بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ رب العالمین والصّلواۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین

 خوش آمدید برادران  وخواہران اور  ملک و قوم کے فرزندان و دختران عزیز!

آج کی ملاقات اور جلسہ میرے لئے بہت شیریں اور بہت اچھا تھا۔ آپ لوگوں سے ملاقات اوربات چیت، دونوں ہی بہت اچھی رہی۔ ان نوجوانوں اور کمسن بچوں کے ذریعے ایران کی اکھاڑے کی روایتی پہلوانی ورزش کا اجرا بھی بہت پر کشش تھا۔ 

 میں اپنی گفتگو کا آغاز اسی اکھاڑے کی روایتی پہلوانی ورزش سے کرتا ہوں۔ میں نے چند برس قبل ملک کے شعبہ کھیل کود کے عہدیداروں سے سفارش کی تھی کہ ایران کی اس روایتی پہلوانی ورزش کو بین الاقوامی (2) ورزش بنائيں۔ یہ بہت اچھی اور خوبصورت ورزش ہے۔ یہ ہمارا اکھاڑا،یہ اکھاڑے کا مخصوص اسٹیج ( پہلوانی ورزش چلانے والے مرشد کے بیٹھنے کی مخصوص جگہ) اور یہ (اکھاڑے کے مخصوص دف کی) ضرب اور اس ورزش کی یہ خوبصورت حرکات، وہ اکھاڑے میں مخصوص انداز میں چکر لگانا، کسرت، اٹھنا بیٹھنا، مگدر بھانجنا اور گھمانا اور وہ اپنی جگہ پر گھومنا، وغیرہ ۔ آج ہمارے ان عزیز بچوں نے بہت اچھے انداز میں اس قدیمی پہلوانی ورزش کا اجرا کیا۔ اس میں کھیل کود سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بہت کشش ہے۔  خوش قسمتی سے ہم اس میں پیشرفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

 یہ ایران کے مخصوص اکھاڑے کی روایتی ورزش جو آج ان بچوں نے یہاں پیش کی، وہ اس سے بہت بہتر تھی جو ہم نے اپنی نوجوانی میں دیکھی تھی۔ ان بچوں کا مخصوص انداز میں گھومنا، مگدر گھمانا، اور اکھاڑے کے اندر مخصوص انداز میں بیٹھنا اور اٹھنا اور کسرت کرنا، اپنے پیروں پر گھومنا واقعی یہ سبھی حرکات بہت اچھی تھیں۔ ہم نے اس وقت یہاں جو دیکھا  اور دیکھ سکے، اپنی نوجوانی میں اتنی خوبصورتی سے اکھاڑے کی روایتی ایرانی ورزش نہیں دیکھی تھی۔ پتہ چلتا ہے کہ اس ميں ترقی ہوئی ہے۔ استعداد کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس استعداد سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی ضرورت ہے۔  میں اپنے ان نوجوانوں اور بچوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کا کام واقعی بہت اچھا تھا۔ ان کے کوچ کا بھی شکریہ ضروری ہے۔ اتنی اچھی پرفارمنس کی تیاری میں یقینا کافی محنت کی گئی ہوگی۔ 

  یہ برادران عزیز (بھی) ہم اس وقت انہیں "مرشد"  کہتے تھے۔ اب پتہ نہيں کیا کہتے ہیں؟ (3) ہاں، ان بھائیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہمارے لئے اکھاڑے کی روایتی ورزش کی مخصوص اصطلاحات کی یاد تازہ کر دی۔  واقعی بہت اچھی پرفارمنس اور بہت اچھا کام تھا۔ آج اکھاڑے کی روایتی ورزش کا جو پروگرام یہاں پیش کیا گیا، وہ مجموعی طور پر بہت اچھا تھا۔

لیکن آپ عزیز کھیلاڑیوں سے، قدیمی اور سینیئر کھلاڑیوں سے بھی اور نوجوان کھلاڑیوں سے بھی، دو تین باتیں مجھے عرض کرنی ہیں۔ 

پہلی بات جو شاید میری نظر میں اصلی بات ہے، شکریہ اور قدردانی ہے۔  درحقیقت میں شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

