، فلمیں تیار کرنا بھی اور اس کام کے سلسلے میں شہیدوں کی یاد اور ان کے نام پر انجام دی جانے والی خدمتیں بھی سب اچھے کام ہیں۔ میں نے بھی ان کتابوں کو اور ان چیزوں کو جو آپ نے تیار کی تھیں، راستے میں دیکھا، اچھی تھیں۔ البتہ میں نے کتابیں نہیں پڑھیں لیکن عنوانات، اچھے اور صحیح تھے۔

1۔ شہیدوں اور ان کے اہل خانہ کے کاموں، رویے اور حالات میں دین کے کردار کے جائزے کی ضرورت

ان کاموں کے ساتھ ہی کچھ دوسرے کام بھی ہونے چاہیے۔ جیسے شہیدوں کی لکھی گئي ڈائریوں کا ان میں مضبوط دینی جذبے کی موجودگی کے اعتبار سے سماجیاتی اور نفسیاتی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اسے کچھ لوگ کیوں نظر انداز کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے دوستوں کی رپورٹ میں پڑھا کہ ان شہداء میں سے بعض اپنے گھر کے اکلوتے بیٹے تھے۔ یہ جو یہ ماں اور یہ باپ اپنے اکلوتے بیٹے کو اس میدان میں بھیجنے کے لیے تیار ہیں جہاں سے ممکن ہے کہ وہ واپس نہ آئے، یہ جذبہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ جذبہ دین، اللہ کی خوشنودی، ثواب اور دینی فریضے پر نظر کے علاوہ کہیں اور سے آ سکتا ہے؟ خود یہ نوجوان جو اس طرح آگے بڑھتا ہے اور ان بڑے خطروں کے سامنے اپنی جان اور اپنے سینے کو سپر بنا دیتا ہے، اس کا مذہبی محرک ہے۔ اس طاقتور عنصر کی موجودگی کا ملک کی سماجیات اور ملک کے عوام کی نفسیات کے لحاظ سے تجزیہ کیا جانا چاہیے، جائزہ لیا جانا چاہیے، اس پر کام ہونا چاہیے۔

یا ان فداکاریوں اور جان کا نذرانہ پیش کیے جانے کے ضمن میں جو چیزیں موجود رہی ہیں، جیسے ماں باپ کے حالات؛ یہ بہت اہم چیز ہے؛ یہ باپ، ان کے جذبات، ان کے محرکات کیسے تھے؟ یا بیویاں؛ یعنی وہ بیوی جو اپنے محبوب جوان شوہر کے ساتھ آرام دہ زندگي گزار رہی ہے کس طرح (آرام و آسائش کی طرف سے) آنکھیں بند کر لیتی ہے اور اس کے جانے پر راضی ہو جاتی ہے اور اس کی عدم موجودگي اور بعد میں اس کی شہادت پر صبر کر لیتی ہے؟ یہ چیزیں، یہ ان کے جذبات، یہ سب تجزیے کے قابل ہیں۔

2۔ جنگ کے دوران عوامی مراکز یہاں تک کہ گھروں میں انجام پانے والی خدمتوں کا تذکرہ

یا وہ خدمات جو اس کام کے ذیل میں انجام پائيں۔ ایک چیز، جس کے بارے میں سو فیصد یہ دعوی نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک اور ہماری جنگ کی منفرد خصوصیات میں سے ایک ہے، وہ خدمات ہیں جو گھروں میں اور زنانہ اور عوامی مراکز وغیرہ میں انجام پائيں۔ فرض کیجیے کہ گھروں میں کھانے تیار کیے گئے، ڈبہ بند اشیائے خورونوش تیار کی گئيں، جنگي آذوقے فراہم کیے گئے، روٹیاں پکا کر بھیجی گئيں۔ یہ بہت ہی عجیب و غریب چیزیں ہیں۔ ان مردوں اور ان عورتوں نے کن محرکات اور کن حوصلوں کے تحت یہ کام کیا؟ میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی جس کا نام ہے 'حوض خون' - البتہ میں نے اہواز میں دیکھا تھا۔ میں نے خود مشاہدہ کیا تھا اس جگہ کو جہاں فوجیوں کے خون آلود لباس اور اسپتالوں اور فوجیوں کی خون آلود چادریں وغیرہ دھوئی جاتی تھیں، یہ میں نے دیکھا تھا- اس کتاب میں ان چیزوں کو تفصیل سے لکھا گيا ہے۔ واقعی انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے، ان خواتین نے ان برسوں میں جو اتنی ساری خدمات انجام دی ہیں اور جو مشقت برداشت کی ہے اسے دیکھ کر انسان پانی پانی ہو جاتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو قابل ذکر ہیں۔

