بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.

آپ سب کو عید کی مبارکباد! ہر سال یہ ملاقات حضرت ابو الحسن امام رضا علیہ السلام کے روضہ اطہر کے سائے میں ہوا کرتی تھی۔ اس سال ہم اس نعمت سے محروم ہیں۔ لہذا دور سے ہی اظہار عقیدت کر لیتے ہیں:

"بُعد منزل نبوَد در سفر روحانی" (۱)

السَّلامُ عَلَیکَ یا اَمینَ‌ اللہِ‌ فی‌ اَرضہِ‌ وَ حُجَّتہُ عَلى عِبادِہ اَشھدُ اَنَّکَ جاھدتَ‌ فِی اللہِ‌ حَقَّ جھادِہ‌ وَ عَمِلتَ بِکِتَابہ وَ اتَّبَعتَ سُنَنَ نَبِیّہِ صلّی اللہُ عَلَیہ وَ آلِہ حتّى دَعاکَ اللہُ اِلى جِوارِہِ وَ قَبَضَکَ اِلَیہِ بِاختِیارِہِ وَ اَلزَمَ اَعداءَکَ الحُجۃَ مَعَ ما لَکَ مِنَ الحُجَجِ البالِغَۃِ عَلى جَمیعِ خَلقِہ.(۲) اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا ابالحسن یا علیّ ‌بن‌ موسی الرّضا و رحمۃ اللہ و برکاتہ.

ایک بار پھر عید سعید کی مبارکباد پییش کرتے ہیں آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو، تمام ملت ایران کو۔ بہار فطرت اور بہار روحانی (رمضان المبارک)  کی ایک ساتھ آمد کا یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے لطف و کرم کے دونوں پلڑے اپنے بندوں کے کسب فیض کے لئے مہیا کر دیے ہیں۔ البتہ ان دونوں کے درمیان کا فاصلہ زمین و آسمان کا فاصلہ ہے۔ آج فطرت کی بہار کی نسیم اور بہار روحانیت کی نسیم تمام مومن و صالح بندوں کے کسب فیض کے لئے چل رہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حوالے سے منقول ہے؛

گفت پیغمبر به اصحاب کبار- تن مپوشانید از باد بهار (3)

(پیغمبر نے اپنے باعظمت اصحاب سے فرمایا- نسیم بہار کو اپنے جسم سے مس ہونے دو۔)

کیونکہ بہار کی ہوا، 'فروردین' کی نسیم ماحول کو بھی تازگی عطا کرتی ہے اور جسموں کو بھی تر و تازہ کر دیتی ہے، ساتھ ہی روئیدگی، شگوفائی اور شگفتگی پیدا کرتی ہے۔ یہی چیز روحانیت کی نسیم روح کے سلسلے میں کرتی ہے۔ بہار رمضان کی روحانی نسیم انسانوں کی روح کو جلا بخشتی ہے، تازگی دیتی ہے اور انسان کے نمو و ارتقاء کی زمین ہموار کرتی ہے۔ اللہ سے انس ماہ رمضان میں اس بندے کو نصیب ہوتا ہے جو غفلت کا شکار نہیں ہے۔ رمضان کی روحانی نسیم سے کیا مراد ہے؟ روزہ! روزہ رمضان کی ہواؤوں میں سے ایک ہے۔ شب قدر بھی ہے، رمضان کے دنوں، راتوں اور سحر کی مناجاتیں بھی ہیں، دعائے ابو حمزہ ثمالی بھی ہے۔ یہ سب روحانی نسیمیں ہیں جو عزم و ارادے کے مالک انسان کے لئے بہتی ہیں اور اسے نمو عطا کرتی ہیں، اسے تازگی دیتی ہیں، اسے شکوفائی سے نوازتی ہیں۔ انسان کے اندر شوق معرفت اور اشتیاق عمل بڑھا دیتی ہیں۔ انسان کو روحانی بے کیفی کی حالت سے باہر نکالتی ہیں، روحانی تعطل کی کیفیت سے باہر لاتی ہیں، انسان کو عبد صالح بنا دیتی ہیں۔

ماہ رمضان میں آپ نیکیوں کی سمت پرواز کرتے ہیں اور آپ عبد صالح بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے دنیا میں بھی عبد صالح سے وعدہ کیا ہے کہ «اَنَّ الاَرضَ یَرِثُھا عِبادیَ الصّالِحون» (۴) یہ عبد صالح کو ملنے والے دنیوی اجر ہے۔ آحرت میں بھی: «مَعَ الَّذینَ اَنعَمَ اللہُ عَلَیہِم مِنَ النَّبییّنَ وَ الصِّدّیقینَ وَ الشُّھَداءِ وَ الصّالِحینَ وَ حَسُنَ اُولئِکَ رَفیقاً» (۵) وہاں بھی عبد صالح کو پیغمبروں کی صف میں قرار دیا گيا ہے، صدیقین کے زمرے میں رکھا گیا ہے، شہدا کے ساتھ جگہ دی گئی ہے۔ ماہ رمضان ایسی طاقت رکھتا ہے، ایسا فن رکھتا ہے کہ آگاہ انسان کو، متوجہ رہنے والے انسان کو، غافل نہ رہنے والے انسان کو ان روحانی مدارج پر پہنچا دیتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ ہماری عزیز ملت ایران، تمام امت اسلامیہ اور وہ سارے بندے جن کے دل اللہ کے ساتھ ہیں روحانیتوں سے کسب فیض کریں گے اور خود کو ارتقاء کی سمت لے جائیں گے اور آگے بڑھیں گے۔

