بسم‌ اللّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاهرین.

میرے پیارے بھائیو اور بہنو! بہت بہت خوش آمدید! شہدا کی یاد  منانے اور یہ بے حد مفید کام کرنے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ حسینیہ میں آنے سے پہلے، میں نے آپ کی جانب سے منعقدہ نمائش دیکھی۔ جو خدمات انجام پائی ہیں انھیں دیکھا  بہت اچھی خدمات ہیں۔ البتہ  یقیناً ایسے پروگراموں میں اس طرح کے ذیلی اہتمام اور سائیڈ ورک  کی بہت ضرورت ہےاور انشاء اللہ آپ اسے انجام دینے میں کامیاب ہوں۔

 

صوبہ ایلام کے خصوصیات:
۱) صوبہ ایلام مقدس دفاع کے دوران پیش قدم، دشمن کے خلاف محکم قلعہ
 یہ بات صحیح ہے کہ اس صوبے کے کچھ شہر اور کچھ علاقے جنگ کے دوران  کچھ عرصے کے لئے خبیث منافقوں کے قبضے میں گئے اور آزاد ہوئے، لیکن یہ صوبہ ایک پہاڑ کی مانند، اسی کوہ میمک کی چوٹی کی طرح – جہاں میں نے خود جاکر اپنے عزیز مجاہدوں کی جانفشانیوں کو قریب سے دیکھا تھا۔ خبیث دشمن صدام کے خلاف  ڈٹا  رہا۔ ملک کے تمام علاقوں سے پہلے اسی صوبے کو  جنگ کا سامنا کرنا پڑا ۔ جیسا کہ آپ حضرات نے بھی فرمایا۔ دشمن نے  قبل اس کے کہ تہران اور دیگر جگہوں پر باقاعدہ  طور پر حملہ کرے ایلام پر حملہ کیا۔ سب سے پہلے شہید بھی جیسا کہ ابھی کہا گیا وہی  "شہید شنبہ ای" تھے  جو جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ایلام میں شہید ہو گئے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ پورا صوبۂ ایلام  مقدس دفاع  میں ’’السابقون‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

 
2) صوبے میں بعثی دشمن کی عجیب حرکتیں
بعد میں بھی صوبہ ایلام میں کچھ ایسےانوکھے واقعات پیش آئے  کہ  جن سے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے  کہ خود ہمارے اپنے لوگ بھی ،لاعلم ہیں چہ جائیکہ دوسرے۔  بیرون ملک اور دیگر قوموں کے افراد جو ہمارے ملک کے واقعات جاننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں ان کو تو چھوڑ ہی دیجئے۔ ہمارے اپنے لوگ بھی ابھی بہت کچھ نہیں جانتے۔ ان ہی میں سے ایک فٹبال میچ میں بمباری کا واقعہ ہے جو سن ۱۹۸۷ کا ہے۔ ۱۲  فروری  ۱۹۸۷ کو جب ایلامی نوجوانوں نے اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ کی یاد میں ایلام کی دو ٹیموں کے درمیان ایک میچ منعقد کیا تھا اور تماشائیوں کی بھی ایک  تعداد دیکھنے کے لیے جمع تھی سب کھیل دیکھ رہے تھے کہ سروں پر عراقی طیارے نے قریب سے آکر حملہ کیا،  یعنی یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ انھیں یہ  پتہ  نہ ہو  کہ یہاں کیا ہو رہا ہے اور بس اتفاقیہ طور پر بم فٹ بال گراؤند کے بیچ میں آ گرا ہو۔ جی نہیں ! جان بوجھ کر نشانہ بنایا اور دسیوں کھلاڑی شہید ہو گئے، ریفری شہید ہوا، کچھ بچے شہید ہوئے اور کچھ تماشائی شہید ہو گئے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ایک بڑا واقعہ ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے واقعات کو عالمی سطح پر بیان  کیا جائے، کہا جائے، دہرایا جائے۔ یہ ہمارے شہید کھلاڑیوں کی مظلومیت کا پیغام ہے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی جمہوریہ کی [فتح کی سالگرہ] اور انقلاب کی یاد میں ایک فٹ بال میچ رکھا تھا۔

