رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں نرسوں کی خدمات کی قدردانی کی اور اس کی اہمیت و حیات بخش پہلوؤں کو بیان کیا۔

خطاب حسب ذیل ہے؛

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.

آپ تمام عزیزوں، بھائيوں، بہنوں اور میڈیکل، معالجے اور حفظان صحت کے شعبے میں کام کرنے والے محترم و سرافراز کارکنوں کی خدمت میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ نشست، حفظان صحت کے شعبے میں جہادی کام کرنے والوں اور نرسوں کے بارے میں کچھ باتیں کرنے، اہم نکات اور حقائق بیان کرنے کا اچھا موقع ہے اور ان شاء اللہ میں عرض کروں گا۔

لیکن اس سے پہلے میں کربلا کی عظیم الشان خاتون حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی خدمت میں عقیدت کا اظہار کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ حضرت زینب کبری کے سلسلے میں بہت سی باتیں، بحثیں، تعریف، تعظیم اور تکریم بیان ہوئي ہے اور ساری ہی باتیں بالکل بجا اور صحیح ہیں لیکن اس عظیم الشان خاتون کی زندگي میں ایک بہت اہم نکتہ ہے، بلکہ دو نکات ہیں اور میں دونوں ہی پر روشنی ڈالوں گا۔

پہلا اور زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت زینب کبری نے پوری تاریخ اور پوری دنیا کے سامنے صنف نسواں کی روحانی و ذہنی توانائيوں کی عظمت کو اجاگر کر دیا اور یہ بہت اہم ہے۔ ان لوگوں کو پوری طرح سے غلط ثابت کرتے ہوئے، جو اس زمانے میں بھی اور ہمارے زمانے میں بھی کسی نہ کسی طرح عورت کی تذلیل کرتے تھے اور کرتے ہیں، حضرت زینب نے عورت کے عظیم مقام و مرتبے اور اس کی روحانی، ذہنی اور معنوی طاقت کی عظمت کو نمایاں کر دیا، میں اس سلسلے میں مختصر سی تشریح پیش کروں گا۔ یہ جو ہم نے عرض کیا کہ آج تذلیل کر رہے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، سب سے زیادہ یہی مغرب والے خطرناک انداز میں عورت کی تذلیل کرتے ہیں۔

اس عظیم المرتبت خاتون یعنی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے دو باتیں اجاگر کر دیں: ایک یہ کہ عورت، صبر و تحمل کا ایک بحر بے کراں ہو سکتی ہے؛ دوسرے یہ کہ عورت، تدبیر و عقلمندی کی منزل کمال پر پہنچ سکتی ہے۔ ان چیزوں کو زینب کبری نے عملی طور پر ثابت کیا، نہ صرف ان لوگوں کے لیے جو کوفہ و شام میں تھے، بلکہ تاریخ کو دکھا دیا، پوری انسانیت کو دکھا دیا۔ حضرت زینب علیہا السلام کے صبر و تحمل کے بارے میں عرض کروں کہ جو صبر انھوں نے کیا اور جس تحمل کا مظاہرہ کیا؛ ان پر پڑنے والی مصیبتیں ناقابل بیان ہیں۔ سب سے پہلے تو شہادتوں کے مقابلے میں صبر، تقریبا آدھے دن میں یا اس سے کچھ زیادہ وقت میں ان کے اٹھارہ عزیز و اقارب شہید ہو گئے جن میں سے ایک ان کے برادر بزرگوار، حجت خدا، حضرت سید الشہداء علیہ السلام تھے، ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سب لوگ شہید ہوئے، خود ان کے دو بیٹے بھی شہید ہوئے؛ انھوں نے صبر کیا۔ اس طرح کی مصیبت کے سامنے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے لیکن زینب کبری نے صبر سے کام لیا، انھوں نے صبر کیا اور اپنی روحانی طاقت سے اگلے کام سر انجام دیے۔ اگر وہ برداشت نہ کرتیں، نالہ و فریاد کرتیں، صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتیں تو وہ، یہ عظیم تقریریں، یہ عظیم کارنامہ اور یہ چیزیں انجام نہیں دے سکتی تھیں۔ تو انھوں نے شہادتوں پر صبر کیا، اہانتوں پر صبر کیا، وہ خاتون جس نے اپنی عمر کے ابتدائی لمحات سے باعزت زندگی گزاری تھی، جسے بچپن سے لے کر بڑی عمر تک سبھی نے تعظیم کی نظروں سے دیکھا تھا، دوسری طرف ان اوباش اور پست افراد کی جانب سے ان کی اہانت کی جاتی ہے، لیکن وہ صبر کرتی ہیں، ٹوٹتی نہیں ہیں؛ یتیم بچوں اور داغ دیدہ خواتین کو اکٹھا کرنے کی سنگین ذمہ داری نبھانے میں صبر، یہ بڑا عظیم کارنامہ ہے۔ انھوں نے ان دسیوں داغ دیدہ اور ستم رسیدہ خواتین اور بچوں کو اکٹھا کرنے میں اور ان کی حفاظت کرنے میں کامیابی حاصل کی، اس دشوار سفر میں ان کی ذمہ داری سنبھالی، یہ سب حضرت زینب کے  کارنامے ہیں۔ صبر، واقعی صبر و اطمینان کے اس بحر بیکراں کی تصویر زینب کبری نے پیش کی۔ یعنی صنف نسواں یہاں تک پہنچ سکتی ہے، روحانی و معنوی طاقت کی اس اعلی منزل تک پہنچ سکتی ہے، یہ تو ہوئي صبر کی بات۔ یہ چیزیں جو ہم نے عرض کیں، ان کے ساتھ ہی حجت خدا کی تیمارداری، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی تیمارداری بھی صبر کی متقاضی تھی اور انھوں نے یہ کام بھی بطریق احسن انجام دیا۔

