بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین.

مجھے بہت خوشی ہے اور آپ محترم خواتین و حضرات کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمارے اور تمام سامعین کے لئے یہاں مفید تقریریں کیں۔ ہم نے کل جو نمائش دیکھی وہ بھی، (2) بڑی اشتیاق انگیز اور شاندار نمائش تھی۔ میرے خیال میں کل کی نمائش کو ملک کی سائنسی و ٹیکنالوجیکل قوت کے نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مجھے بس یہ افسوس ہے کہ ان تمام ترقیوں کی عوام کے سامنے تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔ یقینا ہمارے ملک کے اکثر لوگوں کو اس سخت کوشی کے بارے میں، حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں، ہماری ممتاز افرادی قوت کی ایجادات کے بارے میں واقفیت نہیں ہے۔ کل میری ملاقات کچھ غیر معمولی ذہانت رکھنے والے نوجوانوں سے ہوئی۔ میں نے ان کی گفتگو پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ واقعی غیر معمولی طور پر ذہین ہیں۔ آج بھی خوشی کی بات ہے کہ مقررین میں بعض نوجوان تھے اور یہ سارے افراد غیر معمولی طور پر ذہین ہیں۔ میری نظر میں اس پر شکر بجا لانا چاہئے، ہمیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ یہ ساری نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ وَ ما بِکُم مِن نِعمَۃٍ فَمِنَ اللہ (۳) یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں، آپ کو، ملک کو اور یقینا عہدیداران کو اللہ سے ملنے والی توفیقات ہیں۔ ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے، ان پر توجہ دینا چاہئے۔

حضرات نے جو دو تین مطالبات رکھے ہیں میں نے انہیں نوٹ کر لیا ہے۔ حکومت میں موجود ہمارے احباب ہمارے دفتر کے عہدیداران کے ساتھ مل کر ایک ورکنگ گروپ تیار کریں اور ان پر کام کریں۔

ملٹی ڈائمنشنل انڈسٹریل کامپلیکس کی جو بات کہی گئی، اہم بات ہے۔ بجٹ کی فراہمی کی بات، اس کے بعد اوسط درجے کی اور چھوٹی کمپنیوں کی جو بات ہوئی وہ بالکل صحیح ہے، بہت اہم ہے، اس پر کام ہونا چاہئے۔ زرعی شعبے کے لئے جدید سنچائی سسٹم کی بات کی گئی، اس میں پانی کا کفایتی استعمال بھی ہے اور زرعی پیداوار اور کسان کی آمدنی میں اضافہ بھی ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ چیزیں ہمارے لئے ضروری ہیں۔ میری گزارش ہے کہ حکومت کے اندر ہمارے احباب اس پر کام کریں۔ یعنی ان چیزوں کے لئے واقعی ورکنگ گروپ بنائیں اور بیٹھ کر غور کریں۔ خود ان لوگوں کی تجاویز لیجئے اور کام کیجئے، اقدام کیجئے۔ میں بھی چند نکات عرض کروں گا۔

جو حقیقت انسان واضح طور پر دیکھتا ہے، یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بڑے پیداواری مراکز مختلف برسوں میں قابل لحاظ پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی یہ پیشرفت، میں نے جو مراکز کی بات کی تو میری مراد پرائیویٹ سیکٹر کے مراکز ہیں، خاص پیغام کی حامل ہے۔ اس سے ملک کے اندر ایک مضبوط اور طاقتور پرائیویٹ سیکٹر کی موجودگی کا عندیہ ملتا ہے، یہ بہت بڑی خبر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ نمو، یہ پیشرفت اور انجام پانے والے یہ کام، سب کچھ پابندیوں کے دور میں رونما ہوا ہے۔ مزید برآں یہ کہ بعض ادوار میں حکومتوں کی جانب سے اس سلسلے میں کچھ کوتاہی بھی رہی۔ 2010 کا عشرہ ہمارے لئے اچھی پیشرفت کا عشرہ نہیں رہا۔ مگر اس کے باوجود یہ سارے کام انجام پائے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں بھی ہمارا پرائیویٹ سیکٹر ملک کو اس مقام پر پہنچانے میں جو ساتویں پانچ سالہ پروگرام کا ہدف ہے یعنی سالانہ آٹھ فیصدی کی شرح سے اقتصادی ترقی تک پہنچانے پر قادر ہے۔ یعنی یہ کام جو ہو رہے ہیں اور جو  اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں انہیں دیکھ کر واقعی امید بڑھتی ہے کہ ہم اس شرح نمو تک پہنچ سکتے ہیں۔

