بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین والصلات و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاھرین سیما بقیہ اللہ فی الارضین۔

ہمیں آپ احباب اور شعراء سے ملاقات کی اس نشست کی بہت یاد آتی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے کرم کیا اور ہم ایک بار پھر آپ سب سے یہاں ملاقات کر رہے ہيں اور  یہ موقع ملا ہے کہ آپ سب کے افکار و خیالات کے ثمرات سے جو بہت زيادہ قیمتی ہیں، حقیقی معنوں میں بہرہ مند اور لطف اندوز ہوں۔ مطلب اچھے شعر سے جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ بہترین لذتوں میں ہے۔

خوش قسمتی سے ملک میں شعر و شاعری کا رواج بڑھا ہے، شاعروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور سامعین بھی بڑھے ہيں، یہ ایک موقع ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ شعر، ابلاغ کا ذریعہ ہے، ایک موثر ابلاغی ذریعہ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا میں یعنی عالم اسلام میں جہاں تک ہمیں علم ہے اور جس عالم اسلام کو ہم جانتے ہيں وہاں واحد موثر ذریعہ ابلاغ، شعر تھا۔ شاعر شعر کہتا تھا، یقینا بہترین شعر جو کہتا تھا، وہ بڑی تیزی سے پھیل جاتا اور لوگ اس کے اشعار کو سنتے تھے۔ دعبل نے وہ اپنا معروف قصیدہ، خراسان میں پڑھا جس کے بعد امام رضا علیہ السلام نے انہيں وہ پیراہن دیا، انعام کے طور پر۔ وہ پھر وہاں سے نکلے اور قم پہنچے تو قم کے لوگوں نے کہا کہ ہم نے سنا ہے امام علیہ السلام نے آپ کو پیراہن دیا ہے، وہ ہمیں دے ديں۔ انہوں نے کہا نہیں، لوگوں نے اصرار کیا اور کہا کہ ایک ٹکڑا ہی دے دیں، وہ اس پر بھی تیار نہ ہوئے۔ کارواں کے ساتھ ہو لئے اور قم سے نکل گئے۔ راستے میں ایک ڈاکو آیا وہی راہزن جو کاروانوں کو لوٹا کرتے تھے انہیں میں سے ایک آیا اور انہيں روک کر کارواں والوں کا سارا سامان لوٹ لیا۔ ڈاکؤوں کا سردار ایک پتھر کے اوپر بیٹھا تھا۔ گروہ کے لوگ، ایک ایک سامان کھول رہے تھے اور آپس میں بانٹ رہے تھے یہی سب کر رہے تھے، سردار اپنے گروہ کے لوگوں کو دیکھتے ہوئے یہ شعر پڑھتا ہے کہ :

اری فیئھم فی غیرھم متقسما

و ایدیھم من فیئھم حسرات (2)

اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی دولت اور اپنے سامان کو ہاتھوں سے جاتے دیکھ رہا ہوں۔ یہ سردار کہہ رہا تھا، کارواں والوں کی طرف سے وہی لوگ جن کا مال و اسباب لوٹ لیا گیا تھا (3) یعنی ان کے سامان دوسروں کے ہاتھوں میں تھے۔ یہ در اصل دعبل کے اسی قصیدے کا ایک بیت ہے۔ دعبل نے کہا کہ جاؤ اور جاکر پوچھو کہ یہ جو تم نے شعر پڑھا ہے یہ کس کا ہے؟ ایک شخص گیا اور اس سے پوچھا کہ یہ جو تونے شعر پڑھا ہے وہ کس کا ہے؟  ڈاکؤوں کے سردار نے کہا کہ دعبل کا، تو اس نے کہا دعبل یہیں ہیں۔ اس نے کہا کہاں ہیں؟ دعبل کو اس کے پاس لے جایا گیا۔ دعبل اس کے پاس گئے اور کہا کہ ہاں یہ میرا شعر ہے۔ میں دعبل ہوں۔ راہزنوں کے سردار نے حکم دیا کہ جو کچھ لوٹا گیا ہے وہ سب واپس دے دیا جائے۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ  ذرائع ابلاغ یعنی یہ، مثال کے طور پر یہ شعر، ماہ رجب میں خراسان میں کہا گیا تھا، لیکن شعبان میں ایک ڈاکو اسے یاد کر لیتا ہے اور اس کا ایک بیت پڑھتا ہے اور اس کی مثال دیتا ہے (4) اشعار اس طرح سے پھیلتے تھے، اس طرح سے شائع ہوتے تھے، یہ ذریعہ ابلاغ تھا۔ آج ذرائع ابلاغ مختلف طرح کے ہوتے ہیں لیکن شعروں کی اپنی اہمیت قائم ہے، ذرائع ابلاغ کی کوئي بھی قسم، خاص معنوں میں شعر جیسے اثرات کی حامل نہیں ہے۔ یقینا سنیما جیسے کچھ ذرائع ابلاغ، غالبا اشعار سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، خاص طور پر بصری ذرائع ابلاغ، لیکن ان کا اثر ختم ہو جاتا ہے، لوگ بھول جاتے ہیں، آپ ایک بار کوئی فلم دیکھتے ہيں، دوبارہ دیکھتے ہیں اور پھر سب ختم ہو جاتا ہے لیکن شعر باقی رہتا ہے اور باقی رہ جاتا ہے، ایک ہزار سال تک شعر باقی رہتا ہے۔ یہ اشعار کی خاصیت ہے۔ اس بنا پر، شعر اشعار، موثر اور باقی رہنے والے ذرائع ابلاغ ہیں۔

فارسی اشعار کے بارے میں ایک بات یہ ہے کہ فارسی اشعار کی ایک خصوصیت، روحانی اور عرفانی سرمایہ پیدا کرنا ہے۔ دوسری زبانوں کے اشعار میں ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے مضامین ہوتے ہی نہيں بلکہ جہاں تک مجھے علم ہے فارسی اشعار کی طرح اس قسم کے مضامین اور اتنی شدت کے ساتھ نہیں ہوتے یعنی اگر ہم نامور فارسی شعراء پر نظر ڈالیں تو ہمیں یا تو وہ حکماء کی صف میں نظر آئيں گے جیسے نظامی یا حکیم فردوسی، فردوسی ایک فلسفی ہیں اور شاہنامہ حقیقت میں فلسفے کی ایک کتاب ہے یا پھر وہ عرفان کے استاد ہیں یا پھر قرآن کے حافظ ہيں یا پھر سعدی کی طرح ان کی تحریریں، حقائق و معرفت و حکمت کا خزانہ ہیں۔ اسی طرح سے آپ اوپر سے نیچے تک دیکھتے چلے جائيں سعدی تک نظر دوڑائيں، حافظ کو دیکھيں، جامی، صائب، بیدل  کو دیکھیں۔ یہ سب حکیم ہيں، ان کے تمام اشعار میں فلسفہ ہے، یعنی ہمارے اشعار، فارسی اشعار، ہمیشہ سے حکمت و فلسفے سے معمور رہے، عرفان سے آراستہ رہے ہیں، ان اشعار کے ذریعے ہمارے روحانی سرمایہ کو تحفظ فراہم کیا گيا اور اس میں اضافہ کیا گيا۔ یعنی اگر آپ مثال کے طور پر معرفت کے کسی خاص درجے پر ہوں تو جب آپ مثال کے طور پر مولانا کی مثنوی پڑھتے ہیں تو آپ کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے یعنی اس مثنوی سے معرفت پیدا ہوتی ہے، یہ سرمایہ بڑھتا ہے، صرف سرمایے کا تحفظ نہيں ہوتا، فارسی اشعار کی یہ خصوصیت ہے۔ اہم یہ ہے کہ سرمایہ پیدا کرنے اور اس کے تحفظ کا یہ عمل، سخت ترین حالات میں بھی جاری رہا ہے، مثال کے طور پر منگولوں کے حملے کے دوران آپ مشاہدہ کریں، اس دور میں ہمارے پاس عطار ہیں، مولوی ہیں، سعدی ہیں، حافظ ہیں، یہ سب منگولوں اور تیمور کے دور کے ہيں، یعنی اس دور کے ہیں جب ایران پر غیر ملکی بد ترین حملے اور لوٹ مار کر رہے تھے، ملک کا ہر شعبہ متاثر تھا، لیکن معرفت، اشعار اور روحانیت کا سلسلہ نہیں رکا، یہ فارسی شعر و ادب کی خصوصیت ہے اور ہمیں اپنے فارسی اشعار کے سلسلے میں ان خصوصیت کا علم ہونا چاہیے۔

