رہبر انقلاب نے اپنے پیغام میں کہا ہے: "بزرگ اور خدمتگزار عالم دین حجت الاسلام و المسلمین جناب الحاج شیخ محسن علی نجفی طاب ثراہ کے انتقال کی خبر سے دکھ اور افسوس ہوا۔

میں اس محترم عالم دین کے انتقال پر پاکستان کے علمائے دین، حوزہ ہائے علمیہ، مرحوم کے اہل خانہ اور ان کے چاہنے والوں خاص طور پر بلتستان کے محترم شیعوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور خداوند شکور سے اس آزاد منش عالم دین کے لیے مغفرت اور درجات کی بلندی نیز تمام محترم پسماندگان کے لیے صبر و اجر کی دعا کرتا ہوں۔"

picture0.png

 

مرحوم شیخ محسن علی نجفی سنہ 1943 میں پاکستان کے اسکردو بلتستان سے 60 کلو میٹر فاصلے پر واقع کرمنگ ضلع کے منٹھوکا گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حسین جان، اس علاقے کے علماء میں سے ایک تھے۔ جناب محسن علی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ 14 سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد انھوں نے اپنے خطے کے ایک دوسرے عالم دین سید احمد موسوی سے سلسلۂ تعلیم جاری رکھا۔ سنہ 1963 میں محسن علی نجفی نے صوبۂ سندھ کے مدرسۂ مشارع العلوم میں داخلہ لیا اور تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ ایک ہی سال میں انھوں نے مدرسے میں پڑھائے جانے والے علوم کے ساتھ ہی اردو زبان بھی سیکھ لی۔ اس کے بعد انھوں نے پنجاب کا سفر کیا اور شہر خوشاب میں دارالعلوم جعفریہ میں مولانا محمد حسین کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ اس کے بعد وہ مزید اعلی تعلیم کے لیے لاہور کے مدرسۂ جامعۃ المنتظر پہنچے اور وہاں انھوں نے حسین بخش جاڑا اور صفدر حسین نجفی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ سنہ 1967 میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے وہ نجف اشرف پہنچے جہاں انھوں نے اس وقت کے مشہور علمائے دین، آیت اللہ خوئی اور شہید باقر الصدر سمیت دیگر اساتذہ کے دروس میں شرکت کی۔

محسن علی نجفی سنہ 1974 میں پاکستان واپس لوٹے اور اپنی عمر مبارک کے آخری حصے تک فقہ، اصول، تفسیر قرآن، فلسفہ، کلام اور اخلاق کی تدریس میں مصروف رہے۔

وہ پاکستان میں آیت اللہ سیستانی کے وکیل اور مجمع اہلبیت علیہم السلام کی اعلی کونسل کے سربراہ تھے۔

شیخ محسن علی نجفی مرحوم نے مختلف اسلامی علوم کے سلسلے میں اردو اور عربی زبانوں میں متعدد کتابیں تحریر کی ہیں جن میں دس جلدوں پر مشتمل اردو میں بہت آسان زبان میں قرآن مجید کی تفسیر، الکوثر فی تفسیر القرآن، قرآن مجید کے اردو ترجمہ اور حاشیے پر مشتمل کتاب بلاغ القرآن، النہج السوی فی معنی المولی والولی (عربی زبان میں) دراسات الایدالوجیہ المقارنہ (عربی زبان میں) محنت کا اسلامی تصور اور فلسفۂ نماز جیسی کتابیں بہت نمایاں اور معروف ہیں۔

untitled-02.png

 

مرحوم علامہ شیخ نجفی اپنے علمی کاموں کے علاوہ برصغیر کے پائے کے فقہاء میں سے ایک تھے، پاکستان میں وحدت اسلامی کے منادی تھے اور ثقافتی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں ان کی نمایاں کارکردگی رہی ہے۔

