بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

 میں آپ سبھی خواہران و براداران عزیز کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ آپ ملت ایران کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔ ان شاء اللہ کامیاب و کامران رہیں۔

میرا مقصد آپ کی قدردانی اور شکریہ ادا کرنا ہے۔ میں آپ میں سے ایک ایک فرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ فلوٹیلا 86 کے عملے کے سبھی افراد کا بھی جنہوں نے پورے کرہ زمین کو سر کرنے کا عظیم مشن پورا کیا۔(2) یہ کام ہمارے ملک کی جہازرانی کی تاریخ میں انجام نہیں پایا تھا۔ اسی طرح آپ لواحقین کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لواحقین کے بارے میں بعد میں چند جملے عرض کروں گا۔ اسی طرح بحریہ کے کمانڈر صاحب کا اور اس اسٹریٹیجک سینٹر کا بھی (شکریہ اداکرتا ہوں) جو فوج میں قائم کیا گیا ہے (یعنی) ذوالفقار اسٹریٹیجک سینٹر(کے اراکین کا) جو مستقل طور پور اس بحری بیڑے سے رابطے  میں تھے اور میں نے چند بار ان سے استفسار کیا، دیکھا کہ اس بحری بیڑے کی خصوصیات سے پوری طرح واقف ہیں۔ میں ان تمام اداروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس بحری بیڑے کو سپورٹ فراہم کی، چاہے وہ تکنیکی شعبے ہوں یا ماحولیات شناسی کی کمیٹی ہو، یا دیگر ادارے ہوں۔ اس عظیم کارنامے میں سبھی کی مشارکت رہی ہے تاکہ آپ فلوٹیلا 86 کے اراکین یہ عظیم مشن مکمل کریں اور آپ نے اس کو انجام دیا۔  

میں اس موقع پر ضروری سمجھتا ہوں کہ ایران کی بحری افواج کے شہیدوں کو یاد کیا جائے، پیکان جنگی بحری جہاز (3) کے شہیدوں کو جو نوجوان اور فداکار تھے (اور اسی طرح) اسلامی جمہوریہ  ایران کی سرافراز فوج کے شہیدوں کو بھی۔ ہم سب ان کے اور ان کے لواحقین کے ممنون ہیں۔

عزیزان من، انقلاب کے اہم واقعات کے دوران آپ کے اسلاف کے اقدامات نے آپ کی کامیابیوں کے لئے راستہ صاف کیا ہے۔ ان کی قدر و منزلت کو سمجھیں۔ فوج اور سپاہ نے بحری میدان میں بڑی فداکاریاں کی ہیں اور یہ فداکاریاں ثمربخش واقع ہوئي ہیں۔ آپ ان سرسبز و شاداب پودوں کے پھول ہیں جو انہوں نے لگائے تھے۔ آپ انہیں کے لگائے ہوئے درختوں کے میٹھے پھیل ہیں۔ آج ہم افتخار آمیز منزل میں ہیں۔ اگرچہ بحری بیڑے کے محترم کمانڈر نے بہت اچھی طرح بیان کیا ہے اور ٹیلیویژن پر بھی کسی حدتک بتایا گيا ہے، لیکن نہیں! آپ کے مشن کا بیان اس طرح پورا نہیں ہوگا۔ اس کی تشریح اور تفصیل زیادہ ہے اور یہ داستان بہت مفصل ہے جس کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ افتخار آمیز منزل ہے۔ یہ منزل پہلے کی مجاہدتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔   

