بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

 والحمد للہ رب العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الطّاھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین۔

خداوند عالم کا شاکر ہوں کہ اس نے اس بندے کو ایسے جامع، بامعنی اور پرشکوہ جلسے میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں ان تمام لوگوں کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے اس جلسے کا اہتمام کیا ہے۔ اسی کے ساتھ میں ان بھائیوں اور بہنوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس جلسے کے آغاز میں، ایک گھنٹے سے زیادہ مدت تک، تلاوت قرآن مجید، اچھے اشعار اور ہم آہنگ ترانوں اور منقبت پر مشتمل پرگرام پیش کئے۔ اس کے علاوہ تقاریر میں بھی بہت اچھی باتیں کی گئيں۔(1) تقریبا وہ ساری باتیں جو دفاع مقدس اور عوام سے اس کے رابطے سے متعلق ہمارے اذہان میں ہیں، ان خواتین و حضرات کی تقاریر میں موجود تھیں۔ لیکن ان پر غور و فکر اور ان شاء اللہ راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ دفاع مقدس ہمارے ملک کی تاریخ کا ایک اہم اور ممتاز دور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس دور اور اس واقعے کی اچھی طرح شناخت حاصل کریں اور بعد کی نسلوں کے اذہان میں اس کو منتقل کریں۔ اس دور اور اس اہم  واقعے کو ہمیں صحیح  طرح سمجھنا او بعد کی نسلوں کے اذہان میں منتقل کرنا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر تسلسل کے ساتھ ہماری بعد کی نسلیں، دفاع مقدس کے سبھی پہلوؤں اور مفاہیم  سے واقف ہو جائيں اور جان لیں کہ اس اہم واقعے میں ایرانی قوم نے کس طرح خود کو فتحمندی کی چوٹی تک پہنچایا اور سربلندی اور استحکام کے ساتھ  وہاں موجود رہی، تو یہ شناخت ان کے لئے بہت بڑا درس ہوگی اور وہ بڑے کارناموں میں آگے بڑھیں گی۔ یہ میرا یقین محکم ہے۔ اس واقعے کی عظمت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ بہت کام ہوا ہے، کتابیں لکھی گئی ہیں، فلمیں بنائي گئي ہیں، یادداشتیں تیار کی گئي ہیں لیکن میری نظر میں، ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ ابھی تک ہم اس عظیم مرقع کو جس میں لا تعداد نقش و نگار پائے جاتے ہیں، صحیح طور پر نہ پہچان سکے ہیں اور نہ ہی پہچنوا سکے ہیں۔ (لیکن) اگر اس کے قریب جائيں تو دیکھیں گے کہ اس کے ہر حصے میں، اتنی زیبائي، اتنی ظرافت اور اتنی معنی دار مصوری ہے کہ انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ ہر حصہ ایسا ہے۔ ان کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔    

ظاہر ہے کہ میں اس جلسے میں اس ہدف کو عملی شکل دینے کا قصد نہیں رکھتا۔ ممکن بھی نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا، وسیع اور ہمہ گیر کام ہے، لیکن اس کے بعض پہلوؤں کو عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعے کی عظمت سامنے آ جائے۔ اس واقعے کی عظمت کے کئی پہلو ہیں اور متعدد زاویہ ہائے نگاہ سے اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک زاویہ وہ چیز ہے جس کا دفاع کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بحث دفاع مقدس کی ہے۔ یعنی ہم کس چیز کا دفاع کر رہے تھے۔ یہ ایک پہلو ہے۔ اگرہم اس زاویے سے دیکھیں تو اس واقعے کی عظمت کا بڑا پہلو واضح ہو جائے گا۔ ایک زاویہ یہ ہے کہ یہ دفاع کس کے مقابلے میں کیا جا رہا تھا۔ کس نے حملہ کیا تھا کہ دفاع ضروری ہو گیا تھا۔ یہ بھی ایک پہلو ہے جو میری نظر میں اہم ہے۔ تیسرا زاویہ اور نقطہ نگاہ یہ ہے کہ یہ دفاع کس کے ذریعے سے کیا گیا، دفاع کرنے والے کون تھے۔ یہ بھی ایک نئي اور اہم بات ہے۔ میں بعد میں ان میں سے ہر ایک کے بارے میں دو تین جملے عرض کروں گا۔  چوتھا زاویہ یہ ہے کہ اس دفاع کے آثار اور نتائج کیا تھے۔  میں نے ان چار زاویوں کا ذکر کیا ہے (اس  واقعے کو) دوسری جہتوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لہذا ایک بات تو یہ ہے کہ بحث کریں یعنی فکر کریں، مطالعہ کریں کہ کس چیز کا  دفاع کیا جا رہا تھا۔ دوسرے کس کے مقابلے میں کیا جا رہا تھا۔ تیسرے کن لوگوں کے وسیلے سے کیا جا رہا تھا۔ چوتھے اس دفاع کا نتیجہ کیا تھا۔ میری نظر میں ان میں سے ہر ایک بہت اہم ہے۔ ہر ایک کے بارے میں غور کریں  اور مطالعہ کریں۔ یہ بہت اہم ہے۔

