بسم اللہ الرحمن الرحیم.

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

برادران عزیز، خواہران عزیز، صوبے کے محترم عہدیداران، عزیز اور محترم علمائے دین! میں آپ سب کی خدمت میں خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک اور بہت بڑی عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ اس بڑے، تاریخی اور بہت اہم دن میں آپ کی یہ ملاقات، آپ سب کی کوششوں میں برکت کا سبب بنے گی جن میں سے بعض کوششوں کا ذکر کیا گیا، جو ہنری وغیرہ کام ہوئے ہیں، ان کے کچھ نمونے ہم نے یہاں دیکھے۔(2) بحمد اللہ عزیز شہیدوں کی یاد نے ہماری امام بارگاہ کو رونق عطا کر دی ہے، میں خاص طور پر عزیز شہیدوں کے اہل خانہ کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔

شہیدوں کی یاد منانے کی اہمیت

شہیدوں کی یاد، درس بھی ہے، محرک بھی ہے اور حق کی ادائیگی بھی ہے۔ ایرانی معاشرے اور ایرانی قوم پر شہیدوں کا بہت زیادہ حق ہے۔ ان کے سلسلے میں جو کم ترین کام کیا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم ان عزیزوں کی یاد منائیں۔ آپ کا کام یعنی خوزستان کے چوبیس ہزار شہیدوں کی یاد منانے کے لیے پروگرام تیار کرنا، چوبیس ہزار کی تعداد ایک بڑی اور اہم تعداد ہے، بہت ہی بجا، مناسب اور برموقع کام ہے۔

خوزستان، مقدس دفاع کے دوران ایرانی قوم کا سب سے اگلا اور مضبوط مورچہ

خوزستان کے بارے میں اختصار سے کچھ عرض کروں۔ مقدس دفاع میں، کہ یہ آٹھ سال، ایرانی قوم کا ایک بڑا امتحان تھا، خوزستان نے سب سے آگے کے مورچے کا کردار ادا کیا، یہ بہت اہم بات ہے۔ واقعی خوزستان، سب سے آگے کا اور مضبوط مورچہ تھا، خرمشہر ایک طرح سے، آبادان دوسری طرح سے، دزفول کسی اور طرح سے، اہواز ایک اور طرح سے۔ شادگان، حمیدیہ، سوسنگرد جیسے مختلف شہروں اور دوسرے مقامات کی استقامت و مزاحمت، جن میں سے بعض کو ہم نے قریب سے دیکھا ہے اور بعض کے بارے میں سنا ہے، واقعی ہماری تاریخ میں، جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں، ایک بے مثال چیز ہے۔ عرب قبائل، بختیاری قبائل اور لُر قبائل نے حقیقت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یا دزفول کے عوام، ان بھیانک بمباریوں کے سائے میں! دزفول ایک طرح سے، آبادان دوسری طرح سے، اہواز کسی اور طرح سے اور خرمشہر تو خیر خوزستان میں استقامت کا مرکز اور مزاحمت کا قلب تھا۔ ان جاں فشانیوں نے ان شہروں کے نام کو اور خوزستان کے نام کو جاویداں کر دیا اور ایرانی قوم کے اس بڑے امتحان کا نتیجہ اسی استقامت و مزاحمت نے لکھا۔

ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں(3) صدام کو وہم تھا کہ چونکہ خوزستان کے عوام کا ایک حصہ عربوں پر مشتمل ہے اس لیے وہ خندہ پیشانی سے عراقی فوج کا استقبال کریں گے، ہوا اس کے بالکل برخلاف، عرب گھرانوں نے، چاہے وہ شہر کے اندر کے ہوں یا دیہاتوں کے، یہ کام نہیں کیا۔ کسی آپریشن کے دوران ہم دوپہر کے وقت ایک گاؤں میں گئے کہ وہاں وضو کریں اور نماز پڑھیں، وہاں زندگی گزارنے والوں میں دو تین عرب فیملیز کے علاوہ کوئی نہیں تھا، اس بیابان میں، اس خطرناک علاقے میں، دشمن کی افواج کے درمیان وہ لوگ اسلامی جمہوریہ کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور ان کی عورتیں، مرد اور بچے ہمارا استقبال کر رہے تھے جو وضو کرنے اور نماز پڑھنے گئے تھے۔ خوزستان نے اس علاقے میں اس طرح عمل کیا۔ سپاہ پاسداران کے شجاع کمانڈر، فوج کے گرانقدر کمانڈر، شہید جہان آرا، شہید علی ہاشمی، شہید سید حسین علَم الہدیٰ، ان میں سے ہر ایک الگ الگ طرح سے، طرح طرح کے کاموں سے، اپنی استقامت سے، وہاں اپنی مزاحمت سے، قومی ہیروز کی صف میں شامل ہو گئے۔