سب سے پہلے تو میں سبھی کھلاڑیوں  کا، کھیل کود کے شعبے میں زحمتیں، محنتیں اور سعی و کوشش  کرنے والے سبھی حضرات کا (شکریہ ادا کرتا ہوں) جو اس راہ میں سختیاں برداشت کرتے ہیں۔

 کھیل کود کے میدان میں اترنے کے لئے محکم ارادہ درکار ہوتا ہے، عزم راسخ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آپ نے ثابت کر دیا ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں نے الحمد للہ ( محکم ارادہ اور عزم راسخ) دکھا دیا۔ 

 میں اپنے اپنے شعبوں میں میڈل اور تمغہ جیتنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ میڈل محنت اور کوشش کا ثبوت ہے۔ سخت کوشی کا ثبوت ہے۔ میڈل ایک علامت ہے۔ یہ آپ کی محنت اور سخت کوشی کی علامت ہے۔ میں میڈل لانے والوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

خاتون کھلاڑیوں کا (شکریہ ادا  کرتا ہوں) اس خاتون کا جس نے مکمل حجاب میں ایشین گیمز میں ملک کا پرچم اٹھایا اور پوری دنیا کے سامنے ایرانی عورت کی شخصیت اور تشخص پیش کیا۔

میں اس خاتون کھلاڑی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو تقسیم میڈل کی تقریب میں نامحرم مرد سے ہاتھ ملانے پر تیار نہیں ہوئی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا لیکن اس خاتون نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا۔

 یہ بہت اہم ہے۔ ان ذیلی کاموں کی اہمیت خود کھیل سے کم نہیں ہے بلکہ شاید زیادہ ہی ہے۔ 

 میں اس کھلاڑی خاتون کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو اپنے شیرخوار کو گود لیکر میڈل لینے کے لئے اسٹیج پر گئی  اور میڈل لیا۔ یہ علامتی اقدام ایک عورت کی طرف سے گھرانے اور ماں کی منزلت کو اہمیت دینے کے معنی میں ہے۔

میں ان تمام کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی ان ذیلی اقدار سے اپنے کھیل کی قدر بڑھا دی۔ کامیابی کے بعد زمین پر سجدہ کیا، کھیل کے میدان میں دعا کے لئے ہاتھ اوپر اٹھایا، پرچم کو بوسہ دیا، پرچم کے اوپر سجدہ کیا۔ 

یہ بہت اہم کام ہیں، یہ وہ کام ہیں جو صرف کھلاڑی کے ہی ایرانی اور اسلامی تشخص کو اجاگر نہیں کرتے بلکہ ایرانی قوم کے تشخص کو بھی کروڑوں تماش بینوں کی نگاہوں کے سامنے پیش اور ثابت  کرتے ہیں۔ یہ معمولی کام نہیں ہیں۔

 یہ سجدہ اس سجدے سے بہت مختلف ہے جو انسان اپنے گھر کے اندر یا مسجد میں کرتا ہے۔ یہ حجاب کی چادر، اس چادر سے مختلف ہے جو خواتین اوڑھ کر تہران کی سڑکوں پر نکلتی ہیں۔  

 اس ٹیم کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو مظلوم کے دفاع کی علامت کے طور پر (فلسطینیوں کا) مخصوص مفلر گلے میں ڈال کر میدان میں آئی۔  میں ان تمام کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی شکل میں، فلسطین کی حمایت میں موقف اختیار کیا۔ اپنے موقف کو چھپایے نہیں رکھا بلکہ دنیا کے سامنے اس کا اعلان کیا، اپنا میڈل غزہ کے بچوں کے نام کیا۔ اپنا میڈل اس اسپتال کے شہداء کے نام کیا جو صیہونی حکومت کے جرائم کی آماجگاہ بن گيا تھا۔

میں ان کھلاڑیوں  کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے صیہونی حریف کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ آج معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے کتنا صحیح کام کیا ہے۔ ان کی حقانیت آج پہلے سے زیادہ آشکارا ہو گئی ہے۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