فلوٹیلا 86  نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ ایسا قابل فخر کام ہے جو ہمارے ملک کی جہاز رانی کی تاریخ  میں پہلی بار انجام پایا ہے۔ ہم اگر بیچ سے پہلوی اور قاجاری دور کے منحوس برسوں کو ہٹا دیں تو ان سے پہلے ہمارے پاس بحری سفر کرنے والے تھے جو برے نہیں تھے۔ لیکن جو اس سے پہلے انجام دیا گیا اور جو آپ نے انجام دیا ہے، ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ آپ کے بحری بیڑے نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ بہت بڑا افتخار ہے۔ ساڑھے تین سو افراد پر مشتمل گروہ، ایک تجربہ کار اور ماہر کمانڈر کی کمان میں، پینسٹھ ہزار کلومیٹر کا راستہ طے کرے- پورے کرہ ارض کا چکر لگائے- آبی راستے سے گزرے اور آٹھ مہینے تک سمندروں میں رہے، پورے دو سو بتیس دن۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ دنیا کی مشہور بحری افواج جو یہ کام انجام دے سکتی ہیں اور انجام دیتی ہيں، معدودے چند ہیں۔ آپ نے یہ کام انجام دیا۔ تین بحر اعظم سر کئے اور سرافرازی  کے ساتھ وطن واپس آئے۔ آپ نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کے مفاہیم بہت وسیع ہیں، اس کو بحر پیمائي کے ایک فوجی مشن کی حیثیت سے ہی نہیں دیکھنا چاہئے۔ آپ کا کام بہت عمیق ہے۔ میں اس کی گہرائي کی طرف ایک اشارہ کروں گا۔

سب سے پہلے تو یہ عظیم کارنامہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہماری افواج میں بلند ہمتی بھی ہے، قوت ارادی بھی ہے اور خود اعتمادی بھی ہے۔ یہ بہت اہم۔ یہ تین اہم عوامل ہیں۔ ہمت سے کام لینا، ارادہ راسخ کے ساتھ مسلسل کام کرنا اور خود اعتمادی۔ یعنی وہی جذبہ "ہم کرسکتے ہیں"۔ یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو عسکری دانش کا ہے، پلاننگ کی قوت ہے۔ اس طرح کے آپریشنوں کا ایک بہت اہم حصہ منصوبہ بندی اور پلاننگ ہوتی ہے۔ کوئی گروہ اگر اس طرح کی منصوبہ بندی کر سکے تو یہ بہت اہم ہے اور اس کے بعد عسکری دانش دوسرا پہلو ہے۔ شجاعت، استقامت اور سختیوں کو برداشت کرنے کی قوت۔

آج  ہم (بہت آسانی سے) کہہ دیتے ہیں سمندر میں آٹھ مہینے۔ جو لوگ دو دن، تین دن سمندر میں گزار چکے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ سمندر میں آٹھ مہینے رہنے کا مطلب کیا ہے؟! ان سختیوں کو برداشت کرنا بہت بڑی بات ہے۔ دیکھئے آپ کا کام ان حقائق کو بیان کرتا ہے۔ ان حقائق میں سے ہر ایک کے لئے اہتمام ہوتا ہے۔ یعنی خود یہ بات کہ کوئي فوجی دستہ ایسے کسی کام کی منصوبہ بندی کر سکے اور آپریشن مکمل کرے، بہت بڑی بات ہے۔ اپنے آپ پر یقین اور خود اعتمادی وغیرہ  اہم ہے۔  

مہارت کے ساتھ کار آمد مدیریت (مینیجمنٹ) ایک اور اہم نکتہ ہے۔ ماہر، توانا اور کار آمد مدیریت بہت اہم ہے۔ یہ آپریشن کی اگلی صف کی بات ہے۔ آپریشن کی پشتپناہی کے لئے اسٹریٹیجک کمانڈ کے مرکز کی تشکیل جس کی طرف میں نے اشارہ کیا اور ان لوگوں سے جو سمندر  کے اندر آگے بڑھ رہے ہیں، ان سے فوج کے کمانڈر اور اعلی عہدیداروں کا مستقل طور پر رابطے میں رہنا، یہ بھی اس آپریشن کا بہت اہم حصہ ہے۔ جیسا کہ رپورٹوں میں ذکر کیا گيا ہے، میں نے نوٹ نہیں کیا، میرے خیال میں فرض کریں کہ تقریبا اسّی میٹںگیں ان چند مہینوں میں ہوئي ہیں۔ یہ سبھی کام اہم اور قابل تحسین ہیں۔ یہ آپ کے کام کی اہمیت کا ایک حصہ ہے ( اور اسی طرح) میں بعد میں بھی اس بارے میں بات کروں گا، اس کام کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ بیان کا طریقہ ہے جس کی طرف میں اشارہ کروں گا۔  

