انھوں نے کہا کہ یہ ترقی پذیر ٹھوس راستہ، قومی اتحاد اور مشکلات کے سلسلے میں رجعت پسندانہ نہیں بلکہ انقلابی نقطہ نگاہ یعنی اس حوصلے پر بھروسہ کر کے جس نے کارنامے انجام دیے ہیں، بدستور جاری رہے گا اور معاشی پیشرفت اور دشواریوں کے حل بالخصوص افراط زر کی مشکل کے ازالے کے لیے تمام حکام اور عہدیداران کی مجاہدانہ سرگرمیاں اور دن رات محنت، اس کی راہ ہموار کرےگي۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز تبریز کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات میں صوبۂ مشرقی آذربائيجان کے لوگوں کو ایران کے اتحاد و آزادی کا علمبردار بتایا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس موقع پر اپنی تقریر میں 22 بہمن (11 فروری 2023) کے دن انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے جلوسوں میں قوم کی انتہائي گرانقدر شرکت کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کی۔ انھوں نے دشمنوں کے شدید پروپیگنڈے، روز مرہ کے پریشان کن مسائل اور سردی نیز حوصلہ شکنی کرنے والے دیگر عوامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مومن اور بابصیرت عوام نے ان تمام باتوں کو نظر انداز کر دیا اور وطن عزیز کے مشرق سے لے کر مغرب اور شمال سے لے کر جنوب تک ہر جگہ سبھی لوگ میدان میں آ گئے اور انھوں نے اپنی آواز پوری دنیا کے کانوں تک پہنچا دی۔
آپ نے کہا کہ اس عظیم قومی کارنامے کا حقیقی شکریہ صرف خداوند شکور ہی ادا کر سکتا ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بار کے 'تاریخی سنیچر' کو قومی جذبہ مزاحمت کے تسلسل کا مصداق قرار دیا اور تاریخ کے انقلابوں کی اصلی راہ سے تدریجی انحراف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب میں بھی بعض لوگ مختلف وجوہات کے سبب انقلاب کے سیدھے راستے سے منحرف ہو گئے اور خود انقلاب اور اس کے اہداف تک کے مخالف ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ ایسے افراد کے برخلاف، قوم کسی بھی طرح کی تھکن اور ناامیدی کا شکار ہوئے بغیر اور دشمن کے وار، دھمکیوں اور رجز خوانیوں سے ڈرے بنا اپنے تشخص، شخصیت اور عظمت کو سنبھالے سیدھے راستے پر چلتی رہی اور یہی راستہ اس سال 11 فروری کے دن پورے ملک کی سڑکوں تک پہنچا اور مختلف ولولوں کے ساتھ اس نے معنی خیز مزاحمت اور کینہ پرور دشمن کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قوم کے عزم مصمم کو کمزور بنانے اور انقلاب کے راستے کو بھلا دینے کے لیے دشمن اور بعض اندرونی عناصر کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس سال کے موسم خزاں میں ہونے والے ہنگاموں کے اہم اہداف میں سے ایک یہ تھا کہ عوام 11 فروری کو بھول جائيں اور ملک کے اندر بھی بعض لوگ فضول دلیلوں اور غلط باتوں کے ذریعے اخبارات اور سائبر اسپیس میں اسی بات کو آگے بڑھا رہے تھے لیکن عوام نے انھیں دھول چٹا دی۔
11 فروری کے جلوسوں میں صحیح ادراک کے ساتھ عوام کی شرکت، ان خصوصیات میں سے ایک تھی جنہیں رہبر انقلاب اسلامی نے بھرپور طریقے سے سراہا۔ انھوں نے کہا کہ عوام کے انٹرویوز سے یہ بات عیاں تھی کہ وہ صحیح ادراک اور درست تجزیے کے ساتھ جلوس میں آئے ہیں اور چونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ امریکا، ان کی موجودگی سے ہراساں ہے، اس لیے انھوں پوری خوشی، ولولے اور جوش و جذبے کے ساتھ معنی خیز نعرے لگا کر، اپنے اصل موقف یعنی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکی اور صیہونی میڈیا امپائر اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ ایرانی قوم کی یہ بلند آواز، دوسری اقوام کے کانوں تک نہ پہنچے لیکن جنھیں یہ آواز سننی چاہیے انہوں نے یعنی امریکا اور برطانیہ کے پالیسی ساز اداروں اور دشمن کی جاسوسی ایجنسیوں نے یقینا یہ آواز سن لی ہے۔