ہمارے شعراء، معروف شعراء جن میں سے کچھ کا ہم نے نام لیا ہے جیسے ناصر خسرو، جیسے نظامی گنجوی، جیسے خاقانی، جیسے خود مولوی یا سعدی یہ شعراء در اصل قرآن کی اس آیت کے مصداق ہيں جس میں کہا گیا ہے "الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و ذکروا اللہ کثیرا" سورہ شعراء کے آخر میں آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "والشعراء یتبعھم الغاوون. الم تر انھم فی کل واد یھیمون. و انھم یقولون ما لا یفعلون. الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و ذکروا اللہ کثیرا و انتصروا من بعد ما ظلموا" (5) یعنی وہ لوگ اسی آیت کے مصداق ہیں، سچ میں ایسا ہی ہے، ہمارے بڑے شعراء اسی آیت کے مصداق ہیں۔ یہ ہمارا ماضی ہے۔

آج کل، میری نظر میں، منگولوں کے زمانے میں جو تباہی ہوئی تھی، دوبارہ ہو رہی ہے۔ یقینا ان نئے منگولوں کی تباہ کاری، جو سوٹ بوٹ اور ٹائی اور پر فیوم لگا کر چلتے ہيں، ماضی کے منگولوں سے مختلف ہے، لیکن تخریب کاری ہی ہے۔ وہ تباہ کر رہے ہیں، کس طرح تباہ کر رہے ہيں؟ یہ تو خود ہم نے محسوس کیا ہے، تاریخ میں پڑھنے کی ضرورت ہی نہيں، یقینا اگر کوئی سامراج کی تین چار سو سالہ تاریخ پڑھے گا تو اسے بخوبی پتہ چل جائے گا کہ ان لوگوں نے دنیا کے ساتھ کیا کیا ہے، سامراجیوں نے ایشیا کے ساتھ، افریقا کے ساتھ، لاطینی امریکہ کے ساتھ، بر اعظم امریکہ کے ساتھ کیا کیا ہے!  یہ تو ایک الگ ہی بحث ہے، ان  طاقتوں نے تو ہمارے دور میں بھی، صدام جیسے پاگل کتے کو مسلح کیا، جرمنی کی کیمیکل فیکٹریاں، صدام کے اختیار میں دے دی گئيں تاکہ وہ حلبچہ، سردشت اور جنگ کے  میدانوں میں ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرکے، بھیانک جرائم کا ارتکاب کرے۔ یہ سب کچھ تو ان لوگوں نے ایران میں کیا ہے، تباہ کاری یہ ہے۔ یہ تباہ کاری مختلف النوع ہے یعنی کسی ایک نوعیت کی نہيں ہے، ایک قسم اس کی یہ بھی ہے۔