ان کے اہم ثقافتی کاموں میں سے ایک مدارس اہل البیت کی بنیاد رکھنا ہے جو پورے پاکستان میں 27 دینی مدارس کی ایک زنجیر ہے جو مرحوم کی زیر نگرانی کام کر رہی تھی۔ ان میں سے 18 مدرسے طلباء کے اور 9 طالبات کے ہیں۔ ان میں سب سے اہم جامعۂ اہلبیت اور جامعۃ الکوثر ہیں جو پاکستان کے دارالحکومت میں واقع ہیں۔ جامعۃ الکوثر میں فقہ اور اصول کی کتابیں لمعتین، رسائل، مکاسب، کفایہ پڑھائی جاتی ہیں جس کے بعد طالبات درس خارج میں بھی شرکت کر سکتی ہیں۔ اس مدرسے میں دینی تعلیم کے علاوہ دنیوی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ شیخ محسن نجفی نے اس کے علاوہ اسوہ ایجوکیشن سسٹم کی بھی بنیاد رکھی جو جابر ابن حیان فاؤنڈیشن کی ایک شاخ ہے اور مرحوم شیخ نجفی کی زیرنگرانی کام کر رہا تھا اور سنہ 1994 سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں محو کار ہے۔ اس سسٹم میں 12 انٹر میڈیٹ کالج، 4 ٹیکنیکل کالج، 2 پیرا میڈیکل کالج، 1 IGSC کالج اور پرائمری سے لے کر سکینڈری تک کے 58 اسکول شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم اسلام آباد کا اسوہ کالج ہے جبکہ اسکردو کا بنت الہدی کالج اور حفظ قرآن کا مدرسہ نیز اسلام آباد کا کوثر گرلز کالج بھی کافی نمایاں ہیں۔

untitled-03.png

 

شیخ محسن علی نجفی مرحوم کی گرانقدر علمی خدمات کے ساتھ ہی سماجی و فلاحی خدمات بھی بڑی نمایاں رہی ہیں جن میں مساجد اور امام بارگاہوں کی تعمیر، یتیموں اور غریبوں کے لیے رہائشی پروجیکٹس، زلزلے اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے حسینی فاؤنڈیشن، ضرورت مند افراد کے لیے شادی میں مدد، محروم اور دور افتادہ علاقوں میں صحت عامہ اور آب رسانی کے پروجیکٹس، ان کی ان خدا پسندانہ سرگرمیوں کا ایک حصہ ہیں۔

 

picture6.png

اس بزرگ عالم دین کی وفات پر پاکستان کے معروف عالم دین حجت الاسلام والمسلمین امین شہیدی نے KHAMENEI.IR ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے مرحوم شیخ محسن علی نجفی کی خصوصیات، علمی شخصیت اور سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

picture7.png

 

حجت الاسلام والمسلمین امین شہیدی، مرحوم شیخ محسن نجفی کی شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں: "جناب شیخ محسن علی نجفی پاکستان کے سب سے معروف علمائے دین میں سے ایک تھے اور سبھی علماء، دانشور اور آزاد منش افراد ان کی علمی و ثقافتی خدمات کے معترف ہیں۔ وہ بڑی جامع شخصیت کے مالک تھے اور علم، افکار و نظریات، روحانیت اور سماجی مسائل کے سلسلے میں ان کا ادراک بہت عمیق تھا اور ان کے وجود میں ہمیں گوناگوں خصوصیات نظر آتی ہیں۔ وہ اہل تحریر بھی تھے اور اہل تقریر بھی تھے۔ مرحوم بہترین محقق بھی تھے اور ایک ماہر استاد بھی تھے۔ انھیں فلسفے سے بڑا گہرا لگاؤ تھا لیکن اسی کے ساتھ وہ فقہ میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ اسی طرح انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی ہے جو بہت گرانقدر ہے۔"

علامہ امین شہیدی، پاکستان میں مرحوم شیخ نجفی کی سرگرمیوں کی شروعات کے بارے میں یوں بتاتے ہیں: "شیخ محسن نجفی نے نجف اشرف سے واپسی کے بعد اسلام آباد میں مدرسۂ اہل البیت کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا جو تدریس اور طلباء کی علمی، فکری اور معنوی تربیت کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ انھوں نے اس مدرسے کو اپنی تبلیغ کا مرکز قرار دیا اور اسلام کے اطراف کے شہروں میں علم اور دین کی ترویج و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ انھوں نے اسی طرح بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا جن کا عوام اور علماء نے زبردست خیر مقدم کیا۔ شیخ نجفی نے اردو میں متعدد کتابیں لکھیں اور اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں عربی زبان میں بھی ایک اہم کتاب لکھی۔ اس وقت ان کے شاگر پاکستان، نجف اور قم میں حصول علوم دین اور دینی علوم کی تدریس میں مصروف ہیں۔ شیخ نجفی نے نجف اشرف سے واپسی کے بعد تدریس کا کام شروع کیا جو ان کی عمر بھر اور وفات تک جاری رہا۔ شیخ محسن علی نجفی اہلبیت علیہم السلام خاص طور پر امیر المومنین علیہ السلام اور صدیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہا سے والہانہ عشق کرتے تھے۔"

