بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین.

برادران و خواہران عزیز! انٹرپرینیورز، اقتصادیات میں سرگرم افراد اور موجدین! آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ دوستوں نے یہاں جو باتیں بیان کیں، ان سے واقعی ہم نے بہت استفادہ کیا، بہت اچھے جذبات، مضبوط امیدیں، صاف دکھائي دینے والے کاموں کا ذکر۔ البتہ مجھے حیرت نہیں ہے، اگر میں اپنے جوانوں میں، لوگوں میں، ایمپلائرز میں، انٹرپرینیورز میں اور اپنے محققین میں کوئي نمایاں اور خاص بات دیکھتا ہوں تو مجھے واقعی کوئي حیرت نہیں ہوتی۔ میرے لیے یہ بات واضح ہے کہ ملک کی صلاحیت بہت اعلی ہے اور ہمارا ملک، خداداد قدرتی وسائل کے لحاظ سے بھی ایک غیر معمولی ملک ہے۔ جغرافیائي مسائل، بین الاقوامی اور سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے بھی ہمارا ملک ایک نمایاں اور غیر معمولی ملک ہے، اسی طرح افرادی قوت کے لحاظ سے بھی واقعی ہمارا ملک بڑی نمایاں پوزیشن کا حامل ہے۔ ابھی ایک دوست نے کہا کہ دوسرے، ہماری افراد قوت کو اپنے یہاں لے جا رہے ہیں، ہم کیوں دوسروں کی افرادی قوت کو اپنے یہاں نہ لائیں؟! اس لیے کہ ہمیں ضرورت نہیں ہے، اگر ہم بہت زیادہ کام کریں، کام کرنے کے طریقے سے آشنا ہوں، اپنے افراد کو اپنے پاس رکھیں، انھیں ٹریننگ دیں تو ہمیں باہر سے دوسرے افراد کو یہاں لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

ملک کے مستقبل، قوم کے مستقبل اور ملک کی علمی و سائنسی پیشرفت کے سلسلے میں، میں اپنے ذہن میں اور ذہن و عقل کی آنکھوں کے سامنے جو تصویر دیکھتا ہوں، وہ اس چیز سے کہیں زیادہ ہے جسے عام اندازوں میں بتایا جاتا ہے یا سوچا جاتا ہے، واقعی وہ چیز ان باتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ابھی ایک صاحب نے لکڑی کے سلسلے میں یوکلپٹس کے درخت لگانے کی بات کی، مجھے ایک واقعہ یاد آ گيا۔ میں نے قم میں یوکلپٹس کا درخت دیکھا تھا، تقریبا سیب کے درخت کے جیسا تھا، یوکلپٹس کا درخت، ایک عام درخت کے جتنا بڑا تھا۔ جب ہم ایرانشہر میں تھے تو وہاں سے کچھ میل کی دوری پر بمپور کے قریب ایک باغ تھا، ایک زرعی علاقہ تھا۔ ایک باغ تھا جسے اٹلی والوں نے کئي سال پہلے تجربات وغیرہ کے لیے تیار کیا تھا۔ میں کبھی کبھی اس باغ میں جاتا تھا۔ وہاں میں نے کچھ کافی لمبے درخت دیکھے، پرانے چنار کے درختوں کی طرح، مثال کے طور پر تقریبا پندرہ میٹر لمبے، مجھے حیرت ہوئي کہ یہ کون سا درخت ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ مجھ سے کہا گیا: یوکلپٹس۔ میں نے قم میں ویسا یوکلپٹس دیکھا تھا اور اب یہاں ایسا لمبا یوکلپٹس دیکھ رہا تھا! میں ایرانی قوم کی ترقی و پیشرفت اور ایرانی قوم کی پیشرفت کی صلاحیت اور گنجائش کو، ایرانشہر کے بمپور کے یوکلپٹس اور قم کے یوکلپٹس کے درمیان جو فرق ہے، اس سے تشبیہ دوں گا۔ ہماری صلاحیت بہت اچھی ہے، ہماری توانائياں بہت اچھی ہیں۔

پچھلے سال صنعتکاروں اور معاشی شعبے میں سرگرم افراد کے ساتھ ملاقات میں(2)، پتہ نہیں آپ لوگ اس ملاقات میں تھے یا نہیں، ہم نے کچھ باتیں بیان کی تھیں، کچھ باتیں دوستوں نے بیان کی تھیں جن سے ہم نے استفادہ کیا تھا اور شاید اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے اس سال کے نعرے کا نام یہ رکھا: "نالج بیسڈ اور روزگار فراہم کرنے والا پروڈکشن" یہ شاید پچھلے سال کی ہماری اس نشست میں دوستوں کی باتوں اور خیالات سے کسی حد تک متاثر تھا۔ اس سال، اس نمائش میں، جو دو دن پہلے(3) یہاں لگائي گئي تھی اور میں نے اس کا معائنہ کیا تھا، میں نے دیکھا کہ کافی اچھے کام انجام پائے ہیں، نالج بیسڈ مسائل میں بھی اور روزگار اور کام کے مواقع پیدا کرنے کے سلسلے میں بھی، کافی حد تک اچھے کام ہوئے ہیں۔ آج بھی جن دوستوں نے یہاں اظہار خیال کیا ہے، جن افراد نے یہاں پر بات کی ہے، انھوں نے بھی یہی امید اور یہی خوش خبری دی ہے کہ روزگار پیدا کرنے کا مسئلہ، روزگار کا مسئلہ، علم و سائنس کی پیشرفت اور ملک کی معاشی ترقی و پیشرفت کا مسئلہ اور اسی طرح ملک میں پیداوار کا مسئلہ ایک واضح اور قابل ادراک مسئلہ ہے۔ بلاشبہ اس نشست سے اور پرسوں جو ملاقات ہوئي اور مجھے جو معلومات حاصل ہوئيں ان سے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ رواں ہجری شمسی سال کے اواسط میں، اکانامک انڈیکیٹرز میں پیشرفت بھی ہوئي تھی اور ان انڈیکیٹرز کو، گزشتہ سال کے اواسط کے موازنے کے ساتھ سرکاری اداروں نے جاری کیا ہے۔ اس سے آگے کی جانب گامزن ایک کام کی نشاندہی ہوتی ہے، غیر پیٹرولیم پیداوار میں پیشرفت، تیل اور کانکنی کے شعبے میں ایڈیڈ ویلیو میں پیشرفت، خاص طور پر بڑی کمپنیوں کے پروڈکشن میں چھے اعشاریہ چھے فیصدی کی پیشرفت کا پتہ چلتا ہے جو ایک اچھا عدد ہے۔ اسی طرح مستقل سرمائے کی تشکیل (GFCF) وغیرہ میں پیشرفت، ان سب سے پتہ چلتا ہے کہ ترقی و پیشرفت ہوئي ہے۔

میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ دو باتیں ہیں۔ ایک بات میں یہاں بیٹھے ہوئے محترم عہدیداران خاص طور پر محترم نائب صدر(4) سے، جو یہاں موجود ہیں، اختصار سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ باتیں جو دوستوں نے یہاں بیان کیں، انھیں پوری توجہ کے ساتھ ذہن میں رکھیے۔ یہ صرف رپورٹیں نہیں تھیں، رپورٹ تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ شکوے بھی تھے۔ انھوں نے یہاں پر جو شکوے کیے ہیں وہ تقریبا سبھی میرے خیال میں صحیح ہیں۔ انھوں نے حکومت، عہدیداروں اور مجھ سے توقعات کے عنوان سے جو بھی باتیں بیان کی ہیں، وہ سب صحیح توقعات ہیں۔ آپ لوگ جانتے ہیں، سرکاری عہدیداران جانتے ہیں کہ ان مسائل میں میرا شیوہ، انتظامی مسائل میں مداخلت کرنا نہیں ہے، بلکہ نفاذ پر تاکید ہے۔ جن مسائل کا نام لیا گيا جیسے نینو اور دوسری چیزیں، یہاں تک کہ فوجی مسائل کے بارے میں بھی، جن کی مجھ پر براہ راست ذمہ داری ہے، میں مداخلت نہیں کرتا، میں اصرار کرتا ہوں، راستہ دکھاتا ہوں، پوچھتا رہتا ہوں، سوال کرتا ہوں۔ آپ سے بھی عرض کر رہا ہوں کہ ان دوستوں نے جو باتیں بھی بیان کی ہیں، ان کے لیے ورکنگ گروپ بنائيے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ ایسے کام نہیں ہیں کہ ایک انسان انجام دے سکے، ان کے لیے ورکنگ گروپس کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ہر کام ورکنگ گروپ، اس مرکز، ادارے اور متعلقہ وزارت میں تشکیل پانا چاہیے۔ اس ورکنگ گروپ میں، لازمی طور پر ایسے لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیے جو وہ کام انجام دے رہے ہیں، یہی لوگ جنھوں نے یہاں پر باتیں کی ہیں، یہ لوگ اور دوسرے لوگ بھی ہیں، ان کے خیالات معلوم کیے جائيں، پھر پوچھا جائے، سوال کیا جائے کہ کام کہاں تک پہنچا؟ صحت و سلامتی کے شعبے میں جو باتیں کی گئيں، صنعت کے شعبے کے مسائل کے بارے میں جو رپورٹ دی گئي، تیل کے مسائل کے بارے میں جو باتیں بیان کی گئيں، زراعت کے مسئلے کے بارے میں یہاں کچھ نہیں کہا گيا لیکن وہ بھی بہت اہم، ان سب کے بارے میں کام کیا جانا چاہیے اور کام کیجیے، اگر ان پر سنجیدگي سے کام کیا گيا تو ملک، مطلوبہ پیشرفت تک پہنچ جائے گا۔ میں پیشرفت کے بارے میں کچھ نکات عرض کروں گا۔

ہمیں تیزرفتار اور مسلسل پیشرفت کی ضرورت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پچھڑے ہوئے ہیں۔ سنہ دو ہزار دس کے عشرے میں مختلف وجوہات کی بنا پر معاشی مسائل میں ہم کسی حد تک پچھڑ گئے تھے، تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ اسے صرف مینیجمنٹ کی کمزوری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نہیں، اس کا ایک حصہ بیرونی اور غیر ملکی عناصر سے متعلق ہے، ایک حصہ اندرونی عناصر سے تعلق رکھتا ہے، پابندیوں کے مسئلے کا اثر پڑا، ایک وقت میں تیل کی قیمت میں کمی کا اثر پڑا، ملک کی پوری توجہ ایٹمی مسئلے پر مرکوز ہو جانے کا، جس نے معیشت کو (اغیار کے اقدامات سے) مشروط بنا دیا تھا، اثر پڑا، اسی طرح کے دوسرے کئي مسائل تھے، جو اس سلسلے میں اثرانداز ہوئے، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ایک عشرے تک پچھڑے رہے اور ہمارے یہاں بہت سے منفی انڈیکیٹرز ہیں جو سرکاری اداروں کے ٹھوس اعداد و شمار کی بنیاد پر سامنے آئے ہیں، مطلب یہ کہ یہ صرف دعوی نہیں ہے، اہم شعبوں میں انڈیکیٹرز منفی ہیں جنھیں میں نے نوٹ بھی کیا ہے لیکن میں اس پر وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ فطری طور پر پچھڑے پن کی تلافی، آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک لگاتار اور مسلسل وسط مدتی معاشی پیشرفت کی ضرورت ہے، ہم طویل مدتی نہیں کہتے۔ یعنی ہمیں کم از کم سات، آٹھ، دس سال لگاتار یہ کوشش کرنی ہے، توجہ مبذول رکھنی ہے اور ضروری شرائط کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ میں اس سلسلے میں بھی کچھ نکات بیان کروں گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ساتویں ترقیاتی منصوبے میں انصاف کے ساتھ معاشی پیشرفت کو اولیت دی ہے۔  انصاف و مساوات کا مسئلہ بھی اہم ہے یعنی یہ کہ اگر ہم نے مساوات و انصاف کے بغیر پیشرفت کی تو حقیقت میں ہم نے پیشرفت کی ہی نہیں ہے، پیشرفت مساوات و انصاف کے ساتھ ہونی چاہیے۔ البتہ اس کے راستے اور طریقے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ ناممکن ہو، ایک گنجلک اور مبہم چیز ہو، نہیں، اس کا راستہ موجود ہے۔

ہم نے ساتویں ترقیاتی منصوبے کی پالیسیوں میں پیشرفت کی اوسط شرح آٹھ فیصدی رکھی ہے اور اگر ہم اس منصوبے کی پانچ برس کی مدت میں اوسطا آٹھ فیصدی پیشرفت حاصل کر لیتے ہیں تو میرے خیال میں بہت اچھا کام ہوگا۔ ہمیں اس پیشرفت کی ضرورت ہے، کیوں؟ اس کے اسباب اور وجوہات ہیں۔ میری اس بات کے مخاطَب سبھی لوگ ہیں، حکام اور عہدیداران بھی ہیں، معاشی شعبے میں کام کرنے والے آپ برادران و خواہران عزیز بھی میری اس بات کے مخاطب ہیں۔ یہ پیشرفت سبھی کی مدد سے حاصل ہو سکتی ہے۔