جہاں تک ذہانت کی بات ہے تو حضرت زینب علیہا السلام نے جس عاقلانہ روش، ذہنی طاقت اور تدبیر کا مظاہرہ کیا اور اسیری کے دوران جو طرز عمل اختیار کیا اور جو کردار دکھایا وہ حقیقت میں حیرت انگیز ہے، میرا عقیدہ ہے کہ ہمیں ان کے طرز عمل اور کردار کے ہر ہر جز کا مطالعہ کرنا چاہیے، اس پر غور کرنا چاہیے، اس کے بارے میں لکھنا چاہیے، بولنا چاہیے، فنی شہ پارے تیار کرنے چاہیے، کوئي معمولی بات ہے؟ مغرور و متکبر حکمرانوں کے سامنے وہ استقامت اور ذہانت کا مظہر ہیں۔ جب کوفے میں ابن زباد نے لعن طعن شروع کیا اور مثال کے طور پر کہا کہ دیکھا کیا ہوا، دیکھا تم لوگ ہار گئے تو بنت علی نے اس کے جواب میں کہا: "ما رایت الّا جمیلا"(2) میں نے زیبائي کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، اپنے اس بیان سے انھوں نے اس مغرور، خبیث اور گھمنڈی مرد کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا؛ یہ ابن زیاد کے سامنے۔ یزید کے سامنے بھی جب اس نے اپنی زبان پر مہمل اور فضول باتیں جاری کیں تو حضرت زینب کبری نے اس کے سامنے جو باتیں کہی ہیں وہ متعجب کرنے والی ہیں، ان کا یہ جملہ تو تاریخی ہے: "کِد کَیدک وَاسْعَ سَعیَک فَوَالّلہ لاتَمحوا ذِکرنا"(3) ہماری آج کی زبان میں کہا جائے تو تجھے جو بگاڑنا ہے، بگاڑ لے، جو کرنا ہے، کر لے لیکن خدا کی قسم! تو لوگوں کے ذہنوں سے ہماری یاد مٹا نہیں پائے گا۔ یہ کس سے کہہ رہی ہیں: دربار میں مغرور، گھمنڈی، ظالم اور خونخوار یزید سے۔ یہ بات ایک عورت کی روحانی طاقت کو نمایاں کرتی ہے، یہ کون سی طاقت ہے؟ یہ کیسی عظمت ہے؟ یہ تدبیر و ذہانت کی عکاسی کرتی ہے، یہ الفاظ بہت نپے تلے انداز میں بیان ہوئے ہیں۔ لیکن جب آپ عوام کے سامنے آتی ہیں تو وہ طاقت کے اظہار کی جگہ نہیں ہے، انتباہ کا مقام ہے، تشریح کا مقام ہے، ان لوگوں کی سرزنش کی جگہ ہے جو نہیں جانتے کہ انھوں نے کیا کیا ہے اور انھیں کیا کرنا چاہیے تھا، کوفے میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خطبے میں ہے: "ا تبکون"  تم رو رہے ہو؟ اس کے بعد جب لوگوں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا تو آپ نے فرمایا: تم رو رہے ہو! "ا تَبکون! أَلَا فَلَا رَقَاَتِ الْعِبْرَۃُ وَ لَا ھَدَاَتِ‏ الزَّفْرَۃُ" تمھارا گریہ کبھی ختم نہ ہو، یہ تم کون سا گریہ کر رہے ہو؟ معلوم ہے تم نے کیا کیا ہے؟ "اِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي‏ نَقَضَتْ غَزْلَھا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْكاثاً"(4) تم نے ایسا کام کیا، جس سے تمھاری پچھلی ساری کوششیں نابود ہو گئيں۔ جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے؟ وہ اس انداز میں بات کرتی ہیں اور میرے خیال میں توابین کی تحریک کا ایک اہم محرک، جنھوں نے بعد میں کوفے میں سر اٹھایا، قیام کیا اور وہ بڑی تحریک چلائي، حضرت زینب کا یہی بیان تھا، حضرت زینب کا یہی خطبہ تھا۔

تو یہ حضرت زینب کی شخصیت کے بارے میں پہلا نکتہ تھا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زینب کبری سلام اللہ علیہا نے اپنے کردار سے، اپنے بیانوں سے صنف نسواں کی معنوی اور ذہنی صلاحیت و استعداد کو نمایاں کر دیا۔ وہ اس طرح باتیں کرتیں ہیں جیسے امیر المومنین  باتیں کر رہے ہوں؛ وہ ایسے کھڑی ہوتی ہیں جیسے پیغمبر کفار کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ عورت کی توانائی اور استعداد ہے۔