 
بعثی حکومت کے جرائم کی عالمی سطح پر فنکارانہ نمائش کی ضرورت
خبیث صدام نے کس طاقت کی مدد سے ایسے گھناؤنے جرائم کا بے پروائی سے ارتکاب کیا؟ کون لوگ اس کی حمایت  کر رہے تھے؟ وہی لوگ  کہ جنہوں نے اُس دن اس خونخوار بھیڑیے کا ساتھ دیا تھا، آج  انسانی حقوق کا دم بھر رہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں اپنے آپ کو انسانی حقوق کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں!  ان طاقتوں کے کرتوتوں میں اس قدر بے غیرتی اور بے شرمی! کون ان کو بے نقاب کرے؟ کون ان حقائق کو بیان کرے؟ ہمارے فنکاروں اور ہمارے  قلمکاروں پر بہت بڑٰی  ذمہ داری ہے، بہت ہی سنگین ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے، انہیں  ہنر و  فن کی صورت میں یہ سب کچھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ انہیں فلم بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی اسٹیڈیم کے واقعے کے سلسلے میں کہانیاں، فلمیں، کتابیں لکھنے اور نشر کرنے کی ضرورت ہے، نمائش لگانے اور یادیں منانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ہونے چاہئیں۔
3. کئی کئی شہداء کی قربانی دینے والے متعدد گھرنے
صوبہ ایلام کی منفرد  اور کم نظیر خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دو شہید، تین شہید، چار شہید ، پانچ شہید  اور اسی طرح، جیسا کہ کہا گیا انقلاب کیلئے دس شہیدوں تک کا نذرانہ پیش کرنے والے گھرانے  اس صوبے میں موجود ہیں، ایک خاندان  میں دس شہید ہیں اور ایک خاندان میں نو شہید ، ایک خاندان آٹھ شہیدوں  کے ساتھ تو کئی خاندان پانچ شہیدوں اور  چھ شہیدوں کے ساتھ مفتخر ہیں۔ یہ باتیں زبان سے کہنے میں تو شاید آسان ہوں لیکن اس کا تصور بھی انسان کو حیران کر دیتا ہے۔ ایلام اس طرح کا ہے؛ ایسے خاندان موجود ہیں اور ان میں سے کچھ گھرانوں کے افراد یہاں بھی موجود ہیں۔ خداوند عالم ان سب کو اپنی رحمت اور فضل سے نوازے، ان شاء اللہ۔

 
4. تمام طبقات کی ہمہ جہت موجودگی
ایلام کی ایک اور خصوصیت تمام طبقات کی ہمہ جہت موجودگی رہی ہے۔ وہاں کے ممتاز علماء میں سے ایک مرحوم شیخ عبدالرحمن حیدری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جو میمک کی چوٹیوں پر بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو شیخ عبدالرحمن مرحوم ہر جگہ ہمارے ساتھ تھے؛ میں کئی بار ایلام جا چکا ہوں ۔ وہ چاہے صدارت سے پہلے  کا زمانہ ہو یا اس کے بعد کا۔ وہ بھی  موجود تھے بلکہ جب تک زندگی رہی وہ میدان جنگ میں موجود رہے، ہتھیار لگائے حقیقی معنی میں  ہمیشہ میدان جنگ کیلئے آمادہ رہتے تھے۔  یہی حال ایلام کے  قبائلی افراد اور عام لوگوں کا تھا۔ سب کے سب، کچھ جو جنگ کے قابل تھے میدان میں حاضر تھے اور عام لوگوں نے بھی ہمیشہ استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ یہ بات ایک صاحب نے کہی ہے  کہ ایلام کے عوام نے کبھی شہر سے ہجرت نہیں کی۔ میں نے  شہر ایلام میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دشمن کے طیارے ایک مقررہ وقت پر آتے تھے اور شہر پر لگاتار  بمباری کرتے تھے، اس وقت ایلام میں سناٹا تھا، شہر میں کوئی نہیں تھا،  لوگ ایسے موقعوں پر  صحراؤں اور جنگلوں میں  چلے جاتےاور وہیں رہتے تھے، بمباری ختم ہو جاتی تو  شہر  لوٹ آتے۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں نےکبھی شہر کو دشمن کے حوالے نہیں  کیا،  شہر سے نکل  جانا اور شہر  میں لوٹ آنا لوگوں کے لئے روزمرہ  کا معمول بن چکا تھا۔ لیکن انہوں نے شہر نہیں چھوڑا، صوبہ نہیں چھوڑا، گھر نہیں چھوڑا،  ڈٹے رہے۔

