ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس معاشرے کا کیا حال ہوا جس نے عالم اسلام کے پہلے سربراہ کے نواسے، خلیفۂ مسلمین کے بیٹے، علی ابن ابی طالب کے بیٹے حسین بن علی علیہ السلام کے کٹے ہوئے سر کو اسی شہر میں گھمایا جہاں ان کے پدر بزرگوار مسند خلافت پر بیٹھا کرتے تھے اور کسی پر کوئي اثر نہیں ہوا! ... قرآن مجید نے ہمیں اس کا جواب دیا ہے، وہ فرماتا ہے: "فَخَلَفَ مِن بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّھَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا" (پھر ان کے بعد کچھ وہ ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنھوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی تو وہ عنقریب گمراہی (کے انجام) سے دوچار ہوں گے۔ سورۂ مریم، آیت 59) اس سماجی گمراہی اور انحراف کے دو اہم اسباب ہیں: پہلا، ذکر خدا سے دو ہو جانا جس کا مظہر نماز ہے۔ خدا اور روحانیت کو فراموش کر دینا، روحانیت کو اپنی زندگي سے دور کر دینا اور توجہ، ذکر، دعا، توسل، خدا سے دعا، اللہ پر توکل اور اللہ کے حساب کتاب کو زندگي سے الگ کر دینا۔ دوسرا، "واتبعوا الشھوات" دنیا پرستی، ثروت و دولت اکٹھا کرنے، مال جمع کرنے اور دنیوی لذتیں حاصل کرنے کی فکر میں پڑ جانا، ان باتوں کو اصلی سمجھنا اور حقیقی مقصد کو فراموش کر دینا۔ یہ بنیادی اور بڑا مسئلہ ہے۔

امام خامنہ ای

12/7/1992