خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبینا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.
آپ برادران و خواہران عزیز کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ برادران اور خواہران نے بڑی اچھی اچھی باتیں پیش کیں جن میں سے بعض جنگ کے واقعات اور مقدس دفاع کے مسائل سے متعلق ہیں جن پر متعلقہ حضرات کو کام کرنا چاہیے اور بعض باتیں حکومتی اداروں سے متعلق ہیں اور ہمارے دفتر کے برادران بھی بیان کی گئي باتوں کو نظر میں رکھیں گے تاکہ ان کا جائزہ لیا جائے اور جو باتیں قابل عمل اور مفید ہیں، انھیں ان شاء اللہ عملی جامہ پہنایا جائے۔
ہفتۂ مقدس دفاع میں سینیئر سپاہیوں پر جو خاص طور سے توجہ دی جاتی ہے وہ اہم واقعات میں آگے آگے رہنے کی وجہ سے ہے: سابِقوا اِلیٰ مَغفِرَۃٍ مِن رَبِّکُم(2) ان راستوں پر چلنا اور سبقت لے جانا جن پر کوئي آگے نہیں بڑھا ہے، ایک قدر ہے۔ البتہ ہفتۂ مقدس دفاع تمام سپاہیوں، مجاہدوں، شہیدوں اور ان کے اہل خانہ وغیرہ سے متعلق ہے لیکن جو لوگ میدان میں پہلے پہنچے اور سبقت لے گئے، ان کے پاس ایک اضافی قدر ہے۔ مقدس دفاع کا سینیئر فرد چاہے وہ کمانڈر ہو، عام سپاہی ہو، ڈاکٹر ہو، امداد رساں ہو، تعمیراتی جہاد کرنے والا ہو یا کمک اور رسد پہنچانے والا ہو، یہ سبھی اس خصوصی تعریف اور احترام کے حقدار ہیں۔ ہم نے مقدس دفاع کے اوائل میں مختلف طرح کے ایسے سینیئر افراد دیکھے ہیں اور ان کی جانب سے ادا کیے جانے والے اہم کرداروں کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔
مقدس دفاع کے موضوع پر ہم آج جو باتیں پیش کرنا چاہتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو ہیں، البتہ ایک تیسری بات بھی ہے جس پر میں آج گفتگو نہیں کر پاؤں گا۔ ان دو بنیادی موضوعات میں سے ایک، آٹھ سالہ جنگ کا سبب ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو، جس نے جنگ کا زمانہ اور انقلاب کا زمانہ نہیں دیکھا ہے، یہ جاننا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ ایک ایسی جنگ میں شامل ہی کیوں ہوئي جو آٹھ سال تک چلی؛ آٹھ سال کوئي کم عرصہ نہیں ہے (جس میں) ملک کے تمام ارکان اور وسائل، ملک کے دفاع کی خدمت میں لگ جائيں۔ جنگ میں ہمارے شامل ہونے کی وجہ کیا تھی؟ ہمیں یہ جاننا چاہیے۔ آج میں اس سلسلے میں کچھ باتیں کروں گا۔
دوسرا موضوع جس پر آج کے مخاطَب کو توجہ دینی چاہیے، وہ جنگ کی رپورٹ ہے۔ میں آج رپورٹ کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ البتہ اس وقت جب ہم گفتگو کر رہے ہیں اور آپ حضرات اس نشست میں تشریف رکھتے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ دوسری جگہوں سے اور دور سے ان باتوں کو (ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے) سن رہے ہیں تو فی الحال تو مخاطَب آپ ہیں لیکن ان باتوں کے مخاطَب آپ ہی نہیں ہیں بلکہ نوجوان نسل، مستقبل کی نوجوان نسل، آپ کے بچے، ان سب کو ان موضوعات کے بارے میں غور کرنا چاہیے، کام کرنا چاہیے، سبق لینا چاہیے۔ یہ دو موضوعات ہیں جن کے بارے میں، میں اختصار سے عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ ایک تیسرا اہم موضوع بھی ہے جس پر گفتگو کرنے کا مجھے آج وقت نہیں ملے گا، وہ نتائج ہیں جو اس مقدس دفاع کی وجہ سے حاصل ہوئے۔ بحمد اللہ جن لوگوں نے یہاں گفتگو کی، ان میں سے بعض نے اس موضوع کی طرف بھی اشارہ کیا۔