چار اسباب اور چار وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمیں ضرور اس  پیشرفت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں لوگوں کے صاف دکھائی دینے والے معاشی مسائل اور گھرانوں کی آسائش میں دشواریاں پائي جاتی ہیں جو معاشی پیشرفت کے بغیر حل نہیں ہو سکتیں۔ اگر ہم غربت دور کرنا چاہیں، ملک میں گھرانوں کی آسائش کو بڑھانا چاہیں تو یہ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ خود یہی ایک بھرپور وجہ ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، صلاحیت رکھنے والے افراد کی ذمہ داری ہے - چاہے فکری صلاحیت ہو، چاہے مالی توانائي ہو، چاہے مینیجمنٹ کی صلاحیت ہو - سبھی کی ذمہ داری ہے کہ اس کام کو انجام دیں۔ یہ پہلی وجہ ہوئي۔

دوسری وجہ خطے اور دنیا کی معیشت میں ایران کی پوزیشن کو اوپر لانا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آج کی دنیا میں کسی ملک کی پوزیشن، اس کی اقتصادی صورتحال پر بڑی حد تک منحصر ہوتی ہے، جب کسی ملک کی کرنسی کمزور ہو جاتی ہے، اس کے معاشی وسائل کمزور ہو جاتے ہیں تو آج کی دنیا میں اس کی حیثیت اور پوزیشن کمزور ہو جاتی ہے۔ ہمیں خطے اور دنیا میں اپنے ملک کی پوزیشن کو محفوظ رکھنے کے لیے، اس پیشرفت کی ضرورت ہے۔ یہ دوسری وجہ ہوئي۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ملک میں ماہر افرادی قوت کی کثرت ہے۔ بحمد اللہ ملک میں ہمارے افتخارات میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارے پاس ماہر افرادی قوت بکثرت پائي جاتی ہے۔ اسلامی انقلاب کے آغاز میں ہمارے یہاں کالج اور یونیورسٹیوں کے تقریبا ڈیڑھ لاکھ اسٹوڈنٹس تھے، اس وقت دسیوں لاکھ ہیں اور تعلیم مکمل کر چکے دسیوں لاکھ افراد ہیں۔ انھیں روزگار اور نوکری کی ضرورت ہے، انھیں کام چاہیے۔ جی ہاں! جوان ماہر افرادی قوت ایک افتخار ہے لیکن اگر اس کے پاس کام نہ ہو اور وہ بے روزگار رہ جائے تو؟ تو یہ باعث شرمندگی ہے، باعث فخر نہیں ہے۔ پھر ہم بیٹھ کر مسلسل خود سے یہ کہتے رہیں کہ یہ لوگ کیوں ملک سے نکل رہے ہیں، کیوں دوسرے ملک جا رہے ہیں! آپ انھیں کام دیجیے۔ میں نے کچھ دن پہلے، جب اس امام بارگاہ میں ایک نشست تھی(5)، کہا تھا کہ ہمارا وہ تعلیم یافتہ مفید جوان، جو بیرون ملک سے واپس آيا ہے یا اس نے باہر تعلیم حاصل کی ہے یا ملک کے اندر تعلیم حاصل کی ہے، ہم سے دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، پہلی چیز روزگار اور دوسری چیز علمی پیشرفت کے وسائل۔ ہمیں اسے نوکری فراہم کرنی ہی ہوگی۔ ایک بڑی معاشی پیشرفت کے بغیر ہم اتنی بڑی تعداد میں موجود ماہر اور اسکلڈ جوانوں کے لیے روزگار پیدا نہیں کر سکتے۔ یہ تیسری وجہ ہوئي۔

چوتھی وجہ یہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں بہت زیادہ نوجوان ہیں لیکن کیا کل بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں گے؟ واضح نہیں ہے۔ جو صورتحال میں دیکھ رہا ہوں، ہماری اتنی زیادہ تاکید کے باوجود جو نتیجے ہیں وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں، ممکن ہے کہ کل ہمارے یہاں اتنی تعداد میں نوجوان نہ ہوں، ہمیں اس وقت کے لیے اپنے ملک کو ثروتمند بنانا ہوگا۔ اس وقت اگر ہمارے یہاں جوان کم ہوئے اور ملک ثروتمند نہ ہوا تو پھر وہ  ثروتمند نہیں بن پائے گا۔ یہ چوتھی وجہ ہوئي کہ ہمیں آج پیشرفت کرنی چاہیے تاکہ اس ممکنہ کل کے لیے جب اتنے نوجوان نہ ہوں، ملک ثروتمند بن جائے اور صحیح طریقے سے اپنا انتظام چلا سکے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ پیشرفت کیسے حاصل کی جائے؟ اس کے لیے کچھ باتیں ضروری ہیں۔ آج محترم مقررین نے جو باتیں کیں، ان میں، ایسے بعض ضروری امور کی طرف اشارہ کیا گيا، میں بھی اس سلسلے میں کچھ نکات عرض کرتا ہوں۔ البتہ ان میں سے بعض ضروری امور کا تعلق حکومتی اداروں سے ہے اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں کام کریں، بعض ضروری امور کا تعلق خود معاشی شعبے میں سرگرم لوگوں سے ہے جبکہ بعض کا تعلق عوام سے ہے۔ ایک صاحب نے فضول خرچی کی بات کی۔ پانی، گوشت، روٹی اور اسی طرح کی چیزوں میں فضول خرچی کا تعلق عوام سے ہے۔ لہذا اگر ہم وہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ کام کرنے ہوں گے۔ یہ کام، حکومتی سطح کے بھی ہیں اور معاشی شعبے میں سرگرم لوگوں کی سطح کے بھی ہیں، دانشوروں اور سائنسدانوں کے بھی ہیں اور عوام الناس کے بھی ہیں۔

اس سلسلے میں دو بنیادی عنصر ہیں تو میں سب سے پہلے ان کی ہی وضاحت کروں گا۔ پہلا، پیداوار کے لئے سرمایہ کاری میں اضافہ ہے۔ سرمایہ کاری میں اضافہ ضروری ہے۔ ہمارے پاس دو شعبے تھے جہاں اس سلسلے میں کچھ کام ہوئے لیکن سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی تو نتیجے میں برسوں بعد ہم نے اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا۔ افسوس کی بات ہے کہ وہ جو میں نے رواں عشرے کے مسائل کا ذکر کیا تھا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ اس شعبے میں ہمارے لئے ایک کمی جو تھی وہ سرمایہ کاری کی تھی، کم سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ یقینا اس سے قبل بھی ایسی ہی صورت حال تھی، ماضی میں بھی سرمایہ کاری کم ہوئي تھی۔ 