پابندیاں بھی تباہ کاری کا حصہ ہیں جیسے دواؤں پر پابندی، اگر مغربی ملکوں کے بس میں ہو تو وہ خودمختاری اور استقامت کے خواہاں ایران جیسے ملک کو کھانے پینے کی چیزوں سے بھی محروم کر دیں، جیسا کہ ان لوگوں نے ضروری دواؤں پر بھی پابندی عائد کر دی، جب ہمیں ویکسین کی ضرورت تھی تو انہوں نے رقم لے لی لیکن ویکسین نہیں دی۔ دو ہزار اکیس میں انہوں نے ویکسین کی قیمت لے لی لیکن مختلف بہانے بنا کر ویکسین نہیں دی تو آپ یقین رکھیں اگر ان کے بس میں ہوتا کہ ایران کے اندر کھانا، لوگوں کو روٹی نہ مل سکے اور اس کا انتظام ملک کے اندر نہ ہو سکے تو وہ یہ کام بھی کر دیتے یعنی یہ لوگ اس طرح کے ہیں۔ وہ صدی کا بھیانک قحط تو اپنی جگہ پر ہے ہی  (6) یہ بھی ایک طرح کا حملہ ہے۔ ان سب کے علاوہ، سیکڑوں، ہزاروں ذرائع ابلاغ، رات دن جھوٹ، افواہ اور غلط باتیں پھیلاتے رہتے ہيں۔ اس وقت  فوجی حملے سے لے کر معاشی حملے تک، سافٹ وار سے لے کر جنگ تک، ایران کے خلاف سب کچھ آزمایا جا رہا ہے۔ اچھا تو ان حالات میں شاعر کا کیا کردار ہے؟ میرا کہنا یہ ہے۔ ہمارے شاعروں نے ایک دور میں بہت اچھے کارنامے انجام دیئے یعنی انہيں جو کرنا چاہیے تھا وہ کر دکھایا۔

آج دشمن کا مقصد یہ ہے کہ وہ ہم سے ہماری روحانی اور نظریاتی طاقت چھین لے، ہمیں خودمختاری چاہیے، تو وہ ہمارے اس جذبے کو کمزور کرنا چاہتا ہے، ہم مغربی آمریت کے سامنے ڈٹ جانا چاہتے ہيں، وہ ہمارے حوصلے کو پست کرنا چاہتا ہے، ہمیں شک و شبہے میں مبتلا کر دینا چاہتا ہے، ہمارے اندر اسلامی تعلیمات اور جذبات کو کمزور کرنا چاہتا ہے، ہمارے اسلامی کاموں کو کمزور کرنا چاہتا ہے،  قومی آشتی کو کمزور کرنا چاہتا ہے، خواتین کی دین داری کو، ان کی شرم و حیا کو کمزور کرنا چاہتا ہے، یہ سب کچھ، ایک قوم اور ایک ملک کی روحانی ضرورتیں ہیں، وہ لوگ انہی چیزوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ خواتین کے سلسلے میں، ایک شاعرہ نے کلام پڑھا، کتنا اچھا کلام تھا، سچ میں اس طرح کے کام زیادہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مغرب والوں کو ایرانی خواتین سے ہمدردی نہيں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین کے حقوق پر توجہ دی جائے بلکہ ان کے دل میں ایرانی خواتین کی دشمنی ہے۔ یقینی طور پر اگر خواتین نہ ہوتیں تو ایران کا انقلاب کامیاب نہيں ہوتا، میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں، میں تو ظاہر ہے، انقلاب کے امور سے بخوبی واقف تھا۔ مطلب یہ کہ اگر ان عظیم جلوسوں میں خواتین شرکت نہ کرتیں، انقلاب کامیاب نہ ہوتا۔ اگر خواتین، انقلاب کے سلسلے میں اپنے شوہروں  اپنی اولاد اور اپنے بیٹوں کی مخالفت کرتیں تو پھر حالات کا رخ کچھ اور ہوتا، جنگ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ سچ میں جب ان ماؤں اور بیویوں کی زندگی کے حالات پڑھتے ہیں تو دل کی عجیب کیفیت ہونے لگتی ہے، یہ خواتین تھیں جنہوں نے اس طرح کی شجاعت، اس طرح کی قربانیوں کا جذبہ ہمارے نوجوانوں اور مردوں کے دلوں میں زندہ رکھا۔ انہيں ایرانی خواتین سے دشمنی ہے!  لیکن خود کو حقوق نسواں، انسانی حقوق اور آزادی کے حامی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ سب دشمنوں کے حملے کا حصہ ہے۔