اس عظیم المرتبت خاتون کی زندگي کا دوسرا اہم نکتہ جو تدبیر کی ہی علامت ہے، یہ ہے کہ حضرت زینب نے تشریح کا جہاد، بیان کا جہاد شروع کیا۔ انھوں نے دشمن کے پروپیگنڈے کو حاوی ہونے کا موقع نہیں دیا، اس کی اجازت نہیں دی۔ انھوں نے وہ کام کیا کہ ان کے بیان کردہ حقائق رائے عامہ میں غالب آ جائيں، آج تک تاریخ میں واقعۂ کربلا کے بارے میں زینب کبری سلام اللہ علیہا کے بیان کردہ حقائق ہی باقی ہیں، اس وقت بھی شام میں، کوفے میں اور اموی حکومت کے پورے دور حکومت میں، ان کے بیانوں کا اثر رہا اور اسی وجہ سے اموی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ دیکھیے! یہ سبق ہے؛ یہ وہی بات ہے جو حقیر ہمیشہ کہتا رہتا ہے: آپ اپنے معاشرے کے، اپنے ملک کے اور اپنے انقلاب کے حقائق بیان کیجیے۔ اگر آپ بیان نہیں کریں گے تو دشمن بیان کرے گا؛ اگر آپ انقلاب کے بارے میں نہیں بتائيں گے تو دشمن بتائے گا؛ اگر آپ مقدس دفاع کے بارے میں حقائق بیان نہیں کریں گے تو دشمن بیان کرے گا، جیسا اس کا دل چاہے گا بیان کرے گا، جھوٹ بولے گا اور وہ بھی سفید جھوٹ، حقیقت کے بالکل برخلاف؛ وہ ظالم و مظلوم کی جگہ بدل دے گا۔ اگر آپ نے (امریکا کے) جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے واقعے کو بیان نہیں کیا -اور افسوس کہ ہم نے بیان نہیں کیا- تو دشمن بیان کرے گا اور اس نے کیا ہے، دشمن نے اس واقعے کو جھوٹی باتوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حقیقت کو منظر عام پر لانا وہ کام ہے جو ہمیں کرنا چاہیے؛ یہ ہمارے نوجوانوں کی ذمہ داری ہے۔

خیر اب ہمیں نرسوں کے بارے میں کچھ باتیں کرنی ہیں۔ نرسوں کے بارے میں، سب سے پہلے جو بات میں عرض کروں گا وہ، نرسنگ کی قدر و قیمت کا ایک جائزہ ہے۔ یہ ایک بات ہے جس کے بارے میں، میں کچھ جملے عرض کروں گا۔ اس کے بعد نرسنگ کی سختیوں اور مشقتوں پر ایک نظر ڈالنا ہے جو ہمیں سمجھنا چاہیے، ایرانی قوم کو سمجھنا چاہیے کہ نرسوں کا معاشرہ اپنے اس کام کے ساتھ کن چیزوں کو برداشت کر رہا ہے۔ اگلی بات نرسوں کے مطالبات سے متعلق ہے؛ ان کے کچھ مطالبے ہیں۔ بحمد اللہ اس نشست میں عہدیداران بھی تشریف رکھتے ہیں، نرسوں کے تمام نہیں بلکہ چند مطالبات میں عرض کروں گا۔

جہاں تک قدر و قیمت کی بات ہے تو اس سلسلے میں ایک بنیادی نقطہ پایا جاتا ہے اور وہ ضرورت مند انسان کی مدد کا پہلو ہے؛ یعنی نرس وہ فرد ہے جو اس انسان کی مدد کرتی ہے جو ہر چیز میں مدد کا محتاج ہے۔ اسے پانی چاہیے، کھانا چاہیے، سونے کے لیے رات میں سکون چاہیے، درد کی تسکین چاہیے، دوا چاہیے اور دوسری مختلف ضروریات ہیں جنھیں پورا کرنے کے لیے نرس نجات کے فرشتے کی طرح، اس انسان کی مدد کرتی ہے جسے مدد کی سخت ضرورت ہے۔ ہر کلچر میں ضرورت مند کی مدد، ایک اہم عمل ہے، اور وہ بھی سب سے محتاج شخص یعنی بیمار کی مدد! یہ ایک بڑا ہی اہم اور نمایاں عمل ہے جو ضرورت مند کی مدد سے عبارت ہے۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ توحید و اخلاق وغیرہ کے راستے پر چلنے والے عرفاء کی ایک اہم تعلیم، جو وہ اس راہ پر چلنے کے سلسلے میں دیتے ہیں، حاجت مند کی مدد ہے؛ یعنی آپ جو نرس ہیں، جب اپنے کام میں مصروف ہوتی ہیں تو راہ توحید کی ایک اہم تعلیم پر عمل پیرا ہوتی ہیں اور اسے عملی شکل عطا کرتی ہیں۔ یہ اس کام کی اہمیت ہے، یہ ایک بہت ہی عظیم عمل ہے۔ یہ ایک بات ہے۔

