بسم ‌اللّہ الرّحمن ‌الرّحیم

والحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا محمد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین.

ہم ان دو عزیز شہیدوں شہید رجائي اور شہید باہنر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ واقعی یہ دو لوگ اسلامی انقلاب کی سطح کے دو منتظم اور عہدیدار تھے، دونوں ہی، ہم نے برسوں تک ان دونوں کے ساتھ خاص طور پر مرحوم باہنر کے ساتھ کام کیا تھا اور انھیں بہت قریب سے جانتے تھے، انھیں قریب سے دیکھتے تھے اور خداوند عالم نے انھیں شہادت کے ذریعے اجر عطا کیا۔ اگر یہ دونوں شہادت کے علاوہ کسی اور موت سے اس دنیا سے جاتے تو بہت افسوس کی بات ہوتی۔ ہم انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

ہفتۂ حکومت کے دو پہلو ہیں جن میں سے ایک کے سلسلے میں زیادہ تر غفلت برتی جاتی ہے، میں دونوں پر روشنی ڈالتا ہوں۔ ہفتۂ حکومت کا پہلا پہلو، یاد کرنے کا پہلو ہے، شہید رجائي کو یاد کرنے کا، شہید باہنر کو یاد کرنے کا، انقلاب کے واقعات کو یاد کرنے کا، یاد کرنا، غفلت کے مقابلے میں ہے، فراموشی کے مقابلے میں ہے اور یہ ایک بڑی بلا ہے، غفلت اور فراموشی بڑی مصیبت ہے۔ "اِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ"(2) ذکر کا مطلب ہے یاد، یا "اَنزَلْنَا اِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيہِ ذِكْرُكُمْ"(3) یاد! ان اہم ترین مسائل میں سے ایک، جس پر مختلف مذاہب زور دیتے ہیں، یہ ہے کہ لوگوں کو متوجہ کریں،  انھیں غفلت سے باہر نکالیں، ان سے فراموشی کو دور کر دیں، فطرت کی فراموشی کو۔ ہماری آنکھوں کے سامنے کچھ واقعات ہوئے ہیں، ممکن ہے کہ آپ میں سے کچھ جوانوں نے ان واقعات کو نہ دیکھا ہو یا آپ کو صحیح سے یاد نہ ہوں۔ ان اہم اور تاریخ ساز واقعات کو، انقلاب کے اوائل میں اس عمومی قیام کو، اپنے سامنے آنے والی اس غیر متوقع عظیم تحریک کے مقابلے میں سامراج کے چکرا جانے اور گنگ رہ جانے کی حالت کو، پھر دشمنیاں شروع ہونے کے عمل کو، قوم کو پیش آنے والے مختلف واقعات کو، انھیں یاد رکھنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ہم کس حالت میں ہیں۔ اسی شہر تہران کی فضا، صدام کے طیاروں کی آماجگاہ تھی، ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئي ذریعہ بھی نہیں تھا۔ پائلٹ جنگي طیارے میں بیٹھتا تھا، تہران کے اوپر سے بغیر کسی تشویش کے گزر جاتا تھا اور ہم کچھ بھی نہیں کر پاتے تھے، یا وہ بم گراتا تھا یا ساؤنڈ بیرئير کراس کرتا تھا، ایرانی قوم کی تذلیل کرتا تھا، یہ ہماری فضائی سرحد تھی، ہماری سرزمین میں، ہمارے گلی کوچوں میں، ہماری سڑکوں پر دہشت گردی تھی۔ آتے، گھروں میں گھستے، حملہ کرتے تھے، پاسدار (سیکورٹی اہلکار) پر حملہ کرتے، دکاندار پر حملہ کرتے، کام کرنے والے پر حملہ کرتے، پورے ملک میں بری طرح سے پھیلی ہوئي بدامنی، ہم ان باتوں کو فراموش نہ کریں۔ یہ سب گزر گیا، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام نے پوری طاقت سے اور عزت مندانہ طریقے سے ان پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس وقت کے نشیب و فراز ہماری یادوں سے مٹنے نہ پائيں۔ اچھی باتیں، بری باتیں، اتار چڑھاؤ فراموش نہ ہونے پائیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی شروعات سے آج تک حکومتوں کی کارکردگي، حکومتوں میں طرح طرح کی کارکردگياں، پارلیمانوں کی کارکردگي وغیرہ کو ہم نہ بھلائيں۔ پھر عوام کا کردار، ان تمام ادوار میں واقعات اور انقلاب کی سرگزشت کے اصلی ہیرو عوام تھے؛ عوام! یہ عظیم الشان ریلیاں، یہ عوام کی شاندار شرکت، آٹھ سالہ جنگ میں مقدس دفاع کے محاذوں اور دیگر محاذوں پر یہ موجودگي، یہ انقلابی جلوس اور مظاہرے، بائيس بہمن (گيارہ فروری، اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ)، یوم القدس یا تیئیس تیر (چودہ جولائي)(4) اور نو دی (تیس دسمبر)(5) جیسے واقعات میں عوام کا بھرپور کردار، یہ سب بڑی عجیب چیزیں ہیں، ان سب معاملوں میں اس قوم نے دنیا کو متحیر کر دیا، یہ چیزیں ہمیں یاد رہیں۔ آج ہم ان پر غور کریں، ان سے سبق حاصل کریں، عبرت حاصل کریں۔ اس قوم کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے، کیسا سلوک کرنا چاہیے۔

جب بھی نظام کو عوام کے تعاون کی ضرورت تھی، کسی کے بھی کہے بغیر وہ خود ہی میدان میں آ گئے۔ شہید قاسم سلیمانی کا جلوس جنازہ آپ کو یاد ہے؟ ابھی حال ہی میں دو تین دن پہلے اصفہان میں نکلنے والا جلوس جنازہ(6)، یہ سب بہت معنی خیز باتیں ہیں، یہ چیزیں موقف کو ظاہر کرتی  ہیں، ہمیں راستہ دکھاتی ہیں۔ تہران میں یہ غدیر کا جشن(7)، یہ بہت حیرت انگیز واقعہ تھا، اس طرح کے کام ہمیشہ ہوتے رہے ہیں، انھیں بھلایا نہیں جانا چاہیے، ہفتۂ حکومت میں شہید رجائي اور شہید باہنر کو یاد کرنا، خراج عقیدت پیش کرنا، ایک نمونہ ہے، ایک علامت ہے تاکہ ہم انھیں یاد رکھیں، انھیں خراج عقیدت پیش کریں، خود ان کی یاد کو اہمیت دینا چاہیے، یاد بہت اہم چیز ہے۔ یہ ایک پہلو ہوا۔