میں نے کچھ باتیں اس سال کے نعرے کے لئے تیار کی ہیں اور کچھ باتیں، ایک دو نکات ملک کے عمومی اور ملی مفادات کے تعلق سے بہتر ہے کہ ملت ایران کی خدمت میں عرض کروں، ان شاء اللہ عرض کروں گا۔

سال کے نعرے کی بات۔ (6) سال کے نعرے کے لئے جو چیز پیش کی گئی ہے اس میں مقصد یہ ہے کہ فکریں اور عزائم ملک کی اساسی اسٹریٹیجی کے اس حصے پر مرکوز ہو جائیں۔ سال کا نعرہ عام طور پر ملک کی کلیدی اسٹریٹیجی کا ایک جز ہوتا ہے۔ ایک طرف حکام کی توجہ، عہدیداران کے حوصلے اور عہدیداران کی کوششیں اس حصے پر مرکوز ہو جائیں اور دوسری طرف رائے عامہ اور عوامی معرفت بھی اس کا مطالبہ کرے، سال کا نعرہ ہم پیش کرتے ہیں اور برسوں سے یہ سنت ہمارے درمیان چلی آ رہی ہے۔

حالیہ چند  برسوں کے ان نعروں میں جو چیز تسلسل سے موجود رہی ہے وہ اقتصادی امور پر تاکید اور توجہ ہے۔ گزشتہ سال ہم نے 'افراط زر پر کنٹرول اور پیداوار کا فروغ' کا نعرہ دیا۔ رسمی رپورٹیں جو تصدیق شدہ ہیں، ہمیں بتاتی ہیں کہ اس میدان میں اچھے کام ہوئے ہیں۔ البتہ جو چیز مطلوب تھی ہم اس سے ابھی کافی پیچھے ہیں۔ اس لئے کوشش ابھی اور بھی جاری رہنا چاہئے۔ چنانچہ میں یہیں عرض کرتا چلوں کہ 1402 (گزشتہ سال) کا نعرہ اس سال بھی ہمارے مطالبات میں شامل رہے گا، ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے، ان کاموں میں ہے کہ جن کے لئے تمام عہدیداران کو اور تمام عوامی کارکنوں کو کوشاں رہنا چاہئے۔ تاہم اس سال کا نعرہ زیادہ نمایاں ہے۔ اس سال کا نعرہ پیداوار کی لمبی چھلانگ ہے۔ پیداوار میں چلانگ شاید بہت بڑا کام اور کچھ لوگوں کی نظر میں ناممکن ہو لیکن میرا ماننا ہے کہ اس نعرے کے دوسرے حصے یعنی عوامی مشارکت کے مد نظر یہ ممکن ہے۔ اگر ہم اقصادی شعبے میں عوام کا عزم و ارادہ، عوام کا سرمایہ اور عوام کی جدت عملی اور سنجیدہ فعالیت کو لانے میں کامیاب ہو جائیں، در حقیقت اقتصادی میدان میں ایک عوامی لام بندی کر لے جائیں تو پیداوار جست اور چھلانگ لگا سکتی ہے۔

بہرحال اقتصاد ملک کے حیاتی امور میں ہے۔ ہماری ایک کمزوری جس کی گوناگوں وجوہات ہیں، اقتصادی مشکلات ہیں۔ اگر ملکی معیشت مطلوبہ سطح پر پہنچ جائے تو ملک کی عمومی صورت حال پر اس کا اثر پڑے گا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عوام کے دین و دنیا پر اس کا اثر پڑے گا۔ اب کچھ لوگ یہ اعتراض نہ کریں کہ ایسے ممالک بھی ہیں جو دولت و اقتصاد کے اعتبار سے پیشرفتہ ہیں، ان کی حالت اچھی ہے لیکن وہاں عوام کی حالت ٹھیک نہیں ہے! اس کی وجہ دوسری ہے۔ چونکہ وہ انصاف و مساوات پر توجہ نہیں دیتے، چونکہ دینی تعلیمات اور دینی عقیدے کی اہمیت پر توجہ نہیں دیتے، اس لئے وہاں عوام کی حالت دگرگوں ہے۔ بہرحال اقتصاد بہت موثر چیز ہے۔

برسوں سے دشمن اس کوشش میں ہیں کہ ملکی معیشت کو تباہ کر دیں۔ دشمن بڑی تندہی سے کوشش کر رہا ہے۔ ہم یہ چیز امریکہ اور اس کے بقیہ ہمنواؤں کے گزشتہ مدت کے معاندانہ برتاؤ میں محسوس کرتے رہے ہیں۔ ان کا مقصد ایران کی معیشت کو تباہ کرنا ہے، ان کا مقصد اقتصادی لحاظ سے ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینا ہے۔ البتہ ہمارے نوجوانوں کی بلند ہمتی اور اس ملک میں عوام اور عہدیداران کی طرف سے انجام دی جانے والی وسیع کوششوں کی وجہ سے دشمن کامیاب نہ ہو سکا اور اللہ کی نصرت و مدد سے آئندہ بھی وہ کامیاب نہیں ہوگا۔ لیکن بہرحال اقتصادی مسئلے میں دشمن اسلامی جمہوریہ کے خلاف سرگرم ہے، فعالیت کر رہا ہے۔ ہمیں بھی فعال رہنا چاہئے، سرگرم رہنا چاہئے۔ اس راہ میں پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے، صحیح سوچ کے ساتھ، شب و روز کی سعی پیہم کے ساتھ۔