خوزستان، مقدس دفاع کے دور میں ایرانی قوم کی یکجہتی کا مظہر

خوزستان کے سلسلے میں ایک اور بات جو ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں(4) یہ ہے کہ خوزستان ایرانی قوم کی یکجہتی کا مظہر بن گیا، یعنی ملک کے گوشے گوشے سے جان و دل، جسم و عزم سب خوزستان میں، ایران اسلامی کے دفاع کے لیے اکٹھا ہو گئے، ایک دوسرے سے جڑ گئے۔ اگرچہ جنگ کا علاقہ شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا تھا لیکن دشمن کا اصل ہدف اور بڑا میدان جنگ خوزستان کا یہی حساس اور اہم علاقہ تھا، یہاں ایرانی قوم نے خود کو نمایاں کیا، خوزستان ایرانی قوم کی نمایاں خصوصیات کے سامنے آنے کا مظہر بن گیا، درس کا مطلب یہ ہے۔ یہ ہاتھوں کا آپس میں ملنا، دلوں کا آپس میں ملنا، ایک ساتھ کام، کوشش، سوچ، عزم مقدس دفاع کے ان بڑے بڑے نتائج کو سامنے لایا، یہ ہمارا آج کا بھی درس ہے اور ہمارے آئندہ کل کے لئے بھی درس ہے۔ تمام اہم معاملات میں، ارادے ایک دوسرے کے ساتھ ہوں، سارے ہاتھ ایک دوسرے کے ساتھ ہوں، جسم اور جانیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہوں، درس کا مطلب یہ ہے۔ سبھی صوبوں نے اپنے بہترین جوانوں کو خوزستان بھیجا، ایرانی قوم کے سب سے نمایاں جوانوں کو خوزستان میں عروج حاصل ہوا۔

خوزستان میں مقدس دفاع کے واقعات کو آرٹ اور کلچر کے سانچے میں تاریخی طور پر ثبت کرنے کی ضرورت

یہ واقعات خوزستان میں جنگ کے برسوں کے دوران اور بھی اور اس سے پہلے، بعد میں اور آج تک ہو رہے ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خوزستان بدستور، قدرتی وسائل کا منبع ہے، خوزستان زرعی پیداوار کا منبع ہے، تیل کی پیداوار کا منبع ہے، صنعتی پیداوار کا منبع ہے، اس انتہائی اہم ماضی کے سبب، ثقافتی پیداوار کا منبع ہے، ایرانی قوم کے ناقابل فراموش ثقافتی اور شناخت سے وابستہ دروس کی پیداوار کا منبع ہے۔ ان میں سے جس علاقے میں بھی، جن میں بعض کو ہم نے قریب سے دیکھا اور بعض کے بارے میں سنا ہے، شمالی خوزستان سے، دشت عباس کے صحرا سے لے کر خرمشہر تک اور خرمشہر سے لے کر دوسرے علاقوں تک، بہت سے واقعات ہوئے ہیں جو سیکڑوں ڈاکیومینٹری فلموں، سیکڑوں فلموں، سیکڑوں ٹی وی سیریلز اور سیکڑوں دلچسپ کتابوں کا مواد بن سکتے ہیں اور انھیں تاریخ میں درج ہونا چاہیے۔ دوستوں نے وہاں(5) بتایا اور یہاں بھی اشارہ کیا کہ چار فلمیں تیار ہوئی ہیں، بہت اچھی بات ہے لیکن چار سو فلمیں بننی چاہیے اور یہ ہو سکتا ہے، ممکن ہے۔ انسان خوزستان کے واقعات پر جتنا غور و خوض کرے، جتنا تفصیلات سے مطلع ہو، محسوس کرے گا کہ یہاں ایک بڑے ثقافتی کام کا خلاء موجود ہے جسے بھرنا چاہیے۔ یہ جو واقعات خوزستان میں ہوئے ہیں، بڑے بڑے آپریشنز، فتح المبین آپریشن، بیت المقدس آپریشن، خیبر آپریشن اور دوسرے بڑے آپریشنز جو یہاں ہوئے ہیں، ان کا بیک گراؤنڈ، ان آپریشنز کے دوران ہونے والے واقعات، اور ان آپریشنز کے نتائج بڑے ثقافتی اور ہنری شاہکاروں کا مواد بن سکتے ہیں۔ یہ ایک بات ہوئی۔