ہفتۂ حکومت کا دوسرا پہلو، اس حکومت پر توجہ دینے کا موقع ہے جو برسر اقتدار ہے، یعنی اس حکومت کے مسائل پر توجہ دیں، اس کے بارے میں سوچیں، اس کے بارے میں بات کریں، مضبوط نکات، کمزور نکات، ان پر غور کریں، جو لوگ اہل فکر ہیں وہ ان کے بارے میں سوچیں اور ان سے فائدہ اٹھائيں، یہ بڑی اچھی روایت ہے کہ ہم ہر سال ہفتۂ حکومت مناتے ہیں اور یہ حکومت کے مسائل کے بارے میں غور و فکر کرنے، بات کرنے کا اور فیصلے کرنے کا ایک موقع ہے۔ اس دوسرے پہلو کے بارے میں، ان شاء اللہ میں دو حصوں میں اپنی باتیں اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

ایک، آپ کی بعض توفیقات اور کامیابیوں کی جانب اشارہ ہے یعنی میری نظر میں آپ کو حاصل ہونے والی جو واقعی توفیقات ہیں اور یہ ان پریکٹیکل اور آپریشنل ورک رپورٹس کے علاوہ ہیں جو بعض حضرات نے پیش کیں اور جن میں سے بعض واقعی بہت اہم ہیں، آپ کی توفیقات کے سلسلے میں میری جو نظر ہے، اسے میں عرض کروں گا۔ دوسرا حصہ کچھ سفارشات پر مبنی ہے جو آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔

تو جہاں تک توفیقات اور کامیابیوں کی بات ہے، میرے خیال میں اس حکومت کی سب سے بڑی توفیق اور کامیابی، لوگوں میں امید اور اعتماد کو زندہ کرنا ہے، یہ آپ کی سب سے بڑی توفیق ہے۔ حکومت کی مجموعی کارکردگي نے – چاہے محترم صدر مملکت ہوں، چاہے مختلف شعبوں کے عہدیدار ہوں – عوام کو یہ احساس دلایا ہے کہ حکومت میدان کے بیچ میں ہے، کام کرنے میں مصروف ہے، کوشش کر رہی ہے، ان کی خدمت کر رہی ہے، ان تک خدمت رسانی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے عوام کی امید کو، عوام کے اعتماد کو بڑی حد تک بحال کیا ہے۔ بعض معاملوں میں تو ان کوششوں کے واضح نتائج بھی سامنے آئے ہیں جنھیں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جیسے علاج معالجے کا شعبہ اور کچھ دوسرے شعبے؛ سفارتکاری کا شعبہ، بعض ثقافتی شعبے وغیرہ، ان میں واضح اور قابل مشاہدہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ بعض دیگر میں بھی نتیجے سامنے آئے ہیں لیکن عوام کو یہ نتیجے دکھانے ہوں گے۔ یہ وہ بات ہے جو میں نے پہلے کہی، کچھ نتائج نکلے تھے لیکن انھیں عوام کو بتانا چاہیے کہ یہ نتائج حاصل ہوئے ہیں، یہ کام ہوا ہے۔ کچھ کاموں کے ابھی نتائج نہیں نکلے ہیں اور کوششیں ہو رہی ہیں لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ کام کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ آپ کی سب سے بڑی توفیق اور کامیابی ہے۔

ایک دوسری توفیق جو آپ کو حاصل ہوئی ہے وہ، یہ صوبائي دورے ہیں۔ یہ بہت ہی درخشاں کام ہے، ایک اہم عمل ہے۔ گيارہ مہینے میں پورے ملک میں، محروم اور دور افتادہ علاقوں تک کے اکتیس دورے انجام پائيں، عوام کے ساتھ سچی یکجہتی کے بے نظیر مناظر دکھائی دیں، عوام کے مختلف مسائل کے سلسلے میں زمینی نگرانی نظر آئے، یہ بہت اہم چیز ہے، میں اپنی سفارشات میں اس سلسلے میں مزید کچھ باتیں عرض کروں گا۔

آپ کو جو ایک دوسری توفیق حاصل ہوئي وہ، سیلاب اور ديگر حادثات جیسے ناگہانی آفتوں کے سلسلے میں تیزی سے کام کرنا ہے۔ کاموں میں یہ سرعت بہت اہم چیز ہے۔ کہیں پر زلزلہ آ جائے، سیلاب آ جائے اور ذمہ داران اور عہدیداران تیزی سے وہاں پہنچ جائيں، نگرانی کریں اور اپنی نگرانی میں کام کروائيں، یہ بڑی گرانقدر چیز ہے۔ محترم صدر مملکت غیر ملکی دورے(8) سے لوٹے اور بغیر رکے ہوئے فورا سیلاب کے متاثرین سے ملنے کرمان چلے گئے یا محترم وزیر جا کر کئي دنوں تک کسی کام کو اپنی نگرانی میں کرواتے ہیں، یہ سب اہم باتیں ہیں۔ یہ آپ کی توفیقات میں سے ایک ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو عوام سے ہمدردی ہے اور حکومت، میدان میں اتر کر کام کر رہی ہے، یہ بھی ایک توفیق ہے۔ یہ جو باتیں میں توفیقات کے عنوان سے عرض کر رہا ہوں، یہ صرف آپ کی تعریف نہیں ہے، بلکہ جو بات میرے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے جانے نہ دیجیے، خیال رکھیے کہ کام کا یہ طریقہ ہاتھ سے نہ جانے پائے، اس کی حفاظت کیجیے۔