ایک اور پہلو، خاندان کا کردار ہے۔ ان محترم خاتون نے چند الفاظ کہے (لیکن اصل بات)  اس سے زیادہ ہے۔ یہ دل کی بے چینی اور تشویش (کوئي معمولی چیز نہیں ہے) آپ کا عزیز پانی میں، سمندر میں، آٹھ مہینے! تشویش، دل کی گھبراہٹ،  بے چینی، یاد، بچوں کو تسلی دینا، ماں باپ ایک طرح سے، شریک حیات ایک طرح سے، ان سب نے صبر کیا، تحمل کیا، افتخار محسوس کیا۔ جب بیڑا آیا، ہمارے ساحل پر پہنچا اور آ گیا تو میں نے لواحقین کے فوٹیج دیکھے ہیں۔ فخر محسوس ہوتا ہے کہ خواتین جوانوں کی شریک حیات، والدین اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے جوان نے یہ کام کیا ہے۔ یہ احساس  افتخار بہت اہم ہے۔  یہ احساس افتخار حوصلہ دیتا ہے خود آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی کہ وہ بھی بڑے کارنامے انجام دیں۔ اگر لواحقین اعتراض کرتے، ناراضگی ظاہر کرتے، اجازت نہ دیتے، جو گیا ہے وہ بھی پشیمان ہو جاتا۔ الحمد للہ لواحقین امتحان میں بہت کامیاب رہے، بہت اچھی طرح صبر کیا۔ افتخار کا احساس کیا اور اس فخر کا اظہار کیا۔

میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس جگہ شہیدوں کے لواحقین کو بھی یاد کیا جائے اور ان کے سامنے جبین تعظیم خم کی جائے۔ الحمد للہ آپ کے عزیز  اپنے کنبوں میں واپس آ گئے۔ آپ نے انہیں گلے لگایا، انہیں دیکھا۔ لیکن شہیدوں کے خانوادوں میں، ان کے عزیزوں کی جگہ خالی رہی۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے، اسی ماضی سے ہے، جو بھی ہے، ان کی بزرگی سے ہے۔ ہم سب ان کے احسان مند ہیں۔ میں جب بھی شہیدوں کے لواحقین سے ملتا ہوں تو کہتا ہوں کہ خدا آپ کا سایہ اس قوم پر باقی رکھے۔

 چند نکات بحریہ کے اس عظیم اقدام کے تعلق سے عرض کروں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آپ کا یہ کام اس آیہ شریفہ کا مصداق ہے: «وَ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَ مِن رِباطِ الخَیل‌» (4) قرآن نے صراحت کے ساتھ یعنی کسی تاویل کے بغیر حکم دیا کہ «اَعِدّوا لَهُم»، دشمنوں کے مقابلے کی تیاری کرو۔ «مَا استَطَعتُم»، جتنا ہو سکے۔  دیکھئے یہ قرآن ہے۔ یہ دینی احتمال یا کوئي کمزور روایت نہیں ہے،  قرآن کی صریحی عبارت ہے۔ «وَ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم»۔ جہاں تک ہو سکے تیاری بڑھاؤ۔ آپ کا یہ کام اس آیہ شریفہ کا مصداق ہے۔ آپ نے اپنی آمادگی میں اضافہ کیا۔ اپنی توانائیوں کو دکھا دیا۔ آپ کا یہ کام اگر چہ اس مساعی کا نتیجہ تھا جو آپ سے پہلے انجام پائي لیکن خود یہ ایک قاعدہ بن گیا، زیادہ بڑے کارناموں کے لئے اس نے زمین ہموار کر دی جو اس کے بعد انجام دیے جائيں گے۔ یہ بات ہے۔ یہ آمادگی آپ نے انجام دی۔ بنابریں یہ پہلا نکتہ کہ چھیاسیویں بحری بیڑے کا یہ مشن اس آیہ شریفہ کا مصداق ہے «وَ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم»۔

