پہلا خطبہ:

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم. الحمد للہ ربّ العالمین. الحمد للہ الّذی خلق السّماوات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الّذین کفروا بربّھم یعدلون. نحمدک و نستعینک و نتوسّل الیک و نستغفرک و نصلّی و نسلّم علیٰ حبیبک و نجبیک سیّد خلقک ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علیٰ آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین الھداۃ المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین و صلّ علیٰ ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین.

میں پوری دنیا کے تمام صاحب ایمان اور مسلمان بھائيوں، ایران کی عظیم قوم اور آپ نمازیوں کی خدمت میں عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، رمضان کے ثمربار اور رحمت الہی سے سرشار مہینے کو گزارنے کی، جو آپ نے اس سال گزارا ہے، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس سال کا ماہ رمضان، بہت پرکیف اور عمدہ تھا۔ اس مہینے میں دعا تھی، گریہ تھا، توسل تھا، خاص طور پر مبارک شبہائے قدر میں جوانوں کی پرسوز اور دل گداز شب بیداریاں اور پاکیزہ جوانوں کی مبارک آنکھوں سے جاری ہونے والے گرم آنسو بہت زیادہ نمایاں تھے۔ معرفت آموزی اور درس آموزی کی مجالس و محافل، قرآنی محافل اور تلاوت قرآن کی نشستیں، جیسا کہ دکھائي دے رہی تھیں، اس سال بحمد اللہ ہمیشہ سے زیادہ نمایاں تھیں۔ شہیدوں کے قبرستانوں میں، مجالس میں، محافل میں، انجمنوں میں، مساجد میں لوگوں کی موجودگي بڑی نمایاں تھی۔ ان کے علاوہ لوگوں نے اس مہینے میں جو مومنانہ امداد کی – یتیموں کی مدد، کمزوروں اور غریبوں کی مدد – کہ ماہ رمضان میں ایک اہم ترین فریضہ، یہی عوامی موجودگي اور کمزوروں اور ضرورت مندوں کی مدد ہے۔ ان سب کے علاوہ یوم قدس میں عوام کی بھرپور موجودگي ہے کہ مومن عوام نے پچھلی رات، جاگ کر عبادت کرتے ہوئے گزاری تھی اور دن میں روزہ رکھ کر پورے ملک میں وہ عظیم الشان اور کثیر تعداد والے اجتماعات میں شرکت کی، یہ سب اللہ کی توفیقات ہیں، یہ اللہ کا لطف و کرم ہے۔ رمضان کا مہینہ، اللہ کے حضور گڑگڑانے کا بھی مہینہ ہے اور جہاد کا بھی مہینہ ہے، اسلام کے ابتدائي دور میں جنگ بدر، ماہ رمضان میں ہوئي تھی، مکہ بھی ماہ رمضان میں فتح ہوا تھا، ان برسوں میں یوم قدس بھی، ایرانی قوم کی جدوجہد کا دن ہے اور بحمد اللہ اس سال دوسری اقوام نے بھی ساتھ دیا اور یوم القدس بہت ہی وسیع پیمانے پر منایا گيا۔

اس مہینے میں ہمارے عوام نے بہت سی چیزیں حاصل کیں: رقت قلب، پروردگار عالم سے تقرب، روح کی پاکیزگي، روحانیت کی جانب توجہ، بہت سی الہی و اسلامی تعلیمات سے آشنائي اور یوم قدس میں دشمن پر وار، یہ اہم چیزیں اس مہینے میں آپ عزیز عوام، آپ مومن لوگوں اور آپ ایرانی قوم نے حاصل کی ہیں۔ میری عرضداشت یہ ہے کہ انھیں محفوظ رکھیے، یہ روحانی اور معنوی ذخیرے ہیں، ان ذخیروں کو اگلے سال کے ماہ رمضان تک باقی رکھیے، محفوظ رکھیے اور اگلے سال کے ماہ رمضان میں ان شاء اللہ اس جذبے کو مزید مضبوط بنائیے۔ یہی جذبہ ہے جو قوم کو مادی اور روحانی لحاظ سے آگے لے جائے گا، تمام مشکلات کو برطرف کر دے گا اور اللہ کی توفیق سے آپ کو اس الہی اور روحانی سفر کے عروج پر لے جائے گا، جسے اسلام نے مسلمان معاشرے کے لیے مدنظر رکھا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم سبھی کو یہ توفیق عطا کرے گا۔