ایک دوسری توفیق، مختلف اداروں کے درمیان تعلقات کے منفی کمپٹیشن کو ختم کرنا ہے۔ میرے خیال میں یہ چیز، مسائل سے بھی زیادہ اہم ہے۔ یہ کہ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ مسلسل ایک دوسرے سے کمپٹیشن کرتے رہیں اور ایک دوسرے سے گلے، شکوے اور شکایتیں کرتے رہیں، بری چیز ہے، اس سے لوگوں کے ذہن منتشر ہوتے ہیں۔ آج یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام اداروں کے درمیان، افہام و تفہیم اور یکجہتی موجود ہے۔ البتہ یہ حصہ، یہ کام، ان چیزوں میں سے ایک ہے جن کا خیال حکومت کو بھی اور پارلیمنٹ کو بھی رکھنا چاہیے، اسے محفوظ رکھنا چاہیے، اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ہے، جو آپ کے بہت زیادہ کنٹرول میں نہیں ہیں، اکیلے آپ کے یا پارلیمنٹ کے کنٹرول میں نہیں ہے، لوگ آتے ہیں، ہنگامہ کرتے ہیں، فتنے پھیلاتے ہیں۔ آپ کوشش کیجیے کہ یہ یکجہتی اور ہمدلی محفوظ رہے، حکومت بھی خیال رکھے، پارلیمنٹ بھی کوشش کرے اور عدلیہ بھی چوکنا رہے، اس چیز کی حفاظت کیجیے۔

آپ کی ایک اور توفیق ہے ملک کے اجرائي شعبے میں نوجوانوں سے استفادہ کرنا ہے۔ یہ بہت اچھی چیز ہے۔ یہ اس بات کا سبب بنتی ہے کہ منتظمین کی فرسودہ کڑی کھل جائے اور ملک کے اجرائي شعبے میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا آئے، یہ بہت اچھی چیز ہے، اس روش کو باقی رکھیے۔ البتہ میں جانتا ہوں اور دیکھتا ہوں، پہلے بھی جب ہم مسلسل جوانوں کی بات کرتے تھے تو یہ جانتے تھے کہ جوان بھی بعض موقعوں پر غلطیاں کرتے ہیں، حکومت میں بھی اور پارلیمنٹ میں بھی جوانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں، کچھ خطائيں ہیں لیکن یہ کام کرنا ہی ہوگا، ملک کی انتظامیہ یا قانون سازی کا ڈھانچہ، جوان جذبے کے ساتھ چلایا جائے، اسے باقی رکھنا ضروری ہے، اب ہو سکتا ہے کہ کسی مسئلے میں کچھ غلطیاں بھی ہو جائيں۔ یہ غلطیاں ان شاء اللہ تدریجی طور پر دور ہو جائيں گي، اچھے اور مضبوط منتظمین کی تربیت ہوتی رہے گی۔ یہ ایک اور توفیق تھی۔

اس حکومت کی ایک اور توفیق یہ تھی کہ اس نے معاشرے کو منتظر رہنے اور دوسرے ممالک کی آس میں رہنے کی حالت سے باہر نکال دیا۔ معاشرہ اس حالت سے باہر نکل چکا ہے کہ ہم منتظر رہیں اور دیکھیں کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیا فیصلہ کرتے ہیں، کیا کام کرنا چاہتے ہیں؟ ملک کی داخلی گنجائشوں کو اہمیت دی گئي ہے، ان پر بھروسہ کیا گيا ہے، کام انجام پا رہا ہے۔ یہ بات کہ ہمیں ضرور فلاں ملک سے تعلقات استوار کرنے ہوں گے تاکہ ہماری مشکلات ختم ہو جائيں یا فلاں مسئلہ، فلاں جگہ سے دور کیا جائے تاکہ ہماری مشکلات کا حل نکل آئے، یہ چیز ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہے، ملک کے امور کو مشروط کرنا اور دوسروں کے انتظار میں روکے رکھنا، بری چیز ہے جو بحمد اللہ آپ کی حکومت میں بڑی حد تک کم کر دی گئي ہے۔

آپ کی ایک دوسری توفیق یہ ہے کہ حکومت نے بہانے بازی اور اپنی غلطیاں دوسروں کے سر ڈالنے سے پرہیز کیا ہے اور ذمہ دار اور جوابدہ رہی ہے۔ اس عرصے میں ہم نے محترم حکومتی عہدیداروں کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا: "کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے، اختیارات ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں۔" آپ لوگوں سے یہ باتیں ہم نے نہیں سنیں۔ ذمہ داری قبول کرنا اور جوابدہ ہونا بہت اچھی چیز ہے۔ کہتے ہیں: "ہم ہیں، ہمیں کام کرنا چاہیے اور ہم کام کریں گے۔"

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے میدان میں اور اسی طرح ثقافتی میدان میں اچھی سوچ اور اچھی کارکردگی دکھائي دیتی ہے، یہ سوچ، خاص طور پر ثقافتی میدان میں عملی جامہ پہن لے، اس میں تھوڑا فاصلہ ہے لیکن بہرحال یہ سوچ اچھی ہے، اس پر کام کرتے رہنا چاہیے اور یہ آپ کی ایک توفیق ہے۔

انصاف پسندی، اشرافیہ کلچر سے دوری، کمزوروں اور مستضعفوں کی حمایت، سامراج کی مخالفت جیسے انقلاب کے نعروں کا، اسلام کے نعروں کا مزید نمایاں ہوکر سامنے آنا کہ جو انقلاب کے اصلی اور بنیادی نعرے ہیں، یہ زبانوں پر زیادہ نمایاں ہوئے ہیں، زیادہ واضح ہوئے ہیں، یہ بہت اچھی چیز ہے، انھیں جاری رکھیے۔ اپنی ان توفیقات کو جاری رکھنے کی کوشش کیجیے، میں سفارشات میں اس سلسلے میں مزید کچھ باتیں عرض کروں گا۔ تمام شعبوں میں کام کا تسلسل ضروری ہے۔ تو یہ پہلے حصے یعنی آپ کی توفیقات کے حصے سے متعلق باتیں تھیں۔

اب آتے ہیں سفارشات کی طرف، آپ کو میری کچھ سفارشات ہیں۔ پہلی سفارش، جو میں ان کچھ برسوں میں تشکیل پانے والی اکثر حکومتوں کو کرتا رہا ہوں، یہ ہے کہ خدا کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے آپ کو عوام کی خدمت کی نعمت عطا کی ہے۔ آپ ایسی پوزیشن میں ہیں کہ ان اچھے لوگوں، ان مومن لوگوں، اس اسلامی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں، آپ کو یہ موقع ملنا، بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت کا شکر ادا کیجیے۔

