قرآن میں ایک جگہ کہا گيا ہے: "يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّہَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوہُ بُكْرَۃً وَاَصِيلًا" (اے ایمان والو! اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔ سورۂ احزاب، آیہ 41 اور 42) یہ چیز انسان کے دل اور ذہن سے متعلق ہے لیکن ایک دوسری جگہ کہا گيا ہے: "الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّہِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا اَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ" (جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ تو تم شیطان کے حامیوں سے جنگ کرو۔ سورۂ نساء، آیہ 76) یہ بھی ہے۔ یعنی اس "اذکرو اللہ" سے لے کر "فَقَاتِلُوا اَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ" تک کا یہ پورے کا پورا میدان، دین کے دائرہ تصرف میں ہے۔

ایک جگہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خطاب کرتے ہوئے کہا گيا ہے: "قُمِ اللَّيْلَ اِلَّا قَلِيلًا نِّصْفَہُ اَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِيلًا اَوْ زِدْ عَلَيْہِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا" (اے پیغمبر! رات کو (نماز میں) کھڑے رہا کیجیے مگر (پوری رات نہیں بلکہ) تھوڑی رات۔ یعنی آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کر دیجیے یا اس سے کچھ بڑھا دیجیے! اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (اور واضح کر کے) پڑھا کیجیے۔ سورۂ مزمل، آيات 2، 3 اور 4) ایک جگہ پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے کہا گيا ہے: "فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّہِ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ (تو اے پیغمبر آپ اللہ کی راہ میں جہاد کیجیے آپ پر سوائے اپنی ذات کے کوئي ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی اور اہل ایمان کو (جہاد پر) آمادہ کیجیے۔ سورۂ نساء، آیہ 84) مطلب یہ کہ زندگي کے یہ سارے میدان، آدھی رات کی بیداری، اللہ کے حضور گڑگڑانے، توسل، دعا، گریہ اور نماز سے لے کر جہاد اور میدان جنگ میں شرکت تک سب اسی دائرے میں ہیں، پیغمبر کی زندگي بھی یہی دکھاتی ہے۔

امام خامنہ ای

24/10/2021