آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مقدس دفاع کے دوران سخت مقابلے میں فتح کے پائيدان پر ایرانی قوم کے کھڑے ہونے کے زبردست ثمرات، ملک کی ارضی سالمیت کی حفاظت، ایرانی قوم کی عظیم صلاحیتوں کے اجاگر ہونے، ملک کی غیر جغرافیائي سرحدوں کی وسعت اور ملک و بیرون ملک استقامت کے مفہوم اور کلچر کے فروغ و استحکام کو منہ زور عالمی طاقتوں کے محاذ اور خبیث صدام کے مقابلے میں ایرانیوں کے ہمہ گير دفاع کا نتیجہ بتایا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ مقدس دفاع میں ملک کے جوانوں کی صلاحیتوں کے نکھرنے اور طاقت اور جدت عمل کے سامنے آنے سے واضح ہو گيا کہ جوان ہمیشہ ملک کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی سرکوبی و نابودی اور ملک کے مختلف حصوں کی تقسیم کو مسلط کردہ جنگ میں دشمنوں کے اصل اہداف شمار کیا اور کہا کہ اسلامی انقلاب ایک عدیم المثال چیز تھی کیونکہ اس وقت تک دنیا میں کوئي ایسا انقلاب نہیں آيا تھا جس کا نتیجہ دینی حکومت کی صورت میں سامنے آئے اور وہ عوامی بھی ہو، اسی لیے دنیا کی منہ زور طاقتیں چاہتی تھیں کہ اس نئي حقیقت یعنی اسلامی جمہوریہ اور دینی جمہوریت کو ختم کر دیں اور وہ اب بھی اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔
انھوں نے کسی ملک کے ایک حصے کو الگ کرنے کے لیے سرحدی جنگوں کو معمول کی بات بتایا اور کہا کہ اس طرح کی جنگوں کے برخلاف مسلط کردہ جنگ شروع کرنے کا مقصد، ایک ملک کی ہستی، ایک قوم کے تشخص اور اس کی محنت اور کارناموں کو نابود کر دینا تھا اور اس زاویے سے دیکھا جائے تو مقدس دفاع کی عظمت پوری طرح اجاگر ہو جاتی ہے۔
انھوں نے مقدس دفاع کی عظمت کو سمجھنے کے لیے ایران پر حملہ کرنے والوں کی ماہیت پر توجہ کو ضروری قرار دیا اور کہا کہ اُس وقت کی دنیا کی تمام اہم طاقتیں ایک محاذ میں اکٹھا ہو گئي تھیں اور انھوں نے ایرانی قوم پر صدام کے حملے کی حمایت کی۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سامراج کی جانب سے کی جانے والی صدام کی مختلف طرح کی مدد کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایسی رپورٹیں تھیں کہ صدام کو ایران پر حملے کے لیے ورغلانے والا اصل ملک امریکا تھا۔ امریکیوں نے لگاتار انٹیلی جنس مدد کے ساتھ ہی جارحین کو جنگ کی ٹیکٹکس سکھائيں، فرانس والوں نے صدام کو ہوائي حملوں کی سب سے پیشرفتہ ٹیکنالوجی دی، جرمنی والوں نے اسے عام تباہی کے کیمیائي ہتھیار تیار کرنے کی ٹیکنالوجی دی، سابق سوویت یونین کی قیادت میں مشرقی بلاک بھی ہر وہ زمینی اور فضائي سہولت صدام کو دیتا تھا جس کا وہ مطالبہ کرتا تھا اور خطے کے عرب ممالک اسے بے حساب پیسے دیتے تھے۔
انھوں نے سامراج، صدام اور خطے کے عرب ملکوں کے محاذ سے اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کی یکہ و تنہا جنگ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ایرانی قوم، اس طرح کی غیر مساوی جنگ میں فتح کے پائيدان پر کھڑی ہوئي اور اس نے اپنی عظمت و شکوہ کا مظاہرہ کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ملک و قوم کے لیے مقدس دفاع کے بے نظیر و لاتعداد نتائج کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ملک کی ارضی سالمیت کی حفاظت اور وطن عزیز کی ایک انچ زمین کا بھی اس سے الگ نہ ہونا، ان نتائج میں سے ایک ہے۔ انھوں نے کہا کہ قوم کی عظیم صلاحیتوں کا سامنے آنا، مقدس دفاع کے سب سے اہم نتائج میں سے ایک ہے اور ایرانی قوم نے قاجاری اور پہلوی حکمرانوں سمیت بڑی طاقتوں کے پٹھوؤں کے ذلت آمیز پروپیگنڈوں کے برخلاف مقدس دفاع کے آئينے میں اپنی صلاحیتوں کو دیکھا اور ان پر یقین کیا کیونکہ سارے دشمن آٹھ سال تک اس کے خلاف متحد ہو گئے لیکن اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ پائے۔
انھوں نے ایران کے پوری طرح محفوظ ہو جانے کو بھی آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کا ایک نتیجہ بتایا اور کہا کہ ہمہ گير بھرپور دفاع کی وجہ سے ملک بڑی حد تک ممکنہ فوجی حملوں سے محفوظ ہو گيا ہے اور جیسا کہ ہم نے دیکھا بارہا کہا گيا کہ فوجی آپشن میز پر ہے لیکن وہ آپشن میز سے ہل بھی نہیں پایا کیونکہ دشمن، جنگ میں ایرانی قوم کو پہچان چکے تھے اور جانتے تھے کہ وہ کسی حرکت کی شروعات تو کر سکتے ہیں لیکن اسے ختم ایرانی قوم ہی کرے گی۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے اندر استقامت کی سوچ کے رشد و استحکام کو مقدس دفاع کا ایک اور نتیجہ بتایا اور کہا کہ جنگ کے بعد گزرے تیس پینتیس سال میں مختلف طرح کے حملے اور فتنہ انگيزیاں ہوئي ہیں لیکن وہ سبھی، قوم میں استقامت کا کلچر مضبوط ہو جانے کی وجہ سے ناکام رہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ خداوند عالم نے وعدہ کیا ہے کہ اگر کاموں میں ہماری نیت الہی ہوئي تو ہمیں الہی مدد ضرور حاصل ہوگي بنابریں جب تک ہم خدا کی راہ پر ہیں اور خدا کے لیے کام کر رہے ہیں، چاہے ہمیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے، بلاشبہ خدا ہماری مدد کرے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے مقدس دفاع کے مختلف شعبوں میں سرگرم چھے افراد نے مقدس دفاع کے آئيڈیل سے استفادے کے بارے میں کچھ نکات بیان کیے۔
اس کے بعد مقدس دفاع کے اقدار کی ترویج اور اس میدان میں انجام پانے والے کاموں اور سرگرمیوں کی نگہداشت اور فروغ کے فاؤنڈیشن کے سربراہ سردار بہمن کارگر نے اس فاؤنڈیشن کے اقدامات اور پروگراموں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