ملکی معیشت کے فروغ کے لئے ملک کی ساری چھوٹی بڑی یونٹوں کا حرکت میں آنا ضروری ہے۔ سب کو چاہئے کہ محنت کریں۔ ملکی انفراسٹرکچر کو بھی استعمال کیا جائے، عوامی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لایا جائے۔ اقتصادی شعبے اور انتظامی شعبے کے افراد کی انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی توانائیوں کو حقیقی معنی میں بروئے کار لایا جائے، نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت کی جائے۔ یہ سارے کے سارے وسائل ہیں، ذرائع ہیں۔ اگر مجموعی طور پر ان پر توجہ دی جائے تو اس میں دو رائے نہیں کہ ملکی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا۔ البتہ عہدیداران کی بلا وقفہ کوششوں کی صورت میں، بحمد اللہ موجودہ حکومت ایسی ہے جو محنت، تحرک اور فعالیت کے اعتبار سے واقعی بہت اچھی پوزیشن میں ہے۔ ان کی محنت کافی اچھی ہے۔ تو یہ چیز وہ ہے جو اس سال کے نعرے میں ہمارے مد نظر تھی۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ اقتصادی شعبے پر خاص توجہ دی جائے اور اس راہ میں کامیابی کے لئے عوامی تعاون و شراکت سے حقیقی معنی میں فائدہ اٹھایا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مشن میں ساری فورسز لام بند ہو جائیں۔ اب یہ ہمارے عہدیداران کا ہنر ہے کہ ان شاء اللہ اس کا مناسب راستہ تلاش کریں اور اس کام کو انجام دیں۔

یہ سال ساتویں ترقیاتی پروگرام (7) کے آغاز کا پہلا سال ہے۔ ساتواں پروگرام اس سال شروع ہوگا۔ ساتویں پروگرام کا مقصد انصاف و مساوات کے ساتھ اقتصادی ترقی ہے۔ تاہم اس پروگرام کی اختتامی منزل کے لئے کچھ اہداف ذکر کئے گئے اور یہ اہداف بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ انفلیشن کو سنگل ڈیجٹ میں لانا، بجٹ کے اسٹرکچر کی اصلاح، ٹیکس کے نظام میں بنیادی تبدیلی، ملک کی بنیادی ضرورت کی اشیاء کے کم از کم نوے فیصدی حصے کی ملک کے اندر پیداوار، یہ بہت بڑے منصوبے ہیں، کھیتی کے پانی کی پروڈکٹیوٹی میں اضافہ، یہ ملک کی اہم مشکلات میں ہے اور اس ساتویں پروگرام میں اس پر خاص توجہ دی گئی ہے، یہ بہت عظیم قومی پروجیکٹ ہیں۔ اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ اہداف حاصل ہوں تو میری نظر میں عوام کے سامنے آئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ کام عوام کی مشارکت سے انجام پانا چاہئے۔ میں چاہتا ہوں کہ ملت ایران اس پر توجہ دے۔ بے شک ہر کسی کی الگ توانائی ہوتی ہے، سب ایک سطح کے نہیں ہیں، سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ سارا تعاون یک جیسا نہیں ہے۔ لیکن عوام کی طرف سے ہونے والی مجموعی مدد کہ جس کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں ان اہداف تک پہنچا سکتی ہے۔ (8)  (اس اعلان آمادگی کا شکریہ)۔ مجھے یقین ہے کہ عوام آمادہ ہیں، لیکن میدان میں آنے کے لئے راستہ ملنا چاہئے اور میدان عمل میں یہ آمادگی دکھائی جانی چاہئے، جیسا کہ مقدس دفاع میں دکھائی گئی۔ مقدس دفاع میں عوام نے اپنی آمادگی ہر پہلو سے ثابت کر دی۔ تمام مشکل میدانوں میں ہمیں ان شاء اللہ یہ کام کرنا چاہئے۔ البتہ علم کے باب میں، اخلاق کے باب میں، آرٹ کے میدان میں، ثقافت کے شعبے میں، ملک کے دیگر اہم کاموں کے سلسلے میں یہی عوامی لام بندی حلال مشکلات ہے اور ضروری ہے۔ لیکن سر دست ہماری بحث اقتصادی شعبے کی بحث ہے۔

میرا ماننا ہے کہ عوامی شعبے کی صلاحیت اور عوامی توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ حال ہی میں، اسی حسینیہ میں ایک نمائش لگی، کہ میں، پرائیویٹ سیکٹر کی پیداواری سرگرمیوں کو اور عوام نے اپنے سرمائے اور اپنی جدت عملی سے جو چیزیں پیدا کیں، قریب سے دیکھ سکوں، (9) میں نے آکر تقریبا چار گھنٹے یا چار گھنٹے سے بھی زیادہ وقت دیا، ان عوامی پروجیکٹوں کو تفصیل سے دیکھا، حیرت انگیز تھا، بہت زبردست تھا۔ پیدوار اور اقتصادی شعبے کی جدت عملی کے سلسلے میں عوام کی بیکراں توانائیوں کا مظہر تھی۔ بہت سے تو نوجوان تھے۔ نوجوانوں نے آکر یہاں بتایا کہ انہوں نے اپنی فکری صلاحیتوں کے ذریعے اقتصادی میدان میں بہت بڑے کام انجام دئے ہیں۔ تو توانائیاں موجود ہیں، صلاحیتیں موجود ہیں۔ ان توانائیوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی صنعتوں کے شعبے میں، پانی کے استعمال کی پرودکٹیوٹی بڑھانے کے شعبے میں، آئل سیکٹر میں، دستکاری صنعتوں کے میدان میں، نقل و حمل کے شعبے میں، ان تمام شعبوں میں نئی سوچ اور خلاقانہ صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں نے محنت کی ہے، کام کیا ہے، بڑے کام انجام دئے ہیں۔

