بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
آپ کا بہت بہت خیر مقدم ہے۔ میں دل کی گہرائي سے خوش ہوں کہ ایک بار پھر صوبۂ ہمدان کے عزیز عوام کے کچھ افراد سے، جن میں گرانقدری کے مختلف پہلوؤں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، اس امام بارگاہ میں ملاقات ہو رہی ہے۔ خاص طور پر میں یہاں موجود شہداء کے اہل خانہ کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ میں ہمدان کے محترم امام جمعہ اور سپاہ پاسداران انقلاب کے محترم کمانڈر کے بیانوں اور ان کے ذریعے دی گئي رپورٹ کے لیے شکر گزار ہوں۔ اسی طرح یہاں پر جو بہترین تلاوت کی گئي اور آپ سب نے مل کر جو خوبصورت ترانہ پڑھا، اس کے لیے بھی شکر گزار ہوں۔
ہمدان کے سلسلے میں ایک بات اختصار سے عرض کروں اور وہ یہ ہے کہ انقلاب اور مقدس دفاع کے عظیم واقعے میں ہمدان نے اپنے افتخارات کی فہرست میں اضافہ کیا۔ گروہوں، شہروں اور صوبوں کا امتحان، لوگوں کی طرح ہی حساس موقعوں پر ہوتا ہے: فی تَقَلُّبِ الاَحوالِ عُلِمَ جَواھِرُ الرِّجال(2) صوبۂ ہمدان، چاہے وہ شہر ہمدان ہو یا اس صوبے کے دوسرے شہر ہوں، تاریخ میں درخشاں رہے ہیں، انقلاب اور مقدس دفاع کے معاملے میں اس کی اس چمک میں اضافہ ہوا۔ جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمدان، ہمارے ملک کے تمدن کا پہلا مرکز ہے اور ملک کے تمدن کے دیگر گوناگوں خطوں سے تاریخی لحاظ سے آگے ہے۔ میں نے اب سے کچھ سال پہلے ہمدان کے بارے میں یہ باتیں زیادہ تفصیل سے عرض کی تھیں۔(3) جنھیں اب میں دوہرانا نہیں چاہتا لیکن جب ہم تاریخ کے دھارے پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمدان، علم کا مرکز، دین کا مرکز، جہاد کا مرکز، فن و ہنر کا مرکز اور ایک ملک کی تمام تمدنی اقدار کا مرکز سمجھا جاتا ہے، مطلب یہ کہ جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمدان میں ان خصوصیات کا مشاہدہ کرتے ہیں، یہ سب امتیازات ہیں، خصوصیات ہیں۔ اس کے بعد انقلاب کا زمانہ آتا ہے، یہ ایک نئے امتحان کا مقام ہے۔ بہت سے لوگوں اور جگہوں کا درخشاں ماضی ہے لیکن جب وہ حساس اور خطرناک موڑ پر پہنچتے ہیں تو ناکام ہو جاتے ہیں۔ جب ہم اس حساس موڑ پر پہنچے – انقلاب کے زمانے میں – تو ملک کے بہت سے شہروں اور مراکز نے واقعی بہت اچھا کام کیا، ہمدان بھی ان میں تھا۔ ابھی بتایا گيا کہ مرحوم آقا آخوند ملا علی معصومی کے جلوس جنازہ میں، انقلاب میں حقیقی انقلاب آ گيا یعنی لوگوں نے ایک بزرگ اور باوقار عالم دین کے جلوس جنازہ میں میدان اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے بعد جب ہم انقلاب کے مختلف واقعات کو دیکھتے ہیں تو ہمدان بہت نمایاں نظر آتا ہے، 'نوژہ ایئر بیس' بہت نمایاں ہے، انقلاب کے اوائل میں مخالف اور علیحدگي پسند عناصر سے مقابلے میں ہمدان کے جوانوں کا پیش پیش رہنا نمایاں ہے۔ جو لوگ ملک کے مغربی علاقوں میں علیحدگي پسندوں سے مقابلے کے لیے آگے بڑھے، ان میں ہمدان اور کرمانشاہ کے لوگ تھے جو میدان میں اترے تھے۔ میں نے نوژہ ایئر بیس کا نام لیا، اس سے میرا مقصد جنگ کا زمانہ تھا لیکن اس سے پہلے بھی اس ایئر بیس کا، اس انتہائي خطرناک بغاوت کو ناکام کرنے میں، جسے اس ایئر بیس سے شروع کرنے کی سازش تیار کی گئي تھی(4)، کردار تھا اور اس بڑی سازش کو ناکام بنانے میں سب سے اہم کردار اس ایئر بیس نے ادا کیا تھا۔ پھر مقدس دفاع شروع ہوا۔ مقدس دفاع میں ایک بار پھر ہمدان نمایاں رہا، واقعی بہت نمایاں رہا۔ پرافتخار انصار الحسین ڈویژن، ہمدان کے معروف اور نامور شہداء، جن سے اپنی عقیدت کا اظہار میں نے بارہا کیا ہے اور ان کے ناموں کا تذکرہ کیا ہے، شہید مفتح، شہید قدوسی اور نہاوند کے شہید حیدری(5) جیسے علمائے دین شہید، اس سطح کے نمایاں علمائے دین شہید۔ یہ سب بڑی نمایاں چیزیں ہیں، یہ سب بڑے اہم کام ہیں۔
واقعی اس سیمینار کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ البتہ کچھ سال پہلے بھی آپ نے ہمدان کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک سیمینار(6) منعقد کیا تھا۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ پچھلے سیمینار اور اس موجودہ سیمینار کے درمیانی وقفے میں ہمدان شہر اور ہمدان صوبے کے کئي اور نمایاں افراد، ان درخشاں ستاروں کی انجمن میں شامل ہو گئے جیسے شہید سردار حسین ہمدانی، شہید علی خوش لفظ، شہید میرزا محمد سلگي، اس صوبے سے جانے والے دفاع حرم کے شہداء، پچھلے سال سیکورٹی بنائے رکھنے کے لیے شہید ہونے والے افراد، شہید علی نظری(7)، یعنی اس صوبے میں شہادت کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔ شخصیات یکے بعد دیگر اپنے آپ کو ظاہر اور نمایاں کر رہی ہیں۔ ان کے نام کو زندہ رکھا ہی جانا چاہیے۔ البتہ شہیدوں کے نام کا تقاضا ہی بقا اور حیات ہے یعنی خدا کی راہ میں قربانی اور فداکاری کی خصوصیت ہی یہ کہ وہ دنیا میں باقی رہتی ہے: "فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذھَبُ جُفاءً وَ اَمّا ما يَنفَعُ النّاسَ فَيَمكُثُ فِی الاَرض"(8) شہادت کی خصوصیت، اللہ کی راہ میں فداکاری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فطری طور پر باقی رہتی ہے، یہ بات اپنی جگہ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر مخالف عناصر میدان میں آ جائيں تو وہ اثر نہیں چھوڑتے، کیوں نہیں، بہت سے دوسرے گرانقدر اقدار کی طرح جن کی مخالف چیزیں میدان میں آ گئيں اور اقدار کے حامیوں نے کما حقہ دفاع نہیں کیا تو باطل نے حق پر غلبہ حاصل کر لیا، ایسا ہی تو ہے۔ آپ تاریخ پر نظر ڈالیے، انبیاء، اولیاء اور دیگر نمایاں شخصیات تھیں جن پر باطل نے غلبہ حاصل کر لیا اس لیے کہ اہل حق نے وہ کام نہیں کیا جو ان کے ذمے تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شہداء فطری طور پر زندۂ جاوید ہیں اور ان میں جاودانی کا مقتضا پایا جاتا ہے لیکن ہماری بھی کچھ ذمہ داری ہے، ہمیں شہیدوں کے نام کو زندہ رکھنا چاہیے، ہمیں شہادت کے مفہوم اور شہیدوں کے پیغام سے زندگي کی صحیح آرائش کے لیے استفادہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اجتماعی زندگي کو منظم کرنے کی ضرورت ہے، خود اپنے معاشرے میں بھی اور عالمی معاشرے میں بھی، شہیدوں اور ان کی یادگاروں سے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔
یہاں پر میں اشارہ کرنا چاہوں گا مجاہد اور سرگرم خاتون مرحومہ مرضیہ دباغ صاحبہ کی طرف۔ عورت کا مسئلہ، دنیا کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ عورت کے مسئلے میں، ہم دفاعی پوزیشن میں نہیں ہیں، میں نے بارہا کہا ہے(9) کہ مغربی دنیا کے مقابلے میں ہم دفاعی نہیں بلکہ اقدامی پوزیشن میں ہیں، جواب تو انہیں دینا ہے، وہ ہیں جنھوں نے اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے لیے عورت کے شرف کو اور عورت کی عزت کو تار تار اور پامال کیا ہے، اس سلسلے میں ہمارے یہاں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن دشمن کی اس صف آرائي کے مقابلے میں ہمیں اپنے وجود کو ثابت کرنا ہوگا، حقیقت کو سامنے لانا ہوگا۔ یہ خاتون ان افراد میں سے ایک ہیں جو اسلامی معاشرے میں عورت کے حقیقی رجحان کی عکاسی کر سکتی ہیں، صرف ہماری اسلامی جمہوریہ میں نہیں بلکہ اسلام کی نظر میں، اسلام کی منطق میں، اسلام کی ثقافت میں۔ انقلاب سے پہلے کی ان خاتون کی جدوجہد، مار کھانا، ایذائيں برداشت کرنا اور جیل جانا اور جیل میں اپنے سیل میں ساتھ رہنے والوں پر اثر ڈالنا ایک طرف، پھر جنگ کے علاقوں میں جانا اور گوریلا جنگ کے سپاہی کی طرح کام کرنا، پھر پیرس میں امام خمینی کی خدمت میں پہنچنا اور پھر انقلاب کے حقیقی میدان میں آنا، وسیع سطح پر سرگرمیاں انجام دینا اور ہر میدان میں ان کی بھرپور اور سرگرم موجودگي۔ میں انقلاب کے اوائل میں جب ہمدان آیا تھا تو محترمہ دباغ، ہمدان میں سپاہ پاسداران کی کمانڈر تھیں، جن مقامات پر میں گيا، وہاں وہ آتیں اور ضروری باتیں بتاتیں اور ہم وہاں معائنہ کرتے، مطلب یہ کہ ایک عورت، ایک مردوں والے علاقے میں سپاہ کی کمانڈر بن سکتی ہے! ہمدان میں مرد کم نہیں تھے لیکن اس خاتون کی قدروقیمت اس طرح کی ہے۔ ہمدان میں سپاہ پاسداران کی کمان سے شروع کیجیے اور گورباچوف(10) کے لیے پیغام لے جانے تک (دیکھتے جائيے)۔ محترمہ دباغ اس سہ رکنی وفد میں شامل تھیں جو تہران سے امام خمینی کا پیغام(11) ماسکو میں گورباچوف کے لیے لے کر گيا تھا۔ سرگرمیوں کے اس عظیم دائرے کو دیکھ رہے ہیں؟ ان حالیہ برسوں میں فلسطین کے لیے، لبنان کے لیے اور جدوجہد وغیرہ کے لیے کام کر رہی تھیں، سن رسیدہ اور ضعیف ہو گئي تھیں لیکن کام کر رہی تھیں۔ یہ اسلامی عورت ہے۔
میں نے ہمیشہ شہیدوں کے لیے فن و ہنر کے کام پر تاکید کی ہے۔(12) مرحومہ بظاہر قدرتی موت سے اس دنیا سے گزریں لیکن وہ شہیدوں کی طرح ہیں۔ صرف یہی ایک بات کئي سرگرم فنی و ہنری کاموں کا موضوع اور مضمون بن سکتی ہے، یعنی 'اسلامی نظام میں عورت کی تصویر'۔ عورت مخالف ہونے کا الزام دشمن، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ پر ہمیشہ سے لگاتے رہے ہیں، اسلامی انقلاب کی ابتداء سے اور انقلاب کے پہلے اور بعد میں اتنی زیادہ نمایاں خواتین کے سامنے آنے کے باوجود، یہ الزام لگتا رہا ہے، اس الزام کے مقابلے میں نمایاں انقلابی خواتین اور ان کی انقلابی سرگرمیوں کے محور پر فنی و ہنری کام کا ایک نمونہ، مرحومہ دباغ صاحبہ ہیں۔ یہ جو امام خمینی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ شہداء، انقلاب کا ذخیرہ ہیں، اس کا یہ مطلب ہے، مطلب یہ کہ شہید کی زندگي سے، شہید کے پیغام سے، انقلاب کی حیات کے لیے، انقلاب کی پیشرفت کے لیے، انقلاب، اسلامی نظام اور اسلامی ملک کے عروج کے لیے ہمیشہ ایک ذخیرے کے طور پر استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
