صیہونیوں کے خلاف فلسطینیوں کی بلا وقفہ مزاحمت بھی ان حقائق میں سے ایک ہے جن سے گزشتہ 75 سال کے دوران بار بار ثابت ہوا کہ مستضعفین کے خلاف استکباری قوتوں کی سازشیں بالآخر ناکام ہی ہوتی ہیں۔
صیہونیوں نے ہولوکاسٹ کی جھوٹی داستانوں کا پروپیگنڈا کرکے یہ کوشش کی کہ عالمی استکبار کے ساتھ مل کر قدس شریف کے پاس اور اسلامی سرزمینوں کے قلب میں اپنا ٹھکانہ بنا لیں اور اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسرائیل کے نام سے ایک صیہونی حکومت کی تشکیل کریں۔ اس سازش کے نتیجے میں فلسطینی عوام کی نصف سے زائد آبادی کو گھربار سے بے دخل کرکے ہمسایہ ممالک میں کھدیڑ دیا گیا۔ باقی بچے فلسطینی غرب اردن اور غزہ کے علاقوں میں بڑی ابتر صورت حال میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور ہمیشہ صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کا نشانہ بنتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے صیہونیوں کے جبر و استبداد سے رہائی کی جدوجہد ایک لمحے کے لئے بھی رکنے نہیں دی۔
صیہونی حکومت کو قائم کرنا اور پھر اس کی مسلسل حمایت، عالمی استکبار کا ہدف نہیں بلکہ دنیا کی مظلوم اقوام پر تسلط قائم کرنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے استکباری سازشی طاقتوں نے ایسے ایسے ظالمانہ اقدامات انجام دئے جو پوری تاریخ میں عدیم المثال نہیں تو کم نظیر تو ضرور ہیں۔ خاص طور پر پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں استعماری طاقتوں نے لوٹ اور غارت گری کا سلسلہ اوج پر پہنچا دیا تھا۔ 1948 میں صیہونی حکومت کی تشکیل ایسے ہی استعماری اقدامات کی ایک کڑی تھی۔ حالانکہ مظلوم قوموں کی مزاحمت کے نتیجے میں استعماری طاقتوں کو اپنی نو آبادیات سے پیچھے ہٹنا پڑا تاہم انھوں نے ماڈرن استعمار کے پیرائے میں غارتگری کی سازشیں بدستور جاری رکھیں۔
فلسطین کی مظلوم اور ستم رسیدہ قوم ہمیشہ غاصب صیہونی حکومت کے بے رحمانہ حملوں اور بمباری کی زد پر رہی جبکہ اس 75 سالہ مدت میں اسے ماڈرن امپیریلزم کے عناصر کی طرف سے شدید اقتصادی محاصرے کا بھی سامنا رہا۔ اس سے ایک طرف تو عالمی استکبار کے مجرمانہ منصوبے بے نقاب ہوئے اور دوسری طرف دنیا کی مظلوم قوموں میں یہ عزم مضبوط ہوا کہ عالمی استکبار کے عدیم المثال مظالم پر فطری رد عمل دکھانا ضروری ہے۔
ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد یہ حقیقت اجاگر ہو گئی کہ آج بھی مزاحمت و استقامت کے ذریعے ڈھائی ہزار سالہ ظالمانہ شاہی حکومت کو عالمی استکبار کی ہمہ جہتی پشت پناہی کے باوجود سرنگوں کیا جا سکتا ہے۔ اس کامیاب تحریک سے الہام لے کر مختلف علاقوں میں مستضعفین کی ایک عالمی تحریک کا آغاز ہوا اور خمینی بت شکن کی ہدایات پر عمل آوری کے نتیجے میں معاصر دنیا کی توسیع پسند مجرم طاقتوں کو پہلی بار دنیا کے محروم طبقات کی تحریک کے سامنے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ امام خمینی کے بعد رہبر انقلاب آيت اللہ خامنہ ای سے دنیا کے مستضعفین کو استکباری طاقتوں کے مقابلے میں اقدامی اور جارحانہ پوزیشن اختیار کرنے کی تعلیم ملی اور انھیں یقین