تو ایک چیز تو سرمایہ کاری میں اضافہ ہے اور دوسری چیز ایکسپلوئیٹیشن اور پروڈکٹیوٹی ہے۔ پروڈکٹیوٹی کے لحاظ سے ہماری صورت حال بہت خراب ہے، خاص طور سے کچھ شعبوں میں تو اس کی شرح بہت نیچے ہے۔ کام ہوتا ہے، بجٹ خرچ ہو جاتا ہے لیکن پروڈکٹیوٹی بہت کم ہوتی ہے۔ یہ جو ابھی مختلف منصوبوں کی ویڈیو کلپس دکھائي گئيں ان میں کسی ایک میں میری نظر روایتی آبپاشی سے متعلق ایک ویڈیو پر پڑی جس میں نظر آ رہا تھا کہ مٹی بھری نالی سے پانی یونہی بہہ رہا تھا، ہماری سنچائی کی حالت یہ ہے۔ میں نے کچھ برس قبل بھی کہا تھا کہ ملک کے میٹھے پانی کا تقریبا نوے فیصد حصہ، زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ (6) صنعت اور گھریلو ضرورتوں میں استعمال ہونے والا پانی محض دس فیصد ہے، نوے فیصد پانی زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم اس نوے فیصد میں سے دس فیصد کی بچت کر سکیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آج ہمارے پورے ملک میں صنعت اور گھریلو ضرورت کے لئے جتنا پانی استعمال ہوتا ہے، اتنے پانی کی ہم نے بچت کر لی۔ صحیح استعمال کا معاملہ یہ ہے۔ ہم پانی کر غلط طرح سے استعمال کرتے ہيں۔ انرجی کو بری طرح استعمال کرتے ہيں۔ یہ دو چیزیں بنیادی ہیں، سرمایہ کاری میں اضافہ اور ایکسپلوئیٹیشن اور پروڈکٹیوٹی۔

دوسري ضروری چیزیں بھی ہیں جن میں سے کچھ کو میں نے لکھ رکھا ہے اور ان کا ذکر مختصر طور پر کروں گا کیونکہ بات طویل ہو گئی ہے جبکہ میں اپنی بات جلد ختم کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومتی اداروں کو معاشی امور میں، خواہ وہ پورے ملک کی معیشت کا معاملہ ہو یا پھر کسی ایک شعبے کا، انہيں اسٹریٹجک نظر سے  دیکھنا چاہیے، طویل مدتی منصوبہ ہونا چاہیے۔ یقینا میں عام طور پر اس سلسلے میں عہدیداروں سے استفسار کرتا رہتا ہوں اور وہ بھی مجھے بتاتے ہیں کہ کیا کیا پروگرام ہيں۔ تو اگر طویل مدتی  منصوبہ ہوگا اور اسے اسٹریٹجک اہمیت دی جائے گی تو اعادے کے عمل اور ادھر ادھر بھٹکنے سے بچ جائيں گے، یہ جو اعادہ ہوتا ہے ہر جگہ نقصان پہنچاتا ہے۔ ہم کہیں کچھ کہتے ہیں، دوسرے دن اسے مسترد کر دیتے ہيں یا پھر اس کی شکل ہی بدل دیتے ہیں۔ ابھی یہاں حضرات اسی کی شکایت کر رہے تھے۔ معیشت کے شعبے میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کی یہی شکایت ہے۔ میں تجارت اور کام وغیرہ کے ماحول کے سلسلے میں اس کا ذکر کروں گا۔ یہ تو پہلی بات ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ملک کے ذمہ دار اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر کی توسیع میں مدد کرنا چاہیے۔ ملک پرائيویٹ کمپنیوں کی سرگرمیوں کے بغیر چلنے والا نہیں ہے۔ انقلاب کے شروعاتی برسوں  میں جو بڑی غلطی کی گئي اور جس کے بہت بڑے نقصانات یونہی ہوتے رہے، وہ یہ تھی کہ پرائیویٹ سیکٹر کو  کنارے لگا دیا گيا اور تمام کام، یہاں تک  کہ معمولی چیزوں کی فروخت بھی سرکاری افسروں اور حکومتی اداروں کے حوالے کر دی گئي، یہ بہت بڑی غلطی تھی جو ہم سے ہوئي۔ پرائیویٹ سیکٹر کی مدد کی جانی چاہیے جو در اصل عوام کی شراکت کا راستہ ہے، عوام کی طاقت ہے، عوام کی نئي سوچ  اور عوام کا سرمایہ ہے۔ عوام میدان میں آئيں اور معیشت کی باگڈور ان کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔

میں نے بارہا یہ مثال دی ہے۔ دو طرح سے کام کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ سامان کو ایک منی ٹرک  پر لادیں اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسے آسانی سے دوسری جگہ پہنچا دیں۔ لیکن آپ اس منی ٹرک کو نظر انداز بھی کر سکتے ہيں اور سامان اپنے کاندھوں پر اٹھا کر نکل پڑیں لیکن اس صورت میں آپ تھک بھی جائيں گے اور وہ سامان اپنی منزل تک پہنچے گا بھی نہیں، بیچ میں ہی کہیں گر کر خراب ہو جائے گا۔ اس لئے پرائيویٹ سیکٹر کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے، پرائیویٹ سیکٹر، سرکاری امداد کے بغیر میدان مین نہيں آتا اور اگر آتا بھی ہے تو کامیاب نہيں ہوتا۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو با ایمان ہیں، ذمہ دار ہیں اور ملک سے محبت کرتے ہيں، اسلامی نظام کے دلدادہ ہيں اور وہ پرائيویٹ سیکٹر میں سرگرم ہیں، مثال کے طور پر کسی کارخانے یا پولٹری فارم کے مالک ہیں جو اپنے خلوص کی وجہ سے یہ کام کر رہے ہيں۔ ان کا کہنا تھا  کہ ہم اپنا یہ سرمایہ، بینک میں رکھ کر، اس کا سود پوری زندگی کھا سکتے تھے۔ کوئي محنت بھی نہيں تھی، ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا ہوتا لیکن ہم نے یہ محنت اور ذمہ داری قبول کی لیکن کام پورا نہيں ہو پایا، کیونکہ انہيں سرکاری مدد  نہیں ملی، ان پر دباؤ پڑا۔ میں اس کا ذکر گفتگو کے اگلے حصہ میں پھر کروں گا۔