بالکل یہی بات قومیت اور اسلامیت کے معاملے میں بھی ہے۔ انقلاب کے اوائل سے ایک گروہ کی کوشش تھی کہ قومیت اور ایران کے نام اور ایران سے عقیدت کے رجحان کو اسلامی اور انقلابی رجحان کے مقابلے میں لے آئيں اور ملیت کے مسئلے کو اسلامیت کے مسئلے سے الگ کر دیں۔ جنگ، مقدس دفاع اور ہمارے عزیز شہیدوں نے واضح اور عملی طور پر اس باطل وسوسے پر خط بطلان کھینچ دیا۔ جنگ کا بڑا امتحان سامنے آیا، ملک کی سرحدوں پر حملہ ہوا، ایران پر حملہ کیا گيا اور وہ بھی صرف ایک حکومت اور ایک ہمسائے کا حملہ نہیں بلکہ حقیقی معنی میں ایک بین الاقوامی حملہ۔ یہ بات ہم بارہا عرض کر چکے ہیں۔(13) جو لوگ دعوی کرتے تھے کہ ایران کے حامی ہیں، وہ ڈر کے مارے اپنے گھروں میں دبکے رہے اور ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے ایک قدم اٹھانے کو بھی تیار نہیں ہوئے، کچھ لوگ تو ملک چھوڑ کر ہی بھاگ گئے، یہ وہی لوگ تھے جو ایران اور ایرانیت کی حمایت کے دعویدار تھے! کن لوگوں نے سرحدوں کا دفاع کیا؟ مسلمان جوانوں نے، نماز شب پڑھنے والوں نے، چیت سازیان جیسوں نے، سلگي جیسوں نے، انصار الحسین بريگيڈ کے سپاہیوں جیسے لوگوں نے، ان لوگوں نے دفاع کیا، اسلام نے ایران کی سرحدوں کا دفاع کیا۔ اسلامیت اور ایرانیت، ایک دوسرے کے مخالف اور دو متضاد قطب نہیں ہیں، دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے۔ جو بھی اسلام کا حامی بنا، جو بھی اسلام کا سپاہی بنا، وہ ہر قدر کا فطری طور پر دفاع کرے گا منجملہ ملک اور وطن، "حب الوطن من الایمان"(14) یہ ایمان کا حصہ ہے۔
یہ ساری باتیں، فن و ہنر کے کام کا موضوع ہیں۔ دیکھیے میں یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ شہداء سے متعلق کام کرنے والے آپ حضرات اپنی توجہ فن و ہنر کے اس پہلو کی طرف کئي گنا زیادہ کر لیں۔ یہ سب فن و ہنر کے کام کے موضوعات ہیں۔ فنکار، تحریر میں ایک طرح سے فن کا مظاہرہ کرتا ہے، ڈرامائي آرٹ میں کسی دوسری طرح سے، بصری فنون میں کسی اور طرح سے۔ بحمد اللہ ہمدان صوبہ اس لحاظ سے کافی مالامال ہے، آپ کے پاس اچھے فنکار ہیں اور آپ بڑے اور گرانقدر کام انجام دے سکتے ہیں۔
بہرحال غیرت مند دینداروں کو خراج عقیدت پیش کرنا جو اسلام کا دفاع کر رہے ہیں، ایران کا دفاع کر رہے ہیں، اقدار کا دفاع کر رہے ہیں، عورت کی قدروقیمت کا دفاع کر رہے ہیں، ان اہم کاموں اور نیک امور میں سے ہے جس کا بیڑہ آپ جیسے اچھے بندوں نے اٹھایا ہے، ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو توفیق عطا کرے اور آپ کی مدد کرے تاکہ آپ بہترین ڈھنگ سے یہ کام انجام دے سکیں۔ میں نے سنا ہے کہ شہیدوں کے سلسلے میں آپ لوگ الگ الگ سیمینار کریں گے جیسے اسٹوڈینٹ شہید، دینی طالب علم شہید، انجینیر شہید، یہ بہت اچھا کام ہے اور پوری دقت نظر سے اور بھرپور لگن سے اس کام کو انجام دیجیے۔ خداوند عالم مدد کرے اور تاثیر بھی عطا کرے تاکہ آپ شہیدوں کے پیغام کو دلوں تک پہنچا سکیں۔ ظاہری کاموں پر کسی بھی صورت میں مطمئن نہ ہوں بلکہ ہدف اس بات کو قرار دیجیے کہ یہ پیغام آپ کے مخاطبین تک پہنچے منجملہ آج کے بچوں اور جوانوں تک پہنچ جائے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کی مدد کرے، حضرت بقیۃ اللہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف آپ سے راضی ہوں، شہیدوں کی پاکیزہ ارواح اور امام خمینی کی پاکیزہ روح ان شاء اللہ آپ سے راضی اور خوشنود ہو۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