جہاں تک سبب اور وجہ کی بات ہے کہ جنگ کیوں شروع ہوئي؟ تو میں عرض کروں کہ انقلابی ایران کی سرحدوں پر حملے کا محرّک، صدام اور بعث پارٹی تک محدود نہیں تھا۔ شاید کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت کے عالمی نظام کے سرغناؤں کا محرّک، ایران کی سرحدوں پر حملے کے صدام کے محرک سے کہیں زیادہ یا کم از کم اس کے جتنا ہی تھا۔ مطلب یہ کہ اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کے بہت سے پٹھو تھے۔ وہ دو طاقتیں امریکا اور سابق سوویت یونین تھے، ان کے پٹھوؤں کا ایک لشکر تھا، حکومتیں، سیاسی نظام، ان میں سے تقریبا سبھی اس معاملے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اسلامی جمہوریہ، اسلامی ایران ان کے لیے ایک ناقابل برداشت حقیقت تھا، کیوں؟ سوال یہ ہے: اسلامی ایران کیوں ناقابل برداشت تھا؟ اس وقت تو ہم نے کسی کے خلاف کوئي اقدام نہیں کیا تھا۔ آج ہم سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے فلاں جگہ پر میزائل دیا، فلاں جگہ ڈرون دیا لیکن اس وقت تو ایسی کوئي بات نہیں تھی، تو دشمنی کی وجہ کیا تھی؟ یہی وہ اصل نکتہ ہے۔ وجہ یہ تھی کہ دنیا کے اس حساس مقام پر ایک بے نظیر عوامی انقلاب آ گيا تھا اور اس نے دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ایک نئي سوچ پیش کر دی تھی۔ اس وقت دنیا پر حاکم نظام، اس نئي سوچ کو برداشت نہیں کر سکتا تھا؛ اصل مسئلہ یہ تھا۔ اُس وقت کی دنیا، تسلط کی دنیا تھی، البتہ آج بھی ہے لیکن اُس وقت، اِس باطل اور اقدار کو تباہ کرنے والے نظام کے خلاف کھل کر کوئي بات، کوئي نعرہ یا واضح موقف نہیں تھا، دنیا کا نظام، تسلط پسندانہ نظام تھا۔
"تسلط پسندانہ نظام" کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: بعض ممالک تسلط قائم کرتے ہیں اور بعض ممالک تسلط کا نشانہ بنتے ہیں، کوئي تیسری قسم نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام، اس نظام کے خلاف ایک گھن گرج کی مانند تھا: "اس کا کیا مطلب؟ کیوں تسلط پسندی ہونی چاہیے؟ کیوں فلاں ملک کو صرف اس وجہ سے کہ اس کے پاس فلاں پیشرفتہ فوجی سازوسامان ہے، یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی رائے، اپنی ثقافت، اپنی مرضی کچھ ملکوں پر مسلط کر دے؟ کیوں؟" اسلامی جمہوریہ، اس باطل نظام کے خلاف ایک نئي بات تھی اور دنیا کے منہ زور، دنیا کے تسلط پسند، اسے برداشت نہیں کر رہے تھے، وہ جانتے تھے کہ اس بات اور اس فکر کی خاصیت، دنیا میں پھیل جانا ہے، وہ صحیح سمجھے تھے، اور یہ فکر پھیل بھی گئي، یہ سوچ دنیا میں پھیل گئي اور اس نے اقوام کو اپنی طرف مجذوب کیا، میں بعد میں اس کی کشش کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔
یہ سارے کے سارے، چاہے امریکا ہو، سوویت یونین ہو، امریکا کے پٹھو نیٹو ممالک ہوں اور چاہے ورشو معاہدے کے رکن ممالک ہوں جو سوویت یونین کے پٹھو تھے، ایک موقع کی تاک میں تھے، صدام نے انھیں وہ موقع فراہم کر دیا، وہ ایک جاہ طلب، طاقت کا بھوکا، لالچی، ڈھیٹ، پست، ظالم، بے حس انسان تھا جو ایران کے قریب، ایران کی سرحدوں کے پیچھے تھا، انھوں نے اسے ورغلایا اور اس نے ہمارے ملک پر حملہ کر دیا۔ آج خود ہمارے ملک میں بعض لوگ اسلامی جمہوریہ کو ملامت کرتے ہیں کہ "دنیا سے اسلامی جمہوریہ کے تعلقات خراب ہیں، وہ دنیا سے ناراض ہے۔" یہ غلط بیانی ہے، ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگر مراد یہ ہے کہ دنیا کے ساتھ ہمارا سیاسی کام، معاشی کام، لین دین یا آمد و رفت نہیں ہے تو یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ یہ جھوٹ ہے، آج ہم بہت سارے ممالک کے ساتھ کام کر رہے ہیں، آمد و رفت کر رہے ہیں، لین دین کر رہے ہیں، تجارت کر رہے ہیں اور دنیا کی آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ ان ملکوں میں رہتا ہے۔ بعض لوگ جو یہ شور ہنگامہ کرتے ہیں کہ "ہم سب سے ناراض ہیں، سب سے ہمارے تعلقات خراب ہیں" نہیں، ہم سب سے ناراض نہیں ہیں، سب سے ہمارے تعلقات خراب نہیں ہیں، اگر یہ مراد ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر مراد یہ ہے کہ ہم تسلط پسندانہ نظام کے سیاسی ڈھانچے کے مخالف ہیں تو ہاں یہ ٹھیک ہے۔