نرسنگ کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ سخت کام ہے؛ سخت کاموں کا اجر زیادہ ہوتا ہے، قدر زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کام جو دشواری سے ہوتا ہے، جس کے لیے انسان سختی برداشت کرتا ہے، میزان الہی میں اس کی قدر و قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ کام سختی سے ہوتا ہے، نرسنگ کی سختیوں کے بارے میں بعد میں اجمالی طور پر کچھ باتیں عرض کروں گا، بنابریں نرسنگ کی قدر و قیمت دگنی ہے، دوسری امداد سے زیادہ ہے کیونکہ یہ ایک سخت کام ہے۔

قدر و قیمت کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ تیمارداری کا یہ کام، اطمینان قلب کا سبب ہے؛ کس کے اطمینان قلب کا؟ سب سے پہلے تو خود مریض کا، جسے سکون ہوتا ہے، جب نرس بیمار کے پاس موجود ہو تو اسے اطمینان ہوتا ہے۔ دوسرے مریض کے اہل خانہ کا جو جانتے ہیں کہ اسپتال میں نرس ان کے مریض کے پاس موجود ہے، انھیں اطمینان خاطر حاصل ہے، اگر یہ نرس نہ ہو تو وہ لوگ مضطرب رہیں گے اور تشویش میں مبتلا ہوں گے۔ تیسرے سبھی لوگوں کا؛ تمام بیدار ضمیر لوگ، تکلیف میں مبتلا لوگوں کے رنج و محن کی وجہ سے رنجیدہ اور تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر ہمیں پتہ چلے کہ ایک مریض کے سرہانے، جو درد جھیل رہا ہے، رنج سہہ رہا ہے، بھوکا ہے، پیاسا ہے، کوئي نہیں ہے، نرس نہیں ہے، تو فطری طور پر ہمارا دل رنجیدہ ہو جائے گا، ہم تشویش میں مبتلا ہو جائيں گے لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہاں نرس ہے تو ہمیں اطمینان رہتا ہے۔ نرس، اطمینان اور تحفظ کا سبب ہے، مریض کے لیے بھی، مریض کے اہل خانہ کے لیے بھی اور بقیہ لوگوں کے لیے بھی۔ نرسوں سے ہمارے اور آپ کے دل کی تکلیف دور ہوتی ہے۔ بنابریں اس حساب سے نرسنگ سماج کا نہ صرف بیمار پر حق بنتا ہے، بلکہ مجھ پر بھی حق بنتا ہے، ان پر بھی حق بنتا ہے جن کا مریض سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس سے انھیں دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اسلامی ایران میں نرسنگ کے لیے ایک الگ قدر و قیمت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ سامراجی دشمن، عالمی سامراجی طاقتیں ایرانی قوم کی تکلیف سے خوش ہوتی ہیں! آپ کو یقین نہیں ہے؟ دشمن، ایرانی قوم کی تکلیف سے خوش ہوتے ہیں؛ اس کی دلیل کیا ہے؟ اس کی دلیل مقدس دفاع کے دوران ہونے والی کیمیائي بمباری ہے؛ ہزاروں جوان کیمیائي بمباریوں کی وجہ سے مشکل، لاعلاج اور دردناک بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ کبھی کبھی تو ان کے اہل خانہ اور بچے تک ان بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ جی، یہ کیمیائي بمباری صدام نے کی لیکن کس نے اسے بم دیے؟ کس نے اسے وہ کیمیائي مادّہ دیا؟ کس نے اسے گرین سگنل دیا؟ کسی ملک میں کیمیائي ہتھیار کی موجودگي کا امکان ہو تو وہ سب کے سب آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، لیکن صدام ان سب کی آنکھوں کے سامنے کیمیائي بمباری کرتا تھا اور امریکا، برطانیہ، فرانس اور دوسرے تماش بین بنے رہتے تھے، شاباشی بھی دیتے تھے اور اس کی مدد بھی کرتے تھے۔ بنابریں ایرانی قوم کی تکلیف سے وہ خوش ہوتے ہیں۔ یا پھر یہی دواؤں پر پابندی؛ اللہ نے رحم کیا کہ ہمارے نوجوان سائنسداں کورونا کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ اگر دروازے بند ہی رہے اور ٹیکے درآمد نہ ہوئے تو خود ایران زیادہ ٹیکے بنائے گا۔ اگر ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے سائنسدانوں نے یہ ویکسین نہ بنائی ہوتی تو پتہ نہیں یہ کس طرح ایرانی قوم اور عہدیداروں تک پہنچتی! تو وہ ایرانی قوم کی تکلیف سے محظوظ ہوتے ہیں۔

تو آپ، جو نرس ہیں، اگر ایسے ماحول میں مریض یا مریض کے گھر والوں کے لبوں کو متبسم کر دیں تو درحقیقت آپ نے سامراج کے مقابلے میں ایک جہاد کیا ہے۔ یہیں پر کہا جا سکتا ہے کہ نرسنگ، سامراج سے مقابلے اور ٹکر لینے کے معنی میں بھی ہے۔ نرسنگ معاشرے کی ایسی صورتحال ہے، اس کی متعدد اقدار ہیں۔ میں نے صرف کچھ نکات کی طرف اشارہ کیا ہے، اس سلسلے میں اس سے زیادہ باتیں کی جا سکتی ہیں، نرسنگ کی قدر و قیمت کے بارے میں۔