 
5) سخت دباؤ کے باوجود اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا اظہار
ایسے حالات میں، ان ہی بم دھماکوں اور انہی مشکلوں اور سختیوں میں ، شہید رضائی نژاد (۳) جیسی ممتاز  شخصیت ابھرکر سامنے آئی۔ شہید رضائی نژاد،  راہ علم کے شہید ، نیوکلیئر ایجادات کی راہ کے شہید ، وہ ایسے علمی مقام پر پہنچ گئے کہ  دشمنوں کو محسوس ہونے لگا  ان کا وجود اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت اور سربلندی کا باعث ہے اور اسے ختم کر دینا چاہئے۔ آتے ہیں اور ان کی بیوی اور  چھوٹی بیٹی کے سامنے انھیں شہید  کر دیتے ہیں۔ اس جوان سائنسداں نے اپنا بچپن ان ہی بم دھماکوں اور ایلام کے ان ہی سخت  حالات میں  گزارا۔ یعنی دشمن اور جنگ کا دباؤ ان افراد کی صلاحیتوں کے ابھرنے میں رکاوٹ نہیں بن سکا اور یہ بہت اہم بات ہے۔ ہمارے عزیز  شہید رضائی نژاد کی  مانند افراد جو شہید راہ علم ہیں اور علمی مقام رکھتے ہیں،  روحانی مقامات کے بھی حامل ہیں، شہادت خود اس کی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ شہادت آسانی سے کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔
یہ [شخص] جو شہید ہوا، جسے شہادت کا رتبہ حاصل ہوا  اس کیلئے انسانی وجود میں ، انسان کے اندر، مقدمہ کے طور پر پہلے سے ایسا کوئی عمل موجود ہونا لازم ہے کہ جس کے بغیر انسان کو یہ رتبہ نہیں ملتا اور اس جوان دانشور میں وہ روحانی مقام موجود رہا ہوگا جس کے تحت اس کو  شہادت نصیب ہوئی۔ اس مقام کے بغیر وہ شہید نہیں ہو سکتا تھا۔

 
عقیدہ، اخلاقیات اور تشخص کی حفاظت میں شہادت کے مفہوم کی جھلک
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ  بے شک کہا جاتا ہے صوبہ ایلام نے تین ہزار  سے کچھ زیادہ شہید پیش کئے ہیں اور دوسرے صوبوں  نے بھی اپنی آبادی اور صورتحال کے مطابق ، بڑی تعداد میں  شہداء کی قربانی دی ہے۔ ہمیں شہادت کے مفہوم کو صحیح طور پر سمجھنا چاہیے۔ شہادت کے مفہوم کو سمجھنے کیلئے ہم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شہادت صرف جنگ میں قربان ہو جانا نہیں ہے، ٹھیک ہے  دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں  جو اپنے ملک کی جنگوں میں حصہ لیتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔ ان میں بھی، بہت سے لوگ مثال کے طور پر اپنے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لیے ایک وطن  پرست اور محب وطن کی حیثیت سے یہ  کام کرتے ہیں - یقیناً ان میں سے بعض خریدے ہوئے بھی ہوتے ہیں، لیکن بعض تو اس عنوان سے مارے جاتے ہیں– لیکن ہمارے شہید ایسے نہیں ہیں۔ جب ہمارا کوئی مجاہد میدان جنگ میں اترتا ہے اب وہ یا تو شہادت کی منزل پر فائز ہوتا ہے یا مجروح ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، تو یہ صرف جغرافیائی سرحدوں کا دفاع نہیں کرتا۔ وہ اپنے اعتقاد کی سرحدوں، اخلاقیات کی سرحدوں، مذہب کی سرحدوں، تہذیب کی سرحدوں، اپنی پہچان کی سرحدوں، گویا تمام روحانی  سرحدوں  کا بھی دفاع کرتا ہے۔ بلاشبہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع اپنی جگہ ایک قیمتی چیز ہے، یہ بھی طاقت کی نشانی ہے اور اہم بھی ہے۔ لیکن وہ  کہاں اور دفاعی جدوجہد کا اِن اعلیٰ معانی و مفہوم کے ساتھ آمیختہ ہو جانا کہاں؟! ہمارے شہد ا کا قصہ یہ ہے۔