 یہ شکریہ صرف زبانی نہیں ہے۔ صرف ایک اچھے کام کے لئے ہی نہیں ہے، اچھا کام جو بھی کرے انسان کو اس کا شکریہ ادا کرنا ہی چاہئے، ( بلکہ ان کا شکریہ) اس لئے ہے کہ یہ چند نام جو میں نے لئے،  یہ منطق اور خود اعتمادی کی مالک  ممتاز اور نمایاں ہستیاں ہیں جو کروڑوں تماش بینوں کے سامنے ملت ایران، ایرانی قوم کے تشخص کو متعارف کراتی ہیں۔ یہ کام، یہ خوبصورت اقدام ایران کی ملی طاقت و  توانائی کا حصہ ہے۔

کھیلتے تو سبھی ہیں، ساری ہی اقوام کے پاس کھلاڑی ہوتے ہیں، کھیلنے والے ہوتے ہیں، ریسلر ہوتے ہیں، فٹبالسٹ ہوتے ہیں، والیبال کے کھلاڑی ہوتے ہیں، اپنے ملک کے لئے  قابل فخر کارنامے بھی انجام دیتے ہیں لیکن جو کام آپ نے کئے ہیں، وہ دنیا میں ممتاز ہیں جو کھیل کود کے کارناموں سے بالاتر ہیں۔ یہ انسانیت کے کارنامے ہیں۔ تو پھر آپ اپنے ان بڑے، خوبصورت اور اہم کارناموں کے لئے ہمارے شکریئے کے مستحق ہیں۔  

اس کے علاوہ آپ کی سعی و کوشش اور کامیابی قوم کے دل کو شاد کرتی ہے۔ جب آپ میڈل اور  رنگ برنگے تمغے حاصل کرتے ہیں تو یہاں پوری قوم  خوش ہوتی ہے اور سربلندی کا احساس کرتی ہے۔ یہ میرے  لئے بہت اہم ہے کہ آپ قوم کا دل خوش کریں اور انہیں سربلندی کا احساس عطا کریں۔ اس لحاظ سے میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بنابریں، سب سے پہلے تو میرا مقصد آپ عزیزوں کا شکریہ ادا کرنا تھا جس کو میں نے تفصیل سے عرض کیا۔ 

 دوسری بات میں حکام سے کہنا چاہتا ہوں۔ البتہ کھیل کود کے بین الاقوامی ذمہ داروں سے میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ان پر میرے اعتراضات بہت زیادہ ہیں۔ کسی دن ان اعتراضات کا منصفانہ طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

آج سامراجی اور استعماری استحصالی  طاقتیں تقریبا سبھی بین الاقوامی مراکز پر کنٹرول رکھتی ہیں اور منصفانہ  جائزے میں رکاوٹ ہیں۔ لیکن ایک دن ان شاء اللہ ان امورکے منصفانہ جائزے کی نوبت بھی آئے گی۔

کہتے ہیں "کھیل سیاسی نہیں ہے" لیکن جب خود ضرورت  محسوس کرتے ہیں تو کھیل کو سیاسی بنا دیتے ہیں اور بدترین شکل میں سیاسی رنگ دیتے ہیں۔ کوئی بہانہ بناکر کسی ملک کو کھیل کود کے سبھی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت سے محروم کر دیتے ہیں۔ کیوں؟ ( کہتے ہیں کہ ) تم نے فلاں جگہ جنگ کی ہے۔ لیکن وہی غزہ میں پانچ ہزار بچوں کے قتل عام کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہاں وہ کہتے ہیں کہ کھیل سیاسی نہیں ہونا چاہئے لیکن وہاں واضح طور پر سیاسی بنا دیتے ہیں۔ کوئی حرج نہیں! ایک ملک کو جنگ کے بہانے عالمی مقابلوں میں شرکت سے محروم کر دیتے ہیں اور دوسرے ملک اور حکومت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کی جںگ کو ہی نہیں بلکہ اس کے جنگی جرائم کو حتی اس کی نسل کشی کو بھی اور اس کو بین الاقوامی میدان میں آنے سے نہیں روکتے۔ اس طرح  کی باتیں ہیں۔ افسوس کہ کھیل کود کی دنیا میں یہ مشکلات و مسائل ہیں اور ان کا تعلق دنیا کے کھیل کود کے ذمہ داروں سے ہے۔ اب رشوت کو الگ کر دیں، بد عنوانی  کو الگ کر دیں، غلط اور غیر منصفانہ فیصلوں کو الگ رکھ دیں، کھیل کود کی دنیا کے مافیا کو الگ رکھ دیں، کسی دن ان کا بھی جائزہ لیا جائے۔ یہ عالمی ذمہ داروں سے تعلق رکھتا ہے۔