 پہلے یہ کہ "کس چیز کا دفاع کیا جارہا تھا"  دفاع مقدس میں، اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوریہ جو اسلامی انقلاب کی دین تھی اور ملک کی ارضی سالمیت کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ یہ تین چیزیں اہم تھیں جن کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ حریف نے ان تین چیزوں پر حملہ کیا تھا۔ دشمن کا اہم اور بنیادی نشانہ جس کی میں بعد میں دوسرے حصے میں تشریح کروں گا، ارضی سالمیت نہیں تھی۔ صدام کے نشانے پر یہ چیز تھی، اس کا نشانہ انقلاب تھا، وہ چاہتے تھے کہ اس اہم، عظیم اور بے نظیر انقلاب کو جو ایران میں عوام کی جانفشانی کی برکت سے آیا تھا، کچل دیں۔ اس کو بے نظیر کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کی نظیر اس سے پہلے کے بڑے انقلابات میں رونما نہیں ہوئی تھی۔ یہ عوامی تھا، دینی تھا، مقامی تھا اور دوسروں کے اشارے پر نہیں تھا، قوم سے تعلق رکھتا تھا، عام لوگوں کا انقلاب تھا، بغاوتوں اور پارٹیوں کے انقلابات کی طرح نہیں تھا۔ یہ انقلاب ملک پر حاکم بدعنوان اور پٹھو نظام کو برطرف کرکے، ہٹا کے ایک نیا نظام لایا تھا اور اس نے نئي حکمرانی قائم کی تھی۔ یعنی اسلامی جمہوری نظام قائم کیا تھا۔ جمہوریت یعنی عوام کی حکومت، اسلامی یعنی دینی یعنی دینی عوامی حکمرانی۔ یہ دنیا میں ایک نئی حقیقت تھی۔ تاریخ میں دینی حکومتیں ملتی ہیں، لیکن ان میں عوامی حکمرانی نہیں تھی۔ عوامی حکومتیں تو تھیں، اب حقیقی یا ظاہری اور نام کی (جیسی بھی)، لیکن ان میں دین نہیں تھا۔ ایسی حکومت اور ایسا نظام جس میں دین و دنیا، دنیا و آخرت، عوام اور خدا دونوں دخیل ہوں، اس کو قائم کرنے والے دونوں ہوں، ایسی چیز پہلے نہیں تھی۔ یہ ہوا تھا۔ اس کو کچلنا اور اس پر غلبہ پانا چاہتے تھے، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ ان کا ہدف یہ تھا۔ اب بھی ان کا ہدف یہی ہے۔ اب بھی مختلف بہانوں  سے اٹھتے ہیں۔ جو اسلامی جمہوریہ کے حریف ہیں، اس کے مقابلے پر ہیں، اس سے دشمنی  کرتے ہیں، ان کا مسئلہ اسلامی جمہوریہ ہے، ذیلی باتیں دوسرے درجے کی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے۔ اس زمانے میں بھی یہی تھا۔   

البتہ اس درمیان ایک خبیث، لالچی، بھوکا اور تمام انسانی اصولوں سے عاری شخص  صدام  دوسرا ہدف بھی رکھتا تھا۔ وہ  اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کے ساتھ ہی ہمارے ملک کی ارضی سالمیت کو بھی نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ وہ غارتگری، تیل اور ملک کی دولت و ثروت کی لوٹ مار  اور اس کی تقسیم کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔ اس کے پیش نظر یہ بھی تھا، لیکن دوسرے اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کا اصلی مسئلہ وہی تھا۔ اس میں بہت فرق ہے کہ کوئي جنگ دو ملکوں کے درمیان سرحدوں کی تبدیلی کے لئے ہو اور کوئی جنگ کسی قوم کا تشخص ختم کر دینے کے لئے ہو۔ دنیا میں جنگیں بہت ہوئی ہیں، جو سرحد کی جنگیں ہیں، زمین پر قبضہ کرنے کے لئے ہوئی ہیں لیکن وہ جنگ جس میں قوم کے تشخص، ملک کے وقار اور قوم کی جانفشانی کے نتائج کو، اسلامی انقلاب کو ہدف بنایا جائے، ان جنگوں سے بہت الگ ہے۔  یہ واقعہ ان واقعات سے بہت مختلف ہے۔ بنابریں وہ چیز جس کا دفاع کیا جا رہا تھا، یہ بنیادی اور اہم نکات تھے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ سرحد کا ایک حصہ پیچھے چلا جاتا ہے یا آگے بڑھ جاتا ہے اور جغرافیائی سرحدیں بدل جاتی ہیں۔ البتہ اگر یہ بھی ہوتا تب بھی اہم تھا، لیکن اس کی اہمیت اور اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دفاع مقدس کا وہ زاویہ ہے کہ جس کا دفاع کیا جا رہا تھا۔         

اور اب دوسرا زاویہ۔ یعنی "حملہ کرنے والے کون تھے"۔ اگر اس نقطہ نگاہ سے بھی اس کو دیکھا جائے تو بھی دفاع مقدس کی اہمیت اور عظمت واضح ہوگی۔ کبھی کوئی ملک دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے، دو رکنی، تین رکنی کوئي اتحاد، دو حکومتیں اور دو طاقتیں کسی پر حملہ کرتی ہیں۔  لیکن ایک دفعہ پوری دنیا کسی ملک پرحملہ کر دیتی ہے۔ معاملہ  یہ تھا۔ یہ جو میں عرض کر رہا ہوں، یہ مبالغہ نہیں ہے۔  ہم جو پوری " پوری دنیا" کہتے ہیں تو ہمارے پیش نظر عالمی امور میں کوئي غیر موثر دور افتادہ ملک نہیں ہے۔  

اس دور کی دنیا کی سبھی اہم طاقتیں ایک محاذ پر جمع ہو گئيں اور ہم پر، اسلامی جمہوریہ پر اور اسلامی انقلاب پر حملے میں شریک تھیں۔

امریکا ایک طرح سے، مختلف یورپی ممالک میں سے ہر ایک، الگ طریقے سے، سوویت یونین کی سربراہی میں اس وقت کا مشرقی بلاک ایک طرح سے۔ کہا جاتا تھا کہ ایران پر حملے کے لئے اصل ورغلانے والے امریکی تھے۔  اس سلسلے میں دستاویزات شائع ہو چکی ہیں، میں نے ان کی  تحقیق نہیں کی ہے نہ ہی دیکھی ہیں، لیکن کہا جاتا تھا، رائج اور مشہور تھا کہ ایران پر حملے کے لئے صدام کو اصلی ورغلانے والے امریکی تھے۔  اس کے بعد جنگ  کے دوران انٹلیجنس مدد بھی امریکی کر رہے تھے۔ وہ دور آج کی طرح نہیں تھا۔ اس وقت اتنے وسائل نہیں تھے، فضائي نقشوں تک امریکیوں کو آسان دسترسی حاصل تھی، وہ ہمارے فوجیوں کے مراکز اوران کی صفوں کا نقشہ تیار کرتے تھے اور مستقل طور پر ان کو دیا کرتے تھے۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ امریکی یہ مدد کرتے تھے۔ جنگ کے طریقوں اور دوستوں کے الفاظ میں جو"ٹیکٹکس" کے بجائے "وے آف ایکشن" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں،  ہمارے وے آف ایکشن یعنی ہماری ٹیکٹکس کی تفصیلات صدام کو بھیجا کرتے تھے۔ اسی طرح یورپ والے، فرانسیسی، فضائي جنگ کے جدید ترین وسائل عراق کو دے رہے تھے۔ میراج جنگی طیارے سپر ایٹینڈرڈ طیارے، اگزوسٹ میزائل۔ یہ اس دور کے پیشرفتہ ترین وسائل تھے جو صدام کو فراہم کئے گئے تھے۔