سختیاں اور تلخیاں؛ نرسنگ کے کام کی ماہیت ہی سختی والی ہے، مشقت آمیز ہے۔ انسان، مریضوں کی تکلیفیں دیکھتا ہے، انھیں درد سہتے ہوئے دیکھتا ہے، ان کی کراہیں سنتا ہے، ان کی بے خوابی دیکھتا ہے، یہ چیزیں ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں، یہ تلخ ہے، یہ بہت سخت ہے، یہ انسان کے لیے سخت ترین چیزوں میں سے ہے۔ انسان مسلسل اپنی آنکھوں کے سامنے مریضوں کی جسمانی ضرورتوں کا مشاہدہ کرے اور ان کی دیکھ بھال کرے -ایسا نہیں کہ صرف انھیں دیکھ کر گزر جائے- اسے درد ہو رہا ہے تو اس کے درد کا علاج کرے؛ بھوکا ہے، پیاسا ہے، علاج کرے، دوسری طرح طرح کی مشکلات ہیں؛ دن رات مریض کی تیمارداری کرے، یہ نرسنگ کی سختیاں ہیں۔ بنابریں نرسنگ کے کام کی ماہیت، ایک سخت ماہیت ہے۔

کبھی کبھی یہ سختی کئي گنا بڑھ جاتی ہے، جیسے کورونا کا زمانہ اور اسی طرح مقدس دفاع کا زمانہ۔ مقدس دفاع کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا؛ آپ میں زیادہ تر نوجوان ہیں، آپ کو یاد نہیں ہوگا، وہ لوگ جو اس وقت تھے اور میدان میں تھے، وہ جانتے ہیں؛ مقدس دفاع کے زمانے میں ایسے بھی اسپتال تھے جو فرنٹ لائن سے زیادہ دور نہیں تھے۔ میں نے خود ان اسپتالوں کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان اسپتالوں میں ڈاکٹر بھی تھے، نرسیں بھی تھیں؛ بموں کی بارش کے نیچے! میں خود ایسے ہی ایک اسپتال میں تھا کہ بمباری ہوئي، میں خود وہاں موجود تھا، میں نے دیکھا کہ وہاں زبردست بمباری ہوئی۔ امدادی کارکن، آگ اور خون کے وسط تک پہنچ جاتے تھے، مطلب یہ کہ مقدس دفاع کے زمانے میں بھی یہ سب تھا اور اس سے کئي گنا زیادہ تھا۔

کورونا کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا؛ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ کورونا کے زمانے میں بھی کام کئي گنا سخت ہو گيا، کام کے اوقات بڑھ گئے، چھٹیاں کم ہو گئيں، نوروز (نئے سال) کی چھٹیوں میں نرس اپنی فیملی، اپنے بچے، اپنے شوہر اور اپنے والدین کا اس طرح خیال نہیں رکھ سکی جیسا رکھنا چاہیے؛ یہ بہت اہم بات ہے، یہ بہت معنی خیز ہے۔ ایسے اوقات میں جب سبھی آرام کرتے ہیں، سبھی زندگي کے سکھ حاصل کرتے ہیں اور صحیح معنی میں زندگي گزارتے ہیں، یہ نرس اسپتال میں تلخی کا سامنا کرتی ہے، کسی کی بیماری کا سامنا کرتی ہے اور گھر نہیں جاتی؛ یہ سختیاں ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کی موت دیکھنا؛ انسان میں کتنا حوصلہ ہے کہ لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھے؟! کورونا کے زمانے میں ان نرسوں نے اسپتالوں میں کتنے انسانوں کو - بوڑھوں، جوانوں، عورتوں، مردوں- کو مرتے ہوئے دیکھا تھا! یہ سخت ہے؛ بہت سخت ہے۔

ان سب کے علاوہ، اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو مرتے ہوئے دیکھنا۔ ان کے کتنے ساتھی دنیا سے گزر گئے۔ کل تک وہ ان کے ساتھ کام کر رہے تھے، اب کورونا میں مبتلا ہو کر دنیا سے چلے گئے۔ یہ سب بہت سخت ہے! میرے خیال میں ایرانی قوم کو ان سختیوں کو بھی دیکھنا چاہیے، سمجھنا چاہیے اور نرسنگ سماج کی قدر و قیمت سمجھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ان سب خطروں کے ساتھ خود نرس کے اس مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ ہمیشہ اس خطرے کے انتظار میں ہے؛ کتنی نرسیں کورونا میں مبتلا ہوئيں! ہر نرس کو یہ اندیشہ ہے کہ آج تو وہ صحیح سلامت ہے لیکن کل شاید یہ بیماری اسے بھی لگ جائے، بہت بڑا خطرہ ہے۔ ہم نے ماضی میں سنا تھا کہ وبا کے دوران جیسے ہیضہ، طاعون یا اسی طرح کی دوسری بیماریاں جب آتی تھیں تو کچھ لوگ تھے جو مریضوں کی مدد کرتے تھے، ان کی دیکھ بھال کرتے تھے، تیمارداری کرتے تھے، وہ خود اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے تھے اور دنیا سے گزر جاتے تھے؛ لیکن ایسا کرنے والے بہت کم لوگ ہوتے تھے، ہم نے اپنے زمانے میں ایسا کرنے والوں کی بڑی تعداد کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔

یہیں پر میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں: نرسوں کے ساتھ ہی کچھ ایسے افراد بھی تھے جن کا کام نرسنگ نہیں تھا لیکن وہ ان کے ساتھ تعاون کر رہے تھے، دینی طالب علم، کالج کے طلباء، مختلف نوجوان اسپتال جاتے تھے، مختصر سی ٹریننگ لیتے تھے اور مدد کرتے تھے یا ان سے جو کچھ بھی ہو سکتا تھا، انجام دیتے تھے؛ مقدس دفاع کے دوران بھی ایسا ہی تھا، جو لوگ پیشہ ور نہیں تھے وہ نرسوں کی مدد کے لیے میدان میں آ جاتے تھے، وہ ذمہ داری محسوس کرتے تھے، اسپتال پہنچ جاتے تھے، وہ جو بھی کر سکتے تھے، جیسا بھی کر سکتے تھے، نرسوں سمیت میڈیکل اسٹاف کی مدد کرتے تھے۔ میرے خیال میں یہ کام ہمارے وطن عزیز میں اور ہماری عزیز قوم کے لیے ایک اہم اور درخشاں حقیقت کا حامل ہے: یہ، ایرانی قوم کے بانشاط، زندہ دل اور بیدار ضمیر تشخص کا عکاس ہے، اس بات کا غماز ہے کہ ایرانی قوم میں یہ کام، عمومی ہے جو دوسری عمومی آفات کے دوران بھی دیکھا جا چکا ہے؛ میں نے صرف اس کے نرسنگ والے حصے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ تسلسل سے جاری رہنے والا کام ہے؛ انقلاب سے پہلے، شاہی مظالم کے دوران جدوجہد سے لے کر انقلاب کے واقعات تک، مقدس دفاع تک، اس کے بعد کے واقعات تک، کورونا تک، ان سب میں ایرانی قوم کے اس ذمہ دارانہ اور احساس ذمہ داری والے تشخص نے اپنے آپ کو نمایاں کیا ہے؛ جیسا کہ شاہی ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد کے دور میں تھا، مقدس دفاع کے دور میں تھا، اس کے بعد کے دور میں تھا، کورونا کے دور میں اور ملک کی عظیم علمی و سائنسی تحریک کے دور میں، یہ ایک اہم سلسلہ ہے جو ہماری قوم کے تشخص کا عکاس ہے۔

یہ، ہماری قوم کی پہچان کو ظاہر کرتا ہے؛ یہ کام، ہماری قوم کے لیے تشخص رقم کرنے والا قدم ہے؛ یہ وہی چیز ہے، وہی تشخص ہے جس کے اندر سے شہید سلیمانی، شہید فخری زادہ اور شہید شہریاری جیسے دلاور نکلے ہیں؛ یہ ایک حقیقت ہے جو مختلف شکلوں میں اور مختلف جلووں میں اپنے آپ کو آشکار کرتی ہے: ایرانی قوم کا تشخص؛ تشخص رقم کرنے والے یہ حقائق اور تشخص کی نشانیاں؛ تشخص کی نشانی بھی ہیں اور ایرانی قوم کی پہچان کو مضبوط بنانے والی اور اس کا تشخص رقم کرنے والی بھی ہیں۔ تو یہ بات نرسنگ کی سختیوں سے متعلق تھی۔

یہیں پر میں اپنے فنکاروں اور آرٹ کے شعبے سے وابستہ لوگوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ان واقعات کو فن و ہنر کے قالب میں بیان کرنے کے سلسلے میں ہمارے یہاں کوتاہی نظر آتی ہے؛ یہی اسپتالوں کے واقعات جن کا میں نے ابھی ذکر کیا، نرسوں کی یہی سختیاں اور وہ دشواریاں جن کا انھیں سامنا ہے، یہ سب فن و ہنر کے موضوعات ہیں؛ فنکاروں کی زبان میں رائج اصطلاح کے مطابق یہ سب ڈرامیٹک سبجیکٹس ہیں اور ان سے فن و ہنر کے دلچسپ پروگرام تیار کیے جا سکتے ہیں۔ وہ میدان میں آئيں، آرٹ اور فن کی مختلف شکلوں کے ساتھ، چاہے وہ پرفارمنگ آرٹ ہو، ویجوول آرٹ ہو، شعر ہو، ادب ہو۔ انھیں فنی شہ پاروں کی شکل عطا کریں۔ یہ کلچر کا عظیم سرمایہ ہیں؛ سبھی کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور جو اس سرمائے کو بخوبی برت سکتا ہے، وہ ہمارے فنکار ہیں۔ بحمد اللہ ذمہ داری محسوس کرنے والے فنکار ملک میں کم نہیں ہیں؛ وہ میدان میں آئيں۔ خیر، یہ کچھ جملے تھے جو نرسنگ کی سختیوں اور تلخیوں کے بارے میں عرض کیے گئے۔ البتہ سختیاں اور تلخیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور ان کے بارے میں مزید بات کی جا سکتی ہے۔