اس نعمت کا شکر پہلے مرحلے میں یہ ہے کہ اللہ سے اپنے رابطے کو مضبوط بنائيے؛ دعا کے ذریعے، توسل کے ذریعے، خدا پر توجہ کے ذریعے۔ اللہ سے رابطہ ٹوٹنے نہ دیجیے۔ کوشش کیجیے کہ زیادہ کام اور زیادہ مصروفیت کے بہانے، جو واقعی میں ہے، خدا سے رابطے کے اس حصے کو، اچھی نماز کو، نوافل اور مستحبات کی انجام دہی کو، قرآن مجید کی تلاوت کو اور اسی طرح کی باتوں کو نقصان نہ پہنچے، ایک ضروری شکر یہ بھی ہے۔ ایک دوسرا، لوگوں کے لیے جہادی کوشش ہے، جو بحمد اللہ آپ کر رہے ہیں، اس جہادی کوشش کو جاری رکھیے، ہماری پہلی سفارش یہ ہے: نعمت کا شکر۔

میری دوسری سفارش یہ ہے کہ کام کو – یعنی ان ہی کاموں کو جو آپ کر رہے ہیں – اللہ (کی خوشنودی) کی نیت سے انجام دیجیے۔ دکھاوا – تاکہ لوگ جانیں، لوگ دیکھیں، لوگ ہماری تعریف کریں – کام کی برکت ختم کر دیتا ہے۔ جب آپ نے اخلاص کے ساتھ کام کیا، فَمَن کانَ یَرجوا لِقاءَ رَبِّہِ فَلیَعمَل عَمَلاً صالِحاً وَ لا یُشرِک بِعِبادَۃِ رَبِّہِ اَحَدًا (9) تو کسی کو بھی خدا کے ساتھ شریک نہ کیجیے، کام کو صرف خدا کے لیے انجام دیجیے۔ لوگوں کی خدمت، ایسا کام ہے جسے خداوند عالم پسند کرتا ہے، کہیے کہ خدایا! میں تیری خوشنودی کے لیے یہ کام، جو لوگوں کی خدمت ہے، انجام دے رہا ہوں۔ کام کو اخلاص کے ساتھ انجام دیجیے، اس سے آپ کے کام میں برکت ہوگي۔

البتہ یہ جو ہم نے اخلاص کی بات کی، یہ لوگوں تک اطلاع پہنچانے کے منافی نہیں ہے، جو کام ہوئے ہیں، ان سے لوگوں کو مطلع کرنا، اخلاص کے منافی نہیں ہے۔ روایت میں ہے کہ اس میں کوئي حرج نہیں ہے کہ کوئي یہ چاہے کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ اچھا کام کر رہا ہے – اس سلسلے میں معتبر روایت موجود ہے – لوگوں تک اپنے کام کی خبر پہنچائيے۔ اس اطلاع رسانی سے لوگوں کی امید اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن کام خدا کے لیے ہونا چاہیے۔

تیسری سفارش، لوگوں کے درمیان جانے کی ہے۔ اسے ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ بعض لوگ ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کام کو مختلف طرح کے نام دیتے ہیں، میں انھیں دوہرانا نہیں چاہتا، اس طرح کے حربوں سے نہ گھبرائيے، جائيے اور لوگوں سے براہ راست بات کیجیے، ان کی باتیں سنیے، حلم کا مظاہرہ کیجیے۔ کبھی انسان تھک جاتا ہے – یہ بات خود میرے تجربات میں بھی شامل ہے – کبھی انسان واقعی تھک جاتا ہے لیکن تحمل سے کام لیجیے، صبر کیجیے۔ لوگوں کے درمیان صدر مملکت کی براہ راست اور بھرپور موجودگي کی بہت سی برکات ہیں، بڑے اچھے اثرات ہیں، دیگر حکومتی عہدیداروں کی موجودگي بھی اسی طرح کی ہے۔

البتہ آپ اپنی حکومت کو "عوامی حکومت" کہتے ہیں؛ عوامی حکومت صرف یہ نہیں ہے کہ آپ عوام کے درمیان چلے جائيں۔ بے شک یہ کام ضروری ہے لیکن کافی نہیں ہے، آپ کو مختلف کاموں اور الگ الگ شعبوں میں عوامی مشارکت کو یقینی بنانا چاہیے۔ میں نے ایک بار پہلے بھی کہا ہے، بظاہر آپ لوگوں کے درمیان ہی کہا تھا(10) کہ بیٹھیے، عوامی مشارکت کو یقینی بنانے کے لیے پروگرام تیار کیجیے، بتائيے کہ کس طرح عوامی مشارکت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ چاہے وہ مالی اور معاشی میدانوں میں ہو اور چاہے سیاسی میدان میں ہو، کس طرح سے عوام کی رائے اور عوام کے نظریے سے مختلف شعبوں میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی رابطوں وغیرہ سے ہمارے پاس جو خطوط آتے ہیں، ان میں کبھی کبھی بعض ایسی تجاویز ہوتی ہیں جو بہت اچھی ہوتی ہیں، ایک انسان، جسے ہم بالکل بھی نہیں پہچانتے کہ وہ کون ہے، کسی معاملے میں اس کی کوئي تجویز ہے، رائے ہے، وہ اپنی رائے پیش کرتا ہے اور کبھی کبھی وہ رائے ایک بند گلی کو کھول دیتی ہے۔ آپ دیکھیے کہ ہم ان سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں۔