جرمنوں نے کیمیائی اسلحے تیار کرنے کے ضروری وسائل صدام کو دیے اور کیمیائی ہتھیار تیار کرنے میں اس کی مدد کی جس نے ایران پر اور خود عراق کے اندر حلبچہ پر کیمیائي حملے کئے۔ وہی جو آج دعویدار بنے پھرتے ہیں، ایسے جرائم  کے مرتکب ہوئے ہیں۔

مشرقی بلاک نے بھی، سابق سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے ممالک نے، عراق  نے فضائي اور زمینی جنگ کے جو وسائل بھی طلب کئے، اس کو دیے۔ اس کو جس چیز کی بھی ضرورت تھی، دی۔  چونکہ میزائل مہنگا تھا اس لئے اس کے توپخانے کو اس طرح تیار کیا کہ اس سے، جس  کا خرچ کم تھا،  تہران پر حملہ کرکے خلل پیدا کرے۔ جو بھی کر سکتے تھے، اس کے لئے کیا۔

خود ہمارے علاقے کے عربوں نے، عرب ملکوں نے بے شمار دولت اس  کو فراہم کی۔ وہ یورپی ملکوں سے جو چیز بھی خریدتا تھا، اس کی قیمت ہمارے عرب دوستوں کے ان پیسوں سے ادا کرتا تھا جو انھوں نے اس کے اختیار میں دیے تھے۔  اس کو پیسے بھی دیے، رفت و آمد کا راستہ بھی دیا۔ خلیج فارس کی جنوبی سرحد کا علاقہ بھاری گاڑیوں اور ٹرکوں کی آمد و رفت کا مستقل راستہ تھا، اس سے جنگی وسائل عراق پہنچاتے تھے۔ یعنی سب نے مدد کی۔ حملہ آور یہ تھے۔ ہمارا کیا حال تھا؟ ہماری مدد کرنے والا کوئي نہ تھا۔ وہ وسائل اور اسلحے بھی جن کا ہم پیسہ دینے کے لئے تیار تھے، ہمیں نہیں دیے جاتے تھے۔ بعض شاذ و نادر مواقع ہیں جب معمول سے بہت زیادہ پیسے دے کر ہم  بہت مشکل سے، کہیں سے کوئي چیز خرید کے لا سکے جس کی اس غیر مساوی جنگ میں کوئی تاثیر نہیں تھی کہ اس سے یہ نابرابری تھوڑی سی بھی کم ہو جاتی، تو ایسا نہیں ہوا۔        

ایک ایسی جنگ اور ایک ایسی مقابلہ آرائی میں ایرانی قوم نے فتحمندی کی چوٹی سر کی، وہاں کھڑی ہوئی اور اپنا شکوہ دنیا کو دکھا دیا۔ عظمت یہ ہے۔

تیسرا زاویہ کہ "دفاع کرنے والے کون تھ"۔ یہ بھی استثنائی پہلو ہے۔ فوج تھی، سپاہ پاسداران تھی، سپاہ کے دستوں میں عوامی رضاکار فورس بسیج کے سپاہی تھے۔  یہ کم و بیش ویسی ہی چیزیں ہیں جو دنیا میں ہوتی ہیں، یعنی بظاہر مسلح دستے ہیں جو موجود ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں تھا۔ یہ مسئلہ نہیں تھا۔ جی ہاں بظاہر دفاع کرنے والے، فوج اور سپاہ پاسداران اور دنیا میں رائج تنظیموں کی شکل میں دستے تھے، لیکن باطن میں کوئي اور چیز تھی۔ باطن میں دنیا کی لشکر کشی سے کوئی شباہت نہیں تھی۔   

 سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کے کمانڈر ایک خدائی انسان، ہمارے امام بزگوار(امام خمینی رحمت اللہ علیہ) تھے۔ ایک بے نظیر خدائي ہستی جو مختلف جہت سے، علم و دانش، فکر، تجربے اور پختگی کے ساتھ  ہی  پاکیزہ روح  اور باطنی پاکیزگی کی مالک تھی۔ لہذا ان کی باتیں اثر رکھتی تھیں۔ مثال کے طور پر جب انھوں نے کہا کہ 'پاوہ' کو آزاد کرایا جانا چاہئے (2) تو میں نے خود شہید چمران سے سنا ہے کہ دوپہر بعد دو بجے جیسے ہی ریڈیو سے امام کا پیغام نشر ہوا، وہ پاوہ میں محاصرے میں تھے اور ان کے اطراف میں قبضہ ہو چکا تھا۔ ایک دفعہ یہ پیغام نشر ہوتے ہی، جبکہ ابھی فورس نہیں پہنچی تھی، شاید ابھی چلی بھی نہیں تھی، ہم نے دیکھا کہ ہمارے اطراف میں  راستے کھل گئے"۔ اس پیغام میں تاثیر تھی، اس کلام میں اثر  تھا۔ یہ میں نے خود اس عزیز شہید چمران سے سنا ہے۔ یا جب انھوں نے کہا کہ آبادان کا محاصرہ ٹوٹنا چاہئے (3)۔ تو محاصرہ ٹوٹ گیا۔  بہت سے دیگر واقعات میں، مثال کے طور پر سوسنگرد کے معاملے میں، اس گومگو کی کیفیت میں جو سوسنگرد پر حملے کے تعلق سے پائی جاتی تھی کہ جائيں اور دفاع کریں یا نہ کریں، مشکلات تھیں، جب امام کا پیغام پہنچا تو مسئلہ حل ہو گیا۔  ان کے  جیسا کمانڈر تھا جس کی بات میں تاثیر تھی جو معنویت اور صفائے باطن کے مالک تھے۔    