اب مطالبات کی بات۔ نرسنگ سماج کا سب سے اہم مطالبہ، اس سماج کو مضبوط بنانے کا ہے۔ اگر ہم ایک لفظ میں اس کا خلاصہ کرنا چاہیں تو نرسنگ سماج، ہم سب سے اور خاص طور پر ذمہ دار اداروں سے -محترم وزیر بھی یہاں تشریف رکھتے ہیں- یہ توقع رکھتا ہے کہ نرسنگ سماج کی تقویت کریں۔ اگر ہم نرسنگ سماج کو مضبوط نہ بنائیں تو حساس مواقع پر نقصان اٹھائيں گے اور کورونا کے معاملے نے یہ بات ثابت کر دی؛ جہاں ہمیں ضرورت ہوگي وہاں نقصان اٹھائیں گے۔ سخت مواقع کے لیے نرسنگ سماج کو مضبوط بنانا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ہمیشہ اس طرح سے اس کی ضرورت محسوس نہ ہو - البتہ ہم محسوس کرتے ہیں کیونکہ اس وقت بھی مشکل ہے اور نرسوں کی تعداد کی کمی کے بارے میں عرض کروں گا اور بہت سی دوسری باتیں - لیکن اگر بالفرض اس وقت ہمیں کوئي مشکل نہ ہو تب بھی اگر ہم نے نرسنگ کے شعبے کو مضبوط نہ بنایا تو اس کورونا جیسے معاملے کی طرح اہم مواقع پر ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔

واضح الفاظ میں ان کا ایک مطالبہ نرسنگ سروسز کا نرخ مقرر کیا جانا ہے اور یہ ایک بنیادی مطالبہ ہے؛ میں نے پچھلے سال بھی یہی کہا تھا۔(5) اس پر تاکید بھی کی تھی لیکن افسوس کہ جن لوگوں کو اس سلسلے میں کام کرنا چاہیے تھا، انھوں نے نہیں کیا! نرخ مقرر کیے جانے یا ٹیرف ریگولیشن کا قانون سن 2007 میں تیار ہوا تھا اور پچھلی حکومت کے آخری دنوں تک اس قانون کا ریگولیشن نہیں لکھا گيا تھا؛ یعنی تقریبا چودہ سال سے یہ قانون تھا لیکن اس کا ريگولیشن تیار نہیں ہوا! کیوں؟ میں وزارت صحت سے زور دے کر مطالبہ کرتا ہوں کہ اس حکومت میں ٹیرف ریگولیشن کے اس مسئلے کو سنجیدگي سے آگے بڑھائے۔ یہ نرسز کا ایک اہم مطالبہ ہے؛ ایک حقیقی مطالبہ ہے۔

اگلا مطالبہ نرسز کی کمی کے سلسلے میں ہے، جتنی ضرورت ہے، اتنی تعداد نہیں ہے۔ ہمیں جو اعداد و شمار دکھائے جاتے ہیں ان میں عالمی اوسط سے موازنہ ہے، مجھے اس سے کام نہیں ہے؛ ممکن ہے کہ عالمی اوسط صحیح ہو اور ممکن ہے کہ غلط ہو؛ مجھے ضرورت سے کام ہے۔ آج ہمارے پاس اسپتال کے بیڈز کی جتنی ضرورت ہے، اس حساب سے نرسز نہیں ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ایک لاکھ ہیں، کچھ کہتے ہیں اس سے کم ہیں، کچھ کہتے ہیں اس سے زیادہ ہیں؛ میں کوئي عدد معین نہیں کروں گا کیونکہ مجھے صحیح عدد کا علم نہیں ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ ہمارے یہاں نرسز کی کمی ہے۔ ملک کو جتنی ضرورت ہے، اس کے لحاظ سے نرسز کی تعداد پوری ہونی چاہیے؛ بہت کم ہے۔ البتہ یہ ان کاموں میں سے نہیں ہے جو ایک دو مہینے میں انجام پا جائيں؛ تھوڑا سا وقت لگے گا لیکن ان شاء اللہ اسی مناسب وقت میں یہ کام انجام پانا چاہیے۔

ایک دوسرا مطالبہ روزگار کے تحفظ یا جاب سیکورٹی کا ہے۔ پچھلے برسوں میں ہو چکا ہے اور اسی کورونا کے معاملے میں بھی ہوا ہے کہ اعلان کیا گيا کہ جو لوگ آمادہ ہیں وہ آ کر کام شروع کریں؛ لوگ آئے، ان کے ساتھ قلیل مدت کے ایگریمینٹس کیے گئے، پھر جب ان کی ضرورت پوری ہو گئي تو کہا گيا تشریف لے جائيے! تو یہ انسان جس کی جاب سیکورٹی نہیں ہے، کس امید پر آکر کام کرے، تیمارداری کرے؟ بنابریں جاب سیکورٹی بھی مختلف مسائل میں سے ایک ہے۔ نرس کو موسمی مزدور کی نظر سے مت دیکھیے کہ آج اسے لے آئيں اور کل کہیں کہ ضرورت نہیں ہے، تشریف لے جائيے؛ نہیں، جاب سیکورٹی! البتہ اس کے اپنے قاعدے قانون اور طریقے ہیں جن سے متعلقہ افراد باخبر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ مطالبے ہیں لیکن وقت گزر چکا ہے اور میں اسے جاری نہیں رکھوں گا۔ احباب خاص طور پر وزارت صحت کے لوگ اس مسئلے کو آگے بڑھائيں۔