انسانی حقوق، واقعی حیرت ہوتی ہے، انسانی حقوق کی بات مغرب کے منہ سے اچھی نہيں لگتی، جیساکہ ابھی ایک صاحب کے قصیدے کا ردیف " بہ من نمی آید" تھا (7)  سچ میں مغرب والوں کے منہ سے حقوق نسواں کی بات اچھی نہيں لگتی۔ اس وقت بھی، مغربی ملکوں میں خواتین کو بدترین مسائل کا سامنا ہے؛  مطلب یہ کہ دنیا کے ديگر ملکوں سے زیادہ مغربی ملکوں میں خواتین مسائل کا شکار ہیں۔ در اصل یہ لوگ انسانی حقوق کے حامی ہی نہیں ہیں، ان لوگوں کے منہ سے انسانی حقوق کی باتیں اچھی نہيں لگتیں، یہ لوگ تو انسانوں کے دشمن ہیں! ان کے انسانی حقوق کا مشاہدہ ہم نے داعش کی شکل  میں کیا؛ وہی داعشی جو انسانوں کو زندہ پانی میں غرق کر دیتے تھے یا جلا دیتے تھے، وہ بھی سب کے سامنے، مغرب والوں کے انسانی حقوق کو ہم نے ایم کے او کے دہشت گردوں کی حمایت میں مشاہدہ کیا، ان کی طرف سے صدام کی حمایت میں بھی دیکھا اور غزہ میں، دیکھ رہے ہيں، فلسطین میں ہم مغرب والوں کے انسانی حقوق کو دیکھ رہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ میں ہم ان کے انسانی حقوق کو دیکھ رہے ہيں اور نوجوانوں کے قتل عام میں، یہاں تہران کی سڑکوں پر، ہمارے بے انتہا پاکیزہ نوجوانوں کے قتل کے دوران ہم نے مغرب کے انسانی حقوق کا مشاہدہ کیا جیسے وہ ایک نوجوان جس کا یہاں ذکر کیا گيا، آرمان علی وردی اور روح اللہ عجمیان، یہ نوجوان حقیقت میں بے حد پاکیزہ اور طاہر و طیب نوجوان تھے، ان لوگوں کو ٹارچر کرکے قتل کیا جاتا ہے اور وہ اس کی کوئي مخالفت نہیں کرتے یعنی ان کے لئے اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے بلکہ وہ اکساتے بھی ہیں، بلکہ سکھاتے ہيں، ان کے ریڈیو، ان کے ایجنٹ، ان سب جرائم کی ٹریننگ دیتے ہيں، یہ سب مغرب کے انسانی حقوق کے نمونے ہیں۔

میں کہتا ہوں کہ آج کے دور میں ہر ایک کو، دشمن کی شناخت حاصل کرنا چاہیے۔ سب کو ان مقامات سے آشنائی حاصل ہونا چاہیے جن کو دشمن نشانہ بناتا ہے، سب کو دشمن کے طریقہ کار کی شناخت ہونی چاہیے، سب کو دشمن کی پوزیشن کا علم ہونا چاہیے، فوجی جنگ کی طرح، فوجی جنگ اسی طرح کی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو یہ نہ پتہ ہو کہ دشمن کس طرف سے حملہ کرنا چاہتا ہے تو مار کھا جائيں گے؛ اگر آپ کو یہ نہ پتہ ہو کہ وہ کس علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور وہ آپ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائے تو پھر آپ مار کھا جائيں گے، پتہ ہونا چاہیے۔ سافٹ وار میں بھی یہی صورت حال ہے؛ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ دشمن کرنا کیا چاہتا ہے، کہاں حملہ کر رہا ہے، اس کا مقصد کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ کو اس کے مقصد کا بھی علم ہونا چاہیے، ان سب چیزوں کی شناخت حاصل کریں اور اس کا سد باب کریں  لیکن سب سے زيادہ اہم، فن کار ہيں، ثقافت کے شعبے میں کام کرنے والے ہیں، مصور، افسانہ نگار، فلم کار، معمار، وہ سارے لوگ جو مختلف ثقافتی میدانوں میں سرگرم ہیں، ان سب کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کہ آج ہم دشمنوں کی جانب سے حملے اور تخریب  کاری کے نشانے پر ہيں، خود انہیں اس پر توجہ دینی چاہیے، حالات کو صحیح طور پر سمجھنا چاہیے اور دوسروں کو بھی سمجھانا اور دکھانا چاہیے، سب کو آگاہ کرنا چاہیے، دفاعی پوزیشن میں نہیں آنا چاہیے۔ آج خدا کے کرم سے ہمارے ملک میں با ایمان، سچے اور دین و انقلاب پر ایمان رکھنے والے شعراء کی کمی نہيں ہے، جس کی کچھ مثالیں یہاں موجود ہيں، آپ سب کی شکل میں۔