ایک بنیادی چیز جو میں نے نمائش میں بھی دیکھی اور یہاں حضرات کی تقاریر میں بھی نظر آئی، وہ نئی ایجادات اور انوویشن کا موضوع تھا۔ انوویشن ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ انتہائی ماہر افرادی قوت انوویشن انجام دے سکتی ہے اور ہمارے ملک کے اندر یہ عظیم سرمایہ موجود ہے۔ ہمارے علاقے کے بعض ممالک مثلا یہ دعوی کرتے ہیں کہ فلاں سال تک فلاں نمبر کی عالمی اکانومی بن جانے کا ارادہ رکھتے ہیں! صرف پیسے سے دنیا کی فلاں نمبر کی اکانومی بن جانا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ آپ کی افرادی قوت کہاں ہے؟ ان کے پاس نہیں ہے۔ جو طاقت دشوار راستے طے کر سکتی ہے اور ملک کو بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے، چوٹی پر لے جا سکتی ہے، اس میں سب سے پہلے با صلاحیت اور ماہر افرادی قوت ہے۔  اس پہلو سے ہمارے پاس ایک عظیم سرمایہ موجود ہے۔ جہاں تک مجھے اطلاع ہے اور میں جانتا ہوں، ہمارے ارد گرد بہت کم ہی ملک ایسے ہیں جن کے پاس یہ سرمایہ اور یہ نعمت ہے۔ یہ یقین رکھا جا سکتا ہے کہ یہ عظیم صلاحیت جو ہمارے یہاں موجود ہے، میری مراد افرادی قوت کی عظیم صلاحیت سے ہے، یہ ملک کو موجودہ صورت حال سے کئی گنا زیادہ منافع پہنچا سکتی ہے اور ملک کے بڑے مسائل کا حل نکال سکتی ہے۔

ملک کے بعض بڑے مسائل ہیں جن کے 'بڑے' ہونے پر ہماری توجہ نہیں ہے۔ پانی کا مسئلہ ملک کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پانی کی موجودگی اور استعمال میں عدم توازن ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایندھن کا مسئلہ ایسا ہی ہے۔ اس وقت واقعی ہمارے سامنے ایندھن کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارا ملک تیل پیدا کرنے والا ملک ہونے کے باوجود، تیل کے اتنے سارے زیر زمین ذخائر کے باوجود، پیٹرول امپورٹ کرے؟ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بڑے معاملے میں ہم مشکل سے دوچار ہیں۔ بجلی کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ گوناگوں مسائل ہیں جو ملک کے بڑے مسائل ہیں اور ان مسائل میں عدم توازن ملک کو تکلیف پہنچا رہا ہے، متعدد بڑے کاموں میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔ ہمارا پرائیویٹ سیکٹر ان میدانوں میں واقعی مددگار بن سکتا ہے۔ جیسا کہ ابھی آپ نے سنا بھی۔ مثال کے طور پر پرائیویٹ سیکٹر آکر سولر انرجی کی یونٹ کے ذریعے 1800 میگاواٹ بجلی پیدا کرے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی کوئی کمپنی آکر خود سرمایہ کاری کرتی ہے 1800 میگاواٹ بجلی پیدا کرتی ہے، ملک کے لئے یہ بہت اہم چیز ہے۔ اگر ہم ان کی حوصلہ افزائیں کریں، اگر ہم ان کی مدد کریں، اگر صحیح منصوبہ بندی کی جائے تو یقینا پرائیویٹ سیکٹر ان بڑے پروجیکٹس میں اپنی رائے بھی دے سکتا ہے اور تعاون بھی کر سکتا ہے۔ ہم یہ بات محترم عہدیداران سے بھی اور اقتصاد شعبے میں سرگرم آپ حضرات سے بھی کہنا چاہتے ہیں۔