 
شہداء کا اللہ تعالی سے اپنی جانوں کے سلسلے میں مخلصانہ عہد
 اگر ہم مسئلہ شہادت کو اس سے بھی آگے بڑھ کر  دیکھنا چاہیں تو ہمارا شہید در حقیقت «اِنَّ اللّهَ اشتَرى مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَهُم وَ اَموالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّة» (۴) کا مصداق اور مظہر ہے۔ یعنی وہ خدا سے اپنی جان کا سودا کر رہا ہے۔  شہید یہ ہے۔ یا وہ عظیم آیت کہ: "مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ فَمِنهُم مَن قَضى نَحبَهُ وَمِنهُم مَن يَنتَظِر»(۵) یعنی انھوں نے خداوند عالم سے کئے ہوئے اپنے عہد، اور  وعدے  کے سلسلے میں سچائی اور دیانت کا مظاہرہ کیا،  شہید یہ  ہے۔ یعنی یہ خدا سے ایک عہد ہے۔ یہ خدا کے ساتھ ایک معاہدہ ہے۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کے میدان کا ایک  سپاہی  دنیا کے روایتی جنگجوؤں سے مختلف ہے۔ میدانِ جنگ میں، آپ نے یعنی آپ میں سے ان لوگوں  نے  جو اُس وقت وہاں موجود تھے یقیناً  دیکھا ہوگا، اور بعض نے کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ مقدس دفاع کے  زمانے  میں یا اسی طرح  بعض دوسرے دفاعی  محاذوں پر’مدافعین حرم‘ یا ان کے جیسے دیگر مومن مجاہد جب میدان جنگ میں ہوتے ہیں، ان کا اخلاص معمول سے کہیں زیادہ ہوتا ہے،  وہ توکل سے زیادہ کام لیتے ہیں، ان میں تواضع زیادہ پایا جاتا ہے اور وہ حدود الٰہی کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

 
ہمارے مجاہدین اور شہداء کے طرز عمل میں اسلامی طرز زندگی کی تصویر
دنیا میں یہ بات عام ہے کہ جب کسی شہر میں ایک لشکر  کی جیت ہو جاتی ہے تو لوٹ مار غارت گری اور ظلم و زیادتی ایک عام سی چیز ہوتی  ہے۔ لیکن یہاں نہیں، یہاں میدان جنگ میں راہ خدا کا مجاہد، اگر جیت بھی جاتا ہے تو اس کے اخلاص اور حدود الٰہی کی پاسداری میں ذرا سی بھی کمی نہیں آتی بلکہ  فتح کی صورت  میں اس جیت  کے شکرانے کے طور پر  ان حدود کی پاسداری اور بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے  مجاہدین جب دشمن کے جنگی قیدی پکڑتے تھے تو  بھی اُسی دشمن کی فوج سے پکڑے گئے اسیر کو جن  کے ہاتھ جب ہمارا کوئی سپاہی لگ جاتا تو اسیری کے وقت سے مستقل یہاں تک کہ کیمپ میں ایسی ایذائیں دیتے تھے کہ وہ گویا کئی بار مرتا اور زندہ ہوتا تھا، اس قدر اُس پر ظلم ہوتا تھا- وہاں تو یہ بات واضح تھی کہ کیمپ میں ان کے ساتھ کیا کر تے تھے۔ لیکن انھیں لوگوں کو جب ہم جنگی قیدی کے طور پر پکڑتے تھے، اگر زخمی ہوتا تو ہمارے مجاہد اس کا علاج کرتے ، اگر وہ پیاسا ہوتا تو اسے پانی پلاتے۔ اس کے ساتھ اپنوں جیسا سلوک کرتے۔ یہ سب واقعی اہم چیزیں ہیں۔
اسلامی طرزِ زندگی ہمارے مجاہدین اور ہمارے شہداء کے طرزِ عمل میں ایک بڑی ہی ممتاز اور نمایاں چیز ہے جسے واقعا ً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان شہداء کی زندگیوں میں اتنے زیادہ سبق آموز  رخ پائے جاتے ہیں کہ ہمارے فنکاروں کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ اس صورت و کیفیت کی ایک  فنکارانہ تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں اور ایرانی  مجاہدین  کو دنیا کے سامنے متعارف کرائیں اور انہیں اپنے ہنر اور فن کے ذریعے دنیا کی آنکھوں کے سامنے لائیں۔