حاصل ہوا کہ باعزت زندگی گزارنے کا ایک ہی راستہ، مزاحمت و استقامت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں دنیا کے مظلومین و محرومین کو صریحی طور پر یہ سمجھا دیا کہ وہ دور گیا جب بڑی طاقتیں من مانی کرتی تھیں، آج وہ دور ہے کہ اگر انھوں نے شرارت کی تو انھیں جوابی حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ممکن ہے وہ وار کریں لیکن جوابی حملہ اس سے کئی گنا زیادہ سنگین ہوگا۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے حزب اللہ لبنان نے اسلامی مزاحمت و استقامت کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پایہ ثبوت کو پہنچایا۔ وہی صیہونی حکومت جو وسیع تر اسرائیل کے خواب دیکھ رہی تھی سنہ 2006 میں ایک 33 روزہ جنگ میں اپنی تمام تر رجز خوانیوں کے باوجود حزب اللہ کے مٹھی بھر مجاہدین کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور اسلامی مزاحمتی فورس کے جوانوں نے جنوبی لبنان کو آزاد کراکے دنیا کے عسکری ماہرین کے تخمینوں پر خط بطلان کھینچ دیا۔
سنہ 2011 میں دنیا کی خودسر طاقتوں نے متحد ہوکر پورا زور لگا دیا کہ شام میں بشار اسد حکومت کا تختہ الٹ دیں اور اس کی جگہ اپنے افراد کو اقتدار میں لائیں مگر اسلامی مزاحمتی نظریے نے ایک بار پھر یک قطبی دنیا کی رہبری کے دعویداروں کو ان کے سارے ریاستی و غیر ریاستی پلیئرز کے ساتھ شرمناک شکست سے روبرو کرایا۔
سنہ 2015 میں عالمی استکبار کے زیر اثر کام کرنے والے فریقوں نے یمن کی مظلوم و محروم تحریک انصار اللہ (حوثی) پر بڑی بزدلانہ جنگ مسلط کر دی۔ اس میدان میں بھی اسلامی مزاحمتی نظریہ یمن کے اقتصادی لحاظ سے کافی پسماندہ خطے سے ایسے مایہ ناز مجاہدین پیدا کرنے میں کامیاب ہوا جنھوں نے دنیا کی پیشرفتہ عسکری صنعتوں کو ناکارہ ثابت کر دیا اور دشمن کو اس کے سارے حواریوں اور حاشیہ برداروں کے ساتھ دھول چٹا دی۔
دریں اثنا داعش کے بے حد مشکوک اور پر اسرار فتنے نے سر ابھارا اور کوشش کی کہ دین کی بڑی وحشیانہ اور غیر انسانی تصویر پیش کرے۔ اس تحریک کا تیزی سے پھیلنا اور خاص طور پر شام اور عراق میں عدیم المثال وحشیانہ اقدامات، عالم اسلام کی سطح پر گہری تشویش کا باعث بنے۔ سامراجی دنیا کے میڈیا کی کوشش رہی کہ اس نظریے کو امن عالم کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے۔ تقریبا چالیس ملکوں کا ایک الاینس بن گیا لیکن داعش کی سرکوبی کے لئے وہ کچھ نہیں کر پایا۔ داعش نے موصل کو مرکز بنا کر عراق کی تقریبا پچاس فیصدی سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ ان تشویشناک حالات میں اسلامی مزاحمت کا نظریہ 'الحشد الشعبی' کی صورت میں ظاہر ہوا اور بہت کم وقت میں اس نے داعش کے مشکوک و پر اسرار فتنے کو کچل دیا اور دنیا کو یہ دکھا دیا کہ غیر معمولی ظلم پر مستضعف طبقات کا رد عمل بڑا دنداں شکن ہوتا ہے۔