لیکن ہمارے اپنے ملک کے ذمہ دارحضرات مجھے ان سے بھی بہت کچھ کہنا ہے۔ بہت سی باتیں میں خود کھلاڑیوں کی موجودگی ميں ملک کے کھیل کود کے ذمہ داروں سے کہہ چکا ہوں۔ بعض باتیں ان کے ساتھ اور ان سے اوپر کے حکام کے ساتھ خصوصی میٹنگوں میں کہی ہیں۔ ان پر کام ہونا چاہئے۔ وہی لوگ جن کا وزیر محترم نے یہاں ذکر کیا ہے۔ ایک ایک بات کی تحقیق کی جائے۔ وہی باتیں جو ہمارے اس عزیز پہلوان نے یہاں کہیں۔ اس کا جائزہ لیا جائے۔

 میں کہتا ہوں کہ  طاقتور ایران کے پاس طاقتور کھیل بھی ہونا  چاہئے۔ (5) کھیل کود کی طاقت کس چیز میں ہے؟ صحیح تدابیر اور کوچ کے صحیح انتخاب میں۔ سبھی شعبوں میں قومی ٹیم کے صحیح تناسب میں، کھیل کود میں گراوٹ آںے کی روک تھام میں ہے۔ خیال رکھیں کہ ملک کا کھیل زوال پذیر نہ ہو۔ کھیل میں گراوٹ کیا ہے؟ یعنی اقتصادی بدعنوانی، یعنی کھیل کود میں مافیا کا وجود میں آ جانا، ہمارے پاکیزہ اور پاکدامن کھلاڑیوں کے لئے اخلاقی پستی۔ ان باتوں کا خیال رکھیں۔    

ملک کے کھیل کود کے ذمہ داروں کا ایک فریضہ یہ ہے کہ کھیل کود  کی پرانی مشکلات کو دور کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ پرانی  مشکلات کا مطلب کیا ہے؟ یعنی وہ  سوال جو بغیر جواب کے ہیں۔ کھیل کود میں حکومت کا کردار کتنا ہے؟  حکومت کھیل کود میں کھیل کی ٹیموں کے مسائل میں حکومت کتنی مداخلت کرتی ہے؟ کھیل کی نجکاری، کھیل کود کے معاہدوں اور غیر ملکی کوچ کے مسئلے میں۔

  یہ وہ سوال ہیں کہ جو در پیش ہیں اور ہر کچھ دن بعد ایک بار ایک جواب دیا جاتا ہے پھر کچھ دن بعد جواب بدل جاتا ہے۔ ان چیزوں کی پلانںگ ہونی چاہئے۔ کھیل کے پیشہ ورانہ اصولوں کی بنیاد پر منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ یہ ملک کے کھیل کود کی حقیقی ضرورتیں ہیں۔ یہ کھیل کود کے ذمہ داروں کا ایک اہم فریضہ ہے۔

کھیل کود کے ذمہ داروں کی ایک ذمہ داری کھلاڑیوں کے حالات زندگی پر توجہ دینا ہے جس کی طرف یہاں اشارہ بھی کیا گیا۔

وہ کام جو وزیر محترم نے کہے ہیں کہ گھر، روزگار وغیرہ کے سلسلے میں انجام پانے ہیں، بہت اچھے کام ہیں، اس شرط پر کہ کئے جائيں۔ اس شرط کے ساتھ کہ سنجیدگی سے ان کو آگے بڑھایا جائے۔  

یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم کھلاڑیوں سے عالمی میدانوں میں قابل فخر کارناموں کی توقع رکھیں لیکن ان  کی ضرورتوں کے تعلق سے مناسب رویہ نہ اپنائيں۔

ہمیں ایسا کرنا چاہئے کہ ہمارے کھلاڑی قابل قبول سطح پر اپنے حالات زندگی سے مطمئن ہوں۔ میری نظر میں بہترین راہ یہی روزگار کا مسئلہ ہے اور گھر وغیرہ  کے مسائل ہیں۔

حکام کا ایک فریضہ کھلاڑیوں کے تئيں پدرانہ طرزعمل ہے۔ میں ملک کے حکام سے اپیل کرتا ہوں کہ ہر شعبے کے کھلاڑیوں کے ساتھ مخلصانہ نشست و برخاست کی روش اپنائیں۔ البتہ کھیل کود کے بعض شعبوں کا ذکر زیادہ ہوتا ہے اور بعض کا کم ہوتا ہے۔  ان تمام شعبوں کے سبھی کھلاڑیوں سے ملیں، نشست و برخاست کریں، ان کے ساتھ بیٹھیں، ان کی باتیں سنیں، ان کے مسائل سنیں، ان کے مطالبات سنیں، ان کا جواب دیں۔ یہ ملک کے کھیل کود کے اعلی عہدیداروں سے میری درخواست ہے۔

 میں چند جملے عزیز کھلاڑیوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ ممتاز کھلاڑی، نوجوانوں کے لئے آئیڈیل ہوتا ہے۔ آپ کے کام، آپ کی رفتار وگفتار اور آپ کا طرز زندگی ہمارے عزیز نوجوان کے لئے مثالی اور نمونہ عمل ہوتا ہے۔ یہ بات آپ کی ذمہ داریاں بڑھا دیتی ہے۔ جب آپ آئیڈیل بن گئے تو ملک کے نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھائيں، ان کی قسمت بنائيں، انہیں کامیابی کی طرف لے جائيں، خدا نخواستہ اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔ بنابریں آپ کا طرز عمل بہت اہم ہے۔ ایک کھلاڑی کا عمل، ایک کھلاڑی کی بات،  چاہے وہ کھیل کے میدان میں ہو یا اس سے باہر، نوجوانوں پر بہت اثرانداز ہوتی ہے۔ اس سے آپ کی ذمہ داری سنگین تر ہو جاتی ہے۔ خداوند عالم آپ کی مقبولیت کے تناسب سے ہی آپ کو ذمہ داری بھی عطا فرماتا ہے۔ آپ کی مقبولیت ، آپ کی توانائی، اور آپ کی شہرت جتنی زیادہ ہوگی، آپ کی ذمہ داری  بھی اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ اسی مناسبت سے پروردگارکی طرف سے آپ کے کندھوں پر ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی۔ اس پر توجہ رکھيں۔ خواتین بھی اور حضرات بھی، جوان بھی اور بچے بھی، شہرت، توجہ کا  مرکز بننا، انسان کو بعض لغزشوں کے خطرے  سے بھی دوچار کر دیتا ہے جس پر بہت زیادہ توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور بات آپ کھلاڑیوں سے یہ عرض کرنی ہے کہ آپ خدا کا بہت زیادہ شکر ادا کریں۔ یہ جسمانی توانائی آپ کو خدا نے عطا فرمائی ہے۔ یہ عزم و ارادہ جو آپ کو کھیل کے میدان میں مقابلے میں آگے بڑھاتا ہے اور اگر یہ عزم و ارادہ نہ ہو تو کامیابی ممکن نہیں ہے، صرف جسمانی طاقت ہی کافی نہیں ہے، جسمانی طاقت بھی اور عزم و ارادہ بھی خداوند عالم نے آپ کو عطا کیا ہے۔ خدا کا شکر ادا کریں۔ اس کے شکر گزار رہیں۔ یہ خدائی نعمتیں ہیں۔ ہر نعمت پر شکر ضروری ہے۔ شکر کریں گے تو نعمت میں اضافہ ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

