امیر المومنین علیہ السلام سے منقول دعائیں، یہی دعائے کمیل یا مناجات شعبانیہ، دونوں ہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہیں آپ کی یہ مناجاتیں اور یہ تضرع اور خضوع و خشوع، ان دعاؤں کو توجہ سے پڑھنے والے شخص کو بالکل مختلف دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ ہمارے نوجوان ان دعاؤں کے کلمات کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان پر غور کریں۔ دعا میں مذکور کلمات بھی فصیح و بلیغ اور بہت دلچسپ ہیں لیکن ان کےمعانی اور بھی بلند اور گہرے ہیں۔ ان راتوں میں اللہ تعالی سے مناجات کرنا چاہئے۔ اس سے دعا مانگنا جاہئے۔
میں آپ کی شہادت کی مناسب سے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ کی مناجاتوں میں سوز و گداز ہے اسی طرح آپ کے مرثئے بھی دل دہلا دینے والے ہیں۔ جہاں آپ نے اپنے رفقاء کے فقدان کی بات کی ہے، جہاں ان شہیدوں کو یاد کیا ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں آپ کی ہمراہی میں جنگوں میں شریک ہوئے یا جو خود آپ کے دور حکومت میں رونما ہونے والی جنگوں جیسے جنگ صفین اور جنگ جمل میں مجاہدانہ انداز سے لڑے اور دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ انہیں یاد کرکے مولا فرماتے ہیں "این عمار، این ابن التیھان، این ذو الشھادتین واین نظرائھم من اخوانھم الذین تعاقدوا علی المنیۃ" کہاں ہیں وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے عہد و پیمان شجاعت باندھا، راہ خدا میں جہاد کیا اور اسی عالم میں اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھا۔ "و ابرد برؤوسھم الی الفجرۃ" وہ لوگ جو راہ خدا میں شہید ہوئے، جن کے سر قلم کرکے فاسق و فاجر حکام کے لئے بطور ہدیہ پیش کئے گئے۔ کہاں ہیں وہ جانباز؟ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے ان عزیزوں کے فراق میں آنسو بہائے۔ آپ نے سب سے زیادہ گریہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فراق میں کیا۔ آپ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یاد کرکے روتے تھے۔
یہ غم انگیز باتیں اور جملے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زبان پر جاری رہتے تھے ماہ رمضان کی انیسویں شب گزرنے کے بعد صبح کے وقت ضربت لگ جانے کے بعد تھم گئے۔ مسجد کوفہ کے در و دیوار اور وہاں جمع ہونے والے مومنین نے آپ سے بارہا یہ مناجاتیں اور دعائیں سنیں اور ان دعاؤں پر آپ کو روتے دیکھا تھا۔ مسجد کے در و دیوار اور مومنین آپ کی پر خلوص عبادت، آپ کے عارفانہ بیان اور کبھی کبھی اندوہناک شکوؤں کے گواہ تھے۔
لوگوں نے انیسویں شب کو اچانک آپ کی مانوس آواز سنی۔ آپ کی زبان پر "فزت و رب الکعبۃ" کا فقرہ بار بار آتا تھا۔ خائن ہاتھ نے رات کی تاریکی میں امیر المومنین کے فرق اقدس کو نشانہ بنایا تھا۔ کوئی اجالے میں علی کے سامنے کھڑے ہونے کی جرئت نہیں کر پاتا تھا، لڑنا اور مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ کس میں اتنا دم تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام پر سامنے سے حملہ کرتا۔ رات کی تاریکی میں، محراب عبادت میں جب آپ محو نماز تھے تب آپ پر حملہ ہوا اور لوگوں نے آپ کے زخمی ہونے کی یہ جانکاہ خبر سنی۔ لوگ دوڑتے بھاگتے مسجد میں پہنچے، تو وہاں عجیب عالم نظر آیا۔ آپ خون میں نہائے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين!
امام خامنہ ای
18 ستمبر 2008