بسم اللہ الرحمن الرحیم

اپنے ذہن میں تہران کے نواح میں واقع قبرستان بہشت زہرا کو مجسم کیجیے، ایک وسیع و عریض دشت جس میں بہت بڑی تعداد میں موجود درخت قبروں پر سایہ کئے کھڑے ہیں۔ اس قبرستان کا ایک حصہ، جو دوسرے حصوں سے الگ ہے، یہاں وہ لوگ آرام کر رہے ہیں جنھیں موت نے نہیں آ لیا بلکہ وہ خود موت کے استقبال کے لیے آگے بڑھے ہیں۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے اور اسے ایک بڑے مقصد کے لیے فدا کر دیا۔ ہمیں قبرستان کے اسی حصے سے کام ہے۔ اسی حصے میں ان سیاہ و سفید پتھروں کے پاس ہم ایک خاتون کو دیکھتے ہیں جس کا چہرہ دور سے دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ایرانی نہیں ہے۔ جب آپ قریب پہنچتے ہیں اس کی کھنچی ہوئي نیم باز آنکھوں اور مشرقی ایشیائي چہرے کو دیکھتے ہیں، اس قبر کے کتبے کو دیکھیے، جس کے کنارے وہ بیٹھی ہوئي اور جس پر اس کے آنسوؤں کے قطرے گرے ہیں، تب آپ کو اس کے نام کا بھی پتہ چلتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ یہاں کیوں بیٹھی ہے۔ وہ کونیکو یامامورا ہے، ایران میں ایک شہید کی جاپانی ماں۔ وہ یہاں اپنے لال کے لیے دعا کرنے اور قرآن پڑھنے کے لیے بیٹھی ہے، اپنے انیس سالہ بیٹے، شہید محمد بابائي کے لیے۔

یہ عورت، دنیا کے بہت سے لوگوں کی طرح ایران کی سرحدوں سے دور، بہت دور ایک ملک میں اپنی زندگي گزار رہی تھی۔ نہ اسے فارسی آتی تھی، نہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتی تھی اور نہ ہی اس کے خواب و خیال میں تھا کہ کسی دن وہ ایسی سرزمین میں قدم رکھے گي جس کے آداب، رسم و رواج، دین و مذہب، پہناوا اور لوگ، اس کے اپنے ملک سے یکسر مختلف ہوں گے لیکن نشیب و فراز سے بھری ہوئي تقدیر اس کے انتظار میں تھی۔

کونیکو یامامورا نے اس تقدیر کو اس طرح بیان کیا ہے: "میں اپنے نام کو پسند کرتی تھی اور اپنی فیملی کو، اپنے وطن کو اور اپنے اس جاپانی شناختی کارڈ تک کو جس کے آخری صفحے پر ایک دن ضرب کی مہر لگا دی گئي جو یا تو موت کی علامت ہے یا ترک وطن کی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ تقدیر مجھے، جاپان کے 'ہیوگو' صوبے کے 'کوبے' ضلع کے 'اشیا' شہر سے ایک اجنبی سرزمین پر لے جائے گي اور میرا نام اور شناخت بدل جائے گي اور مجھے ایک نیا شناختی کارڈ مل جائے گا۔

کونیکو یامامورا نے دس جنوری 1939 کو اس دنیا میں قدم رکھا، یعنی اسی سال جس سال عالمی جنگ شروع ہوئي۔ ان کی زندگي بھی، ان کے وطن کے دوسرے لوگوں کی طرح اس جنگ سے جڑ گئي۔ انھوں نے بچپن سے ہی سیکھ لیا تھا کہ امریکی میزائيلوں کی تیز سیٹی جیسی آواز سنتے ہی اپنی کپڑے کی ٹوپی کو مضبوطی سے اپنے سر پر کھینچ لیں۔ "وہ کپڑے کی بنی ہوئي ٹوپی تھی اور اس کے اندر روئي بھری ہوئي تھی تاکہ اگر کوئي دھماکا ہو تو سر اور منہ پر لکڑی، پتھر یا کوئي دوسری چیز آ کر نہ لگے۔" البتہ کپڑے کی یہ ٹوپی، امریکی فوج کے 325 بی-9 بمبار طیاروں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی جنھوں نے ٹوکیو کو مٹی میں ملا دیا تھا۔ جب امریکا کے 'لٹل بوائے' اور ' فیٹ مین' نامی دو ایٹم ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرے تو فولادی ٹوپی کی طاقت، اس ایٹمی دھماکے کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی جس کی طاقت ہزاروں ٹن ٹی این ٹی کے برابر تھی۔ سرزمین آفتاب کی بیٹی نے، امریکا کے ایٹمی حملے کے دن گویا اپنے ملک کی فضا میں دو بار سورج دیکھا۔ اس کے بعد امریکی سپاہیوں کو دیکھنے کی باری تھی جو جاپان کی زمین پر دندناتے پھر رہے تھے اور دھماکے سے مرنے والوں کی راکھ کو جھاڑوؤں سے اڑا رہے تھے اور جاپانی لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے ورغلا رہے تھے۔

جب ہم یہاں سے اس قصے کو دیکھتے ہیں تو جاپانی خاتون کونیکو کے مختصر سے وجود کو جنگ سے نفرت نے پوری طرح بھر دیا تھا۔ تو پھر کیا ہوا کہ کچھ برس کے بعد وہ خود ایک دوسری جنگ میں سپورٹنگ فورس کا حصہ بن گئي؟ کیا ہوا کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کو ایک غیر مساوی جنگ میں فرنٹ لائن پر لڑنے کی اجازت دے دی؟

ایران کے ایک نوجوان اور مومن تاجر اسد اللہ بابائي، وہ تقدیر تھے جسے خداوند عالم نے اکیس سالہ کونیکو کے راستے پر رکھ دیا تھا۔ جب کونیکو نے پہلی بار بابائي صاحب کو دیکھا تو وہ دعا مانگ رہے تھے اور نماز پڑھ رہے تھے۔ خود محترمہ کونیکو یامامورا کے بقول اس لمحے، پہلی ہی نظر میں ان کے دل میں عشق جیسی کوئي چیز پیدا ہو گئي تھی لیکن ایک دوسری چیز نے بھی نوجوان کونیکو کے ذہن و دل کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا اور وہ مسلمانوں کی نماز تھی۔ جاپانی کلچر اور شینتو مذہب میں کسی شخص، اشخاص یا اشیاء کے سامنے سر تعظیم جھکانا رائج تھا لیکن جس چیز نے نوجوان کونیکو کے دل و دماغ کو شدت سے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا وہ یہ تھا کہ مسلمان بابائي صاحب کے سامنے کوئي شخص نہیں تھا اور اس لحاظ سے وہ کسی شخص یا چیز کی تعظیم نہیں کر رہے تھے۔ محترمہ یامامورا نے بعد میں اس بات کو اس طرح بیان کیا: "مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں نے نماز کے فلسفے کے بارے میں پوچھا۔ میرے جواب میں انھوں نے اللہ سے بات کرنے اور خالق کائنات سے رابطے کے طریقے کے بارے میں بات کی اور کہا: "نماز، خالق سے مخلوق کا بات کرنا ہے۔" یہ چیز میرے لیے، نئي تھی کیونکہ شینتو مذہب، متعدد خداؤں کو مانتا ہے۔ ہم جس کسی کے لیے احترام کا اظہار کرنا چاہتے تھے، اس کے سامنے سر جھکا دیتے تھے۔ لیکن بابائي صاحب نے کہا: "خالق کائنات کے لیے رکوع اور سجدہ، اس نعمت پر شکر ہے جو خالق نے تمام امور میں ہمیں عطا کی ہے۔ تمام انسان مخلوق ہیں اور ہمیں ان لوگوں کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے جنھوں نے ہمیں کوئي نعمت عطا نہیں کی ہے اور خود مخلوق خدا ہیں۔" اسی بات اور اسلامی آئيڈیالوجی میں جاری اسی توحیدی روح نے نوجوان کونیکو کو روحانیت کا ایک نیا راستہ دکھا دیا اور وہ اس راستے پر چل پڑیں، یہ عمل، اسلامی اصطلاح میں 'ہجرت' کہلاتا ہے۔

کونیکو اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ، اس ملک سے، جس کے شینتو عبادت خانوں میں وہ بدھ کی پرستش کرتی تھیں، ایران آ گئيں اور یہ سیکھا کہ کس طرح نماز پڑھیں اور اللہ کے کلمات کو، اس کی کتاب قرآن مجید سے کس طرح سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔ ان باتوں سے کونیکو کی آشنائي، اس وقت شروع ہوئي جب ایران میں ایک بڑی ہی اہم اور فیصلہ کن تحریک جاری تھی، شاہی سلطنت کے خلاف امام خمینی کا قیام اور وہ بھی ایسے عوام کی پشت پناہی سے جو غربت، امتیازی سلوک، قتل و غارت، بدعنوانی اور شاہی خاندان کے ظلم و ستم سے تنگ آ چکے تھے اور ایک اسلامی حکومت اور عدل، اخلاق اور انسانیت کی بنیاد پر کام کرنے والی ایک عوامی حکومت کا مطالبہ کر رہے تھے۔

کونیکو کی چھوٹی سی فیملی نے سنہ انیس سو ترسٹھ سے سنہ انیس سو اناسی تک امام خمینی کی عوامی تحریک کا بھرپور ساتھ  دیا، جدوجہد کی، نعرے لگائے اور عوام کے ساتھ کھڑی رہی یہاں تک کہ ان کے مطالبات نے، جو ایران کے اسلامی انقلاب سے عبارت تھے، عملی جامہ پہن لیا۔ وہ اپنے پرنشیب و فراز تجربات کو اپنے بچوں سے اس طرح بیان کیا کرتی تھیں: "میں نے اپنے شوہر اور بچوں کے سامنے ہیروشیما اور ناگاساکی کی ایٹمی بمباری کے بعد جاپان کے سیاسی حالات اور ایران کے حالات کا موازنہ پیش کیا اور کہا کہ جس طرح آج امریکا کے فوجی مشیر، شاہی فوج کے سر پر سوار  ہیں اور فوج کو ڈکٹیٹ کر رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی اسی طرح ہمارے عوام کے سروں پر بھی ڈنڈے لے کر سوار تھے اور اپنے خیال میں ان پر راج کر رہے تھے۔" اس طرح کے تجربات اور یکجہتی نے آخرکار عوام کو انقلاب کی فتح کے جشن تک پہنچا دیا۔ کونیکو اس مسرت کے بارے میں کہتی ہیں: "میں ایرانی نہیں تھی، مشرق بعید سے، دمکتے سورج کی سرزمین سے آئي تھی لیکن میں نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں اپنے شکستہ عزت نفس کو اپنی مادری سرزمین سے ہزاروں کلو میٹر دور یہاں ایران میں دوبارہ حاصل کیا۔" اب ایران میں کونیکو یامامورا کی ایک ایرانی شناخت تھی، "سبا بابائي"۔

دوسرے لوگوں کے ساتھ ہی سبا نے بھی امام خمینی کا دیدار کیا۔ ابھی انقلاب کی کامیابی کے جشن کی حلاوت، ایرانی عوام کے کام و دہن میں پوری طرح  اتر بھی نہ پائي تھی کہ ایک زیادہ بڑا دشمن سامنے آ گيا۔ صدام حسین کی قیادت میں عراق کی بعثی حکومت نے امریکا کی براہ راست حمایت سے ایران پر حملہ کر دیا۔ سبا ایک بار پھر اپنے سر پر موجود آسمان میں امریکی بمبار طیاروں کی پروازیں دیکھ رہی تھیں، البتہ اس بار ان کے سامنے پچھلا تجربہ موجود تھا اور وہ جانتی تھیں کہ ہتھیاڑ ڈالنا، کوئي چارہ نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے آستینیں چڑھا لیں اور غیور ایرانی خواتین کے ساتھ، محاذوں کے پیچھے کے میدان میں آ گئيں۔ انھوں نے پینٹنگز اور پوسٹر بنا کر، فوجیوں کی مدد کے لیے محلے کی مسجد میں امدادی کارروائياں انجام دے کر اور زخمیوں کے زخموں پر پٹی باندھنے کے لیے اپنے گھر کی سفید چادریں دے کر اس دفاع میں شرکت کی۔

انھوں نے حق و انصاف اور ملک و قوم کے دفاع کا شوق اپنے بیٹوں کے دل میں بٹھا دیا۔ سبا کے نوجوان بیٹے محمد بابائي، اپنے بھائي سلمان کی طرح محاذ جنگ پر جانا چاہتے تھے۔ محمد، ذہین اور جوشیلے تھے۔ ان کے بھائي نے گھر کی چھت پر ایک چھوٹی سی تجربہ گاہ بنا رکھی تھی اور وہیں وہ کیمسٹری پڑھا کرتے تھے۔ محمد کی غیر معمولی صلاحیت، ان کے درخشاں علمی مستقبل کی نوید دے رہی تھی لیکن عراق کی جارحیت نے ان سے یہ موقع چھین لیا۔

بلاشبہہ کسی بھی ماں کے لیے اپنے بچے کو محاذ جنگ پر بھیجنا بہت سخت کام ہے اور یقینی طور پر محترمہ بابائي کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا لیکن  شاید یہ راستہ طے کرنا محترمہ بابائي کے لیے غیر ممکن نہ تھا کیونکہ وہ پہلے بھی تعلقات کی قربانی دینے کے ایسے ہی راستے پر بخوبی چل چکیں تھیں۔ تو انھوں نے خود اپنے بیٹے کے بال چھوٹے کیے، اس کے لیے دعا کی اور اسے محاذ جنگ پر بھیج دیا تاکہ وہ ان بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنائے جو بعثیوں نے بزدلی کے ساتھ ایران کی سرحدوں کے اندر لگا دی تھیں۔ ایسے ہی ایک آپریشن کے دوران ایک گولی نے محمد بابائي کے سر میں سوراخ کر دیا اور ان کی پاکیزہ روح کو آسمان کی بلندیوں میں پہنچا دیا۔

پہلی جولائي 2022 کوشہید محمد بابائي کی والدہ مرحومہ سبا بابائي نے تہران کے ایک اسپتال میں سانس کی بیماری کے سبب دم توڑ دیا۔ ان کی قبر، بہشت زہرا قبرستان کے بلاک 45 میں ہے جو شہداء کے والدین سے مخصوص ہے۔

ایران کے مشہور مصنف حمید حسام نے ان سے ملاقات کی اور سات سال تک ان کی یادوں کو ان کی زبانی سنا۔ ان کے تجربات کو ان ہی کی طرح محسوس کیا تاکہ ان کی سوانح حیات کو  بالکل اسی طرح لکھ سکیں جیسا وہ چاہتی تھیں۔ کتاب 'سرزمین آفتاب کی مہاجر' سورۂ مہر پبلیکیشنز نے شائع کی ہے جو سبا بابائي کی زندگي کا نچوڑ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کتاب پر تقریظ لکھی ہے۔