اقتصادی شعبے میں ہم بیرونی اور بین الاقوامی سطح پر بھی کام کر رہے ہیں اور یہ کام جاری بھی رہنا چاہئے، اس کے بغیر معیشت کا کام آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ یہاں میرا خطاب دوسرے حکومتی عہدیداران سے ہے۔ خارجہ امور کے میدان میں جن ملکوں کے ساتھ ہمارے اقتصادی روابط ہیں، یہ مفاہمتی یادداشتیں جن پر دستخط ہوتے ہیں لیکن ان کا اثر نہیں ہوتا، انہیں قانونی، قابل عمل اور قابل نفاذ معاہدوں میں تبدیل کیا جانا چاہئے تاکہ عملی طور پر ان کا اثر ہو۔ اس پر سنجیدگی سے کام کریں۔

ایک اور موضوع پروڈکٹیوٹی کا ہے لیکن میں اس میں وارد نہیں ہوں گا۔ اگر زندگی رہی تو آئندہ پروڈکٹیوٹی کے بارے مین بات کروں گا۔ ملک میں ہماری پروڈکٹیوٹی کی شرح کم ہے۔ ہم جتنا سرمایہ لگاتے ہیں، خواہ پانی ہو، بجلی ہو، وقت ہو، عمر ہو، سرمائے کے تناسب سے اور ہم جو خرچ کرتے ہیں اس کے تناسب سے پروڈکٹیوٹی نہیں ہوتی۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کے لئے راہ حل موجود ہے۔ اس کا تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔ اس میدان میں بھی ان شاء اللہ کام ہونا چاہئے۔

تو یہ باتیں سال کے نعرے کے تعلق سے تھیں۔ البتہ ہم نے اس سال جو نعرہ معین کیا ہے وہ صرف ایک سال سے مربوط نہیں ہے، ایک سال سے مخصوص نہیں ہے۔ یہ جاری ہے۔ یہ اس نوعیت کے کام نہیں ہیں کہ ایک سال کے اندر مکمل ہو جائیں۔ اس سال میں سنہ 1403 ہجری شمسی میں عہدیداران بلند ہمتی سے کام لیں اور پہلا قدم اٹھائیں، منصوبہ بندی کریں، اس کے بعد ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ تو یہ اس موضوع سے متعلق بات تھی۔

البتہ ایک تشویش بھی پائی جاتی ہے، جو لوگ ملکی مسائل کو دلسوزی کے جذبے سے دیکھتے ہیں، انہیں یہ تشویش ہے کہ اگر ہم عوام کا سرمایہ اور عوام کے وسائل کو اقتصادی امور میں شامل کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ اس کے غلط استعمال، امتیازی برتاؤ، سماجی طبقوں میں فاصلے اور بدعنوانی وغیرہ کا راستہ کھل جائے جو اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔ بے شک یہ تشویش درست ہے۔ ماضی میں ایسے افراد نکلے جنہوں نے سرکاری وسائل کو استعمال کیا، لون کا پیسہ استعمال کیا، فارن کرنسی کا استعمال کیا، اس کام کے لئے نہیں جس کے لئے استعمال کرنا چاہئے تھا، انہوں نے راستہ تبدیل کر دیا، غلط استعمال کیا، کرپشن ہوا، امتیازی برتاؤ ہوا۔ یہ چیزیں ہیں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ متعلقہ عہدیداران اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، بھرپور توجہ دیں، جو کام بھی کریں، مکمل توجہ کے ساتھ کریں۔ یہ لازمی کاموں میں ہے، یہ ضروری چیزوں اور ضروری احتیاط اور لازمی توجہ کی چیزوں میں ہے۔ خیر، سال کے نعرے اور اقتصادی موضوع پر اپنی گفتگو کو ہم یہیں روکتے ہیں اور اتنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

ایک دو باتیں ملک کے عمومی مسائل کے تعلق سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آج ہمارے قومی مفادات اور ہمارے مستقبل کے لئے روشن افق کا انحصار 'امید' اور 'ایمان' پر ہے۔ میں اس سے پہلے سال 1402 میں اس بارے میں تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں۔ (10) اس پر خاص تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ 'امید' اور 'ایمان'۔ اگر دلوں میں امید کی شمع خاموش ہو جائے تو کوئی اقدام اور حرکت انجام نہیں پائے گی۔ ہمارے پاس پیشرفت کی اتنی وسیع توانائیاں ہیں، اتنے سارے با صلاحیت نوجوان ہیں، کام کے لئے آمادہ اور کام کے لئے ڈٹی رہنے والی قوم ہے، ہم اتنے کم نظیر قدرتی وسائل کے مالک ہیں، ہم اتنے غیر معمولی جغرافیائی محل وقوع کے مالک ہیں! ہم پیشرفت حاصل کر سکتے ہیں، بڑی پیشرفت حاصل کر سکتے ہیں۔ ابتدائے انقلاب سے اب تک ہم نے کافی پیشرفت حاصل کی ہے۔ اب دشمن اس پر پردہ ڈالتے ہیں۔ بعض لوگ اسے بخوبی بیان کرنا نہیں جانتے۔ لیکن ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ پیشرفت کے وسائل موجود ہیں۔ مگر یہ پیشرفت ہم تبھی کر سکیں گے جب ہم اور آپ ملک کے مستقبل کے تعلق سے بھرپور طریقے سے پر امید ہوں، ہمارے اندر امید کا جذبہ ہو، ہمیں معلوم ہو کہ پیشرفت حاصل کی جا سکتی ہے، کام کیا جا سکتا ہے، آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

