متقی و پرہیزگار عالم دین

آيۃ اللہ الحاج سید جواد خامنہ ای صوبہ آذربائيجان کے ایک زاہد اور سادہ منش عالم دین تھے۔ نجف اشرف میں برسوں تعلیم و تدریس میں مشغول رہنے کے بعد وہ مشہد روانہ ہوئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اس مشہور زاہد عالم دین کے انتقال کے وقت مشہد میں کافی تعداد میں عقیدت مند موجود تھے لیکن اکانوے سال کی عمر اور پچاس سال تک دینی تبلیغ، مذہبی سرگرمیوں اور پیش امامی کے بعد ان کا کل اثاثہ مشہد میں غریبوں کے ایک محلے میں ایک معمولی سا مکان اور 45 ہزار تومان تھا۔

سید جواد خامنہ ای، سنہ 1896 کے  موسم خزاں میں نجف اشرف میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ کافی چھوٹے تھے کہ ان کے گھر والے تبریز لوٹ آئے۔ بچے ہی تھے کہ ان کے والد آيۃ اللہ سید حسین خامنہ ای کا انتقال ہو گيا۔ انھوں نے ابتدائي دینی تعلیم تبریز میں حاصل کی۔ سنہ 1919 کے آس پاس وہ مشہد روانہ ہوئے اور اس سفر نے ان کی زندگي کی راہ بدل دی۔ ان کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے قریبیوں سے کہا تھا کہ اگر زندگي یہ ہے جو مشہد میں گزر رہی ہے تو ہم نے اس سے پہلے کی اپنی زندگي فضول میں گزار دی ہے۔ امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر سے قرب مکانی نے ان کی زندگي کو ایک نئی وادی میں داخل کر دیا۔

ان ہی دنوں میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گيا اور اس طرح بچپن میں باپ کے سائے سے محرومی کے بعد سید جواد کو نوجوانی میں ایک اور بڑا غم اٹھانا پڑا۔ والدہ کے انتقال کے بعد مشہد میں مستقل رہائش کے بارے میں سید جواد کا فیصلہ مزید مستحکم ہو گيا اور وہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم کے جوار میں رہنے لگے۔ مشہد میں تقریبا آٹھ سال تک رہنے کے بعد وہ اپنے تعلیمی مراحل مکمل کرنے کے لیے ایک بار پھر نجف اشرف اور اس شہر کے اعلی دینی تعلیمی مرکز میں پہنچ گئے۔ محمد حسین نائینی، آقا ضیاء عراقی اور سید ابو الحسن اصفہانی جیسے مجتہدین، ان استاتذہ میں سے تھے، جن کے درس میں سید جواد نے اپنی نجف رہائش کے دوران شرکت کی۔ آيۃ اللہ نائينی کو شیعہ علمائے دین میں ممتاز مقام حاصل تھا اور انھوں نے بہت زیادہ شاگردوں کی تربیت کی۔

الحاج سید جواد نے کئي سال آيۃ اللہ نائینی کے درس میں شرکت کے بعد روایت اور اجتہاد کی اجازت حاصل کی اور پانچ سال بعد دوبارہ ایران لوٹ آئے اور مشہد روانہ ہو گئے لیکن اسی وقت ان کی زوجہ کا انتقال ہو گيا اور اپنی عمر کے چوتھے عشرے میں انھیں اپنی زندگي کے تیسرے بڑے غم کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے والدین کا انتقال ان کی زندگي کے پہلے دو بڑے غم تھے۔ اس کے بعد انھوں نے مشہد کے مشہور عالم دین آيۃ اللہ الحاج سید ہاشم نجف آبادی میردامادی کی بیٹی بانو خدیجہ میر دامادی کو اپنی زندگي کا شریک سفر بنایا۔ آيۃ اللہ سید جواد خامنہ ای اور بانو خدیجہ میر دامادی کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے دوسرے آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای ہیں۔

الحاج سید جواد اگرچہ نجف سے واپسی کے بعد ایک صاحب رائے عالم دین اور مجتہد بن چکے تھے لیکن انھوں نے دینی طلبہ کو پڑھانے کے لیے درس کی کلاس شروع کرنے کی خود سے کوئي رغبت ظاہر نہیں کی۔ ان کے بیٹے سید محمد حسن خامنہ ای نے برسوں بعد اپنے والد کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اپنی زندگي میں کبھی بھی خودنمائي کے چکر میں نہیں پڑے۔ ان کا یہ جذبہ ان کی عمر کے آخری حصے تک قائم رہا، جب ان کے بیٹے رکن پارلیمنٹ تھے اور ان کا ایک بیٹا صدر مملکت تھا تب بھی انھوں نے خودنمائی نہیں کی۔ جس وقت ان کے بیٹے الحاج سید علی خامنہ ای، ملک کے صدر تھے، اس وقت بھی وہ اسی معمولی گھر میں رہتے تھے جو انھوں نے پچاس سال قبل لیا تھا، اسی طرز تعمیر اور اسی شکل و صورت میں۔ امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس میں جانے اور وہاں سے واپس آنے کے لیے الحاج رضا اپنی پرانی 'پیکان پک اپ' لے کر آيا کرتے اور وہ دونوں ساتھ میں زیارت کے لیے جاتے تھے۔

الحاج سید جواد کی کچھ خاص صفات تھیں۔ اگرچہ بظاہر ان کی کچھ خاص سیاسی سرگرمیاں نہیں تھیں لیکن ان کے اقدامات سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ انقلابیوں اور پہلوی حکومت کے درمیان حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار نہیں تھے۔ انھوں نے ہمشیہ طاغوتی حکومت سے فاصلہ بنائے رکھا۔ اس سلسلے میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کچھ دلچسپ باتیں بیان کرتے ہیں: "اکثر شیعہ امامیہ علمائے دین کی طرح وہ بھی حکومت کو بغض اور نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے، خاص طور پر اس لیے انھوں نے پہلوی دور حکومت کو بھی دیکھا اور وہ وقت بھی گزارا تھا اور اس کی سختیاں بھی برداشت کی تھیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی پچھلی حکومتوں سے کوئی تعاون نہیں کیا اور انھوں نے کبھی بھی کسی بھی سرکاری نشست اور دعوت میں شرکت نہیں کی، یہاں تک کہ امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر کے میوزیم کے پروگرام میں بھی، میوزیم کا خصوصی لاؤنج وہ جگہ تھی جہاں عید کے موقع پر مشہد کے علمائے دین کو مدعو کیا جاتا تھا اور بہت سے علماء اور سینیئر افراد وہاں جاتے تھے ... بس دو تین علماء تھے جنھوں نے کبھی بھی اس پروگرام میں شرکت نہیں کی، ان میں سے ایک میرے والد تھے۔"

امام خمینی سے شناسائي

البتہ آیۃ اللہ سید جواد خامنہ ای کے مواقف، صرف ان ہی باتوں تک محدود نہیں تھے۔ کافی پہلے سے ان کے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے قریبی تعلقات تھے۔ رضا خان کے دور حکومت کے اوائل میں امام خمینی کے مشہد کے ایک سفر میں دونوں کی جان پہچان ہوئي تھی۔ ان کے ایک دوست نے انھیں آقا سید روح اللہ سے ملوایا تھا اور پھر انھوں نے انھیں اپنے گھر مدعو کیا۔ دونوں کی شناسائي کے برسوں بعد جب بھی آقا روح اللہ نوجوان سید علی خامنہ ای کو دیکھتے تو ان سے ان کے والد سید جواد کا حال چال ضرور پوچھتے۔ الحاج سید جواد بھی جو بعد میں قم آیا جایا کرتے تھے، امام خمینی سے ضرور ملاقات کرتے تھے۔ سنہ انیس سو چونسٹھ میں جب پہلوی حکومت نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ملک بدر کر دیا اور وہ ترکی چلے گئے تو سید جواد، مشہد کے ان علماء میں سے ایک تھے جنھوں نے اس ملک بدری پر احتجاج کرتے ہوئے اس شہر کی مسجد صدیقی میں نماز جماعت پڑھانا بند کر دیا۔ آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مشہد میں انقلابی جدوجہد کے اوج کے برسوں کے بارے میں اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "میرے والد ان اجتماعات میں شرکت کرتے تھے جن میں علمائے دین حصہ لیتے تھے۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے، جو مشہد میں ان اجتماعات کا منتظم تھا، کہتے تھے کہ تم میری جگہ وہاں ووٹ دینا اور کہنا کہ میں ہوں اور متفق ہوں۔"

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اپنے دور صدارت میں اپنے والدین کے زاہدانہ جذبے کے بارے میں کہتے ہیں: "میں صدر تھا اور اس ملک کے وسائل، اس حد تک کہ جتنے صدر کے اختیار میں ہوتے ہیں، میرے اختیار میں تھے، لیکن ان دونوں بزرگوں کو ذرہ برابر بھی توقع نہیں تھی کہ اس گھر کو بہت اچھا بنا دیں یا اس کی شکل و صورت ٹھیک کر دیں۔ میرے والد نے سنہ انیس سو چھیاسی تک اور میری والدہ نے میرے عہدۂ صدارت کے آخر تک اسی گھر میں زندگی گزاری لیکن اس گھر کو بہتر بنانے کے لیے معمولی سے تبدیلی بھی نہیں آئي۔"

آيۃ اللہ سید جواد خامنہ نے ایمان، زہد اور تقوی کے ساتھ اکانوے سال کی پاکیزہ زندگي گزارنے کے بعد پانچ جولائي سنہ انیس سو چھیاسی کو دار فانی کو الوداع کہا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک پیغام میں انھیں ایک ایسی شخصیت قرار دیا جس نے پوری ذمہ داری، تقوی اور علم کے ساتھ گزار دی۔ الحاج سید جواد کا جنازہ 6 جولائي سنہ 1986 کو مشہد کے عوام کی کثیر تعداد کی شرکت سے بڑی شان سے اٹھا اور مشہد کے امام جمعہ آيۃ اللہ شیرازی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائي۔ پھر انھیں فرزند رسول امام علی رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر میں دارالفیض کے قریب سپرد خاک کر دیا گيا۔