آپ کے اس کام نے افواج کی خود اعتمادی بڑھا دی، فوجی توانائیوں کی سطح بلند کر دی، "ہم کرسکتے ہیں" کا جذبہ جو پیشرفت کا باعث ہے اور پیشرفت "ہم کر سکتے ہیں" پر یقین رکھنے پر منحصر ہے، ذہنوں میں اس کی تقویت کر دی۔ دشمن بھی جب اس کو دیکھتا ہے تو مجبور ہو جاتا ہے کہ سنبھل کے بات کرے۔ فطری طور پر یہ ہوتا ہے۔ اسی آیت میں ہے کہ تُرهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَه۔ آپ اپنی تیاریاں بڑھائيں تاکہ دشمن کو پتہ چلے کہ آپ تیار ہیں۔ حملے اور یلغار کے لئے جو بات دشمن کو اکساتی ہے وہ اس کا یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا فریق مقابل کمزور ہے، تذبذب کا شکار ہے، اس سے اقدام کے لئے دشمن کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ لیکن اگر انھوں نے دیکھا کہ نہیں، آپ بیدار ہیں، تیار ہیں، آپ کے اندر توانائی ہے، دانائی ہے تو فطری طور پر وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد نکتہ یہ ہے کہ آپ کے اس کام نے بحریہ کو، فوجیوں کو جہازرانی کے تعلق سے بہت ہی اہم تجربہ دیا ہے۔ یعنی ایک نیا تجربہ ہوا ہے۔ بحراعظم کی چوڑائي کو عبور کرنا۔ ہماری جہازرانی کی تاریخ میں یہ کام نہیں ہوا تھا۔ خلیجوں کو پار کرنا، دشوار سمندری راستوں سے گزرنا، جس کی طرف اشارہ کیا گیا۔ بعض خلیجوں کو پار کرنا بہت سخت اور دشوار تکنیکی کام ہے جس کے لئے مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام آپ نے انجام دیا۔ بغیر کسی حادثے کے ان خلیجوں اور دشوار سمندری راستوں کو طے کرنے میں کامیاب ہوئے۔  دور دراز کے آبی راستوں میں، سمندری بیماریوں کا سامنا، جہاں آپ اپنے گھر والوں سے ہزاروں کلومیٹر دور ہیں، مختلف پریشانیاں لاحق ہوئیں، آپ نے ان کا سامنا کیا، مقابلہ کیا۔ ایندھن میں خودکفالت کا تجربہ، بجلی میں، علاج معالجے کے وسائل میں، یعنی آپ اپنے اس پر ماجرا سفر میں ایندھن میں خود کفیل رہے، بجلی  اور توانائی میں بھی خود کفیل رہے اور صحت، حفظان صحت، اور علاج معالجے میں بھی خود کفیل رہے، سرجری بھی کی۔ یہ بہت اہم تجربات ہیں۔ مرکز سے ارتباط میں بھی نئے تجربات حاصل کئے۔ خود یہ ارتباط بہت اہم ہے۔ رابطہ برقرار کرنے کی توانائي۔ یہ آپ کے تجربات تھے۔ یہ علمی ذخیرہ ہے۔ یہ باتیں جو میں نے عرض کیں، یہ حاصل ہونے والے تجربات، یہ سب علمی ذخائر ہیں جنہیں یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانا چاہئے۔ بحریہ کی یونیورسٹیوں میں  یہ کام نصاب میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ایک اور نکتہ جو آپ کے اس کارنامے میں ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کے اس کام نے ایران کی بین الاقوامی حیثیت بلند کر دی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں: آپ کے کام کی سیاسی اہمیت اگر فوجی اہمیت سے زیادہ نہ کہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ آپ کا یہ کام کہ سمندر میں اتنا بڑا آپریشن انجام دے لیں، خود ثابت کرتا ہے کہ ایران کے اندر اتنی طاقت، اتنے جوان، اتنی علمی و سائنسی توانائی اور اتنی مہارت تھی کہ اس نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ اس سے ملک کو بین الاقوامی اعتبار  ملا۔

