بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب الْقُلوبِ و الابصار، یا مدبّر الّیلِ و النّھار،
یا مُحوّل الْحَولِ و الاحوال، حَوّلْ حالَنا إلی أحسَنِ الْحال
اے دلوں اور نگاہوں کو پلٹنے والے، اے رات اور دن کا نظام چلانے والے، اے سال اور احوال کو تبدیل کرنے والے! ہماری حالت کو سب سے اچھی حالت میں تبدیل کر دے۔)
عزیز ایرانی قوم کی خدمت میں عید نوروز اور نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو اس سال رمضان المبارک، دلوں کی بہار اور معنویت کی بہار کے ساتھ آيا ہے۔ میں خاص طور پر وطن کے لیے قربانیاں پیش کرنے والوں کے اہل خانہ اور نوروز منانے والی تمام اقوام کی خدمت میں بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
اس موقع پر میں عزیز شہداء اور شہیدوں کے امام کو یاد کرنا چاہوں گا جنھوں نے ایرانی قوم کے سامنے یہ راستہ کھولا۔ میری دعا ہے کہ ایرانی قوم ان دونوں بہاروں، فطرت کی بہار اور معنویت کی بہار، دونوں سے بہرہ مند ہو۔
اس لمحے ختم ہونے والے سال 1402 (ہجری شمسی) پر ایک نظر ڈالیں اور اسی طرح جس سال میں ہم داخل ہوئے ہیں اس پر بھی ایک نگاہ دوڑائیں۔ سنہ 1402 زندگي کے دوسرے تمام برسوں کی طرح، شیرینیوں، تلخیوں، مطلوبہ اور غیر مطلوبہ باتوں سے بھرا رہا۔ یہی دنیا اور زندگي کا مزاج ہے۔ ملک کے داخلی مسائل میں دیکھا جائے تو سائنس، ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچرل کاموں میں پورے ملک میں زبردست پیشرفت ہوئي اور یہ چیز شیریں باتوں اور اچھی خبروں میں شامل تھی۔ دوسری جانب عوام کے معاشی اور اقتصادی مسائل، تلخ خبروں کا حصہ رہے۔ یوم قدس اور 22 بہمن (11 فروری) کی ریلیوں میں عوام کی زبردست شرکت، ان عظیم مظاہروں کا پرامن انعقاد، سال کے آخر میں انتخابات کا پرامن اور شفاف انعقاد اور دوسرے واقعات میں عوام کی زبردست موجودگي، گزشتہ سال کی اچھی خبروں اور مطلوبہ شیریں باتوں میں شامل رہی۔ شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر کرمان کا تلخ واقعہ، سال کے اواخر میں بلوچستان کا سیلاب، ان مہینوں کے دوران سیکورٹی اہلکاروں اور سیکورٹی کے محافظوں کے لیے پیش آنے والے واقعات، تلخ واقعات میں شامل تھے اور سب سے تلخ غزہ کا واقعہ تھا جو ہمارے بین الاقوامی مسائل میں سے ایک ہے۔ اس سال ہمارے سامنے اس سے زیادہ تلخ کوئي واقعہ نہیں رہا۔ غیر ملکی مسائل کی بات کی جائے تو مختلف معاشی اور سیاسی میدانوں میں حکومت کی بین الاقوامی سرگرمیاں، شیریں خبروں اور مطلوبہ واقعات کا حصہ رہیں اور غزہ کا واقعہ، جس کے بارے میں ہم نے عرض کیا، تلخ ترین واقعات میں بلکہ ہمارے غیر ملکی مسائل میں سب سے تلخ واقعہ تھا۔ خداوند عالم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تلخیوں کی تلافی کرے اور ایرانی قوم اور مسلم اقوام کے لیے حلاوتوں کو جاری رکھے اور جو کچھ امت اسلامی کے لیے خیر و برکت اور ایرانی قوم کے لیے خیر و برکت کا موجب ہے، انھیں عطا کرے۔