خوزستان میں مقدس دفاع کے دوران رونما ہونے والے واقعات، عوامی عزم اور اسلامی ایمان کی آمیزش کا مظہر

ایک دوسرا بنیادی اور اہم نکتہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو کچھ خوزستان میں ہوا، وہ عوامی عزم اور اسلامی ایمان کی آمیزش کا مظہر تھا، یعنی عوامی عزم، جوانوں کی شجاعت، والدین اور شریک حیات کا ایثار، یہ سب خوزستان میں متجلی ہوئے، اسلامی ایمان تھا، یعنی وہ چیز جس نے خوزستان کے نمایاں واقعات کو، پورے ملک کے ایک نمونے کے طور پر وجود عطا کیا، یہ اسلام اور عوام کی آمیزش کا مظہر تھا، اسلامی ایمان اور عوامی عزم اور عوامی حوصلے کی آمیزش کا مظہر تھا۔ اس حقیقت کا مشاہدہ کر کے انسان، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جانب سے "اسلامی جمہوریہ" لفظ کے انتخاب میں ان کی دقت نظری کو سمجھ سکتا تھا، اسلام کو بھی جان لیتا تھا اور ایرانی قوم کی جمہوریت کو بھی واضح طور پر سمجھ لیتا تھا۔

اسلامی جمہوریہ، عوام اور اسلام کے بارے میں امام خمینی کی عمیق شناخت کا نتیجہ

بزرگوں کے درمیان، چاہے وہ ہمارے زمانے کے ہوں یا ہمارے ماضی قریب کے زمانے کے ہوں، ہم نے کسی کو ایسا نہیں پایا جس نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی طرح قوم پر اعتماد کیا اور قوم کی شناخت کو پوری گہرائی سے سمجھا اور محسوس کیا ہو۔ انقلاب کے بالکل ابتدائی دنوں سے امام خمینی، ایرانی قوم کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ سنہ 1962 میں، جب تحریک شروع ہوئی، امام خمینی اپنے ہاتھوں سے قم کے جنوبی صحرا کی طرف اشارہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہم ایران کے عوام سے کہیں تو ایرانی قوم، اس صحرا کو اپنی موجودگی سے بھر دے گی،(6) وہ عوام کو پہچانتے تھے۔ اسی وقت ایسے لوگ بھی تھے جو کہتے تھے کہ ان لوگوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا جبکہ امام خمینی عوام پر اعتماد کرتے تھے۔ یہ، عوام کی شناخت تھی۔ اسلام کی شناخت، امام خمینی نے اسلام کو ایک جامع، کامل اور اونچی نظر سے پہچانا۔ وہ اسلام کو ایک ایسے مکتب فکر کی نظر سے دیکھتے تھے جو انسان کی روح کو بالیدگی اور بلندی عطا کر سکتا ہے اور انسانی معاشرے کو بڑا کر سکتا ہے، آگے بڑھا سکتا ہے، اونچا اٹھا سکتا ہے اور عروج عطا کر سکتا ہے۔ وہ اسلام کو، انسانی معاشروں کا نظام چلانے کے لیے کافی سمجھتے تھے، وہ اسلام کو صرف مناروں پر اذان دینے، عبادت گاہوں اور مساجد میں عبادت کرنے اور لوگوں کے دلوں کو ٹھیک کرنے کا ذریعہ نہیں مانتے تھے بلکہ وہ اسلام کو سیاست کے میدان میں، امور کو بہتر بنانے کے میدان میں، عوام کے امور کا انتظام چلانے کے میدان میں اور انسانیت کی عمومی ہدایت کے میدان میں سرگرم اور مفید سمجھتے تھے، ان کا نظریہ یہ تھا، "اسلامی جمہوریہ"۔