اس کے بعد کا نکتہ یہ ہے کہ آپ کی اس بحر پیمائی میں چند درس پائے جاتے ہیں۔ ایسے درس ہیں جو قابل توجہ ہیں۔ پہلا درس معرفت خدا کا ہے۔ سمندر خدا کے وجود کی نمایاں ترین علامتوں میں سے ہے۔ ہم دعا میں پڑھتے ہیں «یا مَن فِی البِحارِ عَجائِبُه»۔(5)

سمندر عجائب خلقت کا مرکز ہے۔  سمندر کی عظمت، سمندروں کی بے کرانی، سمندر کے گوناگوں مناظر کی زیبائیاں، کہیں سمندر کا غضب ںظر آتا ہے تو کہیں مہربانی، حیرت اںگیز سمندری مخلوقات، یہ سب خدا کی نشانیاں ہیں۔ سمندر در اصل خدا کی نشانیوں کی نمائش کا مرکز ہے۔ بنابریں اس بحر پیمائی کا پہلا درس معرفت خدا ہے۔ اس سے خدا پر انسان کے اعتقاد کی تقویت ہوتی ہے، وہ خدا کی نشانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔   

دوسرا درس، درس انقلاب ہے۔ اس بحر پیمائی نے ایران کے انقلاب اسلامی کی اہمیت اور قدر و منزلت کو خود ہمارے لئے اور جو بھی آپ کی اس مہم سے واقف ہو، اس کو لئے واضح کر دیا۔ کیوں؟  اس لئے کہ یہ دانش، یہ توانائی، یہ خود اعتمادی ہمیں انقلاب نے دی ہے۔ یہ ہمت، اتنے بڑے کام کی ہمت ہمیں انقلاب نے دی ہے۔ انقلاب سے پہلے یہ بات نہیں تھی۔ شرمناک پہلوی اور قاجاری دور میں، ان تمام سمندری ساحلی علاقوں، ان تمام سمندری وسائل کے باوجود ہم سمندر کو نہیں پہچانتے تھے۔ جانتے نہیں تھے۔ ہماری بحری افواج دوسرے کاموں میں سرگرم تھیں۔ خوش قسمتی سے آپ نے وہ دور نہیں دیکھا۔ ان کے درمیان جو انصاف پسند اور پاک طینت لوگ تھے، وہ بتاتے تھے کہ اس دور میں بحری فوج کیسی تھی۔ ان کاموں کی کوئی خبر نہیں تھی۔  لہذا دوسرا درس، درس انقلاب تھا۔ انقلاب نے سمندر سے متعلق تعطل ختم کیا اور بحر پیمائی کو فراموشی سے باہر نکالا۔

آپ کے اس اقدام کا ایک اور سبق سلامتی سے تعلق رکھتا ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں، بحرالکاہل کے دور کے علاقے میں اور  بحر اطلس میں آپ کا پہنچ جانا، ملک کے لئے سلامتی لایا۔ آپ نے دکھا دیا کہ سمندر سب کے لئے ہے۔ آزاد سمندر کسی سے مخصوص نہیں ہیں۔ اگر ان بڑی طاقتوں کا بس چلے تو سمندروں کو بھی اپنی ملکیت بنا لیں تاکہ دوسرے ان میں داخل نہ ہو سکیں۔ بشریت سے متعلق عمومی امور کو اپنے نجی تسلط میں لینا بڑی طاقتوں کی ایک فطرت ہے۔ امریکا کی فطرت میں شامل ہے۔ آپ نے اس کو توڑ دیا۔ اگرچہ اس سفر میں بھی انھوں نے آپ کے خلاف معاندانہ اقدامات انجام دیے، کوشش کی کہ آپ کا مشن خراب ہو جائے یا ادھورا رہ جائے (لیکن) آپ ان پر غالب آئے۔ آپ نے  ثابت کر دیا کہ آزاد سمندر سب سے تعلق رکھتے ہیں۔ (یہ کہ)  "ہم اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی بحری جہاز فلاں خلیج سے عبور کرے" کچھ زیادہ ہی غنڈہ گردی ہے۔ کیوں؟ سمندر سب کا ہے۔ سب کو عبور کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ سب کو یہاں سے گزرنے اور آنے جانے کا حق ہونا چاہئے۔ سمندر اور فضا کو سبھی اقوام کے لئے آزاد ہونا چاہئے۔ جہاز رانی اور سمندری نقل و حمل کی سلامتی سبھی ملکوں کے لئے ہونی چاہئے۔ آج امریکی تیل کے ٹینکروں پر حملے کرتے ہیں، بحری قزاقوں کے گینگوں کی مدد کرتے ہیں، یہ ان کا بہت بڑا جرم ہے۔ ہمارے علاقے میں وہ یہ کام کرتے ہیں۔ ہمیں اطلاع ہے کہ دوسری  جگہوں پر بھی کم و بیش یہی کرتے ہیں۔ بین الاقوامی انسانی قوانین کی یہ خلاف ورزی چشم پوشی کے قابل نہیں ہے۔ آپ نے سب کے لئے سمندر کی سلامتی کے اس قانون کو عملی طور پر نافذ کیا۔ یہ بھی ایک سبق ہے۔    

