سوال: آپ کی نظر میں جنگ غزہ کے ابتدائي 100 دنوں میں صیہونی حکومت کی ناکامی کی سب سے اہم وجہ کیا ہے:
جواب: صیہونی حکومت نے پچھلے 100 دنوں میں غزہ کے عوام پر شدید دباؤ ڈالا ہے۔ اس نے نہ صرف مزاحمت کے لیے بلکہ غزہ کے عوام کے لیے بھی پانی اور بجلی کی سپلائي بند کر دی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے غزہ کے لوگوں کے لیے بنیادی ضروریات کی تکمیل کے تمام ڈھانچوں پر جن میں بجلی گھر، پانی اور ایندھن کے انفراسٹرکچر یہاں تک کہ اسپتالوں پر بھی حملے کیے ہیں اور اس طرح حماس پر شدید دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ استقامت کیوں شروع ہوئي؟ میں بعض باتوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ جیسے یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت نے سیاسیی لحاظ سے بھی، سفارتی لحاظ سے بھی اور میڈیا کی سطح پر بھی پہلے دن سے لے کر اب تک مزاحمتی محاذ کی کارروائي کی حمایت کی ہے اور اب بھی کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت نے اپنی توانائي کا ایک حصہ، اس دباؤ کو کنٹرول کرنے پر صرف کیا ہے جو اس پر مزاحمتی محاذ کی جانب سے پڑ رہا ہے۔
مزاحمتی محاذ نے جو کارروائياں کی ہیں، ان کے بارے میں ہم تفصیل سے بات کر سکتے ہیں لیکن میں صرف اس کے آخری اقدام کے بارے میں بات کروں گا جس نے جنگ میں صیہونی حکومت کے تمام اندازوں کو پوری طرح بدل دیا اور وہ یمنی انصار اللہ کی کارروائي ہے جس نے پہلے مرحلے میں میزائیل اور ڈرون سے ایلات اور صیہونی حکومت کے جنوبی علاقوں پر حملہ کیا اور پھر صیہونی حکومت کے سمندری جہازوں اور ان تمام جہازوں کو باب المندب کے راستے صیہونی حکومت کی طرف جانا چاہتے ہیں، اپنے حملوں کا نشانہ بنایا اور اس طرح اس علاقے کو صیہونی حکومت کے لیے پوری طرح غیر محفوظ بنا دیا۔ اس چیز نے صیہونی حکومت کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ یمن کی اس کارروائي کا کس طرح مقابلہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جنگ کے میدان کو لبنان، شام اور ایران تک بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنی کارروائيوں سے اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ اس جنگ پر مزاحمتی محاذ اور اس کے اثر کو ختم کر دے لیکن وہ اب تک اس میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
حماس کی کامیابی کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ عوام پر جو شدید دباؤ ہے، ان کا گھر بار تباہ ہو گیا ہے، اس وقت وہ شدید محاصرے میں ہیں، انھیں موسم سرما میں متعدد امراض کا سامنا ہے، ان کے اہل خانہ میں سے بہت سے لوگ شہید یا زخمی ہو گئے ہیں، ان سب کے باوجود عوام کی طرف سے جدوجہد جاری رہنے کی کسی بھی طرح کی مخالف نہیں ہو رہی ہے یا کم سے کم اس وقت تو بالکل بھی نہیں کی جا رہی ہے، یہ چیز حماس کے لیے ایک مثبت نتیجہ ہے اور یہ اس کی کامیابی کی ایک بڑی اہم دلیل ہے۔
تیسری بات، حماس کو عالمی سطح پر ملنے والی حمایت ہے۔ رہائشی علاقوں پر صیہونی حکومت کی بمباری کے ناقابل جواز اقدام کی وجہ سے مزاحمتی محاذ برتر پوزیشن میں ہے اور عالمی رائے عامہ صیہونی حکومت کے خلاف ہے۔ یہ چیز اس حکومت کو مزید جرائم کے ارتکاب سے کسی نہ کسی حد تک روکتی ہے۔ یہ چیز بالواسطہ طور پر امریکا سمیت مغربی حکومتوں پر بھی دباؤ ڈالتی ہے اور فطری بات ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ جنگ کو روک دے یا اسے مزید نہ بڑھائے یا پھر پوری طرح سے جنگ بندی کو تسلیم کر لے۔
حماس کی کامیابی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ جنگ کے علاقے کی کھلی زمین پر حماس کو پوری طرح عبور حاصل ہے۔ اس نے سنہ 2005 سے، جب سے اس نے اس علاقے کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا ہے، خود کو اس طرح کے دنوں کے لیے تیار کر لیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ اس علاقے اور وہاں کے ماحول سے پوری طرح واقف ہے اور یہ ایک اسٹریٹیجک برتری ہے جس نے حماس کو اس جنگ میں کامیابی دلائي ہے۔ فطری بات ہے کہ حماس نے ان تمام کارروائيوں کا، جو صیہونی حکومت ممکنہ طور پر کر سکتی تھی، اندازہ لگا لیا تھا اور ضروری اقدامات کر لیے تھے۔ ایک دوسری بات یہ ہے کہ اس نے شروع سے ہی اس جنگ کو غیر مساوی یا غیر متناسب جنگ بتایا ہے، یعنی حماس کا انداز پوری طرح سے گوریلا طریقۂ جنگ کا ہے اور صیہونی فوج، اس کے ذریعے کیے گئے وسیع حملوں کے پیش نظر فضائي حملوں کے ذریعے برتری حاصل نہیں کر سکتی۔