اور پھر دفاع مقدس کا دینی رنگ۔ دینی رنگ۔ جب رنگ دینی ہو تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ نوجوان شوق شہادت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ یہ زندگی نامے اور تذکرے جو لکھے گئے ہیں انہیں پڑھیں، شوق شہادت کے ساتھ، شہادت کی آرزو میں آگے بڑھتے تھے۔ محاذ پر جانے کے لئے گریہ کرتے تھے، اس  امید پر کہ شہید ہو سکیں۔ دینی رنگ کا نتیجہ یہ ہے۔ گھر والے، ماں باپ، شریک حیات، سب اس بات پر راضی ہو جاتے تھے کہ یہ جوان خدا کے لئے،  محاذ پر جائے۔  میں نے بارہا  ماداران شہدا کی قریب سے زیارت کی ہے۔ جن کا ایک بیٹا یا دو بیٹے شہید ہوئے ہیں، وہ کہتی تھیں کہ اگر دس بیٹے ہوتے تو ان سب کی شہادت کے لئے آمادہ تھیں۔ وہ سچ کہہ رہی تھیں۔ حقیقت کہہ رہی تھیں۔ خود اس نمائش میں مجھے ایک خاتون کو دیکھایا جو نو شہیدوں کی ماں تھی۔ مذاق ہے؟ نو شہیدوں کی ماں، آٹھ شہیدوں کی ماں۔  یہ قابل تصور ہے؟ لیکن یہ ہوا۔  خود میں نے کردستان میں ایک گھرانہ دیکھا جس کے سات افراد، اس وقت جو میرے ذہن میں ہے، وہ یہ ہے کہ سات افراد، شہید ہوئے۔ پہلی بار جب اس گھرانے کو دیکھا تو شہیدوں کی ماں زندہ تھی، ان کا باپ بھی زندہ تھا۔ بعد میں باپ اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ سات شہید ایک خاندان کے۔ اس کا عامل دین کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ دین کا عامل ان کا مدافع تھا۔

ہمارے محاذ کی اگلی صفیں محراب عبات تھیں۔ آدھی رات کے وقت کوئی جوان، کمانڈر یا عام سپاہی، ایک دستہ، ایک بٹالین بیٹھ کے آنسو بہائے، گریہ و زاری کرے، عبادت کرے، یہ ایک دو یا دس واقعات نہیں ہیں جو نقل کئے گئے ہیں، اس محاذ کے سبھی سیکٹروں پر یہی حالت تھی۔ آپ دنیا میں کہاں، کس جنگ میں، کس فوجی لڑائي میں یہ بات پاتے ہیں؟ شوق شہادت، توسّل، خدا پر توجہ، آرزوئے شہادت وغیرہ۔

اس کے بعد عوامی مشارکت۔ جنگ کا محاذ صرف لڑائی کی جگہ نہیں تھی، محاذ کا پچھلا حصہ بھی جنگی محاذ تھا۔ (مثال کے طور پر) افواج کی تیاری اور فراہمی کا مرکز۔ دنیا میں فوجی چھاونیاں محاذ کے لئے افواج فراہم کرتی ہیں۔ یہاں فوجی چھاونیاں بھی تھیں، یونیورسٹیاں بھی تھیں، دینی مدارس بھی تھے، اسکول اور کالج بھی تھے۔ ٹیچر محاذ پر  جاتے تھے، ان کے پیچھے پیچھے ان کے شاگرد بھی چل پڑتے تھے، محاذ پر جاتے تھے۔ اسکولوں اور کالجوں کے کتنے طلبا شہید ہوئے ہیں، کتنے یونیورسٹی طلبا شہید ہوئے ہیں،  کتنے دینی مدارس کے طلبا شہید ہوئے ہیں! ہماری مساجد، ہمارے منبر، ہمارے خطیب، سبھی اس عظیم  تحریک میں شریک تھے۔ یعنی ان کی بڑی تعداد اس میں شریک تھی۔  دفاع کرنے والے یہ تھے۔    

سپورٹ کے مختلف مراکز، خاندان،  گھریلو خواتیں، دوسرے افراد،  محاذ جنگ کے مجاہدین کی سپورٹ کے مراکز میں، سپاہیوں کے خون آلود کپڑے دھونے، حوض خون، جس پر کتاب لکھی گئی، (4) میں نے بھی ایک بار نام لیا (5) اسی طرح کے دوسرے امور، پوری قوم سرگرم عمل تھی۔ یہ نہیں کہتا کہ قوم کا ہر فرد لیکن عوام کی عمومی سطح پر سبھی لوگ اور سماج کے مختلف طبقات، سبھی اس تحریک میں شریک تھے۔ کسی بھی واقعے کی عظمت کو اس پہلو اور اس طریقے سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔  میری نظر میں، اس حصے میں خاص طور پر اس تیسرے حصے میں، آرٹ اور فن کے سہارے   حقیقت بیان کرنے والے دسیوں کام کئے جا سکتے ہیں۔ صرف کتاب لکھنا ہی تو نہیں ہے۔ البتہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس حوض خون کتاب کی بنیاد پر ایک فلم بنائي جا رہی ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلکش کام کئے جا سکتے ہیں۔ اور ان شاء اللہ انجام دیے جائيں گے۔ اب تک جو کام کئے گئے ہیں ان میں اضافہ ہونا چاہئے۔ 

اور اب نتائج کے نقطہ نگاہ سے۔ نتائج ایک دو تو نہیں ہیں۔ اب اگر کوئی اس زاویے سے جائزہ لینا چاہے کہ دفاع مقدس کے نتائج کیا تھے، ایک نہیں بلکہ دسیوں جلد کتابیں درکار ہوں گی۔ میں اس سلسلے میں صرف دو تین نکات عرض کروں گا۔

ایک ملک کی ارضی سالمیت کا تحفظ ہوا۔ یہ کام اہم ہے۔ یعنی پوری دنیا اس سرحد کو توڑنے کے لئے صدام کی پشت پر کھڑی تھی لیکن اس ملک کی ایک بالشت زمین بھی نہیں گئي۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ چھوٹی بات نہیں ہے۔ بہت اہم ہے۔ یہ ایک نتیجہ ہے۔ دیگر بہت سے نتائج اس سے اہم تر ہیں۔