یہ آپ سے ہمارے معروضات ہیں۔ میں سبھی نوجوانوں کے لئے، سبھی کھلاڑیوں کے لئے بالخصوص آپ کے لئے ان شاء اللہ خصوصیت کے ساتھ دعا کروں گا اور ہمیشہ دعا کرتا ہوں۔   

چند باتیں مسئلہ فلسطین کے بارے میں عرض کروں گا۔ اگر میں آپ کھلاڑیوں کے سامنے ان حالیہ واقعات کا نتیجہ اور نچوڑ بیان کرنا چاہوں تو وہ مختصر جملہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت آپریشن طوفان الاقصی میں ناک آؤٹ ہو گئی۔ یعنی حماس نے ایک مجاہد گروہ کی حیثیت سے، بہت زیادہ وسائل کے مالک کسی ملک یا حکومت کے عنوان سے نہیں، ایک گروہ ، جدوجہد کرنے والے ایک گروہ کی حیثیت سے، سرتا پا مسلح  صیہونیوں کی غاصب حکومت کو ناک آؤٹ کردیا۔  

آج تک وہ اس ذلت اور اس شکست کے دباؤ سے نہیں نکل سکے ہیں جس سے دوچار ہوئے ہیں۔ ہاں طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن کہاں؟ غزہ کے اسپتالوں میں، مریضوں پر، غزہ کے اسکولوں میں، غزہ کے نہتے عوام پر!

طاقت کے اس مظاہرے کی کوئی اہمیت  نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کھلاڑی میدان میں شکست کھانے کے بعد اپنی شکست کی تلافی کے لئے، حریف ٹیم کے طرفداروں پر حملہ کرے، انہیں گالیاں دے اور زدوکوب کرے!

 حق اور انصاف یہ ہے کہ صیہونیوں نے جو کام کیا ہے، اس سے زیادہ ذلت آمیز کام کوئی نہیں ہو سکتا۔

 صیہونیوں کی اس سنگین شکست کی ان بمباریوں سے تلافی نہیں ہوگی۔ اس طرح کی بمباری اس غاصب حکومت کی عمر کوتاہ تر کرے گی۔ یہ ظلم اور بے رحمی بغیر جواب کے نہیں رہے گی۔ اس کو جاں لیں۔  

آج سب نے سمجھ لیا ہے کہ ایرانی کھلاڑی کھیل کے میدان میں صیہونی حریف سے مقابلے کے لئے کیوں نہیں تیار ہوتے۔ یہ بات آج دنیا نے سمجھ لی ہے۔ اس لئے کہ وہ مجرم ہے کیونکہ وہ جرائم پیشہ حکومت کے لئے کھیلتا ہے اور میدان میں آتا ہے۔ اس کی مدد کرنا جرائم پیشہ اور دہشت گرد حکومت کی مدد کرنا ہے۔

 بہرحال میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک ایک کھلاڑی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان عزیز نوجوان اور کمسن کھلاڑیوں کا جنہوں نے یہاں ورزش کی اور درحقیقت اس مصنوعی اکھاڑے میں بہت ہی خوبصورت اندازمیں ورزش کی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان نوجوانوں کا جنہوں نے یہاں بہتر پرفارمنس پیش کی، شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں آپ سب کا متشکر ہوں۔ ان شاء اللہ کامیاب و کامران رہیں۔

 والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

1۔ اس موقع پر کھیل کود اور نوجوانوں کے امور کے وزیر جناب کیومرث ہاشمی نے رپورٹ پیش کی اور خواتین کی سٹنگ والیبال ٹیم کی کیپٹن محترمہ معصومہ زارعی اور ایران کی فاتح ریسلنگ ٹیم کے رکن جناب امیر حسین زراع نے مختصر گفتگو کی ۔

2۔ 31-12-1996 کو اسپورٹس فیڈریشن اور باڈی بلڈنگ آرگنائزیشن  کےعہدیداروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو۔

3۔  حاضرین کا ردعمل

4۔ غزہ کا المعمدانی اسپتال

5۔   منجملہ 21-3-2021 کا نوروز کا خطاب