انھوں نے دشمن کے حملوں اور اس کے اس قسم کی بیان بازیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران کو فوجی توانائي کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ جس قوم کے اتنے زیادہ دشمن ہیں، اسے اپنی اور اپنے ملک کی فکر میں رہنا چاہیے، جیسا کہ انقلاب کے اوائل میں جب مجھے پتہ چلا کہ کچھ لوگ، ایف-14 طیاروں کو بیچنا چاہتے ہیں تو میں نے فورا انٹرویو اور بیان دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر کہا کہ عقل اور دین کی بنیاد پر ہم نے دفاعی پہلوؤں پر پوری توجہ رکھی ہے اور قرآن مجید کے حکم کی بنیاد پر مستقبل میں بھی ہم اس میدان میں جہاں تک ممکن ہوگا، کوشش کرتے رہیں گے۔
انھوں نے کہا کہ صنعتی میدان، سڑک اور ڈیم سازی جیسے انفراسٹرکچر کے امور اور دیگر میدانوں میں ملک نے دفاعی امور سے زیادہ کام اور سرمایہ کاری کی ہے لیکن دشمن، ایران کے ڈرون کے بارے میں جس کے پروپیگنڈوں سے خوف عیاں ہے، دیگر پیشرفتوں کا انکار کرتا ہے اور صرف دفاعی امور کا شور مچاتا ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی ترقی و پیشرفت کو ایک فرحت بخش اور مسرت آفریں حقیقت بتایا اور کہا کہ ہم پروپیگنڈے اور میڈیا کے کام میں کمزور ہیں اور اس ترقی و پیشرفت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ضروری مہارت حاصل نہیں کر پائے ہیں۔
آپ نے مزید کہا کہ ایران کے کارناموں اور نمائشوں کا معائنہ کرنے والے، پابندیوں کے حالات میں بھی اس حد تک پیشرفت پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں، جیسا کہ صیہونی حکومت کی میزائیل یونٹ کے اس کمانڈر نے کچھ سال پہلے کہا تھا کہ میں ایران کا دشمن ہوں لیکن پیشرفتہ میزائل بنانے کے ایرانی سائنسدانوں کے کارنامے پر انھیں سلام کرتا ہوں۔
انھوں نے معاشی ترقی اور افراط زر پر کنٹرول کو سب سے اہم کاموں میں شمار کیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ سبھی خاص طور پر حکام اور عہدیداران جہادی سرگرمیوں اور دن رات کام کرنے کے پابند ہیں۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ آج اقتصادی امور سب سے اہم کاموں میں شامل ہیں کیونکہ معاشی ترقی کے بغیر ملک کا کام آگے نہیں بڑھے گا اور معاشی ترقی کے لیے افراط زر کو کنٹرول کرنا اور قیمتوں کا ٹھہراؤ ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ افراط زر کا مسئلہ قابل حل ہے اور مختلف شعبوں کے عہدیداروں کو اس کا علاج کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مستقبل کو ہمیشہ کی طرح روشن بتایا اور کہا کہ جب جب ملک کے سامنے کو کوئي روشن افق رہا ہے، تب تب ہم نے کچھ ہی عرصے بعد اسے حاصل کر لیا ہے کیونکہ ایرانی قوم کی صلاحیتیں اور ملک کی توانائي بہت زیادہ ہے، اس لیے یہ قوم اس سے بھی بڑے کارنامے انجام دے گي۔
انھوں نے اس ملاقات میں، تبریز اور آذربائیجان کے عوام کے ایمان، حمیت اور اپنائيت کو سراہتے ہوئے تبریز کے عوام کے 29 بہمن 1356 (18 فروری سنہ 1978) کے قیام کو ایک فیصلہ کن دور اور ایران کی تاریخ کا ورق پلٹنے کا دن قرار دیا۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ اگر تبریز کے عوام، قم کے عوام کے قیام کے چہلم پر اٹھ کھڑے نہیں ہوتے تو وہ قیام بھلا دیا جاتا لیکن تبریز والوں نے قم کے واقعے کو قیام اور ایک قومی تحریک میں بدل کر، جو ایک سال کے اندر پٹھو ڈکٹیٹر حکومت کی سرنگونی پر منتج ہوئي، ایران کی آزادی کا پرچم اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ایک تاریخی دور کو جنم دیا۔
اس ملاقات کی ابتدا میں صوبۂ مشرقی آذربائیجان میں ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین آل ہاشم نے کہا کہ غیر معمولی صلاحیت والے افراد اور نوجوانوں سے مؤثر اور مسلسل رابطہ، معاشی سرگرمیاں انجام دینے والوں کے مسائل کے حل کی کوشش، عوام کے درمیان براہ راست موجودگي اور دین مخالف اور علیحدگي پسند دھڑوں سے ثقافتی اور سیاسی جدوجہد، صوبے میں ولی فقیہ کے نمائندہ دفتر کے اقدامات میں شامل ہے۔