ملک میں امید بڑھانے والے عوامل بھی بحمد اللہ کم نہیں ہیں۔ جو چیزیں انسان میں امید پیدا کرتی ہیں، ملک میں فراوانی کے ساتھ موجود ہیں۔ یہی صنعت کے میدان میں، صحت و سلامتی کے میدان میں، خلائی شعبے میں اور سیاست کے میدان میں علمی ترقی اور خارجہ سیاست کے میدان میں حاصل ہونے والی پیشرفت اور ملک کے اندر امن و سلامتی جو قابل توجہ ہے، ملک میں سیکورٹی کی جو صورت حال ہے۔ '11 فروری' کے دن ملک بھر میں کئی ملین افراد نکلتے ہیں، الحمد للہ مکمل امن و سلامتی کے ماحول میں، انتخابات ہوتے ہیں پر امن ماحول میں۔ دنیا میں بہت کم جگہوں پر اس طرح کا استحکام اور ایسا امن و سلامتی کا ماحول ہے۔ عوام کی یہ موجودگی، یہ تیز رفتار اور حیرت انگیز پیشرفت جو موجود ہے، یہ امید بڑھانے والی چیزیں ہیں۔ یہ چیزیں ہمیں امید عطا کرتی ہیں۔ ہمارے عوام میں افتخار اور وقار کے جذبے کو تقویت دیتی ہیں۔

اس وقت بھی ملک بھر میں نوجوانوں کی ہزاروں ٹیمیں مختلف میدانوں میں کاموں میں مصروف ہیں۔ بعض کے بارے میں ہمیں اجمالی طور پر اطلاعات ہیں اور بعض کو ہم تفصیلی طور پر جانتے ہیں۔ حقیقت میں نوجوانوں کی ہزاروں ٹیمیں بھرپور توانائی اور بھرپور جذبے کے ساتھ شوق سے کام اور محنت میں مصروف ہیں۔ سائنسی تحقیقات کر رہی ہیں، صعنتی تحقیقات انجام دے رہی ہیں۔ صنعت کے میدان میں، زراعت کے میدان میں کام کر رہی ہیں۔ صحت عامہ کے میدان میں، طبی امور کے میدان میں کام کر رہی ہیں، سائنسی تحقیقات انجام دے رہی ہیں۔ دینی مدارس میں فاضل و با صلاحیت نوجوان دینی و معرفتی امور میں کام کر رہے ہیں، نئے کام اور نئی باتیں پیش کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں ثقافتی سرگرمیاں، مختلف جگہوں پر، تصنیف و تالیف کے میدان میں، کتابیں لکھنے کے میدان میں، شاعری کے میدان میں، فلم سازی کے میدان میں، آرٹ کے میدان میں، مصوری کے میدان میں، ویجوئل آرٹس کے میدان میں، تبلیغی اور دینی سرگرمیوں کے میدان میں، معاشرے کی فضا میں رونق پیدا کرنے کے میدان میں کوششیں ہو رہی ہیں۔ اربعین کے موقع پر، پندرہ شعبان اور عید غدیر کے موقع پر یہ عظیم جلوس جو ملک بھر میں نکل رہے ہیں، انہیں نوجوانوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ سب امید بڑھانے والے عوامل ہیں۔ ان سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے نوجوان محنت سے کام کر رہے ہیں۔ ہماری پروپیگنڈا توانائی بد قسمتی سے وہ ضروری رسائی نہیں رکھتی کہ جو ان سارے کاموں کو عوام کے سامنے لا سکے جو انجام دئے جا رہے ہیں۔ یہ سب ملک میں امید دلانے والی چیزیں ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری عوامی تنظیمیں، خاص طور پر ہمارے نوجوان بہت پرجوش ہیں، فعال ہیں، سرگرم ہیں، جدت عملی رکھتے ہیں اور امید سے بھرے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف انسان یہ دیکھتا ہے کہ کچھ افراد جو میری نظر میں منفی باتیں کرتے ہیں، نوجوانوں میں امید کا جذبہ پائے جانے کا انکار بھی کرتے ہیں اور یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ ان کے دلوں سے امید ختم کر دیں! کیوں؟ اس سے کس کو فائدہ ہوگا؟ اپنا قلم استعمال کرتے ہیں یہ دلائل قائم کرنے کے لئے کہ مستقبل کے بارے میں امید نہیں رکھی جا سکتی! یہ چیزیں ہو رہی ہیں۔ یہ ایسی چیزیں جو میں خود دیکھ رہا ہوں۔ مقالہ لکھتے ہیں، استدلال پیش کرتے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں پر امید نہیں رہا جا سکتا۔ آخر کیوں؟ اتنے سارے امید افزا عوامل و اسباب کے بعد بھی پرامید نہیں رہنا چاہئے؟ وہ گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ نوجوانوں کے اندر امید کے جذبے کو مار دیں، ختم کر دیں۔ دشمن یہ کام برسوں سے کر رہا ہے، مگر اسے کامیابی نہیں ملی۔ برسوں سے گوناگوں پروپیگنڈا کرکے مختلف ذرائع ابلاغ اور تشہیراتی حربوں کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں کہ ہماری کمزوریوں کا ڈھنڈورا پیٹیں۔ ملک کے اندر کچھ کمزوریاں ہیں۔ اسے دس گنا بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں۔ ہم نے ترقیاں حاصل کی ہیں اس کے بارے میں مہر بہ لب ہو جاتے ہیں اور کبھی تو ان کا انکار بھی کرتے ہیں! مثال کے طور پر  ہمارے فوجی عہدیداران کچھ دفاعی وسائل کوئی میزائل بناتے ہیں اور اسے لانچ کرتے ہیں۔ مگر ان کے پروپیگنڈے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ جبکہ میزائل کا لانچ کیا جانا نگاہ کے سامنے ہے! یعنی دشمن تو یہ کر رہا ہے لیکن کچھ لوگ ملک کے اندر کیوں ایسا کرتے ہیں؟ بعض لوگ میری نگاہ میں یہ غفلت برت رہے ہیں۔ ہمیں ایسی غفلت نہیں برتنا چاہئے، ہمیں ایسی غلطی نہیں  کرنا چاہئے۔