آج بھی انقلاب کے ابتدائي ایام کی طرح ہم تسلط پسندانہ نظام کے مخالف ہیں، امریکا کی تسلط پسندی کے مخالف ہیں۔ آج سوویت یونین تو نہیں ہے لیکن امریکا کی سربراہی میں مغربی ملک ہیں جو راج کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کے کاموں کے نتیجے دیکھ رہے ہیں: جنگیں جو شروع ہوتی ہیں، مظالم جو ڈھائے جاتے ہیں، امتیازی سلوک جو روا رکھا جاتا ہے، اقوام جن پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، ہم ان چیزوں کے خلاف ہیں اور کھل کر اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جو اُس وقت تھی، آج بھی ہے لیکن اُس وقت ایران کی سرحدوں پر حملے کا محرک بنی اور آج ایرانی قوم کی استقامت کی برکت سے، مختلف میدانوں میں ایرانی قوم کی طاقتور موجودگي کی برکت سے، اب ان کے پاس وہ حوصلہ نہیں ہے کہ سرحدوں پر حملہ کریں اور وہ دوسری طرح سے خباثت، دشمنی اور عناد دکھا رہے ہیں۔
البتہ یہ جو میں نے کہا کہ کوئي اس نظام کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہوتا تھا تو اسلامی جمہوریہ سے پہلے برسوں تک ناوابستہ تحریک تھی، ہم بھی انقلاب کے اوائل میں اس تحریک میں شامل ہو گئے، اب بھی یہ تحریک ہے لیکن جو ممالک ناوابستہ تحریک کے رکن تھے، سو سے کچھ زیادہ، ان میں سے بہت سے ملکوں کے سربراہ انھی بڑی طاقتوں کے زیر اثر تھے! کچھ امریکا کے زیر اثر، کچھ سوویت یونین کے زیر اثر، کچھ زیر اثر تھے تو کچھ ڈر کے مارے ان کی بات مانتے تھے، وہ ان بڑی طاقتوں کی حیوانیت سے ڈرتے تھے۔ ناوابستہ تحریک کے ایک اجلاس میں، میری تقریر کے بعد دنیا کے ایک علاقے کے صدر نے مجھ سے کہا کہ آپ کے علاوہ سبھی امریکا سے ڈرتے ہیں، پھر اس نے اپنا سر میرے قریب کیا اور کہا کہ میں بھی امریکا سے ڈرتا ہوں! وہ ممالک ڈرتے تھے۔ بنابریں جو آواز غلط عالمی نظام کے خلاف کھل کر بلند ہوئي وہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی آواز تھی، اس کا مرکز ایران اسلامی تھا، جس کے وہ مخالف تھے، اس وقت بھی مخالف تھے، آج بھی مخالف ہیں، مسئلہ یہ ہے۔ یہ بات ہمیں د ل کی گہرائي سے سمجھنی چاہیے، بعض لوگ اسے نہیں سمجھتے۔ مسئلہ، ایٹمی توانائي، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق وغیرہ کا نہیں ہے، یہ سب بہانے ہیں۔ اصل مسئلہ، باطل، بدعنوان اور امتیازی سلوک والے عالمی نظام کے مقابلے میں ایک نئي بات پیش کرنا ہے جو آج دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے، مسئلہ یہ ہے۔ اس سے انھیں مسئلہ ہے، وہ اس کے مخالف ہیں۔ یہ مخالفت تب تک ختم نہیں ہوگي جب تک اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم ان کی منہ زوری کو تسلیم نہیں کر لیتی کہ جو کبھی تسلیم نہیں کرے گي۔
میں نے اسلامی جمہوریہ کی کشش کی طرف اشارہ کیا، اس کا بہت زیادہ اثر تھا، یعنی یہ کشش انھیں وحشت زدہ کر دیتی تھی۔ اسلامی جمہوریہ میں دو طرح کی کشش تھی اور ہے اور ان دونوں کششوں کی حفاظت ہونی چاہیے کیونکہ یہ کشش اقوام کو اپنی جانب مجذوب کرتی ہے: ایک سیاسی کشش اور دوسری روحانی کشش۔ سیاسی کشش، غلط عالمی نظام کے مقابل اسی استقامت سے عبارت تھی، اس میں سیاسی کشش ہے۔ اقوام کا دل، طاقتوں کے برخلاف، حکومتوں کے برخلاف اس سیاسی کشش کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، انھیں جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک ایسا نظام ہے جو اس غلط عالمی نظام کا، اس منہ زوری کا اور بڑی طاقتوں کی مداخلت کا مخالف ہے تو ان کا دل اس کی طرف کھنچتا ہے۔ آپ دیکھیے کہ ہمارے سربراہان مملکت نے جب بھی کسی اسلامی ملک کا دورہ کیا تو اقوام نے ان کا استقبال کیا، ان کی طرف توجہ دی، محبت کا اظہار کیا، یہ اسی وجہ سے ہے۔ اس سلسلے میں باتیں زیادہ ہیں، خیر تو یہ سیاسی کشش ہوئي۔