مجرم غاصب صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی مجاہدین کا حالیہ آپریشن بھی غیر معمولی ظلم پر غیور قوم کے فطری جواب کا ایک نمونہ ہے۔ مشرق و مغرب کے تجزیہ نگار اس شجاعانہ آپریشن کو مبہوت کن اور حیرت انگیز قرار دے رہے ہیں۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ غزہ کے مظلوم عوام، جو کئی عشروں سے صیہونی حکومت اور استکباری عمائدین کے شدید محاصرے میں ہیں، اسرائیل پر جو سر سے پاؤں تک جدید ترین اسلحوں اور انٹیلیجنس و سیکورٹی وسائل سے لیس ہے، ایسی کاری ضرب لگا سکتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کے بقول یہ شجاعانہ اور ساتھ ہی جذبۂ قربانی سے لبریز آپریشن غاصب دشمن کے ان جرائم کا فطری جواب تھا جو برسوں سے جاری ہیں اور حالیہ مہینوں میں ان میں ایک نئی شدت آ گئی تھی۔ گنہگار موجودہ صیہونی حکومت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ جہاں تک ہم اس حالیہ عرصے میں دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں، حالیہ سو سالہ یا اس سے زیادہ کے عرصے میں کوئی بھی اسلامی ملت ایسی دشمنی سے روبرو نہیں ہوئی جیسی دشمنی کا سامنا آج فلسطینی کر رہے ہیں۔ ایسی شرانگیزی، ایسی بے رحمی، ایسی سفاکیت سے بھری دشمنی کا کسی بھی مسلم قوم اور کسی بھی اسلامی ملک کو سامنا نہیں رہا۔ آيت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ملت فلسطین جیسی ایک غیور قوم اتنے مظالم پر کیا رد عمل دکھا سکتی ہے؟ ظاہر ہے وہ طوفان برپا کر دے گی۔ قصور خود تم صیہونیوں کا ہے۔ تم نے خود اپنے اوپر یہ مصیبت نازل کی ہے۔
مغربی میڈیا باہم تعاون کرتے ہوئے غاصب صیہونی حکومت کو مظلوم ظاہر کرنے میں مصروف ہے لیکن مشرق و مغرب میں عوام مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کرتے ہوئے مظاہرے کر رہے ہیں اور استکباری و استعماری طاقتوں کو پہلے سے زیادہ بے نقاب کر رہے ہیں۔ صیہونی حکومت کو بچانے کے لئے عالمی سطح پر جاری سازشوں کے باوجود اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ داخلی اور بیرونی سطح پر یہ حکومت بے بس ہوکر رہ گئی ہے اور دونوں سطح پر رو بہ زوال ہے۔ گزشتہ چار سال میں شدید سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کی وجہ سے کوئی بھی صیہونی حکومت چند مہینے سے زیادہ نہیں ٹک پائی۔ دوسری طرف صیہونی آبادکار جو جھوٹے اور پرکشش وعدوں پر مقبوضہ فلسطین میں آ بسے ہیں اب خوفناک صورت حال میں مبتلا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غاصب حکومت کے دلدل سے نکل بھاگنے کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے دہشت گرد فوجی بھی بسا اوقات محاذوں سے فرار ہو رہے ہیں۔
لبنان، عراق، یمن اور شام میں اسلامی مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کے مد نظر مظلوم فلسطینی عوام کی فتح کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ مزاحتمی محاذ علاقے کی سطح پر کافی طاقتور ہو چکا ہے اور غیور و شجاع فلسطینی قوم کی مدد و حمایت کے لئے آمادہ ہے۔ حالانکہ دنیا کی استکباری طاقتیں ڈگمگاتی صیہونی حکومت کو بچانے کے لئے آپس میں بڑا تعاون کر رہی ہیں لیکن طے ہے کہ وہ مزید سنگین مشکلات میں گھر جائیں گی اس لئے کہ عدیم المثال ظلم پر غیور قوم اپنا فطری رد عمل ضرور دکھاتی ہے۔
ڈاکٹر عباس موسوی
نوٹ: مضمون میں پیش کردہ خیالات سے Khamenei.irکا متفق ہونا لازمی نہیں ہے۔