میں عزیز نوجوانوں سے تاکید کرنا چاہتا ہوں، میں یہ کہتا ہوں کہ نوجوان دشمن کی سازشوں سے آگے رہیں۔ نوجوان دشمن کے منصوبوں سے آگے آگے چلیں۔ دشمن آپ کو مایوس کر دینا چاہتا ہے تو وہ مایوس کرنے کے لئے جتنی محنت کر رہا ہے آپ اس سے زیادہ محنت کیجئے امید پیدا کرنے کے لئے، نوجوانوں کے دلوں میں امید کی جوت جگانے کے لئے۔ دشمن قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر یہ چاہتا ہے کہ بعض آوازیں کانوں تک نہ پہنچنے پائیں۔ آپ دشمن کی ان کوششوں کے برخلاف ان آوازوں کو کانوں تک پہنچائیں۔ آج آپ کے ہاتھ میں گوناگوں وسائل موجود ہیں۔ یہ ایک نکتہ تھا۔

قومی مفادات کے سلسلے میں دوسرا نکتہ عوام کے دلوں کو متحد کرنے کا مسئلہ ہے، عوام کے عزم و ارادے کو متحد کرنے کا موضوع ہے۔ اس میدان میں بد قسمتی سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، ہم کچھ پیچھے ہیں۔ سماجی رابطہ اور ہمدلی بہت اہم ہے۔ اس میدان میں ہم سے غفلت ہوئی۔ خود ہم نے اپنے ہاتھ سے اپنے قومی اتحاد و یکجہتی میں رخنہ ڈالا۔ اس غفلت میں ہم سب شریک ہیں۔ ہم سب کا فریضہ ہے کہ قومی یکجہتی کو، عوام کے اتحاد کو، عوام اور عہدیداران کے اتحاد کو محفوظ رکھیں۔ اسے روز بروز تقویت پہنچائیں۔ یہی روز اول سے اسلامی نظام کی پالیسی رہی ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ روز اول سے جن چیزوں پر بڑی تاکید رکھتے تھے ان میں ایک اتحاد کا موضوع تھا۔ بعض لوگ جماعتی مسائل کے بارے میں، سیاسی مسائل کے بارے میں کبھی آپس میں اختلاف کا شکار ہو جاتے تھے تو امام خمینی رضوان اللہ علیہ انہیں فہمائش کرتے تھے اور کہتے تھے: "جتنا چیخنا ہے امریکہ پر چیخیے!"(11) فکری اختلاف، پسند ناپسند کا اختلاف، سیاسی اختلاف ہر ملک میں ایک فطری چیز ہے۔ لیکن نفرت پھیلانا اس سے الگ ہے۔ ٹھیک ہے ایک رائے آپ کی ہے اور ایک رائے کوئی دوسرا رکھتا ہے۔ یہ دونوں آپس میں یکساں نہیں ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ نفرت پھیلانے کا سبب نہیں بننا چاہئے۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے متنفر نہیں کرنا چاہئے، ایک دوسرے کا دشمن نہیں بنانا چاہئے۔ یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ ان میں ہر کوئی دوسرے کے خلاف ہر ممکن ذریعہ استعمال کرکے اس کی توہین کرے، اسے ایذائیں دے اور کبھی کبھی اس میں تہمت اور جھوٹ وغیرہ جیسی چیزیں بھی شامل ہو جائیں۔ یہ تو بہت خراب بات ہوگی۔ میری نظر میں داخلی نگرانی وغیرہ تو اپنی جگہ ٹھیک ہے، البتہ ملک کے اندر گوناگوں سیاسی مسائل وغیرہ کے بارے میں رقابت پائی جاتی ہے، یہ اپنی جگہ پر ہے، لیکن سب کو ایک ساتھ رہنا چاہئے، ایک دوسرے کے ہمراہ ہونا چاہئے۔ ایک خاندان میں ممکن ہے کہ دو بھائیوں کی پسند آپس میں مختلف ہو لیکن ان کا رشتہ اخوت ختم نہیں ہونا چاہئے۔ نوبت گالم گلوج، جھوٹ، توہین وغیرہ کی نہیں آنی چاہئے۔ اس کا سب خیال رکھیں۔ یہ بہت اہم اور کلیدی مسئلہ ہے۔ اپنے عزیز نوجوانوں سے تاکید اور سفارش کرنا چاہوں گا کہ کوشش کریں کہ معاشرے کے اندر نفرت پھیلانے والا کوئی کام نہ کیا جائے۔ پسند ناپسند کا اختلاف ہو سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن سب آپس میں برادرانہ انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ معاشرے کے کلی مسائل سے روبرو ہوں، ملک کے مخالفین، اسلامی جمہوریہ کے مخالفین اور ملت ایران کے مخالفین کے مقابلے میں یکساں طور پر کھڑے ہیں اور اقدام کریں۔