میں مزید دو نکات عرض کرنا چاہتا ہوں جو نرسز کے مسائل کے علاوہ ہیں اور حفظان صحت کے معاملوں سے متعلق ہیں اور یہ دونوں نکات بھی اہم ہیں۔ ایک، ملک کے حفظان صحت کے نیٹ ورک کے بارے میں ہے جس کے بارے میں، میں پہلے بھی تاکید کر چکا ہوں۔(6) کسی زمانے میں اسّی کے عشرے میں نوّے کے عشرے کے اوائل میں حکومت اور ادارے، حفظان صحت پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے، بیماریوں کی روک تھام پر توجہ مرکوز رکھتے تھے جس کے بہت اچھے نتائج بھی نکلے تھے؛ ہمیں اس چیز کو جاری رکھنا چاہیے، یہ اہم ہے۔ روک تھام، علاج سے بہتر ہے؛ علاج ضروری ہے اور میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ علاج سے بے اعتنائي کی جائے، نہیں لیکن روک تھام سے بے اعتنائي نہ کی جائے۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ حفظان صحت کے اس نیٹ ورک کی، جو پہلے وجود میں آ چکا تھا اور اس کے مفید نتائج سامنے آئے تھے، اس نے بہت سے کام کیے تھے، تعمیر نو کریں؛ وہ نیٹ ورک ہے، کمزور ہو چکا ہے، اس پر توجہ نہیں دی جاتی؛  اسے مضبوط بنایا جانا چاہیے، اس کی تعمیر نو ہونی چاہیے۔ اگر حفظان صحت کا نیٹ ورک صحیح طریقے سے سرگرم ہو جائے تو وہ کم خرچ میں بڑے کام کر سکتا ہے۔

دوسرا موضوع، ڈاکٹر کی منصفانہ تقسیم ہے؛ منصفانہ تقسیم۔ میں ابھی اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہمارے پاس ڈاکٹر کم ہیں یا نہیں، یہ چیز متعلقہ افراد جانتے ہیں کہ کم ہیں یا نہیں ہیں؛ لیکن میں جو چیز جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔ ملک کے بعض علاقوں میں - دور دراز کے علاقوں میں - کمی پائی جاتی ہے؛ ڈاکٹروں کو ملک کے مختلف علاقوں میں منصفانہ طور پر تعینات کیے جانے کے مسئلے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ یہ ہماری کچھ باتیں تھیں۔

خداوند عالم سے مدد مانگیے، خداوند متعال پر توکل کیجیے؛ ملک کے تمام امور میں، زندگي کے تمام معاملوں میں خداوند عالم سے درخواست کرنی چاہیے، اس سے مانگنا چاہیے، گڑگڑانا چاہیے، اس پر توکل کرنا چاہیے؛ "وَمَن یَتَوَکَّل عَلَى اللہِ فَھُوَ حَسبُہ"(7) جو بھی اللہ پر توکل کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے؛ یہ معلوم ہونا چاہیے۔ البتہ توکل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کام نہ کریں؛ واضح سی بات ہے؛ یعنی وعدۂ الہی پر اعتماد کرتے ہوئے کہ اس نے فرمایا ہے اگر کام کرو تو میں برکت دوں گا، ہمیں کام کرنا چاہیے؛ ہمیں اللہ کے وعدے پر اعتماد کرنا چاہیے۔

امید ہے ان شاء اللہ آپ کا آنے والا کل آپ کے آج سے بہتر ہوگا اور آپ کا مستقبل آپ کے ماضی سے بہتر ہوگا۔ ان شاء اللہ ایرانی قوم آپ کی خدمات اور زحمات سے بہرہ مند ہو اور خداوند عالم آپ سب کو اجر عطا کرے، نرسوں کو اجر عطا کرے اور ایرانی قوم کو دشمن سے مقابلے کے میدان میں - مقابلے کے تمام میدانوں میں - ان شاء اللہ فاتح اور سربلند کرے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر صحت ڈاکٹر بہرام عین اللہی نے تقریر کی۔

(2) بحار الانوار جلد 45، صفحہ 116

(3) بحار الانوار جلد 45، صفحہ 135

(4) بحار الانوار جلد 45، صفحہ 109، (معمولی سے فرق کے ساتھ) تمھاری مثال اس عورت کی سی ہے جو محنت سے اون بننے کے بعد اسے دھنک دیتی ہے۔

(5) حضرت زینب علیہا السلام کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے ٹی وی پر کی گئي تقریر، 21/11/2020

(6) کورونا سے مقابلے کی قومی کمیٹی سے ویڈیو لنک کے ذریعے کیا گيا خطاب، 20/4/2020

(7) سورۂ طلاق، آيت 3، اور جو اللہ پر توکل کرے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