بسم اللہ الرحمن الرحیم
بحمد اللہ خداوند عالم نے توفیق عطا کی کہ اس سال بھی پچھلے برسوں کی طرح پودے لگانے کے موسم میں اپنی ذمہ داری کو، جہاں تک میرے لیے ممکن ہے، انجام دے سکوں۔ اس سال عہدیداروں نے یہ نعرہ پیش کیا ہے کہ ہر ایرانی، تین پودے لگائے، ہم نے بھی آج تین پودے لگائے ہیں، دوسرے ایرانیوں کی طرح۔ اگر ایران کی آبادی کے مطابق ان شاء اللہ ہر شخص کی طرف سے تین پودے لگائے جائيں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چار سال میں ایک ارب پودے لگانے کا حکومت کا پروگرام عملی جامہ پہن لے گا، مطلب یہ کہ ہر سال پچیس کروڑ اور چار سال میں ایک ارب اور یہ پروگرام ان شاء اللہ 1402 (نئے ہجری شمسی سال) سے شروع ہو جائے گا۔ یہ بڑا اہم پروگرام ہے۔ پودے لگانے کا مسئلہ، ماحولیات کی حفاظت کا مسئلہ اور پودے لگانے میں اضافے اور درختوں میں اضافے سے ملک کو ہونے والے متعدد فوائد کا مسئلہ، ملک کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے۔ یہ چیز ہمیں سے مختص نہیں ہے، ہمارے ہمسایہ ممالک میں سے بعض نے ایک خاص مدت میں چار ارب اور بعض نے دس ارب پودے لگانے کا پروگرام بنایا ہے، اب وہ کس حد تک کر پائیں گے یا نہیں کر پائيں گے، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ہم کر سکتے ہیں۔ خداوند عالم کی توفیق سے ہم عوام کی مدد سے چار سال میں، 1402 سے لے اگلے چار برس میں ان شاء اللہ ایک ارب پودے لگا سکتے ہیں، ان شاء اللہ عوام بھی اس سلسلے میں کمر کس لیں گے، ادارے بھی مدد کریں اور ہر ادارے کی ایک ذمہ داری ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ پودے لگانا اہم کام ہے، ماحولیات کے لیے بھی اہم ہے اور ملک کی معیشت کے لیے بھی اہم ہے۔ اب سے کچھ سال پہلے کچھ لوگوں نے خط لکھا اور تاکید کی کہ پھل دار درختوں کے پودے لگائے جائيں، ہم نے بھی پھل دار درختوں کے پودے لگائے۔ اس سال کچھ ماہر اور تجربہ کار افراد نے مجھ سے کہا کہ عام درخت، جنگلی درخت، مختلف طرح کے درخت بھی، جن کی لکڑی ان کا پھل شمار ہوتی ہے، ملک کے لیے اہم ہیں۔ بالکل ٹھیک بات ہے اور میں لوگوں سے سفارش کرتا ہوں کہ پھل دار درختوں کے ساتھ ہی جنگلی درختوں کے پودے بھی لگائيں، جن درختوں کی لکڑیاں اہم ہیں، ملک کے اندر استعمال کے لیے بھی اور لکڑی کی تجارت کے لیے بھی، کہ جو ایک اہم موضوع ہے۔
ہمیں اپنے ملک میں اس بات کی ضرورت ہے کہ تمام ممکنہ معاشی وسائل سے استفادہ کیا جائے۔ ایک ہی چیز اور ایک ہی پروڈکٹ پر مبنی معیشت کی صورتحال، وہی ہوتی ہے جو اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج ہمارے سامنے متعدد مشکلات ہیں، اپنی قومی کرنسی کی قدر کے بارے میں مشکل ہے، افراط زر اور مہنگائي کے سلسلے میں بھی دشواری ہے۔ عہدیداروں کو تمام ممکنہ معاشی وسائل سے استفادہ کرنا چاہیے۔ البتہ وہ لوگ کام کر رہے ہیں – میں دیکھ رہا ہوں – وہ لوگ کوشش کر رہے ہیں، ان شاء اللہ وہ اپنی کوششوں کو پوری طاقت سے جاری رکھیں اور ان شاء اللہ عوام کی ان معاشی مشکلات کے لیے صحیح راہ حال تلاش کریں اور اس پر عمل کریں۔ ان میں سے ایک اہم کام یہی درختکاری ہے جو ملک کی معیشت کے لیے حقیقی معنی میں اہم ہو سکتا ہے۔ ہم ان چند ممالک میں سے ایک ہیں جن کے یہاں آئين میں ماحولیات کی حفاظت کی بات ہے۔ ہمارے آئين میں ماحولیات کی حفاظت کی بات صراحت سے کہی گئي ہے اور یہ اہم چیز ہے، کسی کو بھی یہ قانون نہیں توڑنا چاہیے اور یہ ہمارے آئين کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ اس معاملے میں لوگوں کو توفیق حاصل ہوگي، عہدیداروں کو توفیق حاصل ہوگي اور سبھی کے کندھوں پر ضروری کاموں کی جو ذمہ داری ہے، ان شاء اللہ اسے وہ توفیق الہی سے انجام دیں گے۔
میں آج کل زیر بحث ایک مسئلے کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں جسے اسٹوڈینٹس کی پوائزننگ کا مسئلہ کہا جا رہا ہے۔(1) اس سلسلے میں مجھے اطلاع ہے کہ عہدیداروں نے میٹنگ کی ہے، بات کی ہے اور وہ کوشش کر رہے ہیں، ذمہ داریوں کو طے کر دیا گيا ہے۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے پر پوری سنجیدگي سے کام جاری رہے۔ یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔ اگر حقیقت میں اس کے پیچھے کچھ ہاتھ ہوں اور کچھ لوگ، کچھ گروہ اس معاملے میں ملوث ہوں تو یہ بہت بڑا اور نظر انداز نہ کیا جانے والا جرم ہے۔ اگر اس میں کچھ لوگوں کا ہاتھ ہے – اور یقینی طور پر کچھ لوگوں کا ہاتھ ہے، کسی نہ کسی طور پر ضرور کچھ لوگوں کا ہاتھ ہے – تو ذمہ دار اداروں کو، خفیہ اداروں کو، پولیس کے اداروں کو اس پر کام کرنا چاہیے اور اس جرم کی کڑیوں کو تلاش کرنا چاہیے – اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی اور اس جرم کے اسباب فراہم کرنے والوں کو بھی – اور ان لوگوں کو سخت ترین سزا دی جانی چاہیے اور ان کے سلسلے میں سخت ترین سزا کو رو بہ عمل لانا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک معمولی جرم نہیں ہے، یہ معاشرے کے سب سے معصوم ارکان -یعنی بچوں – کے خلاف بھی ایک جرم ہے اور ساتھ ہی معاشرے کی نفسیاتی بدامنی اور فیمیلیز کی تشویش کا بھی سبب ہے، یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ ان پر پوری سنجیدگی اور تندہی سے کام ہونا چاہیے اور سبھی کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر کچھ لوگوں کو سزا ہوئي تو ان کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی معافی نہیں ہوگي اور انھیں ضرور سزا دی جانی چاہیے اور ان کی سزا، دوسروں کے لیے باعث عبرت ہوگي۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم ہماری قوم، ہمارے ملک، ہمارے عوام، ہمارے معاشرے کے لیے خیر مقرر کرے گا اور اس کا لطف ہمارے شامل حال ہوگا – جیسا کہ بحمد اللہ آج تک رہا ہے – اور عہدیداران بھی وہ سارے کام جو انجام دینا چاہتے ہیں، ان شاء اللہ پوری سنجیدگی کے ساتھ ان پر کام کریں گے اور آگے بڑھیں گے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
(1) حالیہ کچھ ہفتوں میں، متعدد اسٹوڈنٹس – جن میں زیادہ تر طالبات ہیں – ملک کے بعض علاقوں کے اسکولوں میں پوائزننگ کا شکار ہوئے ہیں جس کی وجہ اور یہ کام انجام دینے والوں کی اب تک صحیح طرح سے شناخت نہیں ہو سکی ہے۔