ایک نتیجہ یہ تھا کہ ایرانی قوم کو اپنی توانائیوں کا علم ہو گیا۔ آپ ملاحظہ فرمائيں یہ نوجوان خواتین و حضرات جو یہاں آئے اور بولے، مستقل طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں ملک چلانے، ملک  کے انتظام و انصرام  اور معیشت وغیرہ میں، مسلط  کردہ جنگ کے دور اور دفاع مقدس کے طریقوں سے کام  لینے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدس دفاع، اسی شعبے میں ایرانی قوم کی اتنی توانائیاں آشکار ہوئی ہیں کہ چاہتے ہیں کہ ملک چلانے اور ملک کی پیشرفت اور سربلندی کے لئے ان پروگراموں کی پیروی کریں۔ یعنی مقدس دفاع نے ایرانی قوم کے سامنے ایسی تصویر پیش کر دی جس سے ملت ایران نے خود کو پہچان لیا۔ تاریخ میں جو کچھ ہم سے کہا گیا تھا، اور ہمارے ساتھ جو کچھ کیا گیا تھا، وہ اس کے برعکس تھا۔ قاجار کے دور میں، پہلوی حکومت کے دور میں ہمیشہ ہمیں یہ باور کرایا گیا کہ ہم نہیں کر سکتے، ہم کچھ بھی نہیں ہیں، عالمی طاقتیں ایک اشارے میں ہمیں زمین سے معدوم کر سکتی ہیں۔ ہمیں یہ بتایا گیا تھا۔ ہمیشہ ہم سے یہ کہا گیا تھا کہ ہمیں ان سے سیکھنا چاہئے۔  ان کی پیروی کرنا چاہئے، ان سے درخواست کرنا چاہئے۔ مقدس دفاع نے دکھا دیا کہ نہیں، وہ سب جن سے بعض لوگوں کا رشتہ حیات اور امیدیں وابستہ ہیں، وہ سب متحد ہوتے ہیں، قوم پر حملہ کرتے ہیں اور کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتے۔ دفاع مقدس نے قوم کو یہ دکھا دیا۔ یعنی ہمیں اپنی توانائیوں کا علم ہو گیا۔ ہم سمجھ گئے کہ شہید حسن باقری جیسا ایک نوجوان، میں زندہ لوگوں کا نام نہیں لینا چاہتا۔ زندہ افراد میں بھی ایسے لوگ بہت ہیں، اٹھتا ہے، میدان جنگ میں آتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں جنگی حکمت عملی تیار کرنے والا ماہر بن جاتا ہے۔ رائج الفاظ میں، دفاع اور جنگ کا اسٹریٹیجسٹ ہو جاتا ہے۔  یہ استعداد حاصل کرنا مذاق ہے؟ یہ استعداد کہاں تھی؟ شہید حسن باقری ایک نوجوان تھے، ایک اخبار کے نامہ نگار تھے۔ روزنامہ جمہوری اسلامی میں مضمون  لکھا کرتے تھے۔  انھوں نے اپنی یہ صلاحیت دکھائی۔ اس طرح کے استعدادوں کے سامنے آنے کے ہزاروں واقعات ہیں۔ مثال کے طور پر تعمیراتی استعداد۔  بے قابو اور متلاطم دریائے اروند رود  پر پل بنایا اور دشمن کی بمباری میں کئی ڈویژن فوج اس کے ذریعے پار کرائی۔ یہ معمولی کام ہے؟ یہ کام ممکن تھا؟ دشمن کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کام ہو سکتا ہے لیکن ہوا۔ یہ ایک صلاحیت اور استعداد تھی۔ یہ استعداد خوابیدہ تھی۔ پنہاں تھی جو آشکار ہوئی۔ یہ دسیوں اہم نتائج میں سے ایک ہے۔  ہمارے جوانوں نے ان دنوں دفاع مقدس میں جو کارنامے انجام دیے، ان کی بنیاد پر ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ آج ہمارے نوجوان ملک کی سبھی مشکلات دور کر سکتے ہیں۔ یہ جو کہا ہے کہ "فی تقلّب الاحوال علم جواھرالرّجال" (6) عظیم اور بڑی دگرگونیوں میں جوہر انسان پہچانا جاتا ہے۔ یہ صرف افراد سے مخصوص نہیں ہے۔ معاشرہ بھی اسی طرح ہے۔ ایک معاشرہ سخت اور سنگین حوادث میں پہچانا جاتا ہے۔ ہم خود کو نہیں جانتے تھے۔ دوسرے بھی ہم کو نہیں جانتے تھے، دنیا بھی ہم کو نہیں پہچانتی تھی۔ دفاع مقدس میں، ہم نے بھی خود کو پہچان لیا، دوسروں نے بھی ہمیں پہچان لیا اور وہ جو دنیا میں بڑے دعویدار تھے، انھوں نے بھی ہمیں سمجھ لیا۔  

دفاع مقدس کی برکات میں سے ایک ملک کا محفوظ ہو جانا ہے۔ ملک کا محفوظ ہو جانا۔ یعنی مقدس دفاع نے ملک کو ممکنہ فوجی حملوں سے بہت حد تک محفوظ بنا دیا۔ (دشمنوں نے) بارہا کہا کہ فوجی آپشن بھی میز پر ہے لیکن میز سے ہلا بھی نہیں۔ اس لئے کہ جانتے تھے کہ اگر میدان میں اترے تو وہ شروع کریں گے لیکن ختم کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہوگا۔ یہ دفاع مقدس نے دکھا دیا تھا۔ 

یہ بھی مقدس دفاع  کے جملہ نتائج میں سے ایک ہے۔ گہرا اور سچا ایمان،  عزم راسخ و محکم، ایرانی نوجوانوں کی ذہانت، فوجی اور سویلین نوجوانوں کی ایجادات اور نئي چیزیں پیش کرنے کی صلاحیتیں، عالمی غنڈوں پر غلبہ پانے کی توانائی، یہ وہ چیزیں ہیں جو دفاع مقدس کے دوران ہماری قوم اور ہمارے سپاہیوں میں آشکار ہوئیں اور دیکھی گئيں۔  قوم نے بھی ان کو جان لیا۔ فطری بات ہے کہ جب ہم نے  سمجھ لیا اور جان لیا کہ ہمارے اندر یہ صلاحیتیں اور توانائیاں پائی جاتی ہیں، ہماری امیدیں بڑھ جائيں گی، ہمارا ولولہ بڑھے گا   اور ہم ان توانائیوں سے کام لینے کی زیادہ کوشش کریں گے۔ دوسرے میدانوں میں بھی ہم ان سے کام لے سکتے ہیں۔ یہ دفاع مقدس کے اہم نتائج میں سے ایک ہے۔