 ہم نے ان درسوں کا جو ذکر کیا اور آپ کے اس اقدام کے بارے میں جو کچھ عرض کیا، اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ہم سب جان لیں کہ انسان کی کامیابیاں، بڑے کمالات، مختلف پیشرفتیں، امیدوں کا پورا ہونا، یہ سب کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سختیاں برداشت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ آرام طلبی، کسی گوشے میں بیٹھ کے صرف دیکھنے، حسرت کرنے، آہیں بھرنے اور بڑبڑانے سے کام نہیں ہوتا ہے۔ کامیابی کے لئے سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، کوشش کرنی ہوتی ہے، کام کرنا پڑتا ہے۔ کوئی اس پہاڑ کی چوٹی کو جس پر کچھ لوگ پہنچے ہوں، دیکھے اور کہے کہ ہم بھی وہاں جانا چاہتے ہیں، تو یہ کافی نہیں ہے۔ اگر وہاں تک پہنچنا چاہتے ہو تو محنت کرو، اس راستے کو اپنے لئے ہموار کرو نہیں تو وہاں تک نہیں پہنچ سکوگے۔ اس کو آپ نے دکھا دیا اور یہ بہت بڑا درس ہے۔ 

آخر میں دو مختصر نکات اختتصار کے ساتھ عرض کروں گا۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ آپ کے آس آٹھ مہینے کے سفر کی داستان، بہت اچھے ٹی وی اور فلمی کام کی اساس بن سکتی ہے۔ فنکار میدان میں آئيں۔ اس مدت میں آپ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے وہ ایسے نہیں ہیں جو چند صفحات کی رپورٹ یا چند منٹ کی تقریر میں سما سکیں۔ آپ کو جن حوادث  کا سامنا ہوا اس کا ہر حصہ، آپ ساڑھے تین سو لوگ تھے، آپ میں سے ہر ایک  کے اپنے احساسات تھے، کام تھے، فکر تھی، آپ نے کچھ اقدامات کئے، خوشیوں اور رنج و الم سے دوچار ہوئے، یہ سب مجموعی طور پر ایک طویل، سبق آموز  اور معنی و مفاہیم  سے پر داستان ہے۔ اس کام کو متعارف کرانے کے لئے، فن و ہنر کے قالب میں،  فیچر اور ٹی وی فلم کی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فنکاروں کا کام ہے وہ یہ کام انجام دیں۔ 

آخری نکتہ یہ ہے کہ اب یہ ملک کے حکام سے تعلق رکھتا ہے کہ سمندر پر توجہ دیں۔ اب بھی سمندر پر ہماری اتنی توجہ نہیں ہے جتنی ضروری ہے۔ آج دنیا کی نوے فیصد تجارت سمندر کے راستے انجام پاتی ہے۔ سمندری نقل و حمل، بین الاقوامی نقل و حمل کا اہم ترین حصہ ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارا ملک ایسا ہے کہ اس کی سمندری سرحدیں کئی ہزار کلومیٹر طولانی ہیں۔ ہمارے ساحل کئی سمندروں سے متصل ہیں۔ شمال میں ایک ساحلی ملک ہے، جنوب میں دوسرا ساحلی ملک ہے، بحر اعظم ہے، ہمیں ان سے بہت استفادہ کرنا چاہئے۔ سمندر سے بہت فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔  متعلقہ اداروں کے حکام بیٹھیں اور اس مسئلے پر فکر کریں، منصوبہ بندی کریں، پلاننگ کریں، البتہ کچھ عرصے سے کچھ کام شروع ہوئے ہیں لیکن وسیع تر اقدام کی ضرورت ہے۔ ہمیں سمندر سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے۔