خوشی قسمتی سے  آرٹ کے ادارے سمیت مختلف اداروں کی جانب سے جو ایک اچھا کام ہوا ہے  وہ اس شعر و شاعر کی ملک بھر میں ترویج ہے، یعنی آج پورے ملک سے یہاں تک کہ دیہی علاقوں سے، چھوٹے چھوٹے شہروں سے شعراء آگے بڑھ کر خود کو متعارف کرا سکتے ہيں، مختلف مراکز میں اپنا کلام پیش کر سکتے ہيں، آج یہ سب ممکن ہو گیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے، شعراء جذباتی ہوتے ہيں، شاعر جذباتی ہوتا ہے، نرم دل ہوتا ہے، لیکن اسے جذباتی ہونے سے بچنا چاہیے، مختلف امور میں جذباتی ہونے سے بچنا چاہیے، بلکہ غور و فکر کرنا چاہیے اور حالات کو صحیح طور پر سمجھنا چاہیے اور جو کچھ ہو رہا ہو اس کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور پھر وہ جس فن میں ماہر ہے اس کی مدد سے، اپنی وہ ذمہ داری پوری کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ہنر و فن میں وہ جتنا بھی آگے بڑھ جائے، اس کی اہمیت نہيں رہے گي۔ شاعر نے کہا ہے :

می نابی ولی از خلوت خم

بہ ساغر چون نمی آيی چہ حاصل؟(8)

ساغر میں آنا ہوگا تاکہ مسرت کا باعث بنے، ابھی یہ شعر کسی نے یہاں پڑھا ہے۔

خداوند عالم آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے اور ہم سب کو یہ توفیق عنایت فرمائے کہ ہم فن و ہنر و شعر سمیت اپنے ملک اور اپنے نظام کے وسائل اور نعمتوں سے فائدہ حاصل کریں اور کامیاب و کامران رہیں۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا اور جناب امیری اسفندقہ (9) اور اسی طرح جناب قزوہ (10) صاحب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے محفل کی نظامت کی اور خود اشعار نہيں پڑھے ان شاء اللہ مستقبل میں ہم ان کے اشعار بھی سنیں گے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1) ملاقات کے آغار میں کچھ شعراء نے اپنے کلام پڑھے

2) کمال الدین و تمام النعمہ ج 2 ، ص 73

3)  مال و دولت

4) بیان کرنا، حوالہ دینا

5) سورہ شعراء آیت 224  سے 226 تک اور آیت نمبر 227 کا ایک حصہ " اور جو شعراء ہیں ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرا کرتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیں ہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا اور بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا انہوں نے بدلہ لیا۔

6)  سن 1917 میں ایران میں آنے والا قحط جو دو برسوں تک جاری رہا۔ یہ قحط در اصل اس لئے آیا تھا کیونکہ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم میں ایران کی اشیائے خورد و نوش کو استعمال کر لیا تھا۔ اس قحط میں ایرانیوں کی بہت بڑی تعداد ماری گئي۔

7) جناب حسن خسروی وقار کی غزل کی طرف اشارہ ہے جس کا مطلع ہے :

من شرابم شادی ام، شیون نمی آید بہ من

رودی از روحم، سراب تن نمی آید بہ من

8) صائب تبریزي، دیوان اشعار۔ اس غزل کا شعر جس کا مطلع ہے :

ز خلوت بر نمی آیی چہ حاصل، بہ چشم تر نمی آیی چہ حاصل

9) جناب مرتضی امیری اسفندقہ

10) جناب علی رضا قزوہ