حسین بن علی (علیہما السلام) جیسی شخصیت کہ جس میں خود تمام اعلی اقدار مجسم ہوئے ہیں، انقلاب بپا کرتی ہے تاکہ زوال و انحطاط کی راہیں بند کردے، کیونکہ پستیاں پیر پھیلاتی چلی جارہی تھیں اور وہاں تک پہنچ جانا چاہتی تھیں کہ کوئی چیز باقی نہ رہے۔ امام حسین علیہ السلام تن تنہا زوال اور پستی کی اس تیز ڈھلان پر اس کے مقابل کھڑے ہوگئے ... (آواز آئی) و انا من حسین (میں حسین سے ہوں) یعنی پیغمبر کا دین زندہ ہوگیا، حسین بن علی کا بیٹا ہے ... سکے کا یہ رخ (کربلا کا وہ) عظیم حادثہ اور عاشورا کی جوش و خروش سے معمور وہ ’’عاشقانہ کارزار‘‘ ہے جسے عشق کی منطق اور عاشقانہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے تاکہ سمجھا جا سکے کہ علی کے فرزند حسین نے تقریبا ایک رات اور آدھے دن یا ایک شبانہ روز کے دوران نویں محرم کے وقت عصر سے لے کر دسویں محرم کے وقت عصر تک کیا کارنامہ انجام دیا ہے اور کیا عظمت خلق کی ہے! یہی وجہ ہے کہ عاشورا دنیا میں جاوداں ہے اور ابد تک جاوداں رہے گی۔ بہت کوششیں ہوئیں کہ عاشورا کی کارزار کو طاق نسیاں کے حوالے کر دیا جائے لیکن وہ آج تک ایسا نہیں کرسکے اور نہ آئندہ کرسکیں گے۔
امام خامنہ ای
8 مئی 1998