بچپنے سے ہی مکے میں، شعب ابو طالب میں، اپنے والد گرامی کی معاونت و مدد سے لے کر مدینے میں زندگی کے دشوار مراحل میں حضرت امیر المومنین کی ہمراہی تک، جنگوں میں، تنہائي میں، خطروں میں، مادی زندگی کی سختیوں اور مختلف مشکلات میں، پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد حضرت علی کو پیش آنے والے پرمحن دور میں، خواہ وہ مسجد النبی ہو یا علالت کا زمانہ، ہر لمحہ آپ مجاہدت و سعی و کوشش میں مصروف رہیں، ایک مجاہد حکیم کی مانند، ایک مجاہد عارف کی طرح۔ نسوانی فرائض کے نقطۂ نظر سے بھی آپ نے زوجہ اور ماں کا کردار ادا کرنے، بچوں کی تربیت کرنے اور شوہرداری کا ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔ اس با عظمت ہستی کا امیر المومنین علیہ السلام سے جو خطاب نقل کیا گیا ہے وہ امیر المومنین علیہ السلام کے تئیں آپ کی اطاعت شعاری اور خضوع و خشوع کی علامت ہے، اس کے علاوہ بچوں کی تربیت، امام حسن اور امام حسین جیسے بچوں کی تربیت اور حضرت زینب جیسی ہستی کی تربیت یہ ساری چیزیں نسوانی فرائض کی ادائیگی، تربیت اولاد اور نسوانی مہر و محبت کے اعتبار سے ایک نمونہ خاتون کی علامتیں ہیں اور یہ ساری خصوصیات اٹھارہ سال کی عمر میں! ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی، جس میں یہ روحانی و اخلاقی خوبیاں ہوں، جس کا یہ طرز سلوک ہو، وہ کسی بھی معاشرے، کسی بھی تاریخ اور کسی بھی قوم کے لیے قابل فخر اور مایہ ناز ہستی ہے۔
امام خامنہ ای
3/6/2010