ہماری اگلی سفارش، وعدوں پر عمل کے سلسلے میں ہے، اسے نماز کی طرح ایک فریضہ سمجھیے۔ اگر کسی کام کے بارے میں آپ کو شک ہو کہ اسے کیا جا سکتا ہے یا نہیں تو بالکل بھی اس کا وعدہ مت کیجیے۔ اس چیز کا وعدہ کیجیے جس کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ اسے انجام دے سکتے ہیں اور ضرور اسے انجام دیجیے۔ جس طرح سے لوگوں کے درمیان جانا اور لوگوں کے لیے کام کرنا، امید پیدا کرتا ہے، اعتماد پیدا کرتا ہے، وعدے پر عمل نہ کرنا ٹھیک اس کے برخلاف ہے: لوگوں کو مایوس کرتا ہے، یہاں تک کہ کسی دوسری جگہ آپ جو زحمت کر رہے ہیں اس کے بارے میں بھی لوگوں کو شک میں مبتلا کر دیتا ہے۔ آپ کسی چیز کا وعدہ کریں کہ ہم یہ کام آپ کے شہر میں، آپ کی اس جگہ پر انجام دیں گے اور بعد میں وہ کام نتیجے تک نہ پہنچے، آپ اسے انجام نہ دے سکیں اور انجام نہ دیں، ہاں کبھی کوئي اضطراری صورت پیش آ سکتی ہے، ایسے موقعوں پر آپ جا کر لوگوں کو بتائیے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے لیکن بنیاد اس پر نہ رکھیے کہ ہم نہیں کریں گے اور لوگوں کے سامنے وضاحت کر دیں گے، یہ اصل چیز نہیں ہے، اصل چیز وعدے پر عمل کرنا ہے، اس وعدے کو عملی جامہ پہنانا ہے جو ضرور انجام پانا چاہیے۔ ہم بھی جانتے ہیں اور خود آپ بھی جانتے ہیں کہ عالمی سامراج اور سامراج کے پٹھوؤں وغیرہ کے درمیان دشمن کا ایک وسیع محاذ، اسلامی جمہوری نظام کے مد مقابل موجود ہے اور فی الوقت آپ کے مقابلے میں ہے کیونکہ اجرائي امور آپ کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ لوگ آپ کی معمولی سی وعدہ خلافی سے بھی غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور زبردست پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔ انھیں پتہ بھی ہے کہ کس طرح پروپیگنڈہ کرنا اور عوام کے اعتماد کو چوٹ پہنچانا ہے، آپ کے ساتھ عوام کے تعاون کو نقصان پہنچانا ہے۔ بنابریں ایسے وعدے نہ کیجیے جنھیں پورا نہ کیا جا سکتا ہو اور جو وعدے آپ کرتے ہیں، انھیں ضرور پورا کیجیے۔

اگلی سفارش: چوکنا رہیے کہ روزمرہ کے کام آپ کو اپنے اندر الجھا نہ لیں! ملک کے تمام مسائل کے بارے میں حکومت کے سامنے ایک بنیادی آپریشنل پروگرام ہونا چاہیے - یقینا موجود ہی ہوگا - کام کو پروگرام کی بنیاد پر آگے بڑھائيے، بنیادی روڈ میپ کی اساس پر آگے بڑھائيے، ایسا کیجیے کہ آپ کے مخالفین نہ کہہ سکیں کہ حکومت کے پاس کوئي بنیادی پروگرام ہی نہیں ہے۔ واقعی ایک واضح بنیادی پروگرام، جو عوام کے سامنے واضح انداز میں پیش کیا جا سکے، ملک کے بڑے مسائل کے سلسلے میں آپ کے سامنے موجود ہونا چاہیے اور اسی پروگرام کی بنیاد پر آگے بڑھیے۔ اگر ایسا ہو گيا تو پھر روزمرہ کے جو کام ہیں وہ بھی اپنی جگہ آ جائيں گے۔ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ "روزمرہ کے کاموں میں غرق نہ ہو جائيے" اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر مثال کے طور پر آبادان کا معاملہ(11) پیش آ جائے تو آپ اس پر کام نہ کیجیے۔ نہیں! کیجیے! سیلاب اور دوسرے مختلف مسائل میں ضرور کیجیے! ناگہانی اور اچانک پیش آ جانے والے کاموں تک ضرور اپنے آپ کو پہنچائيے لیکن یہ آپ کو اپنے میں غرق نہ کریں، کام کو پروگرام کے ساتھ انجام دیجیے، آپ کی اصل توجہ، بنیادی پروگرام اور جامع روڈ میپ پر ہونی چاہیے۔ یہ بھی ایک سفارش ہے۔

ہماری اگلی سفارش یہ ہے کہ ترجیحات کو مدنظر رکھیے، بہرحال حکومت کی استطاعت محدود ہے، سارے کام تو نہیں کیے جا سکتے، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ترجیحی کام کون سے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ "ترجیح" کا کیا مطلب ہے؟ ترجیح کو بھی بنیادی عناوین میں تلاش کیجیے -  مثال کے طور پر معیشت کے نام سے ہمارا کلیدی عنوان ہے، علم کے نام سے ایک کلیدی عنوان ہے، سیکورٹی کے نام سے ایک کلیدی عنوان ہے، سماجی مسائل کے نام سے ایک کلیدی عنوان ہے، کلچر کے نام سے ایک کلیدی عنوان ہے، یہ سب بنیادی اور اصلی عناوین ہیں - میرے خیال میں اس وقت پہلی ترجیح معیشت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے کام انجام نہ دیے جائيں! کیوں نہیں! دوسرے کام بھی کرنے چاہیے لیکن زیادہ تر توجہ معاشی مسائل پر ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔

خیر تو جب ترجیح کے عناوین طے ہو گئے، تو ہر کلیدی عنوان کے تحت جو چیزیں آتی ہیں، خود ان کے اندر بھی ترجیحات پائي جاتی ہیں، مثال کے طور پر معیشت کے باب میں ترجیح کیا ہے؟ کلچر کے سلسلے میں ترجیح کیا ہے؟ ان سب میں ہمیں ترجیحات کا خیال رکھنا چاہیے۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ میرے خیال میں آج اصل مسئلہ اور ترجیحی مسئلہ، معیشت کا مسئلہ ہے۔ البتہ یہ آج کی بات ہے۔ کب تک؟ یہ نہیں معلوم، ایک خاص وقت تک۔ معیشت کے مسئلے پر پوری سنجیدگي سے کام کیجیے، البتہ ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے، یعنی آپ جو بھی معاشی کام کریں، اس کے ساتھ کلچرل اٹیچمینٹ ضرور ہونا چاہیے اور یہ لازمی چیزوں میں سے ایک ہے۔ اب فرض کیجیے کہ سفارتکاری کا مسئلہ، کلچر کا مسئلہ اور دوسرے مسائل بھی ہیں اور انھیں بھی ضرور انجام دیجیے۔