اہم بین الاقوامی مسائل میں آج پہلے نمبر کا مسئلہ فلسطین اور غزہ کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں بھی میں چند جملے عرض کروں گا۔ مغربی ایشیا کے علاقے میں 'مزاحمت' آج بڑی کلیدی حقیقت ہے جس نے ساری دنیا کا دھیان اپنی جانب کھینچا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو کئی پہلؤوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک تو غزہ کے واقعات نے دکھا دیا کہ دنیا پر کیسا ظلم اور کیسی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ یہ مغربی دنیا، یہ نام نہاد مہذب دنیا جو انسانی حقوق وغیرہ کے دعوے کرتی ہے، یہ دکھا دیا کہ ان کی زندگی پر، ان کے افکار پر اور ان کے طرز عمل پر کیسی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ 30 ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتل عام ہو جاتا ہے۔ نو مولود بچے سے لیکر کمسن بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں، عورت، مرد اور بیماروں تک سبھی کو چھوٹے سے عرصے میں، تیس ہزار سے زیادہ افراد کو ختم کر دیا جاتا ہے، ان کے مکانات مسمار کر دئے جاتے ہیں، ان کے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا جاتا ہے اور مہذب دنیا تماشائی بنی رہتی ہے۔ صرف اتنا نہیں کہ اس کی روک تھام نہیں کرتی بلکہ اس میں مدد بھی فراہم کرتی ہے! غزہ کے عوام پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے ابتدائی دنوں میں ہی امریکیوں نے مسلسل سفر کئے، یورپیوں نے یکے بعد دیگر لگاتار دورے  کئے اور جرائم پیشہ صیہونیوں کو اپنے تعاون اور حمایت کا یقین دلایا، صریحی طور پر اعلان کیا۔ صرف اعلان نہیں کیا بلکہ ہتھیار بھیجے، وسائل فراہم کئے، انواع و اقسام کی مدد کی۔ آج کی دنیا کی تاریکی یہ ہے۔ آج ہماری نگاہ کے سامنے ایسی دنیا ہے۔ یہ ایک زاویہ نگاہ ہے، یہ ایک زاویہ نظر ہے جو آج کی دنیا کی حالت دکھاتا ہے۔

دوسرے زاوئے سے دیکھیں تو یہ ماجرا مزاحمتی محاذ کی تشکیل کی حقایت کو اجاگر کرتا ہے۔ کچھ لوگ اظہار خیال کرتے تھے کہ مغربی ایشیا میں اس مزاحمتی محاذ کی کیا ضرورت تھی۔ ثابت ہو گیا کہ اس علاقے میں مزاحمتی محاذ کی موجودگی انتہائی حیاتی مسئلہ ہے اور اس مزاحمتی محاذ کو روز بروز زیادہ تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔ جن انسانوں کے پاس بیدار ضمیر ہے، وہ جب اس علاقے میں صیہونیوں کے مظالم دیکھتے ہیں، ظاہر ہے ستر سال سے یہ مظالم جاری ہیں، تو فطری بات ہے کہ وہ خاموش نہ رہ سکیں، سکون سے نہ بیٹھیں، بلکہ مزاحمت کے بارے میں سوچیں۔ مزاحمتی محاذ کی تشکیل کی وجہ یہ ہے، یہ ملت فلسطین اور فلسطین کے حامیوں کے خلاف مجرم صیہونیوں کے دائمی مظالم کے مقابلے کے لئے ہے۔

اگر ایک اور زاوئے سے اس مسئلے کو ہم دیکھیں تو نظر آئے گا کہ حالیہ چند مہینوں میں مزاحمتی محاذ نے اپنی اصلی تصویر کی رونمائی کی ہے۔ شاید نہ تو امریکیوں کو، نہ علاقے کی حکومتوں کو اس علاقے کی مزاحمت کی طاقت اور مزاحمت کی توانائیوں کا صحیح اندازہ تھا لیکن اب وہ سمجھ گئے ہیں۔ آپ فلسطین کی مزاحمت کو ذرا دیکھئے! غزہ کے مظلوم عوام کے اس صبر کو دیکھئے! حماس اور بقیہ تنظیموں کے مجاہدین کے ارادے اور جذبے کو ذرا دیکھئے! لبنان میں، یمن میں عراق میں مزاحمت کی اس قوت ارادی کو دیکھئے! اس مزاحمت کی یہ حقیقت ہے۔ مزاحمت نے اپنا اصلی وجود، اپنی توانائیاں اور اپنی اصلی پوزیشن دکھائی ہے۔ دنیا کو دکھا دیا کہ مزاحمت کیا  ہوتی ہے۔ امریکہ کے سارے اندازوں کو انہوں نے درہم برہم کر دیا۔ امریکی اس علاقے میں کوشش کر رہے تھے کہ اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے کے تمام حالات اور امور کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔ خواہ وہ عراق ہو، شام ہو، لبنان ہو، یا پورا علاقہ ہو۔ ایک غلط اندازے کی بنیاد پر وہ اس نہج پر سوچ رہے تھے۔ مزاحمت کی طاقت نے ان اندازوں کو درہم برہم کر دیا اور ثابت کر دیا کہ یہ نہیں ہو سکتا اور امریکی اس علاقے میں رک نہیں پائیں گے، وہ علاقے سے باہر نکلنے پر مجبور ہیں۔

