بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعا، مومن کا وسیلہ، مضطر و بے کس کا سہارا اور علم و قوت کے پرفیض سرچشمے سے کمزور اور نا واقف انسان کے رابطے کا ذریعہ ہے۔ خداوند عالم سے روحانی رابطے اور اس بے نیاز کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر انسان اپنی زندگي میں سرگرداں ہی رہے گا اور اس کی زندگي بے کار گزر جائے گي: "قل ما یعبؤا بکم ربیّ لولا دعاؤکم"(سورۂ فرقان، آيت 77) اے پیغمبر! کہہ دیجیے کہ اگر تمھاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا۔
بہترین دعا وہ ہے جو خدا کی عاشقانہ معرفت اور انسان کی ضرورتوں کی عارفانہ بصیرت کے ساتھ کی گئي ہو اور یہ چیز صرف رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے پاکیزہ اہلبیت کے مکتب میں، جو پیغمبر کے علم کے ظروف اور ان کی حکمت و معرفت کے وارث ہیں، پائي جا سکتی ہے۔ بحمد اللہ ہمارے پاس اہلبیت علیہم السلام کی ماثورہ دعاؤں کا لافانی ذخیرہ ہے جس سے انس معرفت، کمال، محبت اور پاکیزگي عطا کرتا ہے اور انسان کو آلودگیوں سے پاک رکھتا ہے۔
ماہ شعبان کی ماثورہ مناجات – جس کے بارے میں روایت ہے کہ اہلبیت علیہم السلام اسے کبھی ترک نہیں کرتے تھے – ان دعاؤں میں سے ایک ہے، جن کا عارفانہ لہجہ اور فصیح و دلنشیں زبان انتہائي اعلی مضامین اور اعلی معارف سے سرشار ہے اور اس کی مثال عام زبانوں اور بول چال میں ڈھونڈھی نہیں جا سکتی بلکہ بنیادی طور پر اس زبان میں یہ دعا کی ہی نہیں جا سکتی۔
یہ مناجات، اپنے معبود، اپنے محبوب اور پروردگار عالم کی مقدس ذات سے خدا کے سب سے برگزیدہ بندوں کی دعا، التجا، منت اور عاجزی کا ایک کامل نمونہ ہے۔ یہ معارف کا درس بھی ہے اور خدا سے مومن انسان کی التجا اور درخواست کا نمونہ بھی ہے۔
وہ پندرہ مناجاتیں جو امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوئي ہیں، اہلبیت علیہم السلام کی ماثورہ دعاؤں کی واضح خصوصیات تو رکھتی ہی ہیں، ساتھ ہی ان کی ایک نمایاں صفت یہ بھی ہے کہ انھیں ایک مومن انسان کے مختلف حالات کی مناسبت سے بیان کیا گيا ہے۔
خداوند عالم ان مبارک کلمات کی برکت سے سبھی کو فیض حاصل کرنے اور اپنے نفس کی تعمیر کی توفیق عطا کرے۔
امام خامنہ ای
22 دسمبر 1990