تعاون کے لئے بھی بہت وسیع میدان موجود ہے۔ یہاں آپ نے کچھ چیزوں کے بارے میں سنا۔ میں نے بھی کل نمائش میں اس سے زیادہ دیکھا۔ یہاں جو افراد موجود ہیں گوناگوں شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ میں ہر کوئی مختصرا اپنی بات بیان کرے تو معلوم ہوگا کہ تعاون اور شراکت کے بڑے وسیع میدان موجود ہیں۔ آپ بڑی صنعتوں جیسے تیل، گیس، اسٹیل انڈسٹری سے لیکر دست کاری کی صنعتوں تک دیکھئے، ان سارے وسیع شعبوں میں عوام کی شراکت کے امکانات موجود ہیں۔ عوام کا سرمایہ، عوام کا ذہن، عوام کے ماہر ہاتھ، عوام کی فعال اور ہنرمند انگلیاں کام کر سکتی ہیں جس کے نتیجے میں روزگار بھی بڑھے گا اور غربت کم ہوگی۔ تو یہ وسیع میدان موجود ہے۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے بھی اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد بھی ذمہ داری کا احساس کریں۔ یعنی دونوں طرف سے ذمہ داری کا احساس ضروری ہے۔

میں نے حکومت کی ذمہ داری کے تعلق سے جو چیز نوٹ کی ہے آج عرض کروں گا۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی اس بارے میں تفصیل سے بات ہو چکی ہے۔ وہ چیز کاروبار کا بہتر ماحول ہے۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ حکومت رکاوٹوں کو دور کرے۔ میں نے گزشتہ سال اسی اجلاس میں (4) کچھ چیزوں کو کاروبار کی فضا میں رکاوٹوں کے طور پر بیان کیا تھا۔ اس سال نمائش میں اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد سے ہم نے بات کی، میرے خیال سے کل یہاں چالیس اسٹال لگے تھے، ان میں سے کچھ لوگ عدم اطمینان کا اظہار کر رہے تھے انہیں چیزوں کے بارے میں جن کے بارے میں ہم پہلے انتباہ دے چکے تھے! اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان انتباہات پر عمل نہیں ہوا۔ عمل کیا جانا چاہئے۔ حکومتی عہدیداران سے تاکید کے ساتھ میری گزارش ہے کہ اس پر کام کریں۔

بے شک حکومت کی طرف سے سپورٹ ضروری ہے اور نگرانی بھی ضروری ہے۔ کچھ ضوابط ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ کسے نگرانی رکھنا چاہئے؟ حکومت کو۔ تو حکومت کی جانب سے نگرانی کے مسئلے کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ نگرانی الگ چیز ہے، مداخلت مختلف ہے۔ میں نے کل سنا کہ بعض کمپیاں جن میں حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں شریک ہیں، حالانکہ حکومت کی حصہ داری زیادہ نہیں ہے لیکن مینیجمنٹ حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ میرے اعتبار سے اس کا کوئی تک نہیں ہے۔ قانونی روشوں کو بروئے کار لائیں اور مینیجمنٹ کی ذمہ داری عوام اور شیئر ہولڈرز کو سونپ دیں، لیکن نگرانی حکومت کرے۔ ان گزشتہ برسوں میں جب میں نے آرٹیکل 44 کی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا (5)  اس پر زور دیا اور نظر رکھی تو میں نے دیکھا کہ کچھ بے ضابطگیاں ہوئیں جو نگرانی نہ ہونے کا نتیجہ تھیں۔ برے کام ہوئے، غلط کام ہوئے۔ زر مبادلہ اور قومی کرنسی کی شکل میں بجٹ کو نقصان پہنچا اور خود او یونٹوں کو نقصان پہنچا اور آخر کار عوام کو نقصان اٹھانا پڑا۔ کچھ لوگوں نے غلط فائدہ اٹھایا۔ حکومت کی نگرانی یقینی اور لازمی ہے۔ ضرور ہونی چاہئے۔ تو ہم جس چیز کی نفی کرتے ہیں وہ حکومت کی مداخلت ہے، جہاں تک حکومت کی نگرانی کی بات ہے تو اسے ہم ضروری سمجھتے ہیں۔