سنہ 1402 کے نعرے کے تعلق سے، جو افراط زر پر کنٹرول اور پیداوار کے فروغ سے عبارت تھا، اچھے کام انجام پائے ہیں۔ نعرے کے دونوں حصوں کے سلسلے میں کام ہوئے ہیں، کچھ پیشرفت بھی ہوئي البتہ اتنی نہیں جتنی متوقع اور مطلوبہ تھی، ان شاء اللہ آج کی تقریر میں ان کی تفصیلات ملت ایران کے سامنے پیش کروں گا۔ جو بھی کام ہوا، اچھا ہوا لیکن اسے جاری رہنا چاہیے اور یہ نعرہ، ایسا نعرہ نہیں ہے کہ ہم توقع رکھیں کہ ایک ہی سال میں اس پر مطلوبہ طریقے سے کام ہو سکے گا۔ یہ نعرہ بدستور جاری رہے گا۔ جو سال ہمارے سامنے ہے اور جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں، اس میں بہت سارے کام ہیں جو انجام پانے چاہیے اور ہمیں خود کو ان کا پابند سمجھنا چاہیے، ملک کے عہدیداروں کو بھی، حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، دیگر اداروں اور عوام کو بھی۔ ہم سبھی کو مختلف میدانوں میں ان کاموں کے سلسلے میں خود کو پابند سمجھنا چاہیے تاہم اس سال ملک کا سب سے اہم مسئلہ، معیشت ہے۔ ملک کا بنیادی کمزور پہلو، معیشت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں ان میدانوں میں تندہی سے کام کرنا چاہیے۔ اس مسئلے کے ماہرین کی آراء کا مطالعہ کرکے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ملک کے معاشی مسائل کے حل کے لیے اصل کنجی، پیداوار، ملکی پیداوار اور قومی پیداوار کا موضوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ برسوں سے ہم پیداوار پر تاکید کر رہے ہیں۔ اگر پیداوار میں فروغ اور قومی پیداوار میں آگے کی جانب بڑھنے کا معاملہ مطلوبہ طریقے سے انجام پائے تو افراط زر، روزگار اور قومی کرنسی کی قدر جیسے بہت سے اہم معاشی مسائل، احسن طریقے سے حل کی جانب بڑھنے لگیں گے۔ بنابریں پیداوار کا مسئلہ، اہم مسئلہ ہے اور اسی وجہ سے اس سال بھی میں پیداوار کے مسئلے پر تاکید کر رہا ہوں اور مجھے توقع ہے، امید ہے کہ ان شاء اللہ اس سال پیداوار کے کام میں کوئي جست دیکھنے میں آئے گي اور میں اس بات پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ یہ جست، عوام کی مشارکت اور عوام کی موجودگي کے بغیر ممکن نہیں ہوگي۔ اگر ہم پیداوار میں لمبی چھلانگ لگانا چاہتے ہیں تو ہمیں معیشت کو عوامی بنانا ہوگا، پیداوار کے میدان میں عوام کو پوری طرح سے شامل کرنا ہوگا اور اس میں عوام کی شرکت کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ عوامی شعبے میں بڑی توانائیاں پائی جاتی ہیں جن کے بارے میں، میں تفصیل سے عرض کروں گا اور ان توانائیوں کو متحرک کرنا ہوگا، انہیں ملک و قوم کے مفاد میں بروئے کار لانا ہوگا۔ لہذا میں نے اسی مناسبت سے اس سال کا نعرہ یہ رکھا ہے: "عوامی مشارکت سے پیداوار میں جست" یہ اس سال کا نعرہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ نعرہ بہترین طریقے سے عملی جامہ پہنے گا۔ ان شاء اللہ ملک کے منصوبہ ساز منصوبہ بندی کریں، دانشور حضرات فکری تعاون کریں اور معاشی میدان میں سرگرم افراد عملی طور پر اس کام میں شرکت کریں۔
خداوند عالم سے ایران کی عظیم اور عزیز قوم کی توفیقات کی دعا کرتا ہوں، حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی بارگاہ میں خاکساری کے ساتھ سلام عرض کرتا ہوں اور خداوند متعال سے ان کے ظہور میں تعجیل کی دعا کرتا ہوں کہ جو پوری انسانیت کے لیے گشائش ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