ماہ شعبان بہت اہم مہینہ ہے؛ اَلَّذى‌ کانَ رَسولُ اللَہِ صَلَّى اللَہُ عَلَیہِ وَ آلِہِ یَداَبُ فى‌ صیامِہِ‌ وَ قیامِہِ فى‌ لَیالیہِ وَ اَیّامِہِ بُخوعاً لَکَ فى‌ اِکرامِہِ وَ اِعظامِہِ اِلىٰ‌ مَحَلِّ‌ حِمامِہ. (اے خدا! یہ ماہ شعبان وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول خدا اپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں قیام کیا کرتے تھے۔ تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے۔) پیغمبر اپنی عمر کے آخری دنوں تک اس مہینے میں ایسا ہی کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ وہ "فَاَعِنّا عَلَى الاِستِنانِ بِسُنَّتِہِ فیہ" (تو اس مہینے میں ان کی سنت کی پیروی کی ہمیں توفیق دے۔) خود وہ زبردست مناجات بھی جو اس مہینے کے لیے نقل ہوئي ہے (مناجات شعبانیہ)، اس ماہ کی عظمت کی گواہ ہے۔ ایک بار میں نے امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے پوچھا کہ یہ جو دعائیں ہیں، ان کے درمیان آپ کس دعا کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا کس دعا سے زیادہ مانوس ہیں؟ مجھے اپنے جملے بعینہ یاد نہیں ہیں لیکن ایسا ہی کچھ سوال کیا تھا۔ انھوں کچھ دیر سوچا اور پھر جواب دیا کہ دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ۔ اتفاق سے یہ دونوں دعائيں، دعائے کمیل بھی واقعی ایک بہت ہی زبردست مناجات ہے، معنی و مضمون کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں، یہاں تک کہ ان کے بعض فقرے تو ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہیں۔ خود یہ دعا بھی واقعی ایک نعمت ہے۔ اِلٰہی ھَب لی‌ قَلباً یُدنیہِ مِنکَ شَوقُہُ وَ لِساناً یَرفَعُ اِلَیکَ صِدقُہُ وَ نَظَراً یُقَرِّبُہُ مِنکَ حَقُّہ. (اے میرے معبود! مجھے ایسا دل عطا کر جس کا اشتیاق اسے تیرے قریب کر دے، اور ایسی زبان جس کی سچائی اسے تیری جانب اوپر لے آئے اور ایسی نگاہ جس کی حقانیت اسے تیرے دائرہ قرب میں داخل کرے۔) واقعی خداوند متعال سے اس طرح بات کرنا، اپنی حاجت بیان کرنا، حق تعالی کے حضور اپنا اشتیاق ظاہر کرنا، بہت غیر معمولی چیز ہے، بہت عظیم ہے؛ یا یہ فقرہ کہ "اِلٰہی بِکَ عَلَیکَ اِلّا اَلحَقتَنى‌ بِمَحَلِّ اَہلِ طاعَتِکَ وَ المَثوَى الصّالِحِ مِن مَرضاتِک" (اے میرے معبود! تجھے تیری ذات گرامی کا واسطہ! مجھے اپنے مطیع بندوں کے مرتبے اور اپنی خوشنودی کے نتیجے میں شائستہ منزلت تک پہنچا دے۔) یا یہ فقرہ جو اس دعا کا نقطۂ عروج ہے اور جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بار بار اپنے بیانوں میں دوہراتے تھے کہ "اِلٰہى‌ ھَب لى‌ کَمالَ الاِنقِطاعِ اِلَیکَ وَ اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضیاءِ نَظَرِھا اِلَیکَ حَتَّى‌ تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّور. (اے میرے معبود! تیرے علاوہ تمام مخلوقات سے دور ہونے اور ان سے امید منقطع کرنے میں مجھے ایسا کمال عطا فرما کہ میں مکمل طور پر تجھ تک پہنچ سکوں اور ہمارے دلوں کی بصارتوں کو اپنی طرف مکمل توجہ کے نور سے روشنی عطا کرتے رہنا، یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو پار کر لیں۔) واقعی ہم لوگ کس طرح یہ باتیں کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے سامنے تو یکے بعد دیگرے ظلمتوں کے پردے ہیں؛ جبکہ اس دعا میں درخواست یہ کی گئي ہے کہ حَتَّى‌ تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّور (یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو پار کر لیں۔)

امام خامنہ ای
10 مارچ 2022