حماس کی کامیابی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس نے اس غیر مساوی اور غیر متناسب جنگ میں اپنی ضرورت کے ہتھیاروں کا بھی اندازہ لگا لیا تھا اور انھیں مقامی سطح پر تیار کر لیا تھا۔ اگرچہ مزاحمتی محاذ نے فوجی وسائل کے لحاظ سے غزہ کی مزاحمت کی کچھ مدد کی ہے لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ غزہ کی مزاحمت کے پاس جو ہتھیار اور فوجی وسائل اس وقت ہیں، انھیں مقامی بنا لیا گيا ہے اور وہ اسرائيلی ہتھیاروں کے لحاظ سے تیار کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر مرکاوا ٹینک کو اڑانے کے لیے یاسین 105 کو تیار کیا گيا، جس نے صیہونی حکومت کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے۔ میزائيلوں کو بھی مقامی بنا دیا گيا ہے، ان کی تیاری میں بھی، ان کے طریقۂ استعمال میں بھی اور ان کی رینج میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ اس جنگ کو سو دن گزر جانے کے بعد بھی غزہ کی مزاحمتی فورسز کے میزائیل، تل ابیب تک پر فائر کیے جانے کے لیے تیار ہیں اور یہ عسکری میدان میں ایک برتری ہے۔
ایک دوسرا اہم عنصر، زیر زمین سرنگوں کا معاملہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حماس نے غزہ پٹی میں پانچ سو کلو میٹر کی سرنگیں بنائي ہیں۔ سرنگوں نے غیر مساوی اور غیر متناسب جنگ میں اپنے ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان، اپنے لڑاکوں، اپنے کمانڈ سینٹرز یہاں تک کہ جنگ میں قید کیے گئے افراد کی حفاظت میں حماس کی بہت مدد کی ہے اور یہ حماس کے لیے ایک بڑا ہی کامیاب تجربہ رہا ہے جبکہ صیہونی حکومت بے تحاشا قیمت ادا کر کے بھی حماس کی اس برتری کو ختم نہیں کر سکی ہے۔
فوجی میدان میں غزہ کی مزاحمت کی سب سے اہم وجہ، اس کی افرادی قوت ہے۔ حماس کے پاس جتنے بھی افراد ہیں، اس نے اس جنگ میں دکھا دیا ہے کہ یہ افراد کارآمد اور ماہر بھی ہیں اور ان میں جذبہ بھی پایا جاتا ہے جبکہ صیہونی فوجی ان دو خصوصیات سے پوری طرح بے بہرہ ہیں۔ ممکن ہے کہ کلاسیکل فوج کے لحاظ سے ان میں کچھ توانائياں ہوں لیکن وہ غزہ کی پوزیشن اور زمینی حالات سے پوری طرح آشنا نہیں ہیں، مطلب یہ کہ اس میدان میں ان کی مہارت مزاحمتی فورسز جتنی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ان میں ضروری جذبہ بھی نہیں ہے۔ ہم نے صیہونی فوج میں ناراضگي، خوف، جنگ سے فرار ہونے اور احکامات کی عدم تعمیل کے مناظر دیکھے ہیں۔
اس دوران ایک اور چیز نے حماس کی مدد کی ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکا کئي وجوہات کی بنا پر اس جنگ کے جاری رہنے اور پھیلنے کا خواہاں نہیں ہے۔ ایک وجہ تو امریکا میں قریب آ رہا صدارتی الیکشن ہے اور دوسری وجہ چین کے ساتھ مقابلہ آرائي میں امریکا کی مصروفیت ہے، ایک اور وجہ یوکرین کی جنگ ہے اور چوتھی اور ایک بڑی وجہ جنگ کی وجہ سے امریکا پر مسلط ہونے والے اخراجات ہیں۔ اسی وجہ سے امریکا کسی بھی طرح جنگ جاری رہنے اور اس کے پھیلنے کا خواہاں نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی جانب سے اسرائيل کی حمایت، ہمہ گیر ہے لیکن اسی کے ساتھ اس کے کچھ تحفظات بھی ہیں جن کی وجہ سے جنگ رکوانے اور مکمل فائر بندی کا حماس کا موقف ایسا موقف ہے جسے حامی ملے ہیں اور مزید حامی مل سکتے ہیں۔ یہ صورتحال ایسے عالم میں ہے کہ جب امریکیوں تک نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ حماس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ ایک اہم فریق کے طور پر سامنے آيا ہے اور وہ اس کی بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کر رہے ہیں کہ حماس کو مزاحمت و استقامت کے مرحلے سے نکال کر سیاسی و سفارتی مرحلے میں لے جائيں اور یہیں پر مزاحمتی فورسز کو چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں وہ اس حربے کے جھانسے میں نہ آ جائيں۔
وہ چیز جو ان سب سے اہم ہے، وہ قدس شریف کی آزادی کا یقین ہے، فلسطین کی آزادی کا یقین، صیہونی حکومت کے شکست کھانے کا یقین ہے اور اللہ کی مدد و نصرت پر ایمان ہے جو اس بات کا باعث بنا ہے کہ ان سو دنوں میں حماس کو اس طرح کی کامیابی حاصل ہو۔ اگر یہ تمام مثبت باتیں نہ بھی ہوں اور صرف یہ ایمان اور یقین پایا جاتا ہو تو ہتھیار کے بغیر بھی، فوجی برتری کے بغیر بھی، غزہ بلکہ پورے فلسطین میں مزاحمت کو کامیابی قابل حصول ہوگي۔ حماس اور مزاحمتی فورسز کو بدستور اپنے ایمان میں، اپنی استقامت میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے کہ ان شاء اللہ ان کا یہ اقدام نتیجہ خیز ثابت ہو۔