یہ جو ہم نے آئين کا (پرائیویٹ سیکٹر سے متعلق) چوالیسواں آرٹیکل رکھا ہے تو حیرت انگیز طور پر کچھ ہمارے اچھے بھائي، کچھ نیک نیت افراد بھی، اس آرٹیکل پر اعتراض کرتے ہيں۔ یہ اعتراض صحیح نہيں ہے۔ ان پالیسیوں کو بڑی باریک بینی کے ساتھ بنایا گيا ہے، سوچ سمجھ کر بنایا گيا ہے؛ جو لوگ معاشی امور میں مہارت رکھتے تھے، سماجی انصاف سے دلچسپی رکھتے تھے اور اس کے لئے سنجیدگی کے ساتھ کوشش کر رہے تھے ان سب نے ان پالیسیوں کی حمایت کی ہے لیکن بات یہ ہے کہ ان پالیسیوں پر صحیح طور پر عمل در آمد نہيں ہوا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتوں نے ان پر صحیح ڈھنگ سے عمل در آمد نہيں کیا، بہت کم عمل ہوا۔ کئي حکومتوں نے ایک کے بعد ایک کرکے، ان پالیسیوں پر عمل نہيں کیا، چوالیسویں آرٹیکل پر عمل کرنا چاہیے۔ یقینا باریک بینی کے ساتھ، نگرانی کے ساتھ، صحیح منصوبے کے ساتھ اور نظم و ضبط کے ساتھ اس آرٹیکل پر عمل در آمد ہونا چاہیے۔ اس بناء پر دوسرا ضروری قدم یہ ہے کہ حکومتی اداروں کو، پرائیویٹ سیکٹر اور عوامی کمپنیوں کی مدد کرنا چاہیے، مالی مدد بھی اور اس کے ساتھ قانونی مدد بھی کی جانی چاہیے۔ ہم یہ بات حکومت سے بھی کہہ رہے ہيں، پارلیمنٹ سے بھی اور عدلیہ سے بھی، یعنی ملک کے تینوں اہم اداروں سے یہ سفارش کی جا رہی ہے۔

 تیسری ضروری چیز سائنس و ٹکنالوجی میں مزید ترقی ہے۔ آج جو بھی ہماری ترقی ہے وہ ملک میں سائنس و ٹکنالوجی میں پیشرفت کا نتیجہ ہے جو خدا کا شکر کہ گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران شروع ہوئی۔ پیشرفت کا یہ عمل اچھا رہا، اچھی ترقی ہوئی۔ یہ جو میں دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان یہاں آتا ہے اور بڑی جرئت کے ساتھ کہتا ہے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے اور فلاں کام کر سکتے ہيں یا اس طرح کی جو باتیں کی جاتی ہیں وہ سب اس لئے ہے کیونکہ ان لوگوں نے سائنس میں ترقی کی ہے، علم کا راستہ کھل گيا ہے۔ ہم نے کہا تھا(7) کہ جائيں سائنس کی صف اول میں اپنی جگہ بنائيں، اسے پار کریں، آگے بڑھیں، دنیا میں سائنس و ٹکنالوجی کے کارواں کے پیچھے پيچھے چلنے پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ آگے بڑھیں۔

کئي برس قبل میں نے ایک آرزو کی شکل میں جو خواہش ظاہر کی تھی اور جس کی تکمیل ضروری ہے وہ یہ ہے کہ میں نے کہا کہ ہمیں کچھ اس طرح سے منصوبہ بندی کرنا چاہیے، ہمیں کچھ اس طرح آگے بڑھنا چاہیے کہ اگر پچاس برس بعد دنیا میں کسی کو علم کے میدان میں نئي چیزیں جاننا ہوں تو اسے فارسی سیکھنا پڑے۔ تاکہ علم و سائنس کے میدان میں نئي نئي باتوں سے آشنا ہو سکے۔ ہمیں اس طرح آگے بڑھنا چاہیے۔ میں نے  جب "پچاس برس" کی بات کہی تھی، اس وقت سے اب تک دس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس پر توجہ دی جانی چاہیے اور اس کا عزم کرنا چاہیے۔ اس بنا پر ایک کام، سائنس و ٹکنالوجی میں ترقی ہے سائنس و ٹکنالوجی، دونوں میں۔ میری یہ بات سائنس و ٹکنالوجی کے اداروں اور ریسرچ سنٹرز کے لئے ہيں، اس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اسی طرح سائنس و ٹیکنالوجی کی وائس پریزیڈنسی سے بھی مجھے یہ بات کہنی ہے۔ میری نظر میں یہ کام بہت اہم ہے۔ ساتویں یا آٹھویں حکومت میں، میرے اصرار پر یہ ادارہ بنایا گيا۔ مرحوم ڈاکٹر ابتکار(8) خدا ان کی مغفرت کرے، اس ادارے کے سربراہ تھے، وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجھے نہ موقع دیا جاتا ہے، نہ کوئي کام سونپا جاتا ہے، نہ ہی میری ذمہ داریاں واضح کی گئي ہيں۔ یعنی اس ادارے پر توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ لیکن اب خدا کا شکر ہے ترقی ہوئی ہے، اس کے بعد اور حالیہ برسوں میں اچھی ترقی ہوئي ہے۔ اس لئے میری یہ بات سائنس و ٹیکنالوجی کی وائس پریزیڈنسی سے بھی ہے، اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔

ایک اور ضروری چیز، درست استعمال ہے۔ میں نے یہ جو درست استعمال کی بات کی ہے اس پر کام کیئے جانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر پانی کے موضوع پر، انرجی اور افرادی قوت پر، سرکاری افسروں کے کام پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ہم درست استعمال کے  سلسلے میں جس ایک میدان میں پیچھے ہیں وہ یہی سرکاری افسروں کا کام ہے جو پورے ہفتے میں، بہت کم کام کرتے ہيں، کچھ ہی گھنٹے کام کرتے ہيں، افرادی قوت کے میدان میں درست استعمال میں کمی کا یہی مطلب ہے۔ اس کی اصلاح ہونا چاہیے۔ پانی کے مسئلے میں سدھار لائے جانے کی ضرورت ہے۔ 