بِسمِ اللہِ الرَّحمن ِالرَّحیمِ * وَ العَـصرِ * اِنَّ ‌الاِنسانَ‌ لَفی‌ خُسرٍ * اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحٰتِ‌‌ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ ‌وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ.(1)

دوسرا خطبہ:

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما علیّ امیرالمؤمنین و الصّدّیقۃ الطّاھرۃ فاطمۃ الزّھراء سیّدۃ نساء العالمین و الحسن و الحسین سیّدی شباب اھل الجنّۃ و علیّ بن الحسین زین العابدین و محمّد بن علیّ و جعفر بن محمّد و موسی بن جعفر و علیّ بن موسیٰ و محمّد بن علیّ و علیّ بن محمّد و الحسن بن علیّ و الخلف القائم المھدیّ صلوات اللہ علیھم اجمعین و صلّ علی ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین.

ماہ مبارک رمضان کی خصوصیات میں سے ایک، ارادوں کی تقویت ہے۔ روزے کی ایک بڑی اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ آپ کے ارادے کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ ارادہ ایک ایسا وسیلہ ہے جسے خداوند عالم نے آگے بڑھنے کے لیے، پیشرفت کے لیے تمام انسانوں کے وجود میں رکھا ہے، یہ توانائي جو رمضان کے مہینے میں مضبوط ہوئي ہے اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے، ماہ رمضان کے بعد اسے خدا کی خوشنودی کی راہ میں، پیشرفت کی راہ میں اور اس سمت میں استعمال ہونا چاہیے جسے خداوند عالم نے بنی نوع انسان کے لیے متعین کیا ہے اور اسلامی معاشرہ اس راہ کی تقویت، اس راہ کو ہموار کرنے اور اس راستے پر آگے بڑھنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔ ملک کے عہدیداروں کو اس وسیلے سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ارادے کو مضبوط بنا کر گرہیں کھولی جا سکتی ہیں اور ملک کے بڑے بڑے مسائل کو دور کیا جا سکتا ہے، مضبوط ارادے اور اللہ کی جانب سے انھیں عطا کردہ اس اہم وسیلے سے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔

ایک بہت اہم اور بنیادی اسٹریٹیجی، تینوں شعبوں (مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ) میں ملک کے تمام عہدیداروں کا آپسی تعاون ہے۔ بحمد اللہ آپ یہاں تشریف رکھتے ہیں، عوام بھی بحمد اللہ یہاں موجود ہیں اور پھر پورے ملک کے وہ لوگ جو ان باتوں کو سنیں گے، تینوں فورسز کو ایک دوسرے سے یکجہتی، تعاون اور مدد کرنی چاہیے، آئین نے ان تینوں شعبوں کی تشکیل کے لیے اچھی ترکیبیں وضع کی ہیں۔ اگر یہ تینوں شعبے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کریں تو کبھی بھی کام مشکل میں نہیں پھنسیں گے۔ ملک کے حکام ایک دوسرے کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالیں، ایک دوسرے کے لیے راہ ہموار کریں، راستہ کھولیں۔ خود ملک کے حکام – چاہے اراکین پارلیمنٹ ہوں، چاہے انتظامیہ اور عدلیہ کے اعلی عہدیدار ہوں، جو یہاں لوگوں کے درمیان موجود ہیں، اس بات کی طرف متوجہ ہیں کہ اس تعاون، یکجہتی اور امداد باہمی کو کس طرح وجود میں لایا جا سکتا ہے، یہ آج ایک بنیادی اسٹریٹیجی ہے۔

ایک دوسری اہم اسٹریٹیجی، مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز رکھنا اور ذیلی باتوں میں الجھنے سے بچنا ہے۔ ذیلی باتیں ہوتی رہتی ہیں، ہمیشہ دشمن ہی ادھر ادھر کی باتیں تیار نہیں کرتا کبھی کبھی غفلت کی وجہ سے اور مختلف اسباب اور مختلف محرکات کی  وجہ سے ایک کام کے آس پاس، ایک اقدام کے آگے پیچھے، ایک شخص کے اطراف اور ایک عہدیدار کے قریب ذیلی باتیں تیار کر دی جاتی ہیں، ان میں مصروف نہیں ہونا چاہیے۔ نہ تو عوام اس طرح کی باتوں کو اہمیت دیں اور نہ عہدیداران خود کو ان میں الجھائیں بلکہ سبھی ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کریں۔