وہ رکاوٹیں جنہیں دور کرنے کی ہم نے بات کی، ان میں بعض کی وجوہات خود حکومت کے اندر ہیں۔ یعنی ہماری بیورو کریسی کی صورت حال کا نتیجہ ہیں۔ اسے حکومت کے اندر حل کیا جانا چاہئے۔ ابھی ذکر ہوا تیل کی صنعت میں ورک پرمٹ کا۔ تین سال کی بات چیت کی ضرورت پڑتی ہے! اس کا کوئی تک سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر تین سال کی بات چیت کیوں ضروری ہے۔ کوئی غیر ملکی کمپنی آتی ہے، بیٹھ کر بات کرتی ہے تو کچھ مہینوں کے اندر اس سے ایگریمنٹ کر لیا جاتا ہے اور بات ختم ہو جاتی ہے۔ تو داخلی کمپنی سے جو تیل جیسے اہم سیکٹر میں، وہ بھی بہت اعلی پیمانے پر کام کرنا چاہتی ہے، ایکسپلورنگ کرنا چاہتی ہے، کنؤوں کو فعال کرنا چاہتی ہے اور دوسرے کام کرنا چاہتی ہے تو اس کے ساتھ ایگریمنٹ میں اتنا عرصہ لگ جاتا ہے؟ یہ ہمارا سوال ہے۔ یا فیصلے کے متعدد مراکز، یا الگ الگ شعبوں میں ٹکراؤ۔ کچھ عرصہ قبل معدنیات کے شعبے میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان میں بعض نے ہم سے شکایت کی کہ مثال کے طور پر کسی بات پر معدنیات کے شعبے اور ماحولیات کے شعبے کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے۔ تو یہ اختلاف حل ہونا چاہئے۔ معدنیات کا سیکٹر بہت اہم ہے۔ کبھی محترم عہدیدار سے بات ہو رہی تھی کہ معدنیات کا شعبہ تیل کی صنعت کی جگہ لے سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملک کے لئے معدنیات کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اگر ہم معدنیات پر توجہ دیں، ہمارے یہاں کم یاب اور بعض تو نایاب کانیں ہیں، اگر ان پر توجہ دی جائے، انہیں نکالا جائے، ان پر کام کیا جائے تو اس سے ملک کے لئے بڑا سرمایہ پیدا ہو سکتا ہے اور ملک کی ترقی میں مدد مل سکتی ہے۔ اب مثال کے طور پر کوئی چاہتا ہے کہ کسی معدن پر کام کرے اور کہیں سے کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے تو اسے حکومت کے اندر حل کیا جانا چاہئے۔ یعنی بعض رکاوٹیں اور مشکلات خود حکومتی اداروں سے مربوط ہیں۔ انہیں یہیں حل ہونا چاہئے۔ صدر محترم کے فیصلے سے، کابینہ کی مشاورت سے، نائب صدر کی سطح پر انہیں حل کیا جانا چاہئے۔