ہمارے ایک آشنا ہیں، ہمارے احباب میں سے ایک شخص جنہیں ہم کوليگ بھی کہہ سکتے ہيں، انہوں نے زراعت کے سلسلے میں ایک منصوبہ پیش کیا ہمارے سامنے، ہم نے وہ صدر مملکت کے سامنے پیش کیا، انہوں نے جاکر اس منصوبے کو قریب سے دیکھا اور اس کی تصدیق کی۔ پرسوں جب ہم نمائش میں تھے تو محترم وزیر زراعت(9) نے ہمیں بتایا کہ یہ دنیا کی انتہائي پیشرفتہ ٹکنالوجی ہے! یہ بات وزير زراعت نے ہم سے کہی۔ ایک پروجیکٹ ہے، جو ایک ایسے شخص کی جانب سے ہے جو نہ حکومتی عہدیدار ہے نہ وزیر ہے۔ وہ ایک منصوبہ پیش کرتا ہے، اب کہیں سے سیکھتا ہے یا پھر خود اس کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے، بہرحال وہ، منصوبہ پیش کرتا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ یہ زراعت کے شعبے میں بے حد ترقی یافتہ منصوبہ ہے تو اچھی بات ہے، اس پر کام کیا جائے۔ مجھے بتایا گيا کہ اس منصوبہ کا بجٹ تھوڑا زیادہ ہے، تو ہمیں مستقبل پر نظر رکھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر ہم اتنا بجٹ لگاتے ہيں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ بہرحال ایک ضرورت تو یہ ہے۔

ایک اور اہم موضوع، اپنی مصنوعات کو ایسا بنانا ہے جو عالمی سطح پر کمپٹیشن کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ ایرانی چیزیں قدرتی طور پر بہترین کوالٹی کی ہیں، ہمارے پھل بہترین ہيں، ہماری سبزیاں بہترین ہیں، ہمارے یہاں کے پتھر بہترین ہيں، ہماری بہت سی کانیں بھی اسی طرح بہترین ہیں، ہمارے یہاں اچھی چيزیں پیدا ہوتی ہیں، کافی مقدار میں بھی اور کوالٹی کے لحاظ سے بھی اچھی ہوتی ہیں۔ ہمیں عالمی سطح پر ایسا کچھ کرنا چاہیے خاص طور پر برآمدات کے شعبے میں کہ جس سے ہماری چیزیں کمپٹیشن کے لائق ہوں یعنی ہمیں اپنی اشیاء کی کوالٹی بھی بہتر بنانا چاہیے اور اس کی قیمت بھی کم ہونی چاہیے۔ یہ بھی بہت ضروری کاموں میں سے ہے جسے کرنا ضروری ہے  خاص ور پر برآمدات کے بازاروں کے لئے اور اس کے لئے ہمارے پاس وسائل یقینا بہت اچھے ہیں۔

ایک اور بات اسی زراعت کے بارے میں، میں پرسوں جب یہاں نمائش میں آیا تھا تو میں نے وہاں موجود احباب سے کہا کہ ایرانشہر ایک بہت عجیب و غریب علاقہ ہے۔ میری زندگی کی ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ مجھے کچھ برسوں تک ایرانشہر میں جلا وطنی کی زندگي گزارنے کا موقع ملا اور اس دوران ایرانشہر اور بلوچستان کے بہت سے مسائل کی تھوڑی بہت معلومات حاصل ہوئي۔ جب میں وہاں تھا تو مجھے ایک ٹماٹر دیا گیا جسے میں نے ہاتھ میں لیا تو میرا پورا ہاتھ بھر گیا یعنی ٹماٹر اتنا بڑا تھا کہ میرا پورا ہاتھ بھر گيا، کسی خربوزے کی طرح، ایک خربوزے جتنا بڑا تھا۔ ایسا ہے ایرانشہر۔ وہیں ایرانشہر میں، مجھے بتایا گيا کہ ایرانشہر کے مضافات میں رنگين روئي پیدا کی جاتی ہے، یعنی سفید نہيں ہے، رنگین کاٹن ہے، مثال کے طور پر نیلی یا ہری روئي۔ یعنی ہمارے یہاں کی چيزوں کی صورت حال یہ ہے۔ ہم میں اتنی صلاحیت ہونا چاہیے کہ ہم یہ چیزیں عالمی سطح پر پیش کر سکیں۔ چنانچہ اگر ہم اپنی چیزوں کو مقابلے کے میدان میں اتارنے کے قابل بنا سکے، یعنی کوالٹی بہتر بنا سکے اور قیمت کم کر سکے تو پھر پابندیوں کا کوئي اثر نہيں رہے گا۔ ایک دن مجھے بتایا گیا کہ ہم نے ایک نیشنل ٹیم کی جیکٹ بنائي لیکن کسی اور ملک کے نام سے اسے برآمد کرنے پر مجبور تھے۔ ٹھیک ہے اس کا حل ہے۔ ہمیں اپنی مصنوعات کی کوالٹی اتنی اچھی کرنا چاہیے کہ پھر کوئي آپ کو دوسرے ملک کے نام سے سامان برآمد کرنے پر مجبور نہ کر سکے۔ ایران کے نام پر اور  میڈ ان ایران بھی نہ لکھیں، بلکہ  "ساخت ایران" ایران میں بنايا گيا، فارسی میں لکھیں۔ برآمد کريں اور لوگ خریدنے پر مجبور ہوں کیونکہ اس کی کوالٹی اچھی ہوگي اور قیمت کم ہوگي۔ اس وقت بھی کچھ چیزوں میں ایسا ہو رہا ہے، مجھے پتہ ہے۔ بہت سے ملک ہیں جہاں ہم اپنی چيزيں بر آمد کرتے ہيں، دوسرے ملکوں کے سامان بھی وہاں جاتے ہيں لیکن ہمارے ملک کی چیزوں کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے، ہماری چیزوں کی کوالٹی بہتر ہے اور قیمت بھی کم ہے۔ اس لئے لوگ وہ چيزيں خریدتے ہيں اور دوسرے ملکوں سے آنے والی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہيں  تو اس کا مطلب یہ  ہوا کہ  ہم کر سکتے ہيں۔ 

سروسز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ آج یہاں کچھ لوگوں نے تقریر کی، ان کا کام ڈیم اور سڑکیں بنانا اور اس طرح کی چیزیں ہیں۔ اس دنیا میں بہت سے ملک ہيں، بہت سے افریقی ملک ہيں، کچھ  لاطینی امریکہ کے ملک ہيں جنہيں ڈیم کی ضرورت ہے، سڑکوں کی ضرورت ہے، ہائي ویز  کی ضرورت ہے۔ ان کے لئے بڑے بڑے بجٹ لیکر اور خراب کوالٹی کے ڈیم اور سڑکیں بنائي جاتی ہيں لیکن ہم سستے میں اور اچھی کوالٹی کی سڑکیں اور ڈیم ان کے لئے بنا سکتے ہيں۔ اس بناء پر سامان اور چيزوں کو عالمی مقابلہ آرائی کے میدان میں پیش کرنے لائق بنانا بھی ترقی کی اہم ضرورتوں میں سے ہے۔