عزیز عوام سے بھی توقع ہے کہ وہ ماہ مبارک رمضان اور جو کارہائے عظیم انھوں نے انجام دیے ہیں، ان کی برکت سے اپنے اتحاد کی حفاظت کریں گے۔ بحمد اللہ انقلاب کی شروعات سے، جب امام خمینی رحمت اللہ علیہ اپنے نورانی بیانوں سے مسلسل لوگوں کے اتحاد، لوگوں کی وحدت پر تاکید کیا کرتے تھے، ہمارے عوام متحد تھے اور اس اتحاد نے بہت سے موقعوں پر دشوار گزار راہوں اور سخت وادیوں کو عوام کے لیے آسان بنا دیا، ان کے لیے راستہ کھول دیا، یہ اتحاد محفوظ رہنا چاہیے۔ دشمن، ایرانی قوم کے اتحاد کا مخالف ہے، آپ کی وحدت کا مخالف ہے، قوم کے ایک ساتھ ہونے کا مخالف ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ عوام مختلف عقائد اور مختلف نظریات کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑ پڑیں، ٹکرا جائیں۔ کسی سماج میں مختلف نظریات ہوتے ہیں، مختلف عقیدے ہوتے ہیں، مسائل کے سلسلے میں الگ الگ رائے ہوتی ہے، ٹھیک ہے، اس میں کوئي رکاوٹ نہیں ہے، سبھی ایک دوسرے کے ساتھ زندگي گزاریں، ایک ساتھ کام کریں، ایک دوسرے کے ساتھ نرم خوئي سے پیش آئيں، مہرباں رہیں۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے بدگمان کرنے یا لوگوں کو ملک کے محنتی عہدیداروں سے بدگمان کرنے کے دشمن کے وسوسوں کو  باطل کر دینا چاہیے۔

ماضی میں سامراجی، فوجی کارروائي کے ذریعے ملکوں میں گھسا کرتے تھے۔ جب سامراج، کسی مسلمان ملک پر قبضہ کرنا چاہتا تھا تو فوجی طاقت کے ذریعے اس میں گھستا تھا اور اس پر قبضہ کر لیتا تھا۔ یہ چال اور یہ اسٹریٹیجی آج بے کار ہو چکی ہے اور اسلام کے دشمن سمجھ چکے ہیں کہ فوجی طاقت سے کچھ نہیں ہوگا۔ حال میں امریکا نے افغانستان میں اور عراق میں اس کا تجربہ کیا ہے، اس نے دیکھا کہ فوجی طاقت سے کام نہیں بنے گا اس لیے انھوں نے اسٹریٹیجی بدل دی ہے، دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ آج ان کی چال فریب، تحریف، دروغگوئي، وسوسہ ڈالنے، صحیح کو غلط بتانے، اقوام کی اہانت اور اقوام  کو خود سے بدگمانی میں مبتلا کرنے، اقوام کی صلاحیتوں کو، نمایاں خصوصیات اور درخشاں کارناموں کو چھپانے پر مبنی ہے، آج اسٹریٹیجی یہ ہے۔ ہم سب کو اس کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے اور یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے۔ میں نے کچھ دن پہلے(2) کہا تھا کہ ہمیں دشمن کی کارروائي، دشمن کی اسٹریٹیجی اور اس کی دشمنی کے طریقۂ کار کی شناخت میں اپ ٹو ڈیٹ رہنا چاہیے۔ کچھ کام وہ ممکنہ طور پر دس سال پہلے، بیس سال پہلے کرتے تھے، آج نہیں کرتے، ان کے پاس دوسرے طریقے ہیں۔ ہمیں ان چالوں کو ناکام بنانے کا طریقہ حاصل کرنا ہوگا۔ بحمد اللہ قوم بیدار ہے، بابصیرت ہے، آپ نے آج تک دشمن کو شکست دی ہے، اس کے بعد بھی اللہ کی مدد اور نصرت سے دشمن کو دھول چٹائيں گے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و‌ برکاتہ

(1) سورۂ عصر، اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ قَسم ہے زمانے کی۔ یقیناً (ہر) انسان گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیا اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور صبر کی نصیحت کی۔

(2) اسٹوڈنٹس اور اسٹوڈنٹ یونینوں کے نمائندوں سے ملاقات میں تقریر (18/4/2023)

(3) سورۂ نصر، اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ جب اللہ کی مدد اور اس کی فتح آجائے۔ اور آپ دیکھ لیں کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ تو (اس وقت) اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔ بےشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