بعض رکاوٹیں حکومت سے باہر کی ہیں۔ مثال کے طور پر عدلیہ، مسلح فورسز وغیرہ۔ اس سے ٹکراؤ پیدا ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) کے سربراہوں کا جو مشترکہ اجلاس ہے جسے کافی اختیارات دئے گئے ہیں، وہاں بہت سے کام ہو سکتے ہیں، بہت سے فیصلے کئے جا سکتے ہیں، ان مسائل کو وہاں رکھنا چاہئے اور حل کرنا چاہئے۔ اگر حل نہ ہو تو رہبر انقلاب کے علم میں لائیں اور اسے حل کریں۔ مشکلات اور تضاد کو حل کریں۔ بند راستے کھولیں۔ بے شک یہ حکومت کے فرائض میں ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی چاہئے، جیسا کہ میں نے عرض کیا، اپنی ذمہ داری محسوس کرے۔ ڈسپلن، لازمی ضوابط کا خیال، قانون کا خیال اور بہترین انداز سے کام کی انجام دہی، اس کی اصلی ذمہ داریاں ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر ان باتوں کا خیال رکھے اور حکومت اس کی نگرانی کرے۔

ان محترم نے فائننسگ کی بات کی (6) اس چیز نے میرے ذہن کو بہت مصروف کر دیا۔ میں نے نوٹ کر لیا کہ ہم نقدی میں اضافے کے موضوع پر بہت بات کرتے ہیں، یعنی نقدی کی مقدار میں اضافہ روکا جانا چاہئے۔ اس کی کوششیں بھی ہوئی ہیں اور کسی حد تک اس کا اثر بھی ہوا ہے، نتیجتا نقدی کی مقدار میں کچھ کمی آئی ہے۔ ملک کی ایک مشکل لکویڈٹی میں اضافہ ہے۔ جب ہم اس میدان میں کنٹرول کی پالیسی پر توجہ دیتے ہیں تو ظاہر ہے بینک جو ریسورسز اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد کو دیتے ہیں ان میں بھی کمی آئے گی۔ ہم اس کمی کو کیسے دور کریں کہ چھوٹی اور میڈیم سائز کی یونٹیں جو بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، یعنی اقتصادی شعبے کی بیشتر سرگرمیاں انہیں چھوٹی اور میڈیم سائز کی یونٹوں کے ذریعے انجام پاتی ہیں، ان کو نقصان نہ پہنچے؟ اس کا انتظام ضروری ہے۔ یہ بڑے اہم کاموں میں ہے، اس کی اصلی ذمہ داری تو سنٹرل بینک کی ہے۔ اس موضوع کو اس انداز سے مینیج کرے کہ یہ صورت حال پیش نہ آئے کہ یہی محدود ریسورسز جو بینکوں کو دینا ہے، سرکاری کمپنیاں آکر لے لیں، یا کچھ بہت خاص کمپنیاں، وہ کمپنیاں جن کے افراد زیادہ چالاک ہیں، جن کے ہاتھ لمبے ہیں، جن کے زیادہ روابط ہیں، وہ جھپٹ لے جائیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اس کو مینیج کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی یہاں اس مسئلے میں صحیح معنی میں انصاف کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔

اگر ان شاء اللہ ان چیزوں کا خیال رکھا جائے تو میرے خیال میں اقتصادی میدان میں پیشرفت کے لئے ہمارے پاس صلاحیتیں بہت ہیں۔ واقعی ہماری توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ ہمارا ملک واقعی ثروت مند ملک ہے۔ قدرتی وسائل بھی ہیں، انسانی وسائل بھی ہیں، حکومت اور عوام میں رابطہ بھی ہے۔ حکومت مدد کرے۔ حکومت ایک مدد جو کر سکتی ہے وہ برآمدات اور غیر ملکی مارکٹ سے متعلق ہے۔ دنیا کی اہم کمپنیاں، دنیا کی بڑی کمپنیاں جو کام کرتی ہیں وہ اپنی حکومتوں کی پشت پناہی سے کرتی ہیں۔ حکومتیں ان کی مدد کرتی ہیں، راستے کھولتی ہیں، اگر ان کو کوئی مشکل پیش آ جائے، قانونی مشکل ہو یا مالیاتی، ان کی مدد کرتی ہیں۔ حکومت کو جو کام کرنا چاہئے ان میں ایک یہی ہے۔ یعنی اقتصادی ڈپلومیسی ایک مشترکہ کام ہے، اس کا ایک حصہ معاشی شعبے میں سرگرم پرائیویٹ سیکٹر سے مربوط ہے اور دوسرا حصہ ملک کے رسمی سفارتی ادارے سے مربوط ہے۔ اس موضوع پر کام ہونا چاہئے۔