دفاع مقدس کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اس نے ہماری سرحدوں کو وسعت دے دی۔ ہماری مراد جغرافیائي سرحدیں نہیں ہیں۔ ہم جغرافیائي سرحدوں کو و سیع کرنے کی فکر میں تھے بھی نہیں۔ نہ اس زمانے میں تھے اور نہ ہی آج جغرافیائی سرحدیں وسیع کرنے کی فکر میں ہیں۔  دفاع مقدس نے استقامت کی سرحد وسیع کی ہے۔ یہ ایک نمونہ ہے۔ آج استقامت کا مفہوم، استقامت کا  عنصر جانا  پہچانا ہے۔  فلسطین میں استقامت ہے، مغربی ایشیا میں استقامت ہے، مختلف ملکوں میں استقامت ہے، عراق میں استقامت ہے، ایران میں استقامت ہے۔  یہ استقامت کا عنوان دنیا میں دفاع مقدس نے پیش کیا، آگے بڑھایا اور دنیا میں بہت سی جگہوں پر اس کو رائج کیا۔ شاید خود ہم بھی آسانی سے باور نہ کریں کہ ایرانی قوم کے کارناموں نے دور دراز کے ملکوں میں بھی اپنے اثرات مرتب کئے ہیں، لیکن یہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہمیں اس کی اطلاع ہے۔ ہم ملکوں کا نام نہیں لینا چاہتے۔ مشرق کے علاقے میں بھی یعنی ایشیا کے علاقے میں بھی، افریقا میں بھی اور لاطینی امریکا میں بھی، ایرانی قوم کے بہت سے کام، ان میں سے بہت سوں کے لئے نمونہ عمل بن گئے۔ یہ سرحدوں کی توسیع ہے۔ ہماری فکر اور معرفت کی سرحدوں میں وسعت آئي ہے۔ یہ کسی قوم کی بڑی کامیابی ہے کہ وہ اپنی ثقافت، اپنی تعلیمات، اپنی دانش اور اپنی امنگوں کو دنیا میں پھیلا سکے۔ یہ کام مقدس دفاع کے ذریعے انجام پایا ہے۔ اس آٹھ سالہ مقدس دفاع نے اس سلسلے میں معجزہ کر دیا۔

اس نے خود اعتمادی کو وسعت دی ہے۔ اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم جو استقامت کہتے ہیں تو یہ استقامت کس کے مقابلے میں ہے۔ ہمارا علاقہ، یہ مغربی ایشیا کا خطہ، مختلف وجوہات سے ان علاقوں میں ہے جن پر دنیا کے تسلط  پسندوں کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ اس کے قدرتی ذخائر کی وجہ سے، اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے، اس کے مرکز اسلام ہونے کی وجہ سے، مختلف وجوہات سے، دنیا کی بڑی طاقتوں کی توجہ کا مرکز  رہا ہے اور وہ یہاں مداخلت کرنا چاہتی تھیں۔ آج بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ بڑی طاقتیں جہاں بھی ان کا بس چل جاتا ہے، مداخلت کرتی ہیں۔ استقامت ان کے مقابلے میں۔ استقامت ان خودسر طاقتوں  کے مقابلے میں جنہیں اس علاقے میں آنے کا کوئي حق نہیں ہے، ان کے مقابلے میں استقامت وسیع تر ہوئی ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ اس علاقے میں ایران کی موجودگی پر امریکا اور بعض دوسرے  ملکوں کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں، اسی وجہ سے ہے، اس کا  مطلب یہ ہے: ایران کی موجودگی، ایران کی مداخلت۔ جبکہ ہماری کوئی مداخلت نہیں ہے۔ ہاں ہم موجود ہیں لیکن ہماری موجودگی معنوی ہے۔ ان میں سے بہت سے ملکوں میں دوسروں کے سرکاری طور پر اڈے موجود ہیں۔ ہمارے نہیں ہیں،  لیکن ہم معنوی طور پر موجود ہیں۔ ہماری معنوی موجودگی ان سے زیادہ ہے۔ اس پر ان کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں۔ یہ ہمیں مقدس دفاع نے دیا ہے۔   

مقدس دفاع کے اثرات میں سے ایک خود ملک کے اندر فکر استقامت کا استحکام اور رشد ہے۔ 

عزیزان من! جنگ کو تیس سال سے زائد کا عرصہ ہو رہا ہے، ان تیس سے کچھ اوپر برسوں میں ہم پر بہت حملے ہوئے، مختلف شعبوں میں ہمارے خلاف بہت فتنہ انگیزیاں ہوئیں۔ ان میں سے بہت سی (فتنہ انگیزیوں اور یلغاروں) کو ہمارے عوام نے محسوس نہیں کیا، لیکن ہوئیں۔ بعض سب کی آنکھوں کے سامنے ہوئي ہیں جن کا مختلف برسوں میں آپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ یہ سارے فتنے ایرانی قوم کے مقابلے میں ناکام رہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایرانی قوم نے اپنے اندر استقامت کی ثقافت کی بنیاد رکھی ہے۔ ان تیس سے کچھ زائد برسوں میں ملک میں استقامت کی ثقافت کی بنیادوں کا استحکام، آٹھ سالہ دفاع مقدس کی استقامت کا نتیجہ ہے۔ ہمارے اوپر دفاع مقدس کا حق حیات ہے۔ کچھ لوگ شبہ پیدا کرتے ہیں، کچھ لوگ شک کرتے ہیں،  کچھ لوگ تحریف کرتے ہیں، کچھ لوگ دفاع مقدس کے مختلف مسائل میں صریحا جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ بیان کر سکتے ہیں، انہیں بیان کرنا چاہئے، ہمیں جہاد مقدس اور دفاع مقدس کی عظمتوں کو روز بروز زیادہ بیان کرنا چاہئے۔ ہمیں بتانا چاہئے، ہمیں کہنا چاہئے۔ یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے۔          