جو ممالک خشکی سے گھرے ہوئے ہیں۔ بعض دفعہ ایک ملک چند ملکوں کے بیچ میں محصور نظر آتا ہے۔ جہاں بھی جانا چاہئے اس کو ان ملکوں سے گزرنے کی اجازت لینی ہوتی ہے۔ کیونکہ سمندر کے کنارے پر نہیں ہے۔

میری صدارت کے دور میں، ایک بین الاقوامی ادارے میں ایک ملک کے صدر نے مجھ سے ملاقات کرنا چاہا۔ آئے اور آکے میرے پاس بیٹھ گیے۔ ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ کے پاس سمندر ہے؟ میں نے کہا ہاں بہت اچھا سمندر ہے، الحمد للہ کئی سمندری ساحل ہیں۔ کہنے لگے کتنے خوش قسمت ہیں آپ! ہمارے پاس سمندر نہیں ہے۔ ان کی مشکل یہ تھی۔ پہلا مسئلہ جو انہوں نے بیان کیا، سمندر کا نہ ہونا اور ہونا تھا۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ اس سمندر سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی طولانی اور متنوع  سمندری سرحدوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ہمیں ملی مفاد کے لئے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سال حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی توجہات کی برکت سے محرم بہت پر جوش طریقے سے منایا گیا۔ دشمنوں نے محرم کی رونق ختم کرنے کی کوشش کی (لیکن) جو وہ چاہتے تھے اس کے بالکل برعکس ہوا۔ اس سال عشرہ محرم گزشتہ برسوں کے عشرہ محرم سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ، زیادہ جذبے کے ساتھ اور زیادہ شان و شوکت کے ساتھ منایا گیا اور اس سے زیادہ فائدہ حاصل کیا گیا۔ خدا کا کام ایسا ہوتا ہے۔ جو کام خدا کے لئے کیا جائے اور اہداف الہی کے لئے ہو، خدا اس میں مدد کرتا ہے۔

 دعا ہے کہ آپ ہمیشہ کامیاب رہیں، سربلند رہیں۔ آپ حقیقی معنی میں میرے فرزند ہیں۔ آپ کے لئے دعا گو ہوں، خدا سے دعا ہے کہ ان شاء اللہ سبھی واقعات زندگی میں، زندگی کے سبھی بڑے امتحانات میں اس امتحان کی طرح کامیاب اور کامران رہیں۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

1۔ اس ملاقات میں پہلے ایڈمرل شہرام ایرانی (ایرانی فوج کی بحریہ کے کمانڈر)، ریئر ایڈمرل فرہاد فتاحی ( اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے فلوٹیلا86 کے کمانڈر) اور بحری بیڑے کے ایک کارکن کی شریک حیات نے تقریر کی۔ 

 2۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کا چھیاسیواں بحری بیڑا 1 اکتوبر 2022 کو اپنے مشن پر روانہ ہوا اور پینسٹھ ہزار کلومیٹر کی مسافت میں کرہ زمین کا چکر لگا کر، رواں سال کی بیس مئی کو ایران کی بندرعباس  بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔

  3۔ پیکان جنگی جہاز نے اٹھائيس نومبر 1980 کو "مروارید آپریشن" میں عراق کی سمندری فوج کو قابل توجہ نقصان پہنچایا اور آخر میں اس کو گولہ لگا اور اس میں موجود سبھی جوان شہید ہو گئے۔  

4۔ سورہ انفال آیت نمبر 60

5۔ زاد المعاد، ص 437 ( دعائے جوشن کبیر)