روحانی کشش، یہی اسلامی نظام میں اللہ پر ایمان اور دینی ایمان پر توجہ ہے، اس میں بھی کشش ہے۔ اس میں بہت کشش ہے۔ اس مادی دنیا میں، انھی نام نہاد پیشرفتہ اور تہذیب یافتہ ملکوں میں جوان، خالی پن کا احساس کرتے ہیں۔ یہ بات آج ان کے دانشور اور مفکر بھی کہتے ہیں، ان میں خالی پن کا احساس ہے، ناکارہ ہونے کا احساس ہے، خودکشی کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ دینی ایمان، انھیں پناہ کا احساس دلاتا ہے، ان کے دل کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ دینی احساس کی خاصیت ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی ایک کشش یہ بھی ہے۔
بنابریں ہماری سرحدوں پر یہ فوجی حملہ اور فوجی یلغار کی وجہ، جو آٹھ سالہ مقدس دفاع کے وجود میں آنے کا سبب بنی، یہ باتیں ہیں، وہ مخالف تھے۔ اسلامی جمہوریہ کی کشش سے وہ خوفزدہ تھے۔ اسلامی جمہوریہ کی نئي بات سے وہ تلملا جاتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے یہ حملہ کرایا، آٹھ سال تک ایران کو الجھائے رکھا۔ یہ وہ پہلی بات ہے۔ البتہ اس سلسلے میں باتیں بہت زیادہ ہیں اور بہت مناسب ہوگا کہ صاحبان فکر، اہل قلم افراد اس سلسلے میں بات کریں، لکھیں، کام کریں، تشریح کریں۔
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے تو وہ جنگ کے واقعے کی رپورٹ ہے۔ دو رپورٹیں ہیں، دو طرح سے جنگ کی رپورٹ دی جا سکتی ہے: ایک رپورٹ، جسے میں "توصیفی رپورٹ" کہتا ہوں وہ اس طرح کی ہے کہ جس میں جنگ کی شکل پیش کی جائے؛ جنگ کس طرح شروع ہوئي، کس طرح جاری رہی، اس کا خاتمہ کہاں ہوا، فریقین کی صورتحال کیا تھی، یہ ایک طرح کی رپورٹ ہے، توصیفی رپورٹ۔ ایک دوسری رپورٹ بھی ہے جو میری نظر میں زیادہ اہم ہے: تشریحی رپورٹ؛ جو جنگ کے باطن کو، محاذ کے باطن کو، محاذ کی روح کو ہمارے لیے واضح کرتی ہے، بیان کرتی ہے۔ آج کے نوجوان کو دونوں طرح کی اطلاع کی ضرورت ہے اور اس پر کام ہونا چاہیے۔ میں صرف اشارہ کروں گا اور عناوین بیان کروں گا، ان پر کام ہونا چاہیے، کوشش کی جانی چاہیے، البتہ بحمد اللہ اس سلسلے میں اچھے کام ہوئے ہیں، جنھیں جاری رہنا چاہیے۔
جنگ کی توصیفی رپورٹ کا معاملہ اس طرح کا ہے: ایک جارح فوج تھی جس نے ہماری سرحدوں پر حملہ کر دیا، ایک طرف جارح تھا، پوری طرح سے لیس، پہلے سے فراہم شدہ پروگرام کے ساتھ۔ جو ہماری سرحدوں پر حملہ کر رہا ہے، وہ پہلے بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتا ہے نا، ہمارے برخلاف۔ جب ہم پر حملہ ہوتا ہے تب ہمیں پتہ چلتا ہے اور ہمارے پاس کوئي پروگرام اور منصوبہ نہیں ہوتا وہ بھی انقلاب کے بالکل اوائل میں۔ وہ منصوبے کے ساتھ میدان میں اترتا ہے، پوری طرح سے لیس ہے، فوج منظم طریقے سے تیار ہے، منصوبہ پہلے سے تیار ہے، اس کی لگاتار مدد ہو رہی ہے، وہ انجینئرنگ کا مضبوط ادارہ رکھتا ہے، اس کے مواصلات ٹھوس ہیں، اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں، اس وقت بہترین ٹینک، بہترین جنگي جہاز صدام کی فوج کے پاس تھے۔ بے حساب دولت، بے حساب پیسہ! اربوں کا مال اس کے پاس تھا، یہی لوگ اسے دے رہے تھے جنھیں آپ جانتے ہیں۔ امریکا، سوویت یونین اور یورپ پورا ساتھ دے رہے تھے، پشت پناہی کر رہے تھے، اسے جو بھی ضرورت تھی، اسے پورا کر رہے تھے، جو ہتھیار پرانے ہو جاتے تھے، انھیں بدل دیتے تھے۔ فرانس کی حکومت نے اپنے بہترین طیارے، اپنے جنگي جہاز صدام کے حوالے کر دیے تھے۔ جرمن حکومت نے صدام کی ضرورت کے کیمیائي مادّے اسے دے دیے تھے۔ امریکی حکومت، میدان جنگ کی انٹیلی جنس رپورٹیں مسلسل صدام کو دے رہی تھی۔ ہمسایہ حکومتیں، اسے پیسے اور وسائل فراہم کر رہی تھیں۔ خلیج فارس کا یہ ساحلی علاقہ ایک ایسا راستہ تھا جس سے ہتھیاروں، فوجی آلات اور دیگر وسائل سے لدے ٹرک اور کنٹینر مسلسل عراق پہنچ رہے تھے۔ ایک طرف یہ صورتحال تھی، حملہ آور فریق کی صورتحال یہ تھی۔ میں نے ایک رپورٹ میں پڑھا کہ جنگ کے بعد صدام کے جنگي طیاروں کی تعداد، جنگ کے آغاز میں اس کے جنگي طیاروں سے زیادہ تھی! اگرچہ اس کے اتنے سارے جہاز مار گرائے گئے تھے لیکن اس کے باوجود جنگ کے بعد اس کے جنگي طیاروں کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی؛ مطلب یہ کہ اسے مسلسل اور یکے بعد دیگرے طیارے دیے گئے تھے۔ یہ حملہ آور فریق تھا۔
جس فریق پر حملہ کیا گيا تھا یعنی ہم، اس کے ٹھیک برعکس تھے، ہمارے جنگي سازوسامان ناکافی تھے، ہمارے ہاتھ خالی تھے، جنگي سازوسامان ریپلیس بھی نہیں ہوتے۔ جنگ کے اوائل میں ڈویژن-92 کے کئي ٹینکوں کو، جو دشمن کے مقابل تھا، دشمن نے لوٹ لیا اور انھیں اپنے ساتھ لے گئے، ان کی جگہ کچھ نہیں بچا۔ میں اہواز گيا، ڈویژن-92 کی ایک بريگيڈ کے پاس کچھ پندرہ سولہ ٹینک تھے جبکہ بريگیڈ کے لحاظ سے اس کے پاس پچاس سے زیادہ ٹینک ہونے چاہیے تھے! اس طرح کی صورتحال تھی، کوئي بھی چیز ریپلیس نہیں ہوتی تھی، جو بھی چیز ہمارے ہاتھ سے نکلتی تھی وہ ختم ہو جاتی تھی! ہمارے جنگي اداروں میں تبدیلی آ چکی تھی، فوج کا ادارہ جنگ کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا تھا، فوج کے بہت سے اعلیٰ کمانڈروں کو فوج کے وسائل کے بارے میں صحیح اطلاع نہیں تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ انقلاب سے پہلے ان کے مینیجمنٹ کا دائرہ بہت محدود تھا اور اب وہ اس فوج کے اعلیٰ کمانڈر بن چکے تھے۔ سپاہ پاسداران کا ڈھانچہ ابھی صحیح طریقے سے کھڑا نہیں ہوا تھا۔ جنگ کے اوائل میں سپاہ پاسداران کا ڈھانچہ بريگيڈ والا نہیں تھا، بڑی محدود شکل میں اور محدود وسائل کے ساتھ دو سو، تین سو افراد کی بٹالین بنائي جاتی تھی۔ ان کے پاس کبھی کبھی ہر ایک سپاہی کے لیے ہتھیار بھی نہیں ہوتے تھے، ہم نے دیکھا تھا کہ بعض جگہوں پر ضروری تعداد میں انفرادی ہتھیار نہیں تھے! تو جس پر حملہ ہوا تھا اس فریق کی حالت ایسی تھی۔
تو اس صورتحال میں نتیجہ کیا ہونا چاہیے تھا؟ عام معیارات اور عام مادی اصولوں کے مطابق نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ فریق مقابل کو، جیسا کہ اس نے اندازہ لگایا تھا اور پیش گوئي کی تھی، ایک ہفتے کے اندر، زیادہ سے زیادہ کچھ ہفتوں میں خوزستان سے گزر کر ملک کے مرکز تک پہنچ جانا چاہیے تھا اور تہران کی طرف آنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کم وسائل والی اسی فورس نے جنگ شروع ہونے کے قریب ایک سال بعد سے فتوحات اور کارناموں کا سلسلہ شروع کر دیا، پوری طرح سے لیس، مالدار اور تمام تر پشت پناہیوں کی حامل فوج پر لگاتار کاری اور مہلک ضربیں لگائيں اور آخرکار اس فوج کو بڑی ذلت کے ساتھ اپنی سرحدوں سے نکال باہر کیا۔ یہ آٹھ سال تک چلی جنگ کی توصیف ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس پیشرفت اور اس فتح کا اصل سبب کیا تھا؟ تو اس کا جواب آپ کے اختیار میں ہے اور آپ جانتے ہیں؛ ایمان، مجاہدت اور اسی طرح کے دیگر عناصر۔
