ایک اور اہم بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت ہر پہلو سے عوامی حکومت ہوگی۔ عوامی حکومت سے کیا مراد ہے؟ مطلب یہ کہ عوام کے ایمان، ارادے اور طاقت پر منحصر ہے۔ امام زمانہ (ع) صرف دنیا میں عدل قائم نہیں کریں گے، امام زمانہ خود عوام کے مومنین میں سے ہیں اور ان پر بھروسہ کر کے پوری دنیا میں عدل الٰہی کی بنیاد ڈالیں گے اور ایک سو فیصد عوامی حکومت تشکیل دیں گے۔ لیکن یہ عوامی حکومت، دنیا میں موجود تمام حکومتوں سے مختلف ہوگی جو آج جمہوری اور عوامی ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ آج دنیا میں جس کو جمہوریت اور عوامی حکومت کہتے ہیں وہی پرانی آمریتیں ہیں جو نئے کپڑے پہن کر سامنے آرہی ہیں۔ اس کا مطلب مخلتف گروہوں کی آمریت ہے۔ اگر رقابت ہے بھی تو گروہوں کے درمیان ہے، جس میں عوام کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایک گروہ اقتدار حاصل کرتا ہے اور سیاسی طاقت کے سائے میں جو ملک کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور اس طاقت کا غلط استعمال کرکے وہ دولت، پیسہ اور سرمایہ اپنے مفاد کے لئے اکٹھا کرتا ہے اور انہیں دوبارہ (مزید) اقتدار حاصل کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ دنیا میں موجود آج کی جمہوریتیں جھوٹ اور فریب پر مبنی پروپیگنڈے اور آنکھوں اور دلوں کو مسحور کرنے پر ٹکی ہیں۔ آج دنیا میں جہاں بھی وہ جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ صدارتی یا پارلیمانی الیکشن کے امیدواروں کی تشہیر کے لیے کیا کیا کرتے ہیں۔ وہ پیسے خرچ کرتے ہیں۔ جمہوریت پیسے کے زور پر قابض ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی جمہوریت ؛ یعنی دینی (اور اسلامی) جمہوریت ؛ موجودہ طریقے سے بالکل مختلف ہے۔
امام خامنہ ای
22/ اکتوبر/ 2002