رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ مسلم اقوام حتی دنیا کی غیر مسلم اقوام بھی غاصب حکومت کے جرائم کے جاری رہنے پر بہت زیادہ برہم ہیں اور اگر یہ درندگي جاری رہی تو دنیا بھر کے مسلمانوں اور استقامتی فورسز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور پھر کوئي بھی انھیں روک نہیں پائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطین میں جاری واقعات کو، صیہونی حکومت کے آشکارا جرائم اور پوری دنیا کی نظروں کے سامنے کھلا نسلی صفایا بتایا اور کہا کہ ہمارے عہدیداروں سے بات چیت میں بعض ملکوں کے حکام کا اعتراض یہ تھا کہ کیوں فلسطینیوں نے غیر فوجیوں کو قتل کیا ہے؟ یہ بات حقیقت کے برخلاف ہے کیونکہ صیہونی کالونیوں میں رہنے والے سبھی، عام شہری نہیں بلکہ مسلح افراد ہیں لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ غیر فوجی ہیں تو ان میں سے کتنے لوگ مارے گئے ہیں اور ان دنوں میں کتنے فلسطینی عام شہری شہید ہوئے ہیں؟
انھوں نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت نے ان سے سو گنا زیادہ یعنی کئي ہزار فلسطینی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو، جو کہ عام شہری تھے قتل کیا ہے اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں پر بمباری کر کے اور ان عمارتوں کو نشانہ بنا کر جن کے بارے میں وہ جانتی ہے کہ وہاں عام شہریوں کے گھر ہیں، پوری دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے وہ جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ان جرائم کے سبب غاصب صیہونی حکومت پر ضرور مقدمہ چلایا جانا چاہیے، امریکی حکومت کو غاصحب حکومت کی پالیسیوں کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ متعدد اطلاعات سے واضح ہے کہ صیہونی حکومت کی پالیسیوں کو آج کل امریکی تیار کر رہے ہیں اور امریکا اس معاملے میں ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غزہ پر بمباری فوری طور پر بند ہونی چاہیے، اسلامی ملکوں میں مسلم اقوام حتی امریکا اور یورپ میں غیر مسلموں کے اجتماعات، صیہونی حکومت کے جرائم پر اقوام کے شدید غم و غصے کی علامت ہیں، کہا کہ اگر یہ جرائم جاری رہے تو مسلمانوں اور استقامتی فورسز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور پھر کوئي بھی انھیں روک نہیں پائے گا۔ اس حقیقت کو سمجھیں اور یہ توقع نہ رکھیں کہ فلاں گروہ کو فلاں کام نہ کرنے دیجیے! انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ البتہ صیہونی حکومت چاہے جو کر لے، اس واقعے میں اسے جو ذلت آمیز شکست ہوئي ہے، اس کی تلافی ہرگز نہیں کر پائے گي۔
انھوں نے ظلم کے مقابلے میں مظلوم کو پہچاننے اور اس کا دفاع کرنے کی علماء و دانشوروں کی ذمہ داری پر مبنی امیر المومنین علیہ السلام کے کلام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف ردعمل دکھانا، ان ذمہ داریوں میں شامل ہے جو پروردگار عالم نے علماء کے کندھوں پر رکھی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تقریبا دو دہائی پہلے یونیورسٹیوں میں ایک نئی علمی تحریک اور نتیجہ خیز سرگرمیوں کے آغاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی علمی و سائنسی پیشرفت کی رفتار میں اضافہ اور اس کا اوسط عالمی رفتار سے بارہ گنا زیادہ ہونا، اس تحریک کے مبارک نتائج میں سے ایک تھا اور اب غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد، طلبا اور علمی و سائنسی مراکز کو موجدانہ اور اخراعی علمی و سائنسی تحریک کے نئے باب میں داخل ہونے کے لیے کمر کس لینا چاہیے۔
انھوں نے ایران کی سائنسی پیشرفت دیکھنے کے بعد خطے کے بعض ممالک میں علمی و سائنسی سرگرمیاں شروع ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پچھلی تحریک کے نتائج پر مغرور نہیں ہونا چاہیے اور دنیا میں جاری علمی و سائنسی مقابلے میں پیچھے نہیں رہ جانا چاہیے کیونکہ تمام تر پیشرفت کے باوجود ہم علم و دانش کے لحاظ سے اب بھی پیچھے ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم کی طاقت کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام کے اس قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ "العلم سلطان" علم، قوت ہے، کہا کہ اگر ہم اپنے ملک کو دنیا کے رائج نقصانات سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں علمی و سائنسی پیشرفت کے لیے سنجیدگي سے کوشش کرنی ہوگي۔ انھوں نے ملک کے مستقبل کو روشن اور امید افزا بتایا لیکن اسی کے ساتھ کہا کہ تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ موجودہ موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے اور ملک میں پائے جانے والے عزم و صلاحیت اور انفراسٹرکچر پر بھروسہ کر کے سامنے موجود دشوار گزار راستے کو پوری طاقت سے طے کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عزم کے فقدان، مایوسی اور اپنی صلاحیتوں پر عدم اعتماد کو کسی بھی قوم کی پیشرفت کی راہ میں موجود اہم رکاوٹوں سے تعبیر کیا اور مٹی کے لوٹے کی ٹونٹی تک بنانے میں ایرانی قوم کی ناتوانی کے بارے میں طاغوتی شاہی حکومت کے دور کے ایک وزیر اعظم کے اہانت آمیز بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ طاغوتی دور میں، عدم پیشرفت اور پچھڑاپن جاری رہنے کے تمام اسباب اکٹھا ہو گئے تھے لیکن آج اللہ کے فضل و کرم سے ملک میں علمی پیشرفت کا عزم اور صلاحیت دونوں موجود ہیں۔
انھوں نے نالج بیسڈ کمپنیوں کی تشکیل کو ملک کی معاشی و سائنسی ترقی و شادابی کا سبب بتایا اور اسی کے ساتھ اسے ممتاز علمی صلاحیت کے حامل اور جینیئس افراد میں ان کے سودمند ہونے کا احساس پیدا ہونے کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ نالج بیسڈ کمپنیوں کو مضبوط بنائیے اور انھیں مضبوط بنانے کا ایک راستہ، سرکاری اداروں اور کمپنیوں کی جانب سے ایسی غیر ملکی اجناس کی درآمد کو پوری طرح روکنا ہے جن کے جیسی مصنوعات ملک کی نالج بیسڈ کمپنیاں تیار کر رہی ہیں۔