3۔ شہداء کے جلوس جنازہ کے پروگرام کا جائزہ

یا جلوس جنازہ کے پروگرام۔ وہ چیزیں جن کے سلسلے میں اب تک غفلت کی گئی اور ان پر توجہ نہیں دی گئي اور ضرور توجہ دی جانی چاہیے، ان میں سے ایک شہیدوں کے جلوس جنازہ کا پروگرام ہے، جنگ کے دوران بھی ایسا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اس وقت بھی جب کبھی کسی شہید کی بوسیدہ ہڈیوں کو کسی شہر میں لایا جاتا ہے تو کیسا شاندار جلوس جنازہ نکلتا ہے! جنگ کے زمانے میں بھی ہر کچھ دن بعد ان شہروں میں، آپ کے زنجان اور دوسرے مقامات پر، اسی طرح کے عظیم الشان جلوس جنازہ نکلتے تھے، لوگ آتے تھے، شعراء شعر کہتے تھے، نوحے تیار کرتے تھے، ماتم کرتے تھے، شہداء کے نام پر، ان کی یاد میں، یہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب و غریب چیزیں ہیں، یہ یاد رہنے والی چیزیں ہیں، انھیں نوٹ کرنا اور باقی رکھنا چاہیے۔

شہداء کے نام پر سڑکوں اور گلیوں کا نام رکھے جانے کا افتخار اور اس پر شہری حکام کی توجہ کی ضرورت

ایک اور بات سڑکوں اور گلیوں کا نام، شہیدوں کے نام پر رکھے جانے کی ہے۔ شہر کو شہیدوں کے نام سے اور ان کی یاد سے مزین ہونا چاہیے۔ مختلف شہروں میں شہری کونسلوں کو یہ جاننا چاہیے کہ یہ شہر کن لوگوں کے نام سے مفتخر ہوگا۔ کسی شہر، کسی سڑک، کسی گلی اور کسی رہگزر کے لیے اس سے بڑا افتخار اور کیا ہوگا کہ ایک بڑے شہید، ایک فداکار انسان کے نام پر اس کا نام رکھا جائے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے سلسلے میں مسلسل کوشش ہونی چاہیے۔ ان کاموں پر توجہ دیجیے اور انھیں انجام دیجیے۔ آپ نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے جو اس اجلاس، خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام اور اس سے متعلق ذیلی کاموں سے عبارت ہے۔ آئندہ بھی ان چیزوں کو جاری رکھیے۔

ان شاء اللہ خداوند عالم شہیدوں کی برکتوں کو ہماری قوم کے شامل حال کرے۔ شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو پیغمبر کے ساتھ محشور کرے اور ان شاء اللہ ان مجاہدتوں کے ثمرات کو -جو ایرانی قوم کی فتح ہے- آپ بہت جلد دیکھیں، جس طرح سے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بحمد اللہ ان برسوں میں ایرانی قوم نے ہمیشہ کامیابی کی طرف قدم بڑھائے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ مشکلات بھی دور ہو جائيں گي۔ آج جو کچھ معاشی مشکلات، اقتصادی مسائل وغیرہ کے نام پر موجود ہے وہ ان شاء اللہ خدا کی توفیق، حکام کی کوششوں اور آپ جیسے افراد کی جدوجہد سے ختم ہو جائے گا۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو اجر عطا کرے اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو، جنھوں نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا، ان شاء اللہ پیغمبر کے ساتھ محشور کرے اور شہداء کی پاکیزہ ارواح ہم سے راضی رہیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں صوبۂ زنجان میں نمائندہ ولی فقیہ اور اس کانفرنس کی پالیسی ساز کمیٹی کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین علی خاتمی، صوبے کے گورنر اور اس کانفرنس کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سبراہ ڈاکٹر محسن افشارچی اور صوبے میں سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر اور اس کانفرنس کے جنرل سیکٹریٹری بريگیڈیر جہان بخش کرمی نے تقریریں کیں۔
  2. شہید خالقی پور برادران کی والدہ محترمہ فروغ منہی
  3. شہید مجید شہریاری، ایران کے ماہر طبیعیات اور ایٹمی سائنسداں جنھیں انتیس نومبر 2010 کو دہشت گردانہ حملے میں شہید کر دیا گيا۔
  4. سورۂ صف، آيت 10 اور 11، اے ایمان لانے والو! کیا میں تمھیں وہ تجارت بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچا لے؟  اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔
  5. سورۂ توبہ، آيت 111، حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال، جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