یہ کام جو انجام پا رہے ہیں اور جاری ہیں، جن میں سے بعض کی رپورٹ پیش کی گئی، بہت اچھے ہیں لیکن انہیں سو گنا ہونا چاہئے۔ ہمارے اندر توانائي ہے، لوگ ہیں، استعداد ہے۔ ہم آرٹ اور فن کے میدان میں کام کر سکتے ہیں، اچھی فلمیں بنا سکتے ہیں، اچھی کتابیں لکھ سکتے ہیں، واقعات کی عکاسی کرنے والے ناول لکھ سکتے ہیں، لیکن ان کاموں میں ہمیں ہدف کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ بعض اوقات آرٹ کے کام ہوتے ہیں، نیت اس راہ میں مدد کرنے کی ہوتی ہے، لیکن جو ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اثنائے راہ میں تحیّر اور فکری اضطراب پیدا ہو جاتا ہے جس ے باعث ہدف فراموش ہو جاتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ آرٹ اور فن کے کام زیادہ کئے جائيں۔ ہر ایک اپنی توانائی کے مطابق کام کرے۔ آج ہماری یہ سفارش دفاع مقدس کے سلسلے میں ہے۔

میں مسلح افواج کے بارے میں بھی چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ بھی اسی آج کے دن کی مناسبت سے ہی ہے۔  جنگ کے دوران ہماری مسلح افواج نے بہت محنت کی، بہت مجاہدت کی، واقعی بہت سے شعبوں میں بڑی فداکاریاں کیں۔ چند جملے مسلح افواج کے بارے میں عرض کروں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ مسلح افواج ہر معاشرے کی عزت و آبرو ہوتی ہیں۔ ان کا وجود ان بنیادی عناصر میں شمار ہوتا ہے جن کے بغیر معاشرہ اپنی جگہ باقی نہیں رہ سکتا۔  امیر المومنین (علیہ السلام) جیسی ہستی کہتی ہے: الجنود حصون الرعیّۃ (7)  یہ امیر المومنین فرماتے  ہیں۔ مذاق نہیں ہے۔ الجنود حصون الرعیّۃ یعنی مسلح افواج امن و امان قائم کرنے والی ہیں۔ مسلح افواج کی قدر جاننا چاہئے۔  مسلح افواج کے عزت و شرف کو ضروری اور لازمی امور میں شمار کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اوپر مسلح افواج کا احترام لازمی سمجھیں۔ مسلح افواج ایسی ہیں۔ امن و امان قائم کرتی ہیں۔ سلامتی سب کچھ ہے۔ اگر سلامتی نہ ہو تو علم بھی نہیں ہوگا، معیشت بھی نہیں ہوگی، خاندان کا سکون بھی نہیں ہوگا۔ سلامتی ملک کا سب کچھ ہوتی ہے۔ مسلح افواج سلامتی پیدا کرتی ہیں۔ مختلف جہتوں سے مسلح افواج کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی موجودگی کو غنیمت سمجھیں۔ ان کی مساعی کی قدردانی کریں۔ ان کی بھی جو سرحدوں پر سیکورٹی قائم کرتے ہیں اور ان کی بھی جو ملک  کے اندر سلامتی کو یقینی  بناتے ہیں۔ مسلح افواج میں بعض سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں کہ باہر سے بدامنی سرحدوں میں داخل نہ ہو سکے اور بعض ان لوگوں کو روکتے ہیں جو ملک کے اندر بد امنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی قابل قدر ہے۔ ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دشمن اس نکتے پر بھی توجہ دیتا ہے۔  ہمارا دشمن جن باتوں پر توجہ دیتا ہے ان میں سے ایک مسلح افواج کی اقدار کو مجروح کرنا اور ان کے احترام  وتکریم میں خلل ڈالنا ہے۔ وہ انواع و اقسام کے طریقوں سے اس سلسلے میں کام کرتے ہیں، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

میں کچھ باتیں خود مسلح افواج کو مخاطب کرکے عرض کرنا چاہتا ہوں جو میری نظر میں بہت اہم ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ اسلام میں طاقت سے مراد بالا دستی نہیں ہے۔ مادی نظاموں میں طاقت کا مطلب بالادستی ہے۔ دوسروں پر برتری، خود کو دوسروں سے برتر سمجھنا، خود  کو دوسروں پر مسلط کرنا، دوسری پر تسلط  جمانا، دوسروں کی تحقیر، مادی نظاموں میں طاقت کا مطلب یہ ہے۔ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے اس کو برتری حاصل ہوتی ہے۔ قران کریم میں جن باتوں کو منفی قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک یہی برتری قائم کرنا ہے۔ اِنَّ فِرعَونَ عَلا فِی الاَرض۔(8) یہ برتری قائم کرنا ہے۔ اسلام میں طاقت کا مطلب برتری اور بالادستی نہیں ہے۔ یعنی جتنی آپ کی طاقت زیادہ ہو، جتنی توانائیاں زیادہ ہوں، چاہے وہ آپ کی ذاتی توانائیاں ہوں یا آپ کی قانونی توانائیاں ہوں، یہ جتنی زیادہ ہوں، آپ کا تواضع اور انکسار اتنا ہی زیادہ ہونا چاہئے۔ لچک اتنی ہی زیادہ ہونی چاہئے خدا پر توجہ اتنی ہی زیادہ ہونی چاہئے۔

 مالک اشتر کا واقعہ آپ میں سے اکثر لوگوں نےغالبا سنا ہوگا۔ مالک اشتر شجاع، طاقتور اور دلیر تھے، امیر المومنین (علیہ السلام) کے لشکر کے کمانڈرتھے  اور امیر المومنین کے دست توانا سمجھے جاتے تھے۔  مالک اشتر ایسی ہستی تھے۔ کوفے میں جا رہے تھے، بظاہر یہ واقعہ کوفے کا ہے۔ ایک نوجوان لڑکے نے جو انہیں پہچانتا نہیں تھا، ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ شاید ان کا پیراہن یا عمامہ ایسا تھا کہ اس لڑکے کے مذاق کا باعث بنا۔ اس نے مذاق اڑایا اور ہنسا۔ انھوں نے کچھ نہ کہا اور چلے گئے۔ جب وہ چلے گئے تو کسی نے اس لڑکے سے کہا کہ تمہیں پتہ ہے جس کا تم نے مذاق اڑایا وہ کون تھا؟ اس نے کہا نہیں۔ کہا وہ مالک اشتر ہیں۔ لڑکا ڈر گیا۔ کہا میں مالک اشتر سے اس طرح پیش آیا! اب وہ میرے ساتھ اور میرے خاندان کے ساتھ کیا کریں گے؟ کہا کیا کروں؟  کہا جاؤ ان سے معافی مانگو۔ لڑکا ان سے معافی مانگنے کے لئے ان کے تعاقب میں گیا تو دیکھا کہ وہ مسجد میں جاکر نماز پڑھنے لگے۔ لڑکا رکا رہا۔ نماز ختم ہوئي تو ان کے سامنے گیا اور کہا " جناب مجھے معاف کر دیجئے۔ میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔ میں نے بے احترامی کی، آپ مجھے معاف کر دیجئے۔ مالک اشتر نے کہا کہ میں مسجد میں آیا کہ دو رکعت نماز پڑھ کے تمھارے لئے دعا کروں۔ جو کوئی بھی یا کوئي جوان اگر اس طرح کا بے ادبی کا کام کرتا ہے تو اس کو دعا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے دعا کرنا چاہئے۔ یہاں تمھارے لئے دعا کرنے آیا ہوں۔  دیکھئے یہ مالک اشتر ہیں۔   