اب معیشت کے مسئلے کے ذیل میں دو تین نکات ہیں، جنھیں میں عرض کرتا ہوں:

ایک مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں معیشت کے تمام اصلی منتظمین کو پوری یکجہتی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ البتہ یہ بات جناب صدر کی تقریر میں تھی کہ ہم بیٹھتے ہیں اور اگر کوئي اختلاف رائے ہوتا بھی ہے تو ہم کسی ایک پوائنٹ پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر سب اسی پوائنٹ پر کام کرتے ہیں۔ میں بھی اسی کی تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ باتیں اس کے برخلاف دکھائي دیتی ہیں، اس بات کی ضرور کوشش کیجیے کہ مختلف معاشی مسائل میں کسی ایک رائے تک پہنچیے۔ اگر ایک رائے تک نہیں پہنچ سکے تو اس رائے پر عمل کیجیے جسے ترجیح حاصل ہو، دوسرے بھی اسی رائے کو مضبوط بنائیں۔ ایسا نہ ہو کہ معیشت کے شعبے کا کوئي عہدیدار - چاہے معیشت کے اسٹاف مینیجمینٹ کا عہدیدار ہو یا آپریشنل عہدیدار ہو - ایک بات کہے اور دوسرا کوئي اور بات کہے۔ مثال کے طور پر ترجیحی زر مبادلہ کو ختم کرنے کے مسئلے میں کوئي کچھ کہے، کوئي کچھ کہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، سبھی کو ایک بات کرنی چاہیے، سبھی کو ایک نظریے کے مطابق چلنا چاہیے۔

دوسرے یہ کہ، جیسا کہ میں نے کہا، خود معیشت میں ترجیحات طے ہونی چاہیے، اس کے بارے میں آگے چل کر میں ایک بات عرض کروں گا۔

معیشت کے مسئلے میں تیسری بات یہ ہے کہ معیشت میں کچھ بنیادی نکات پائے جاتے ہیں، جن پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ خود صدر محترم ان اصل نکات پر، جنھیں میں عرض کروں گا، پوری توجہ دیں، سوال کریں، رپورٹ مانگیں تاکہ پیشرفت کو دیکھ سکیں۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ بنیادی انڈیکس، جیسے افراط زر کا ریٹ اور افراط زر میں اضافہ ان مسائل میں شامل ہونا چاہیے جو ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہیں۔ یا اقتصادی پیشرفت، پروگراموں میں معاشی و اقتصادی پیشرفت کے لیے ایک ٹارگٹ طے کر لیا گيا ہے، ہم اس آٹھ کے عدد کی تاکید کرتے ہیں۔ تو اس پر مسلسل نظر رکھنی چاہیے۔ یا سرمایہ کاری میں اضافے کا مسئلہ ہے، ہم سرمایہ کاری کے لحاظ سے کافی پیچھے ہیں، واقعی بہت پیچھے ہیں۔ سرمایہ کاری پر توجہ اور اسے اہمیت نہ دینے کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہو گئي ہیں، زیادہ تر صنعت کے شعبے میں، زراعت کے شعبے میں بھی ایسا ہی ہے۔ یا پھر روزگار میں اضافے، یا فی کس سالانہ آمدنی میں اضافے یا طبقاتی فاصلوں کو ختم کرنے کا مسئلہ۔ آپ کی رپورٹوں میں جو بہت ہی اہم چیزیں تھیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ فاصلہ کم ہوا ہے - جینی تناسب (Gini coefficient) کے نشان کے ساتھ - اسے جاری رہنا چاہیے، اس پر کام جاری رہنا چاہیے، اس پر روزانہ کی بنیاد پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اگر ان ہیڈ لائنز اور ان اصل انڈیکس پر پوری گہرائی سے اور لگاتار توجہ نہ دی گئي تو یہ بھلا دیے جائيں گے اور پھر ہم دیکھیں گے کہ مثال کے طور پر افراط زر یا  پھر سرمایہ کاری وغیرہ کے معاملے میں ہم پچھڑ گئے ہیں۔ یہ ایک نکتہ تھا۔

ایک دوسرا نکتہ، پیداوار کے مسئلے کے بارے میں ہے جس کی طرف حضرات نے اشارہ کیا، میں بھی برسوں سے کہہ رہا ہوں۔ معاشی پیشرفت کے لیے ہماری سب سے بڑی اور ترجیح، پیداوار ہے۔ مطلب یہ کہ عوام کی معیشت، روزگار، طاقت خرید ( Purchasing power) اور اقتصادیات کے دوسرے گوناگوں مسائل، سب ملکی پیداوار پر منحصر ہیں اور اسی لیے اسے بہت زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔ ہر اس چیز سے مقابلہ کیا جانا چاہیے جو پیداوار کو کمزور کرے، ہر اس چیز سے سنجیدگي سے مقابلہ کرنا چاہیے جو ملکی پیداوار کو گھٹنوں پر لے آتی ہے اور اسے شکست دیتی ہے، پوری سنجیدگي سے مقابلہ کیجیے، چاہے صنعت میں ہو یا زراعت میں۔

زراعت کے مسئلے میں، فوڈ سیکورٹی کے موضوع کی بہت اہمیت ہے۔ آپ دنیا کے آج کے حالات پر ایک نظر ڈالیے، دنیا کے کسی گوشے میں کوئي جنگ ہوئي ہے(12) اور فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ پوری دنیا میں سامنے آ گیا ہے، مطلب یہ کہ فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ اتنا اہم ہے۔ ہم جو ہمیشہ گیہوں میں خودکفیلی، مکئي میں خودکفیلی، چارے میں خودکفیلی پر تاکید کیا کرتے تھے، بعض لوگ تھے جو ماہر کی حیثیت سے کہتے تھے کہ صنعت پر کام کرنا چاہیے! ٹھیک ہے، ہم صنعت کے مخالف تو ہیں نہیں، ہم تو دوسروں سے زیادہ اس بات کے لیے کوشاں تھے کہ ملک کی صنعت ترقی کرے لیکن فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ، پہلے درجے کا مسئلہ ہے، اس سے غفلت نہیں ہونی چاہیے اور دیکھ لیجیے آج دنیا میں یہ بات پوری طرح سے واضح ہو گئي ہے کہ یہ مسئلہ کتنا اہم ہے۔