ایک دوسری ضررت روزگار اور تجارت کے ماحول کو آسان بنانا ہے کہ جس کے بارے میں، میں نے کئی بار گفتگو کی ہے، یہ جو میری اسی موقع پر گزشتہ برس کی تقریر کے کچھ حصے دکھائے گئے، اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ میں نے تجارت کے لئے آسان ماحول بنانے کے بارے میں بات کی تھی جو خود مجھے یاد بھی نہيں تھی۔ یہ اہم چیز ہے۔ ہمیں ایسا کچھ  کرنا چاہیے کہ لوگ، آرام سے تجارتی کاموں میں مصروف ہو جائيں،  سہولت کے ساتھ لین دین کریں، پیداوار کریں جن میں سے کچھ کا ذکر میں نے یہاں پر کیا ہے۔

متضاد فیصلوں کا سد باب کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی ہم متضاد فیصلے کرتے ہيں۔ ایک ادارہ کوئي فیصلہ کرتا ہے اور اس کا اعلان بھی کر دیتا ہے اور دوسرا ادارہ اس کے بر خلاف کوئي فیصلہ کرتا ہے اور اس کا بھی اعلان کر دیتا ہے، ان دونوں اداروں کے ذمہ دار، کابینہ کی نشست میں ایک ہی میز پر بیٹھتے ہيں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ متضاد فیصلوں کا سد باب  ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے، عوام کو پتہ ہونا چاہیے کہ انہيں کرنا کیا ہے ؟

 دوسری چیز، قوانین میں بار بار تبدیلیوں کے عمل کو روکنا ہے۔ ہمارے قوانین مسلسل اور بار بار بدلتے رہتے ہيں۔ میری یہ گزارش حکومت سے ہے، پارلیمنٹ سے بھی ہے، پارلیمنٹ سے تو خاص طور پر ہے۔ کابینہ میں ایک بل منظور ہوتا ہے، اعلان بھی ہو جاتا ہے، اچانک، پارلیمنٹ سے اس کی مخالفت کر دی جاتی ہے۔ فیصلہ کر لیا گیا ہوتا ہے، کام آگے بڑھ چکا ہوتا ہے اور انتظامات بھی مکمل ہو جاتے ہیں، منصوبہ بھی تیار ہو جاتا ہے لیکن پارلیمنٹ کی وجہ سے وہ بل منسوخ کر دیا جاتا ہے! یہ غلط بات ہے۔ اس کا تدارک کرنا چاہیے۔ یہ اہم سفارش پارلیمنٹ سے بھی ہے اور حکومت سے بھی۔

 اسی طرح ادارتی نظام میں پیچیدگیوں کا سد باب بھی ضروری ہے۔ ایک بار میرے پاس کچھ عہدیدار اور تاجر آئے تھے۔ ان میں سے کسی ایک نے کہا کہ ایک لائسینس لینے کے لئے، کئی ادارے ہيں، جہاں جانا ہوتا ہے، اب چونکہ اس بات کو کئی برس گزر چکے ہيں اس لئے اداروں کی تعداد مجھے یاد نہيں ہے۔ بہرحال اس صورت حال کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اب کچھ شعبوں میں "سنگل ونڈو سروس" (10) شروع ہوئی ہے جو بہت اچھا کام ہے، یہ بہت فائدہ مند ہے، مختلف شعبوں میں یہی کام کیا جانا چاہیے، یعنی لائسینس لینے کے لئے جو محکمہ جاتی عمل میں پیچیدگی ہے، لوگوں کے بزنس سے متعلق جو کام ہے، اس کی راہ میں آنے والے مسائل کو ختم کیا جانا چاہیے، راستہ چھوٹا کیا جانا چاہیے اور قوانین آسان بنائے جانے چاہیے۔ اس کا مطلب نگرانی ختم کرنا نہیں ہے، بلکہ نگرانی ضروری ہے لیکن اس پیچیدہ راستے کو ختم کیا جانا چاہیے۔ 

پرائيویٹ سیکٹر کے لئے سرمایہ کا انتظام بھی ان چیزوں میں شامل ہے جو بزنس کے شعبے میں حالات کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ یہاں سرکاری عہدیدار بھی موجود ہيں، پرائیویٹ سیکٹر کو سرمایہ کے لحاظ سے مدد کے سلسلے میں جو ایک چیز اہم ہے قومی ترقیاتی فنڈ ہے۔ قومی ترقیاتی فنڈ کی تشکیل کا مقصد ہی، پرائیویٹ سیکٹر کی مدد ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ مختلف حکومتوں میں، جب سے اس فنڈ کی تشکیل ہوئي ہے اس کے بعد سے لے کر اب تک جب بھی کہیں بھی معاملہ پھنستا ہے اور اس فنڈ سے رقم حاصل کرنے کا حکومت کے پاس اجازت نامہ نہيں ہوتا تو پھر مجھ حقیر سے رجوع کیا جاتا ہے تاکہ قانون کے دائرے سے باہر جاکر اس فنڈ سے سرمایہ استعمال کرنے کی اجازت انہيں دی جائے۔ یہ صحیح نہیں ہے، اس میں مسئلہ ہے، قانونی مسئلہ بھی ہے اور اس کے اثرات کے لحاظ سے بھی یہ غلط ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی مدد کی جانی چاہیے۔ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

ایک اور مسئلہ، بجٹ میں مالیاتی نظم و ضبط کا بھی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بجٹ  کے ڈھانچے میں ہی خامیاں ہيں۔ یہ جو گزشتہ کچھ برسوں میں بجٹ میں عجیب و غریب قسم کے خسارے ہوئے ہيں وہ ہمارے ملک میں مالی اور معاشی میدان میں بہت سے مسائل کی جڑ ہیں۔ ہم نے ملک کے تینوں اہم اداروں کی معاشی کونسل کے سربراہوں کا اجلاس بلایا تھا تاکہ یہ مسئلہ حل ہو جائے لیکن اب تک حل نہیں ہوا، یہ جو بجٹ میں ڈھانچے کے لحاظ سے کمیاں ہیں انہیں دور کیا جانا چاہیے، بجٹ خسارے کا معاملہ ٹھیک کیا جانا چاہیے، قابل اعتماد ذرائع کے بغیر مالیاتی ذمہ داریوں کا مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ آمدنی قابل اعتماد نہیں ہوتی اور اس کا علم خود عہدیداروں کو بھی ہوتا ہے لیکن پھر بھی، اس پر بھروسہ کرکے مالی ذمہ داری لے لی جاتی ہے۔ اس سے برا تب ہوتا ہے جب یہ کام پارلیمنٹ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پارلمینٹ، حکومت پر بہت سی مالی ذمہ داریاں عائد کر دیتی ہے جبکہ اس کے لئے آمدنی کا قابل اطمینان ذریعہ موجود ہی نہيں ہوتا۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ یہ چیزیں، ملک کی معیشت و ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہيں۔ یہ سب ضروری کام  ہيں۔