بہرحال پرائیویٹ سیکٹر اس میدان میں جس انداز سے آگے بڑھ رہا ہے اس سے میں خوش ہوں، مطمئن ہوں۔ اس سے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر، سرمایہ کار اور انٹرپرینیورز ملک کے مستقبل کے لئے، ملک کی اقتصادی پیشرفت کے لئے واقعی اپنا رول ادا کریں اور ان شاء اللہ اقتصادی صورت حال کو بہتر کریں۔

البتہ ہماری بیرونی مشکلات بھی ہیں۔ پابندیاں ہیں۔ کئی طرح کی دشمنیاں ہیں۔ لیکن یہی ہمارے لئے مواقع میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ کل ایک صاحب جو نمائش میں تھے مجھ سے بولے کہ ہمارے اوپر پابندیاں لگا دیں تو ہم خود انحصاری کی منزل تک پہنچ گئے۔ ہمیں دھمکیاں دیں تو ہم نے امن و سلامتی کو یقینی بنا لیا۔ یہ صحیح بات ہے۔ اگر پابندیاں نقصان پہنچاتی ہیں، ظاہر ہے یقینی طور پر مشکلات پیدا کر دیتی ہیں، تو انہیں مواقع میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارے ملک نے، ہمارے جوانوں نے، ہمارے عوام نے، اقتصادی شعبے کے ہمارے افراد نے کچھ معاملات میں یہی کیا ہے اور علمی پیشرفت حاصل کی ہے۔ اگر ہمیں دفاعی وسائل فروخت کئے جاتے تو دفاعی وسائل کے میدان میں آج ہم جس مقام پر ہیں وہاں نہیں پہنچ پاتے۔ اگر سیٹیلائٹس سے ایک ایک کرکے ہمیں الگ نہ کرتے، اگر سیٹیلائٹ سے ہمیں محروم نہ کرتے تو آج مثال کے طور پر ثریا سیٹیلائٹ کو ہم خلا میں نہ بھیجتے۔ یعنی اس کی ضرورت ہی نہ پیش آتی، خلا میں سیٹیلائٹ موجود تھے۔ یہ پابندیاں باعث بنیں کہ یہ کام ہم انجام دیں۔ ان شاء اللہ ان مواقع سے ہم اور بھی بہتر استفادہ کر سکیں گے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو توفیقات سے نوازے۔ میں آپ کے لئے دعا بھی کروں گا۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

 

(۱اس ملاقات کے آغاز میں اقتصادی شعبے میں سرگرم 12 افراد نے اپنی کامیابیوں کے بارے میں بتایا اور اپنی تجاویز پیش کیں۔

(۲ حسینیہ امام خمینی میں داخلی پیداواری توانائیوں کی نمائش 29/01/2024

(۳  سورہ نحل آیت نمبر 53 کا ایک حصہ؛ تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔

(۴ انٹرپرینیورز، کارخانوں کے مالکان اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے مالکان سے ملاقات  30/01/2023

(۵ آئین کے ارٹیکل 44 کے تحت بنیادی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن 22/05/2005

(۶ مسکن بینک کی  فائننس مینیجنگ کمیٹی کے سربراہ محمّدعلی رستگار