صنعتی پیداوار اور صنعت کے شعبے میں ایک بڑی مشکل - میں اس نمائش میں کارکردگيوں کی رپورٹ دیکھ رہا تھا، تو وہاں جو لوگ موجود تھے، ان سے میں نے کہا بھی کہ - ورکنگ کیپیٹل کی کمی ہے۔ لوگ اس مشکل کی شکایت کرتے ہیں، یہ بینکوں کی ذمہ داری ہے، بینکوں کو چاہیے کہ پیداواری یونٹوں کو ورکنگ کیپیٹل کے لحاظ سے تنگي میں نہ آنے دیں۔ کبھی رزرو بینک بجا طور پر اور بر وقت کچھ سختیاں کرتا ہے اور بیلینس اور بیلینس شیٹ وغیرہ کے سلسلے میں کچھ سختیاں کرتا ہے، یہ سب ٹھیک ہے اور بینکوں کے لیے اس طرح کی پابندیاں ضروری ہیں لیکن ان پابندیوں کو بینکوں کے غیر پروڈکشن کاموں کی طرف لے جائيے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، بینکوں کے کچھ کام ہیں جو غیر پروڈکشن والے ہیں، زمین خرید لو، سونے کے سکے خرید لو، اس طرح کے بہت سے کام ہیں۔ ان پابندیوں کو اس طرف لے جائيے، خیال رکھیے کہ بینکوں کی سہولیات، پروڈکشن یونٹس کو نقصان نہ پہنچائيں، پروڈکشن یونٹس، بینکوں کی ان ہی سہولیات پر منحصر ہیں۔ یہ ایک اور نکتہ تھا۔

ہم نے عرض کیا کہ اقتصادی پروگراموں میں کچھ ترجیحات پائي جاتی ہیں، بعض کا ذکر کیا گيا، مثال کے طور پر رہائش، ترجیحات میں سے ایک ہے۔ ہاؤسنگ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہاؤسنگ کے شعبے میں کام خود ہی روزگار پیدا کرتا ہے، ہاؤسنگ کے شعبے کے ماہر افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے اس سے روزگار فراہم ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہاؤسنگ کے مسئلے میں ہم دوسروں پر منحصر نہیں ہیں، زمین ہماری خود کی ہے، مسالے ہمارے ہی ہیں، ڈیزائننگ وغیرہ بھی ہماری ہے۔ بنابریں رہائش اور ہاؤسنگ کے مسئلے پر پوری توجہ دی جانی چاہیے۔ اس معاملے میں ہم بہت پیچھے ہیں، اس کے نتائج بھی آپ دیکھ ہی رے ہیں۔ گھروں کی قیمت اور کرائے آسمان چھو رہے ہیں، لوگ واقعی بہت پریشانی میں ہیں۔ معاشی اور اقتصادی مسائل میں ایک حتمی ترجیح، ہاؤسنگ کا شعبہ ہے۔

اینرجی کے شعبے میں، یہ پیٹرو ریفائنریز جن کے بارے میں، میں پچھلی حکومت کے زمانے سے لگاتار سفارش کر رہا تھا(13) یہ ان اہم کامون میں سے ایک ہے، البتہ مجھے اطلاع ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں بھی کام شروع کر دیا ہے لیکن اس مسئلے پر سنجیدگي سے مسلسل کام کرتے رہیے، یہ بہت اہم ہے۔

کانکنی کے شعبے میں - کانکنی کے شعبے میں بھی ہم بہت پیچھے ہیں - معدنیات کی ایڈیڈ ویلیو کے اس سرکل کو مکمل کیجیے۔ ایک معاملے میں مختلف برسوں میں میرے پاس متعدد رپورٹیں آتی تھیں جنھیں میں حکومتوں کے پاس بھیج دیتا تھا، عہدیداروں کے پاس بھیج دیتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانکنی کے مسئلے میں بہت صحیح کام نہیں ہوا ہے، کام ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس بہترین اور طرح طرح کی کانیں ہیں، کانیں ان چھوئي پڑی ہوئي ہیں یا پھر ان میں سے نکلنے والی معدنیات کو خام شکل میں برآمد کر دیا گيا۔ دوسرے یہاں سے پتھر لے گئے، ان پر کام کیا اور پھر اسی پتھر کو کئي گنا زیادہ قیمت میں یہیں لا کر ہمیں ہی بیچ دیا! وہ پتھر جو بعض عمارتوں میں استعمال ہوتے ہیں، کبھی کبھی وہی ہوتے ہیں، جنھیں یہیں سے - مثال کے طور پر کرمان کی پتھر کی کانوں سے جو بہت زبردست ہے، اٹلی لے جایا گيا، ان پر کام کیا گيا، انھیں تیار کیا گيا اور پھر ہم نے وہی پتھر جا کر کئي گنا قیمت پر خریدے اور لا کر اپنی عمارتوں میں استعمال کیے۔ کانکنی کا مسئلہ بھی ترجیحات میں سے ایک ہے۔

اسی طرح نقل و حمل کے شعبے میں، ٹرانزٹ روٹس جیسے حیاتی راستوں کی تکمیل - یہی شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کے کوریڈورز کی جو بات ہے - بہت اہم ہے۔ ہمارے ملک کی پوزیشن ماضی سے ہی ایک غیر معمولی رابطہ پوزیشن کے طور جانی جاتی رہی ہے، شمال اور جنوب کے رابطے کے لحاظ سے بھی اور مشرق و مغرب کے رابطے کے لحاظ سے بھی واقعی ایک غیر معمولی پوزیشن ہے۔ مطلب یہ کہ انسان جب دنیا کے نقشے کو دیکھتا ہے تو ہمارا ملک اس لحاظ سے، ممتاز مقامات میں سے ایک  نظر آتا ہے۔ بنابریں ٹرانزٹ راستے بھی، رابطہ کوریڈورز بھی اور ملکی رابطہ سڑکوں اور ملکی نقل و حمل کے راستے بھی اہم چیزوں میں شامل ہیں۔