حجت الاسلام و المسلمین امین شہیدی مرحوم نجفی کی سماجی اور رفاہی سرگرمیوں کو بہت مؤثر بتاتے ہوئے کہتے ہیں: "مرحوم جس میدان میں بھی اترے، اس میں انھوں نے اہم اور مؤثر کردار ادا کیا۔ مرحوم نجفی پہلے شخص تھے جنھوں نے پاکستان میں جگہ جگہ شیعہ مدارس قائم کیے۔ اس وقت اسوہ ایجوکیشن سسٹم کے نام سے ان کے مدارس سرگرم عمل ہیں اور ایک زنجیر کی طرح پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شیخ نجفی دینی مدارس کے قیام میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے اور اس وقت پاکستان کے مختلف علاقوں میں ان کی کوششوں سے دسیوں مدرسے قائم ہیں۔ انھوں نے نجف اشرف میں بھی ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔ شیخ محسن نجفی مرحوم نے مساجد اور امام بارگاہوں کی تعمیر کے لیے بہت زیادہ کام کیا اور سیکڑوں مسجدیں اور مدرسے خاص طور سے پاکستان کے محروم اور دور افتادہ علاقوں میں ان کی کاوشوں سے قائم ہوئے۔ انھوں نے اسی طرح سنہ 2008 میں آنے والے بھیانک زلزلے سے تباہ ہو جانے والے علاقوں میں خدماتی اور رفاہی کاموں کے علاوہ مساجد اور امام بارگاہوں کی تعمیر کا کام بھی کیا۔"

جناب امین شہیدی مرحوم شیخ نجفی کی نمایاں ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں: "شیخ محسن علی نجفی مرحوم نے ہادی ٹی وی کے نام سے ایک دینی و تربیتی ٹی وی چینل بھی شروع کیا تھا۔ اسی طرح کئی کالج اور ٹیکنکل کالج بھی تعمیر کیے۔ اس وقت ان کے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کی تعداد 20000 سے زیادہ ہے۔ تقریبا اتنے ہی طلباء و طالبات ان کے اسکولوں اور کالجوں سے تعلیم مکمل کر کے سماج کی خدمت کر رہے ہیں۔"

پاکستان کے یہ معروف عالم دین مرحوم شیخ محسن نجفی کی سیاسی سرگرمیوں اور روابط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "جناب شیخ نجفی مرحوم شروع سے ہی صدام کے سخت خلاف تھے اور چونکہ انھوں نے آیت اللہ شہید باقر الصدر اور آیت اللہ خوئی سے تعلیم حاصل کی تھی، اس لیے ان دو شخصیات سے شدید علاقہ رکھتے تھے۔ جب وہ نجف سے پاکستان واپس آئے تو اپنے ساتھ آیت اللہ خوئی کا وکالت نامہ بھی لائے۔ آیت اللہ خوئی کی وفات کے بعد آیت اللہ سیستانی نے بھی انھیں پاکستان میں اپنا وکیل منصوب کیا۔ شیخ نجفی مرحوم نے دینی مدارس کی تقویت، دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت اور اسی طرح ایک ٹھوس نصابی پروگرام کی تیاری کے لیے بہت زیادہ کوششیں کیں۔ مرحوم نجفی، امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے بھی خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ اسلامی انقلاب کے بعد جب صدام نے ایران پر حملہ کیا تو انھوں نے ہمیشہ ایران، انقلاب اور ایرانی قوم کی استقامت کی حمایت کی اور میں خود ان کی کوششوں کا قریب سے عینی شاہد ہوں۔ انھوں نے امام خمینی کی تحریک کے سلسلے میں بھی پاکستان میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ مرحوم ہمیشہ اسلامی انقلاب، امام خمینی اور رہبر انقلاب اسلامی کی حمایت میں پیش قدم رہتے تھے اور انھوں نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے پیغام کی ترویج کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔"