حضرت صدیقۂ کبری پر فرشتوں کا درود و سلام اور تہنیت
روحانی پہلو سے دیکھا جائے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو خدا کے ہزاروں مقرب فرشتے ان سے باتیں کرتے تھے، انھیں سلام کرتے تھے، تہنیت پیش کرتے تھے اور وہی باتیں کہتے تھے جو فرشتوں نے پہلے حضرت مریم اطہر سے کہی تھیں، وہ عرض کرتے تھے: یا فاطمۃ ان اللہ اصطفاکِ و طھّرکِ و اصطفاکِ علی نساء العالمین. (اے فاطمہ بلاشبہ اللہ نے آپ کو چن لیا ہے، آپ کو پاکیزہ بنایا ہے اور عالمین کی عورتوں میں سے آپ کو چن لیا ہے۔) (16 جنوری 1990) روایتوں میں بھی ہے کہ حضرت مریم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن حضرت فاطمہ زہرا، تاریخ کے ہر دور کی عورتوں کی سردار ہیں۔ (7 اگست 2004) یہ جوان خاتون، اتنی زیادہ عبادت کرتی تھیں اور نمازیں پڑھتی تھیں کہ آپ کے پائے مبارک میں ورم آ جاتا تھا۔ (15 دسمبر 1992) جوانی کی عمر میں وہ معنوی لحاظ سے ایسے درجے پر پہنچ جاتی ہیں کہ فرشتے ان سے بات کرتے ہیں اور انھیں حقائق کی تعلیم دیتے ہیں، حقائق ان کے سامنے پیش کرتے ہیں، وہ محدثہ ہیں۔ (16 جنوری 1990) دوسری جانب وہ صدیقۂ کبری تھیں۔ صدیق کا کیا مطلب ہے؟ صدیق وہ ہوتا جو، جو کچھ سوچتا اور کہتا ہے، اسے صداقت سے عملی جامہ بھی پہناتا ہے۔ (27 جولائي 2005)
فاطمی جہاد کے متعدد پہلو
جب ہم حضرت فاطمہ زہرا کی عبادت اور ان کے روحانی مقام کی بات کرتے ہیں تو بعض لوگ سوچتے ہیں کہ وہ انسان جو عبادت کر رہا ہے اور ایک عابد، محراب عبادت میں گریہ کرنے والا، دعائيں مانگنے والا اور اذکار پڑھنے والا ہے، ایک سیاسی انسان نہیں ہو سکتا، یا بعض لوگ سوچتے ہیں کہ جو سیاست کے میدان میں سرگرم ہے، وہ یہ نہیں کر سکتا، اگر ایک عورت ہے تو خاتون خانہ رہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ سب ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ (13 دسمبر 1989) جبکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ان تینوں چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا۔ (13 دسمبر 1989) اور اگر ہم ان کی زندگي پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ یہ زندگي، جہاد، جدوجہد، کوشش، انقلابی سرگرمیوں، انقلابی صبر، درس، سیکھنے سکھانے، تقریر، نبوت کے دفاع، امامت کے دفاع اور اسلامی نظام کے دفاع کے لحاظ سے جدوجہد اور مجاہدت کا ایک بحر بیکراں ہے۔ (16 جنوری 1990)
ذیل میں ہم ان میں سے بعض پہلوؤں کی تشریح کریں گے:
ولایت کے حق کا عالمانہ دفاع
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد رونما ہونے والے اہم سیاسی واقعات کے سلسلے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تشریح کے جہاد کے پہلو سے حقیقی معنی میں انتھک کوششیں کرنے والی اور زحمت کش مجاہدہ ہیں۔ (13 دسمبر 1989) ان انتہائي دشوار اور خاص افراد تک کے لیے ناقابل بیان حالات میں دختر رسول مسجد میں تشریف لاتی ہیں اور وہ معرکۃ الآرا اور انتہائي حیرت انگيز خطبہ دیتی ہیں اور حقائق بیان کرتی ہیں۔ (19 مارچ 2017) یہ تشریح ایک عالمانہ تشریح ہے۔ اس طرح سے کہ اس خطبے کی تمہید میں ان کی زبان گہربار سے حکمت و معرفت کے چشمے ابلتے ہیں، اس خطبے میں الہی و اسلامی تعلیمات و معارف کو اعلی ترین شکل میں بیان کیا گيا ہے اور وہ ہمارے لیے قابل فہم بھی ہیں۔ (3 جون 2010) یہ ایسا خطبہ ہے کہ علامہ مجلسی کے بقول "سب سے بڑے فصحاء، بلغاء اور دانشوروں کو بیٹھ کر اس کے الفاظ اور جملوں کے معنی بیان کرنا چاہیے!" یہ اتنا پرمغز خطبہ ہے۔ (16 دسمبر 1992)
معاشرے کی قیادت اور ہدایت
سماجی مسائل میں کردار ادا کرنے کے لحاظ سے ہماری روایتوں اور کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس صرف نبوت اور امامت کا عنوان ہی نہیں تھا ورنہ معنوی اور روحانی لحاظ سے رسول اکرم اور امیر المومنین علیہم السلام اور ان کے درمیان کوئي فرق نہیں تھا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ایک جوان خاتون، روحانیت، معرفت اور حکمت کے اعلی ترین مقامات پر پہنچ گئي ہے اور اپنی بات کہنے، سیاسی و سماجی مسائل کے تجزیے، دور اندیشی اور اپنے زمان کے سخت ترین مسائل کا سامنا کرنے کے تعلق سے بلند ترین درجے پر فائز ہے۔ (29 نومبر 1993) بنابریں پورے یقین اور قطعیت سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر فاطمہ زہرا مرد ہوتیں تو پیغمبر ہوتیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے، بہت متحیر کن بات ہے۔ یعنی ایک مکمل رہبر، مکمل رہنما، ایک پیغمبر کی طرح، عام انسانوں کے ایک ہادی کی طرح۔ (19 مارچ 2017)