ایک اور مسئلہ جو معاشی شعبے کی اہم ترجیحات میں شامل ہے، سمندروں اور آبی راستوں کا مسئلہ ہے، جسے موصوف (14) نے بھی بیان کیا۔ میں کئي سال سے سمندروں کے مسئلے پر تاکید کر رہا ہوں۔ کچھ چھوٹے موٹے کام ہوئے بھی ہیں لیکن جس طرح سے کام ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا ہے۔ سمندر بہت اہم ہے، خود سمندر، سمندر کا پانی، سمندری اشیاء، بندرگاہیں، سمندر کے اطراف میں تیار کیے جانے کے لائق رہائشی علاقے۔ سمندر، ملک کے لیے ثروت کا ایک غیر معمولی ذریعہ اور منبع ہے۔ ہمارے ملک کے شمال میں بھی سمندر ہے، جنوب میں بھی آزاد سمندر ہیں اور یہ ہمارے ملک کے بڑے امتیازات میں سے ایک ہے۔ ہمیں اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

اگر میں خلاصے کے طور پر عرض کرنا چاہوں تو معاشی اور غیر معاشی مسائل کے بارے میں میری سفارش یہ ہے کہ ملک میں پائي جانے والی عظیم فطری اور انسانی توانائیوں کو ضائع نہ ہونے دیجیے۔ مخبر صاحب صحیح کہہ رہے ہیں کہ کچھ ایسے شعبے ہیں جو اکیلے ہی پورے ملک کو سنبھال سکتے ہیں، واقعی یہ ہماری ان ہی عظیم قومی ثروتوں کا حصہ ہیں، انھیں ضا‏ئع نہ جانے دیجیے۔

جن چیزوں پر میں ہمیشہ زور دیتا ہوں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کام کو ادھورا نہ رہنے دیجیے۔ بہت سے موقعوں پر جب ہم جوش میں ہوتے ہیں تو کسی کام کو بڑے اشتیاق سے شروع کرتے ہیں، کئي قدم آگے بڑھتے ہیں پھر بتدریج دھیمے پڑ جاتے ہیں اور کام ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس سے ڈریے اور کاموں کو ادھورا نہ رہنے دیجیے۔ البتہ کچھ مسائل، ماضی کی باقی ماندہ مشکلات کے ڈھیر لگے ہونے کی وجہ سے ہیں، ان مشکلات کو دور کرنا سخت اور وقت طلب کام ہے، تحمل سے کام لیجیے، صبر و استقامت سے کام لیجیے۔ ان شاء اللہ ایک جہادی اقدام کے تحت ان سب کو انجام دیجیے۔ المختصر یہ کہ اگر یہ کام، جن کا ذکر کیا گيا، انجام پا گئے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ تیرہویں حکومت، پوری طرح سے ایک کارآمد، فعال اور عوام کی زندگي کی مشکلات کو دور کرنے والی حکومت ہوگي، آپ خدا کی بھی خوشنودی حاصل کریں گے اور ان شاء اللہ عوام کو بھی راضی کر لیں گے۔

یہ وہ باتیں تھیں جنھیں میں اجمالی طور پر عرض کرنا چاہتا تھا۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو توفیق عطا کرے، میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں، ہمیشہ دعا کرتا ہوں۔ خداوند عالم، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پاکیزہ روح کو اور ہمارے عزیز شہدا کی پاکیزہ روحوں کو ہم سے راضی رکھے اور ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم ان کے سلسلے میں اور اپنے عزیز عوام کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر بہترین طریقے سے عمل کریں۔

 

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں، جو ہفتۂ حکومت کی مناسبت سے انجام پائي، صدر مملکت حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئيسی، نائب صدر ڈاکٹر محمد مخبر، اجرائي امور میں صدر کے معاون سید صولت مرتضوی، بجٹ اور پروگرامنگ کے شعبے کے سربراہ سید مسعود میر کاظمی اور وزیر توانائي علی اکبر محرابیان نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) سورۂ یس، آیت 11، (اے پیغمبر!) آپ کا ڈرانا تو اسی شخص کے لیے (فائدہ مند) ہے جو ذکر (کتاب خدا) کی پیروی کرے۔

(3) سورۂ انبیاء، آیت 10، بے شک ہم نے تم پر ایک کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا ہی ذکر ہے۔

(4) چودہ جولائي سنہ 1999 کو تہران یونیوسٹی کے طلباء کے درمیان فتنہ پھیلانے کی کوششوں کے ردعمل میں عوام کی زبردست ریلی۔

(5) تیس دسمبر سنہ 2009 کو آشوب پھیلانے کی کارروائيوں کے جواب میں عوام کی پرشکوہ ریلی۔

(6) اصفہان میں اٹھائیس اگست سنہ 2022 کو آيت اللہ محمد علی ناصری کا پرشکوہ جلوس جنازہ۔

(7) اٹھارہ جولائي سنہ 2022 کو تہران کے لوگوں نے عید غدیر کی مناسبت سے ولی عصر اسٹریٹ پر دس کلو میٹر کے علاقے میں ایک جشن کا انعقاد کیا جس میں اندازے کے مطابق تقریبا تیس لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔

(8) صدر مملکت کا دو روزہ دورۂ ماسکو، 19/1/2022

(9) سورۂ کہف، آيت 110، تو جو کوئی اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرتا رہے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔

(10) صدر مملکت اور تیرہویں حکومت کی کابینہ کے ارکان سے پہلی ملاقات میں تقریر، 28/8/2021

(11) پچیس مئي 2022 کو آبادن کے میٹروپول ٹاور کے گرنے کے واقعے کی طرف اشارہ جس میں دسیوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے تھے۔

(12) چوبیس فروری سنہ 2022 سے لے کر اب تک روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے۔

(13) اس ملاقات کے موقع پر حکومت کے مختلف شعبوں کی کارکردگي کے بارے میں ایک نمائش منعقد کی گئي۔

(14) منجملہ، 29/8/2018 کو صدر اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں تقریر

(15) نائب صدر جناب ڈاکٹر محمد مخبر