جہاں تک اگلی رپورٹ کی بات ہے جو تشریحی رپورٹ سے عبارت ہے، تو میرے خیال میں یہ زیادہ اہم ہے۔ تشریحی رپورٹ میں ہم کہتے ہیں کہ یہ جنگ صرف وطن اور سرزمین کے دفاع کے لیے نہیں تھی۔ البتہ وطن کا دفاع ایک قدر ہے، اس میں کوئي شک نہیں، لیکن اس جنگ کا مسئلہ ان باتوں سے کہیں بالاتر تھا؛ اسلام کا دفاع تھا، قرآنی احکام پر عمل تھا۔ یہ جنگ ایک ایسی راہ پر تھی جسے دینی اصطلاح اور دینی ادب میں "جہاد فی سبیل اللہ" کہا جاتا ہے۔ مقدس دفاع، جہاد فی سبیل اللہ تھا۔ مقدس دفاع نے انقلاب کو زندہ رکھا، اسلام کو زندہ رکھا، ایرانی قوم کو عزیز بنا دیا، ملک میں روحانیت کی فضا قائم کر دی، جوانوں میں حقیقی انسانی اور ایمانی جوہر کو زندہ کر دیا، میدان جنگ میں جانے والے جوان، ایک عام آدمی سے ایک ولی الہی میں تبدیل ہو گئے، وہ لوگ جو دینی مسائل کے سلسلے میں ایک عام اور معمولی سوچ کے ساتھ میدان جنگ میں پہنچے وہ میدان جنگ سے اللہ اور روحانیت کی معرفت رکھنے والے عارف بن کر نکلے۔ امام خمینی ایک عارف تھے، ایک عظیم انسان تھے، وہ بہت سے بزرگوں کو مخاطب کر کے عموماً کہا کرتے تھے کہ آپ نے ستّر سال عبادت کی، خدا آپ کی عبادت کو قبول کرے، جائيے ذرا شہیدوں کی وصیتیں بھی پڑھ لیجیے! مطلب یہ کہ اس نوجوان نے، جو محاذ پر پہنچا ہے اور کچھ عرصے اس نے جہاد کیا ہے اور اپنی جان ہتھیلی پر لے کر اللہ کے لیے آگے بڑھا ہے، اس راستے کو بہت کم وقت میں طے کر لیا ہے جو اس عارف اور عالم نے ستّر سال میں طے کیا ہے، امام خمینی کی بات کا مفہوم یہ ہے۔
یہ ہماری جنگ کے زمانے کا باطن ہے۔ ہدف اسلام تھا۔ اس لیے پورے کا پورا محاذ عبادت گاہ تھا۔ میدان جنگ کو عبادت گاہ بنانے کی اس عمومی بات میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ ہم آدھی رات کو خطے کا معائنہ کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ فوج کا ایک افسر یا اعلیٰ افسر ٹینک کے کنارے نماز شب پڑھ رہا تھا! ایک فوجی کے اپنی بریگیڈ کے ٹینک کے پاس نماز شب پڑھنے سے لے کر، اپنی چھاؤنیوں میں سپاہ اور بسیج کے سپاہیوں کی توسّل کی دل انگیز مجالس سے لے کر شہید چمران کے رات کو حملے کرنے والے جہادی گروہ میں شامل ہونے کے لیے ایک فوجی افسر کی تضرع تک۔ جنگ کے بالکل ابتدائي دنوں میں ہم اہواز گئے ہوئے تھے۔ ایک رات ایک فوجی افسر میرے پاس آيا، مجھے یاد نہیں کہ وہ لیفٹیننٹ کرنل تھا یا میجر تھا، اس نے مجھ سے کہا کہ میری ایک درخواست ہے، پہلے مجھے لگا کہ شاید وہ یہ کہے گا کہ مثال کے طور پر اپنے شہر میں میرا ایک کام پھنسا ہوا ہے، کوئي پریشانی ہے، مجھے چھٹی نہیں دی جا رہی ہے، پہلے میں نے یہ سوچا، اس نے مجھ سے کہا کہ میری درخواست یہ ہے کہ رات کو جب (شہید) چمران ایک گروہ کے ساتھ - انھیں کے الفاظ میں - ٹینکوں کے شکار کے لیے جاتے ہیں تو مجھے بھی اس گروہ کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔ ایک قریب پینتالیس سے پچاس سالہ شخص التماس کر رہا ہے کہ اسے بھی ان نوجوانوں کے ہمراہ شہید چمران کے ساتھ آر پی جی لے جانے اور ٹینک اڑانے کی اجازت دی جائے، اس بات کو اس لڑکے کے ساتھ رکھیے جو شناختی کارڈ میں اپنی عمر بڑھا دیتا ہے تاکہ محاذ پر جا سکے، یا روتا ہے، التماس کرتا ہے کہ اس کا باپ یا اس کی ماں اسے اجازت دیں، دستخط کریں تاکہ وہ محاذ پر جا سکے؛ ہمارے یہاں ایسے لوگ تھے۔ خضوع و خشوع کے ساتھ نماز، گريۂ نیم شب، دکھاوے سے عاری خدمات یا وہ کمانڈر جو آدھی رات کو اٹھ کر اپنے سپاہیوں کے جوتے پالش کرتا ہے، ان کے کپڑے دھوتا ہے، دنیا کی کسی بھی فوج میں، کسی بھی میدان جنگ میں یہ چیزیں نہیں پائي جاتیں، یہ صرف اسلامی جمہوریہ سے مختص ہیں۔ زندگي کے آخری لمحات میں سپاہی پانی نہیں پیتا تاکہ اس کا پیاسا دوست پیاسا شہید نہ ہو جائے، پانی اسے دے دیتا ہے اور خود پیاسا شہید ہو جاتا ہے۔ یہ باتیں جو ہم نے تاریخ میں پڑھی تھیں، انھیں اس جنگ میں ہم نے قریب سے دیکھا ہے یا جن لوگوں نے دیکھا ہے ان سے سنا ہے۔