ایک اور ضروری کام تجارتی اداروں میں حکومت کے عمل دخل اور ان کی ملکیت کو ختم  کرنا ہے۔ کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ ملکیت کا بڑا حصہ عوام کا ہوتا ہے لیکن انتظام اور اداروں کی سربراہی حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے، یہ صحیح نہيں ہے۔ انتظام بھی عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ یہ بھی ایک بات ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سرکاری اداروں کو، پرائیویٹ سیکٹر سے مقابلہ آرائي نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی ان باتوں میں شامل ہے جن کا ذکر میں نے بارہا کیا ہے۔ لیکن پھر اس دن نمائش میں کچھ لوگوں نے مجھ سے شکایت کی، کچھ لوگوں نے یہ شکایت کی کہ اس طرح کی دخل اندازی اب بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ میں بار بار خبردار کر چکا ہوں لیکن پھر خبردار کر رہا ہوں اور حکومتی عہدیداروں سے گزارش کرتا ہوں، خاص طور پر جناب مخبر صاحب سے میری گزارش ہے کہ اس معاملے پر توجہ دیں اور ایسا کچھ کریں کہ سرکاری ادارے ان شعبوں میں مقابلہ آرائي نہ کریں جن میں پرائیویٹ سیکٹر سرگرم ہے۔ کیونکہ سرکاری وسائل بہت زیادہ ہیں اور مالی امور کی جانب سے ان اداروں کی تشویش بھی کم ہوتی ہے اس لئے وہ بڑی آسانی سے پرائيویٹ سیکٹر کو پیچھے چھوڑ دیتے ہيں، اگر حکومتی ادارے میدان میں آئيں گے تو پرائیویٹ سیکٹر ناکام ہو جائے گا۔ ایک اور مسئلہ بے تحاشا در آمدات کا ہے، جس کے بارے میں آج بھی کچھ لوگوں نے یہاں خبردار کیا ہے۔

آخر میں، مختصر طور پر کچھ یاد دہانی کرانا چاہوں گا: ایک تو یہ کہ  تجارتی کمپنیوں کو اپنے درمیان  مقابلہ آرائي اور تعاون کے میدانوں کو الگ کرنا چاہیے۔ پرائیویٹ سیکٹر وہ میدان ہیں جہاں مقابلہ آرائی ہوتی ہے اور ہونا بھی چاہیے، مثبت مقابلہ آرائی ترقی کا سبب ہے لیکن اس مقابلہ آرائی کا یہ مطلب نہيں ہے کہ بڑے کاموں میں، بڑے قدموں میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ایک دوسرے کی مدد نہ کریں خاص طور سے ان معاشی امور میں جن کا تعلق بیرون ملک سے ہو۔ پرائيویٹ سیکٹر کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا  چاہیے۔

 ایک یاددہانی چھوٹی اور اوسط درجے کمپنیوں کے بارے میں کہ جن پر میں نے کچھ برسوں قبل پہلی تقریر میں خاص طور پر اس پر زور دیا ہے۔(11) یہ چھوٹی اور اوسط درجے کی کمپنیاں، روزگار کے مواقع کی فراہمی اور سامان کی اہمیت بڑھانے اور قیمت میں بہتری کا باعث بنتی ہیں اور یہ کمپنیاں اس شعبے میں مدد کر سکتی ہیں، ہمیں ان کمپنیوں کو نظر انداز نہيں کرنا چاہیے، سرکاری اداروں کو بھی ان پر توجہ دینا چاہیے اور بڑی بڑی کمپنیوں اور صنعتی گروپوں کو بھی اپنی مصنوعات کی تیاری کے سلسلے میں ان سے مدد لینا چاہیے، ان کی مدد کرنا چاہیے اور انہیں  آگے بڑھانا چاہیے۔

 آخری بات، کوآپریٹیو کمپنیوں کی ہے۔ کو آپریٹیو کمپنیاں روزگار کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم رول ادا کر سکتی ہيں۔ خاص طور پر ملک کے مختلف شعبوں میں معاشی انصاف کے قیام میں ان کا رول اہم ہو سکتا ہے۔

 مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیابی عطا کرے گا، ملکی حکام کو توفیق عنایت کرے گا۔ میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ ملکی حکام، اپنے پورے وجود سے کام کر رہے ہيں، یعنی حقیقت میں محنت کر رہے ہيں، اچھی کوشش کر رہے ہيں لیکن طریقہ کار پر توجہ کی ضرورت ہے اور ایسا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے جو خدا کی مدد سے مطلوبہ نتائج تک پہنچے۔ 

خداوند عالم سے آپ سب کی توفیقات میں اضافے اور امام خمینی اور تمام شہداء پر مزید رحمتوں کے نزول کی دعا ہے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 

1)  ملاقات کے آغاز میں پیداوار، روزگار، نالج بیسڈ کمپنیوں کے شعبے میں سرگرم چودہ افراد نے اپنی کاوشوں، کامیابیوں اور اپنے اپنے شعبوں میں موجود مسائل کا ذکر کیا اور تجاویز بھی پیش کیں۔

2) 30  جنوری 2022 پیداوار اور تجارتی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان خطاب

3) امام خمینی امام بارگاہ میں منعقد ہونے والی نمائش میں مختلف شعبوں میں ملکی ماہرین کی کامیابیوں کو پیش کیا گيا۔

4) ڈاکٹر محمد مخبر دزفولی، نائب صدر

5) 19 اکتوبر 2022 کو غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ سے خطاب

6)  27 اگست 2014 کو صدر اور کابینہ سے خطاب

7)  9 اکتوبر 2013 کو نوجوان دانشوروں سے خطاب 

8)  ساتویں حکومت میں سائنس اور ٹکنالوجی کے امور میں صدر کے مشیر جناب تقی ابتکار

9) جناب سید جواد ساداتی نژاد

10) حکومتی لائسنس کے لئے سنگل ونڈو سروسز

11) 9 اکتوبر 2013 کو امام رضا  علیہ السلام کے حرم مقدس میں رہبر انقلاب کے خطاب میں بھی اس کا ذکر ہوا تھا۔