جدوجہد میں والد اور شوہر کی مددگار
خواتین کے جہاد اور گھرانے کی مجاہدت کے پہلو سے بھی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بے نظیر ہیں، مثال کے طور پر شعب ابو طالب کے واقعے میں اس بچی نے، پیغمبر کے لیے نجات کے ایک فرشتے کی طرح، اپنے والد کے لیے ایک ماں کی طرح، اس عظیم انسان کے لیے ایک عظیم تیماردار کی طرح مصائب کو برداشت کیا، رسول کی غم گسار بن گئيں۔ (16 دسمبر 1992) اس کے بعد اور حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجۂ کبری کی وفات کے بعد پیغمبر بالکل اکیلے ہیں، فاطمہ زہرا، یہ کچھ سال کی بچی وہ واحد فرد ہے جس سے پیغمبر اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ "فاطمۃ ام ابیھا" کا جملہ، اسی وقت کا ہے۔ (20 ستمبر 1994) اس کے مقابلے میں جب ایک آیت نازل ہوئي اور مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ پیغمبر کو 'یا رسول اللہ' کہہ کر مخاطب کریں تو جب پیغمبر اکرم اپنے گھر پہنچے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے آکر انھیں سلام کیا اور کہا کہ 'یا رسول اللہ سلام علیکم' تو پیغمبر نے انھیں گلے سے لگایا اور کہا کہ یہ تمھارے لیے نہیں ہے، تم مجھے اے بابا ہی کہو، اس سے مجھے سکون ملتا ہے، اس سے مجھے لذت ملتی ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک حضرت فاطمہ کا مقام ہے، پیار ہے۔ (12 مارچ 1985) اگر شوہر کی بات کی جائے تو کوئي بھی سال بلکہ کوئي بھی چھے مہینہ نہیں گزرا کہ یہ شوہر اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے روانہ نہ ہوا ہو اور میدان جنگ میں نہ گيا ہو اور اس عظیم اور ایثار پیشہ خاتون نے ایک مرد مجاہد، ایک سپاہی اور میدان جنگ کے ایک مستقل کمانڈر کا بخوبی ساتھ نہ دیا ہو۔ (16 جنوری 1990) امیرالمومنین علیہ السلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتے ہیں: انھوں نے ہماری ازدواجی زندگی کے دوران ایک بار بھی مجھے غصہ نہیں دلایا اور ایک بار بھی میری بات سے سرتابی نہیں کی۔ حضرت فاطمہ زہرا، اپنی تمام تر عظمت و جلالت کے ساتھ، گھر کے ماحول میں ایک بیوی اور ایک خاتون ہیں۔ (16 دسمبر 1992)
عوام کو سادہ زندگي گزارنے کی عملی تعلیم
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے جہاد کا ایک مصداق یہ تھا کہ وہ اپنے عمل سے معاشرے کو تعلیم دیتی تھیں۔ مثال کے طور پر جب سورۂ 'ہل اتی' نازل ہوا تو انھوں نے اپنی اور اپنے گھر کے سبھی لوگوں کی بھوک برداشت کی اور یتیم، مسکین اور اسیر کی مدد کی (15 فروری 2020) اور معاشرے کو ان اقدار کی جانب متوجہ کرایا۔ اسی طرح جب فتوحات اور مال غنیمت کا راستہ کھل گیا تو بنت رسول نے دنیوی لذتوں، زرق و برق، عیش و آرام اور ان چیزوں کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیا جن کے لیے جوان لڑکیوں اور عورتوں کے دل مچلتے رہتے ہیں۔ (16 دسمبر 1992)
فاطمہ، ہر مسلمان کے لیے نمونۂ عمل
یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خصوصیات ہیں۔ ہمیں انھیں آئيڈیل اور نمونۂ عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اپنے آپ کو ان کے قریب کرنا چاہیے۔ (30 مارچ 2016) انھیں آئيڈیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے راستے پر چلیں۔ ہم بھی درگزر کریں، ایثار کریں، خدا کی اطاعت کریں، عبادت کریں۔ ہم بھی تمام حالات میں حق کو سامنے لانے کی کوشش کریں۔ ہم بھی کسی سے نہ ڈریں۔ کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت فاطمہ اپنے زمانے کے بڑے سماج کے سامنے اکیلے ہی ڈٹ گئيں؟ (26 دسمبر 1991) اسی لیے سیاسی، سماجی اور جہادی پہلوؤں سے حضرت فاطمہ زہرا کی شخصیت ایک ایسی نمایاں اور ممتاز شخصیت ہے جس سے دنیا کی تمام مجاہد، انقلابی، نمایاں اور سیاسی خواتین سبق حاصل کر سکتی ہیں۔ (16 جنوری 1990)
آخری نکتہ یہ ہے کہ اسلام کی اس عظیم خاتون کی زندگي یہ بتاتی ہے کہ مسلمان خاتون سیاست کے میدان میں، کام اور جفاکشی کے میدان میں اترنے کے لیے اور تعلیم، عبادت، شوہرداری اور بچوں کی تربیت کے ساتھ معاشرے میں سرگرم کردار ادا کرنے کے لیے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پیروی کر سکتی ہے۔ (8 دسمبر 1993)