دشمن کی گولہ باری میں، ایک جوان، جو بعد میں شہید ہوا، وصیت لکھتا ہے، اپنی وصیت میں حجاب کے متعلق سفارش کرتا ہے، یعنی روحانیت، دین کی پابندی اور اسلامی احکام اور اسلامی ایمان سے وابستگي اس حد تک ہے۔ میرے خیال میں جنگ کی یہ رپورٹ، جنگ پر اس طرح کی نظر، اس توصیفی رپورٹ سے زیادہ اہم ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں خداوند متعال اپنی طاقت، اپنے صالح بندوں کی فتح میں ظاہر کرتا ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں پتہ چلتا ہے کہ نیک بندوں کے لیے خداوند عالم کا ارادہ "اِنَّ الاَرضَ لِلّہِ یورِثُھا مَن یَشاءُ مِن عِبادِہ"(3) ہے۔ خدا کے صالح بندوں کی الہی حمایت ہوتی ہے۔ وہ سختیاں اٹھاتے ہیں، آٹھ سالہ دفاع میں ایرانی قوم نے بہت سختیاں اٹھائيں، جوانوں، گھر والوں، ماؤں، والدوں اور بیویوں نے سختیاں اٹھائيں لیکن خداوند متعال نے ان سختیوں کے بعد انھیں عزت عطا کی، فتح عطا کی، نصرت عطا کی۔
دونوں طرح کی ان رپورٹوں کو درج کرنا چاہیے، محفوظ کرنا چاہیے۔ کچھ لوگ ان باتوں کو جانتے ہیں، انھوں نے دیکھا ہے، انھیں معلوم ہے، وہ بیان کریں، کچھ لوگ انھیں پرکشش پروڈکٹس میں تبدیل کریں جس میں سے کچھ کام انجام پا چکے ہیں۔ میں نے دس سال پہلے کہا تھا کہ جتنا کام ہوا ہے، اس کا سو گنا انجام پانا چاہیے۔(4) حقیقت بھی یہی ہے، ہم نے ان میدانوں میں کم کیا ہے۔ انقلاب کے دوران ہی، جنگ کے دوران ہی اگر ہمارے پاس تشہیراتی وسائل ہوتے تو ملک کی پیشرفت، جتنی ہوئي ہے، اس سے کہیں زیادہ ہوتی۔ ہمارے پاس تشہیراتی وسائل محدود تھے، اس کے برخلاف دشمن کے پاس پروپیگنڈہ کے لامحدود وسائل تھے، آج بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔ آج بھی ہم سے جتنا ممکن ہے، وسائل میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے۔ خیر تو یہ مقدس دفاع سے متعلق کچھ باتیں تھیں۔
آج اسی طرح کا ایک واقعہ لبنان اور فلسطین میں ہو رہا ہے۔ یہ لبنان اور فلسطین کے واقعات، مسلط کردہ جنگ اور ہمارے مقدس دفاع کے واقعات کی طرح ہیں۔ یہ بھی اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ ایک اسلامی ملک یعنی فلسطین پر دنیا کے سب سے خبیث کافروں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔ حتمی شرعی حکم یہ ہے کہ سبھی پر واجب ہے کہ اسے واپس لینے کی کوشش کریں، اس میں مدد کریں اور فلسطین کو مسلمانوں اور اس کے اصل مالکوں کو لوٹائيں، مسجد الاقصیٰ کو واپس لیں۔ وہاں ایک الہی کام کیا جا رہا ہے، فلسطین اور غزہ کے لوگ جو مجاہدت کر رہے ہیں وہ حقیقی معنی میں اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں۔ درحقیقت وہ جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں، حزب اللہ لبنان، جو غزہ کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو گئی اور تلخ واقعات کا سامنا کر رہی ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہی ہے۔
اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے! وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ انھیں خبر بھی ہے، وہ دخل بھی دے رہے ہیں اور انھیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت بھی ہے۔ امریکا کی اسی موجودہ حکومت کو بھی، آئندہ انتخابات کے لیے یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ اس نے صیہونی حکومت کی حمایت کی ہے اور اسے جیت دلائي ہے۔ البتہ انھیں امریکی مسلمانوں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہے، اس لیے وہ یہ دکھاوا کرتے ہیں کہ ان کا دخل نہیں ہے لیکن ان کا دخل ہے۔ تو دشمن کے پاس پیسے ہیں، ہتھیار ہیں، وسائل ہیں، عالمی پروپیگنڈہ ہے، فریق مقابل مومنین، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے پاس ان وسائل کا عشر عشیر بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جو فاتح ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا مجاہد ہے۔ فلسطینی مزاحمت فاتح ہے۔ حزب اللہ فاتح ہے۔ آج تک تو یہ فتح حزب اللہ اور مزاحمتی فورسز کی رہی ہے، اس کی وجہ عام لوگوں کا قتل عام ہے۔ اگر خبیث صیہونی حکومت چاہے غزہ میں، چاہے غرب اردن میں اور چاہے لبنان میں مجاہدین کو شکست دینے میں کامیاب رہی ہوتی تو اس دنیا میں اپنی روسیاہی اور اپنے کریہہ چہرے کو دکھانے اور گھروں، اسکولوں، اسپتالوں، بچوں اور عورتوں کے خلاف ان جرائم کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ انھیں شکست نہیں دے سکی، چونکہ وہ مزاحمتی فورسز پر فتح حاصل نہیں کر سکی اس لیے وہ مجبور ہے، ناچار ہے کہ جیت کا دکھاوا کرے عورتوں اور بچوں کو مار کر اور نہتے لوگوں، اسکول اور اسپتال پر حملہ کرکے۔ تو اب تک تو اسے شکست ہی ہوئي ہے۔ جی ہاں! وہ وار کر رہی ہے، اس نے حزب اللہ کے بعض مؤثر اور گرانقدر افراد کو شہید کیا ہے جو بلاشبہ حزب اللہ کے لیے نقصان تھا لیکن یہ ایسا نقصان نہیں تھا جو حزب اللہ کو زمیں بوس کر دے، حزب اللہ کا تنظیمی اور افرادی قوت کا ڈھانچہ اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے، اس کی طاقت، اس کی توانائي اور اس کا استحکام ان باتوں سے کہیں آگے ہے کہ ان شہادتوں سے اس پر کاری ضرب لگ جائے۔ جی ہاں! کسی شخص کو کھو دینا خاص کر اگر وہ کمانڈر ہو اور اللہ کی راہ میں جہاد کا ماضی رکھتا ہو تو یہ نقصان ہے، اس میں کوئي شک نہیں ہے۔ بنابریں اب تک تو یہی لوگ فاتح بھی رہے ہیں اور اللہ کی مدد و نصرت سے اس جنگ میں حتمی فتح بھی مزاحمتی محاذ اور حزب اللہ کی ہوگي۔
آج کی اس گفتگو میں میری آخری عرض یہ ہے کہ ہمارے سپاہیوں نے، ہمارے مجاہدین نے ہماری سرحدوں کے اندر دشمن کے پرچم کو لہرانے سے روکنے کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی، ایثار کیا، نوجوان سپاہیوں اور مجاہدوں نے اپنے گھر والوں کو اس لیے سوگوار بنایا کہ دشمن کا پرچم، اس ملک کی سرحد کے اندر نہ لہرا سکے، یہ ممکن نہیں ہے کہ ایرانی قوم اس بات کو مان لے کہ وہی پرچم، دشمن کے لوگوں کے ذریعے، فریب خوردہ افراد کے ذریعے ملک کے اندر لہرا دیا جائے! یہ پرچم، ثقافتی رسوخ، دشمن کے طرز زندگي اور دشمن کے معاندانہ وسوسوں کا پرچم ملک کے اندر اور ہمارے مختلف اداروں میں نہیں لہرانا چاہیے! چوکنا رہنا چاہیے، سبھی پر واجب ہے۔ تعلیم و تربیت کی وزارت میں اس پر نظر رکھی جائے، ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے میں اس پر نظر رکھی جائے، پرنٹ میڈیا میں اس پر توجہ دی جائے، وزارت سائنس اور وزارت صحت میں، جو نوجوانوں کی پرورش کی جگہ ہے، اس کی طرف سے چوکنا رہا جائے۔ وہاں دشمن کو ہمارے سپاہیوں کے ہاتھوں شکست ہوئي، اب اس شکست خوردہ دشمن کو ملک کے اندر مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں سے اپنا کام جاری رکھنے اور انجام دینے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال ہمارے تمام عہدیداروں کو، ہمارے سبھی مردوں اور عورتوں کو، مختلف شعبوں میں سرگرم ہمارے سبھی افراد کو دشمن کی سازش کے مقابلے میں پوری ہوشیاری کے ساتھ محفوظ رکھے۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کے آغاز میں مقدس دفاع کے ثقافتی شعبے میں سرگرم چھے افراد نے مختصر تقاریر کیں اور مقدس دفاع کی یادگاروں کی حفاظت اور اقدار کی ترویج کے فاؤنڈیشن کے سربراہ بريگيڈیر بہمن کارگر نے ایک رپورٹ پیش کی۔
(2) سورۂ حدید، آيت 21، "اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔"
(3) سورۂ اعراف، آيت 128، "بے شک زمین اللہ کی ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔"
(4) دفاع مقدس اور مزاحمت میں سرگرم کردار ادا کرنے والے ممتاز سپاہیوں سے ملاقات میں خطاب (2023/09/20)