 
شہداء کے پیغام سننے کا لازمی تقاضا ہے مضبوطی سے آگے بڑھنا، اور اس ضمن میں قوم کے فرائض
اس  یادگار کا جو آپ نے اہتمام کیا ہے اس میں  شہداء کے پیغام کے لئے  ہماری سماعتوں کا دریچہ کھلنا چاہئے۔ شہداء ہم سے کہہ رہے  ہیں: ’’وَ يَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَ لا هُم يَحزَنون؛ (۶) یہ راستہ وہ راستہ ہے جس میں نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم۔  کوئی خوف اور غم نہیں ہے  کیونکہ یہ خدا کا راستہ ہے۔ اس راہ میں  ثابت قدم رہنا چاہئے ، اس راہ میں قوت کے ساتھ چلنا چاہئے، اس راہ میں  دشمنوں کے وسوسوں  سے متزلزل نہیں ہونا چاہیے۔ شہداء کے پیغام کو سن کر ایرانی قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اتحاد، اپنے اتفاق ، اپنے حوصلوں اور اپنی کوششوں میں اضافہ کرے۔  ہمارے لیے شہداء کا یہی پیغام ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے حکام کو اس طرح کے  پروگراموں میں  شہداء کا پیغام سننے کے بعد، ان شہداء  کے فراہم کردہ امن و تحفظ کے تئیں زیادہ ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے جو انھوں نے ہمارے اختیار میں دی ہے۔ ہر ایک کو ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے اور ہم سب کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ کوئی بھی قوم محنت کے بغیر اور خدا کی راہ میں  جدوجہد کے بغیر، بہت سی مشکلات کو برداشت کئے بغیر کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔ اب اگر ہم کو بھی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے  تو انشاء اللہ یہ مشکلات ایرانی قوم کو اپنے اوج اور عروج پر پہنچا دیں گی۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ، خداوند عالم آپ سب کا حامی و ناصر ہوگا اور وہ ایلام کے عزیز شہداء اور وطن کے تمام شہداء کو اپنی رحمت اور مغفرت میں شامل فرمائے گا اور ہمارے عظیم الشان امام (خمینیؒ) کو جنھوں  نے ہمارے لیے یہ عظیم راستہ کھولا ہے  اور ملک کیلئے ایک عام ہدایت کی راہ ہموار کی ہے ان شاء اللہ  اپنے اولیاء اور تاریخ کے عظیم رہنماؤں میں قرار دے انبیاء  اور  ائمہ معصومین علیہم السلام کے ساتھ محشور فرمائے  اور خدا آپ سب کو بھی ہمیشہ کامیاب رکھے۔
یہ  باتیں بھی جو دیگر حضرات نے کہی ہیں- یہ مشورے اور مطالبے- یقیناً بنیادی طور پر، یہ سب  حکومتی اداروں  کی ذمہ داریاں ہیں، اُن سے تاکید کی ضرورت ہے،  آپ خود بھی استفسار کرتے رہئے گا، ان شاء اللہ ہم بھی تاکید کر دیں گے۔

و السّلام ‌علیکم ‌و ‌رحمة اللّه ‌و ‌برکاته


 

 
حوالہ جات:
(۱) اس ملاقات کے آغاز میں صوبے میں رہبر معظم کے نمائندے اور کانفرنس کی پالیسی ساز کونسل کے چیئرمین حجّت‌الاسلام والمسلمین اللّه ‌یار کریمی ‌تبار اور  صوبے کے گورنر اور کانفرنس کے کنوینر جناب محمد نوذری اور سپاہ پاسداران انقلاب کے سیکنڈ بریگیڈیئر جنرل، جناب جمال شکری (صوبائی کور کے کمانڈر اور کانفرنس کے سیکریٹری جنرل) نے خطاب کیا۔

(۲) شہید روح اللہ شنبہ ای،  ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۸۰ کو  ایسے وقت پر شہید ہوئے کہ جب مسلط کردہ جنگ باقاعدہ طور پر  شروع بھی نہیں ہوئی تھی، مہران شہر کے سرحدی علاقے  بہرام آباد میں بعثی جنگجؤوں  کی پیش قدمی کے سامنے ڈٹے رہے، یہاں تک کہ شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔

(۳) شہید داریوش رضائی نژاد  ۲۳؍ جولائی ۲۰۱۱  عیسوی کو اپنے  گھر کے سامنے ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید کر دئے گئے۔

(۴) بے شک خداوند متعال نے مومنین کی جان و مال کو بہشت کی قیمت پر خرید لیا  (سورۂ توبہ ۔ آیت نمبر 111)

(۵) مومنین میں ایسے بھی مرد میدان پائے جاتے ہیں کہ جو کچھ بھی (انھوں نے) اپنے خدا کے ساتھ عہدو پیمان باندھا (اور نذر کرلیا ہے) پوری سچائی کے ساتھ اس کو وفا کردیا ان میں بعض نے اپنا عہد انجام تک پہنچا دیا (اور منزل شہادت پر فائز ہو گئے) اور بعض (اپنے وقت کا) انتظار کر رہے ہیں ۔ (سورۂ احزاب۔ آیت نمبر 23)

(۶) اور جو لوگ ان سے ابھی ملحق نہیں ہوئے ہیں ان سے متعلق خوش خبری رکھتے ہیں  نہ تو وہ خوف زدہ ہوتے اور نہ ہی وہ کسی رنج و تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں (سورۂ آل عمران ۔ آیت نمبر  170)