جمہور اور اسلام کی آمیزش سے اسلامی جمہوریہ کا روز افزوں استحکام اور پیشرفت

دیکھیے، یہ نظریہ، بہت عمیق اور صحیح نظریہ ہے، یہی ہے جس نے خوزستان میں ایسے معجزے کیے اور پورے ملک میں اس عظیم تحریک کی، اسلامی جمہوری نظام کی پیشرفت کی، اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت کی راہ ہموار کی اور یہ بدستوری جاری ہے۔ جمہور اور اسلام کو جوڑنے کی اس سوچ نے اسلامی جمہوریہ کو استحکام عطا کیا، اس سوچ نے اسلامی جمہوریہ کو پائیدار بنا دیا، اسے باقی رکھا، اس کی حفاظت کی، اسے روز بروز زیادہ مضبوط بنایا۔ اسلامی جمہوریہ کے دشمن کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسے جانتے نہیں ہیں، نہ عوام کو صحیح طریقے سے جانتے ہیں اور نہ ہی اسلام کو پہچانتے ہیں۔ انھوں نے اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کے خلاف سازش کی، منصوبہ بندی کی، چال چلی، اندازہ لگایا اور پیشن گوئی کی، انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ اپنی عمر کے چالیس سال پورے نہیں کر پائے گی!(7) یہ بات امریکیوں نے کہی تھی، انھیں یقین تھا کہ ان کی سازشیں اور چالیں کامیاب ہو جائیں گی۔ ان کے اندازوں اور خواھش کے برخلاف اسلامی جمہوریہ رکی نہیں، ملک کی پیشرفت رکی نہیں، اسلامی ایران، منہ زوریوں کے سامنے جھکا نہیں، اس نے مکاریوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور سربلندی سے اپنا سفر جاری رکھا، ہم نے بہت ساری رکاوٹوں کو عبور کر لیا ہے اور اللہ کی مدد و نصرت سے ایرانی قوم اس وقت موجود بہت سی دوسری رکاوٹوں کو بھی پار کر لے گی۔

غزہ کے واقعات میں دو اہم باتوں کا سامنے آنا: (الف) اسلامی ایمان کی طاقت

ایک بات میں غزہ کے سلسلے میں بھی عرض کر دوں۔ آج عالم اسلامی حقیقی معنی میں غزہ کے لیے سوگوار ہے۔ خبیث صیہونی حکومت، اس پاگل کتے کے ہاتھوں غزہ میں جو جرائم ہو رہے ہیں، انھیں سبھی جانتے ہیں۔ ان واقعات نے دو باتوں کو عیاں کر دیا: ایک اسلامی ایمان کی طاقت ہے۔ غزہ کے اندر مزاحمتی فورسز نے جو استقامت دکھائی ہے اور انھیں ختم کرنے کی طرف سے دشمن کو مایوس کر دیا ہے، اس کا سرچشمہ اسلام کی طاقت ہے۔ یہ صبر جو غزہ کے مظلوم عوام نے بمباریوں میں اور دباؤ میں دکھایا ہے، اس کا سرچشمہ اسلامی ایمان ہے۔ تو اسلامی ایمان یہاں نمایاں ہو گیا، ایسا کچھ ہوا کہ جو خبریں موصول ہوئی ہیں اور آپ لوگوں نے بھی سنی ہی ہیں، ان کے مطابق مغربی ملکوں میں، خود امریکا میں، خود یورپ میں بہت سے جوان، قرآن کی طرف مائل ہو گئے کہ دیکھیں اس میں کیا چیز ہے جو اس بات کا سبب بنتی ہے کہ اس پر ایمان رکھنے والے لوگ اس طرح دہشتناک اور بڑی بڑی مشکلات کے سامنے ثابت قدم رہنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اسلام نے اپنے آپ کو دکھا دیا۔