آپ کی فوجی پوزیشن اور آپ کی طاقت جتنی زیادہ ہو، اتنا ہی زیادہ تواضع اور انکسار کریں، رحم اتنا ہی زیادہ کریں۔ طاقت اور خوش گفتاری میں کوئي منافات نہیں ہے۔ اختیارات اور مہربانی کے طرز عمل میں منافات نہیں ہے۔

 آپ نے سنا کہ ان صاحب (9) نے کہا کہ ایک نوجوان لڑکا بلوے میں شرکت کرتا ہے، پھر جیل جاتا ہے، اس کے بعد معاف کر دیا جاتا ہے اور جیل سے باہر جاتا ہے۔ راہیان نور کارواں روانہ ہوتے ہیں تو وہ بھی ان میں شامل ہو جاتا ہے، محاذ دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ گھومنے کے لئے، کہتا ہے کہ جاتا ہوں ایک چکّر لگا کے آتا ہوں۔ وہاں یہ راوی چند جملے بولتا ہے، وہ آنسو بہاتا ہے،  ہچکیاں لے کے گریہ کرتا ہے، آکے کہتا ہے یہ بزدلی تھی۔ یعنی اپنے کام کو کہتا ہے۔ طاقت اور نرم گفتاری میں منافات نہیں ہے۔ نرم گفتاری سے خوش گفتاری سے بعض اوقات بہت اچھی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ البتہ بعض اوقات انسان کے لئے دوسری طرح عمل کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ ہر موقع کا الگ تقاضا ہوتا ہے۔ مسلح افواج اپنے کام کی خود قدر کریں۔ اپنے کام پر افتخار کریں اور عوام کو بھی ان کی قدر کرنی چاہئے۔    

ہم سب جانتے ہیں کہ جب تک ہم راہ خدا میں اور خدا کے لئے کام کریں گے، اس کی راہ میں چلیں گے، خدا ہماری مدد کرے گا۔ یہ وعدہ الہی ہے: اِن تَنصُرُوا اللَهَ یَنصُرکُم۔(10) وَ لَیَنصُرَنَّ اللَهُ مَن یَنصُرُه (11) اگر آپ کی نیت نصرت خدا ہے تو یقینا خداوند عالم آپ کی مدد کرے گا۔ بعض اوقات مدد کے طریقے کو ہم خود سمجھتے ہیں اور تشخیص دیتے ہیں لیکن بعض اوقات نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی دیکھتے ہیں کہ ہماری مدد ہوئی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کام ہو گیا ہے، کام آگے بڑھا ہے۔ یہ نصرت الہی ہے۔  نیتوں کو خدا کے لئے خالص کریں۔ نیتوں کے خدا کے لئے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب بھی کوئی کام کرنا چاہیں، تو مثال کے طور پر فرض کریں، یہ کہیں کہ یہ کام ہم رضائے خدا کے لئے  کر رہے ہیں۔ نہیں،  بلکہ  یہی  اگر آپ لوگوں سے رحمدلی سے پیش آتے ہیں، یہ نیت خدا کے لئے ہے، یہی جو آپ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، یہ  خدائی نیت ہے۔ یہی جو آپ آرٹ کا کوئی کام اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ چار لوگوں کی ہدایت ہو جائے، یہ نیت خدائي ہے۔ خدائی نیت کے ساتھ آگے بڑھیں تو خدا بھی مدد کرے گا۔

 والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

 1) اس ملاقات کے شروع میں ( شعبہ ایثار، جہاد، شہادت اور استقامت کے فعال کارکنوں) محترمہ زہرا برزگر، جناب میثم صالحی، محترمہ سمیہ بروجردی، جناب سعید غلامیان اور جناب حمید پارسا نے کچھ باتیں بیان کیں۔ اسی طرح دفاع مقدس کی یادوں اور اس سے متعلق سرگرمیوں کی حفاظت اور نشر و اشاعت کے  ادارے کے سربراہ بریگیڈیئر بہمن کارگر نے رپورٹ پیش کی۔

 2) صحیفہ امام خمینی جلد 9 صفحہ 285۔ عوام اور فوجیوں کے لئے پیغام 18-8-1979

3) صحیفہ امام خمینی جلد 13 صفحہ 317 محرم کے قریب مذہبی خطیبوں کے درمیان تقریر 5-11-1980

 4) کتاب "حوض خون"  مصنفہ فاطمہ سادات میر عالی

5) صوبہ زنجان کے شہیدوں کی یاد میں ہونے والی کانفرنس کے منتظمین سے خطاب۔ 16-10-2021

6) نہج البلاغہ، حکمت 217

7) نہج البلاغہ، خط نمبر 53  

8) سورہ قصص، آیت نمبر 4 " فرعون نے سرزمین (مصر) میں سرکشی کی۔۔۔"

9)  حمید پارسا (یونیورسٹی طلبا کے کاروان راہیان نور کے راوی) کی طرف اشارہ۔ انھوں نے رہبر معظم کی تقریر سے پہلے اس سال کے کاروان راہیان نور میں  شریک ایک یونیورسٹی طالب علم  کا واقعہ بیان کیا تھا۔   

10) سورہ محمد، آیت نمبر 7 "۔۔۔۔ اگر خدا کی نصرت کرو تو وہ بھی تمھاری نصرت کرے گا۔۔۔۔۔

11) سورہ حج آیت نمبر 40 "۔۔۔۔ جو اس کے دین کی مدد کرتا ہے یقینا خدا اس کی نصرت کرتا ہے۔