تقوائے الہی کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اس بات کا خیال رکھے کہ جو کام اس کے لیے ضروری اور واجب ہے، اسے انجام دے اور جو کام اس کے لیے ممنوع ہے، اسے انجام نہ دے۔ اگر لوگوں کو یہ توفیق حاصل ہو جائے کہ اس طرح زندگی گزاریں تو ان کی زندگي، موجودہ زمانے اور ماضی کے زمانے کی اقوام کی زندگي میں آپ جو کچھ  بھی پیشرفت دیکھتے ہیں، اس سے بھی بہتر ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید فرماتا ہے: ولو ان اھل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والارض (اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ سورۂ اعراف، آيت 96) مطلب یہ کہ ایمان اور تقوے کی خاصیت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کا دل آباد ہو جاتا ہے، بلکہ انسانوں کے ہاتھ اور ان کی جیبیں بھی بھر جاتی ہیں، انسانوں کا دسترخوان بھی طرح طرح کی نعمتوں سے بھر جاتا ہے اور ان کے بازو بھی مضبوط ہو جاتے ہیں۔ ایمان اور تقوے کی یہ خصوصیت ہے۔

امام خامنہ ای

30/8/1999