(ب) مغربی تمدن و ثقافت کا خونخوار اور ریاکار باطن

دوسری چیز یہ ہے کہ مغربی تمدن نے بھی اپنے آپ کو عریاں کر دیا۔ مغربی تمدن جو ریاکاری سے، منافقت سے، جھوٹ بول کر ہمیشہ انسان، انسانی حقوق وغیرہ کے دعوے کرتا ہے اور ایک مجرم کو سزائے موت دیے جانے کی مخالفت کرتا ہے، مثال کے طور پر کسی نے جرم کیا ہے، فرض کیجیے کہ کئی لوگوں کو قتل کیا ہے، اسے قصاص کرنا چاہتے ہیں، سزائے موت دینا چاہتے ہیں، ان کے اعتراضات شروع ہو جاتے ہیں، "جناب! سزائے موت، سزائے موت!" ان تین چار مہینوں میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں تیس ہزار لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، یہ لوگ دیکھتے بھی ہیں لیکن گویا کچھ ہوا ہی نہیں ہے! ان کے بعض افراد، سب نہیں، زبانی طور پر کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے، قتل عام کر رہا ہے، زبانی طور پر کوئی بات کہہ دیتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کی پشت پناہی کرتے ہیں، اسے ہتھیار دیتے ہیں، اس کی ضرورت کا سامان دیتے ہیں اور امریکا پوری ڈھٹائی سے غزہ کے لوگوں پر کی جا رہی بمباری کو بند کرنے کی سبھی قراردادوں کو ویٹو کر دیتا ہے! یہاں مغربی تمدن سامنے آ گیا، مغربی تمدن یہ ہے۔ مغربی ثقافت، ظاہری طور پر وائٹ کالر مغربی سیاستدانوں کا باطن یہ ہے، ان کا ظاہر مسکراہٹوں سے سجا ہے لیکن باطن ایک پاگل کتے اور خونخوار بھیڑیے کا ہے۔ مغربی تمدن یہ ہے، مغرب کی لبرل ڈیموکریسی یہ ہے۔ یہ نہ لبرل ہیں اور نہ ہی ڈیموکریٹ، یہ جھوٹ بولتے ہیں اور منافقت سے اپنا کام نکال رہے ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ دنیا کے لوگ، ان مختلف واقعات میں حقائق کو بخوبی سمجھیں گے، اسلام کو بھی بہتر طریقے سے پہچانیں گے اور مغرب کو صحیح طریقے سے پہچانیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ مغربی تمدن، یہ جعلی مال منزل تک نہیں پہنچے گا اور جاری نہیں رہ پائے گا، ان شاء اللہ اسلام کی برحق ثقافت اور صحیح منطق، ان سب پر غلبہ حاصل کرے گی، ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں، صوبۂ خوزستان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور اہواز کے امام جمعہ حجت الاسلام والمسلمین سید عبدالنبی موسوی فرد اور خوزستان کی حضرت ولی عصر بریگیڈ کے کمانڈر اور اس کانفرنس کے سیکریٹری حسن شاہوارپور نے رپورٹیں پیش کیں۔
  2. رہبر انقلاب نے اس کانفرنس کے منتظمین کی جانب سے حسینیۂ امام خمینی میں لگائی گئی نمائش کا معائنہ کیا تھا۔
  3. کرمان اور خوزستان کے عوام کے مختلف طبقوں سے ملاقات میں خطاب (23/12/2023)
  4. کرمان اور خوزستان کے عوام کے مختلف طبقوں سے ملاقات میں خطاب (23/12/2023)
  5. حسینیۂ امام خمینی سے متصل نمائش۔
  6. صحیفۂ امام خمینی، جلد 1، صفحہ 87
  7. جولائی 2017 میں پیرس میں 'منافقین خلق' دہشت گرد گروہ کی جانب سے منعقدہ نشست میں امریکا کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کے بیان کی طرف اشارہ۔