ایک اور نکتہ اور ایک اور زاویہ نگاہ اس مسئلے کو دیکھنے کے لئے یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی حالت سب کے لئے واضح ہو گئی۔ پتہ چل گیا کہ صیہونی حکومت اپنے تحفظ میں صرف بحران کا شکار نہیں ہے بلکہ بحران سے خود کو باہر نکالنے میں بھی ایک بحران سے دوچار ہے۔ دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور خود کو باہر نہیں نکال پا رہی ہے۔ غزہ میں صیہونی حکومت کے داخل ہونے سے اس کے لئے ایک دلدل پیدا گئی۔ آج اگر وہ غزہ سے باہر نکلے تو شکست خوردہ باہر آئے گی اور باہر نہ نکلے تب بھی شکست خوردہ مانی جائے گی۔ صیہونی حکومت کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ یہی تضاد جو ان کے فیصلوں میں ہے اور یہ سراسیمگی جو ان پر طاری ہے سبب بنی ہے کہ صیہونی حکومت کے داخلی حلقوں میں صیہونی حکومت کے عہدیداران کے درمیان گہرے اختلافات پیدا ہو جائیں اور وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائیں۔ آج صیہونی حکومت فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ یہ صورت حال اسے ان شاء اللہ سرنگونی کے قریب لے جائے گی۔

اور جہاں تک بات ہےامریکہ کی تو امریکہ غزہ کے مسئلے میں بدترین روش پر چلا۔ امریکہ نے غزہ کے علاقے میں بدترین طریقہ کار اختیار کیا۔ اس نے وہ حرکت کی کہ ساری دنیا میں نفرت کا مستحق بن گیا۔ یہ لوگ جو لندن، پیرس اور باقی یورپی ملکوں میں اور خود امریکہ میں سڑکوں پر نکل کر فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کرتے ہیں، یہ در حقیقت امریکہ سے اپنی نفرت کا اعلان کرتے ہیں۔ امریکہ دنیا میں نفرت سے دیکھا جانے لگا، علاقے میں نفرت سے دیکھا جاتا تھا تو اب اس سے نفرت دس گنا بڑھ گئی۔ علاقے کے مسائل کے بارے میں ان کی سمجھ بھی غلط ہے اور اس غلط سمجھ کی بنیاد پر لئے جانے والے ان کے فیصلے بھی غلط ہیں۔ اس علاقے میں جہاں بھی، یمن میں، عراق میں، شام میں، لبنان میں، مزاحمتی نیٹ ورک کی شجاع اور مجاہد فورسز کی جانب سے امریکہ کے خلاف کوئی اقدام ہوتا ہے، امریکی اپنے اندازوں کے مطابق اسے ایران سے منسوب کر دیتے ہیں۔ یہ اندازے یقینی طور پر غلط ہیں۔ امریکہ آخرکار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگا۔ وہ عوام کی شناخت نہیں رکھتے۔ اقوام اور ان کے شجاع نوجوانوں کی توہین کرتے ہیں۔ وہ لوگ خود صاحب فکر ہیں، ارادے کے مالک ہیں، پختہ عزم رکھتے ہیں، شجاع ہیں۔

بے شک ہم مزاحمت کا دفاع کرتے ہیں۔ ہمارے لئے جہاں تک ممکن ہو ہم مزاحمتی تنظیموں کی حمایت اور پشت پناہی کرتے ہیں۔ ان کے اقدامات کی قدردانی کرتے ہیں۔ لیکن اپنے فیصلے وہ خود کرتی ہیں اور اقدام کرتی ہیں اور اس روش میں وہ حق بجانب ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ صیہونی حکومت کے وجود کی وجہ سے علاقے میں بہت بڑا ستم ڈھایا جا رہا ہے۔ یہ بہت بڑا ستم ہے جو دسیوں سال سے جاری ہے۔ یہ ظلم بند ہونا چاہئے۔ اس عظیم جہاد، انسانی جہاد، اسلامی جہاد اور ضمیر کے جہاد میں جو بھی اترے گا ہم اس کے طرفدار ہیں، اس کی حمایت کریں گے، اس کی مدد کریں گے اور توفیق خداوندی سے، اللہ کی نصرت و مدد سے ہم اپنا ہدف حاصل کر لیں گے۔

والسّلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ

  1. حافظ، دیوان، غزلیات: «گرچه دوریم به یاد تو سخن میگوییم / بعد منزل نبود در سفر روحانی»
  2. کامل‌الزّیارات، صفحہ ۳۹
  3. مولوی. مثنوی معنوی، دفتر اوّل. اس حدیث کی طرف اشارہ ہے «اِغتَنِمُوا بَردَ الرَّبِیعِ فَاِنَّهُ یَفعَلُ بِاَبدَانِکُم مَا یَفعَلُ بِاَشجَارِکُم»؛ بحارالانوار، جلد ۵۹، صفحہ ۲۷۱
  4. سوره‌ انبیاء، آیت نمبر ۱۰۵ کا ایک حصہ؛ «...زمین کے وارث خدا کے صالح بندے ہوتے ہیں۔
  5. سوره‌ نساء، آیت نمبر  ۶۹ کا ایک حصہ
  6. "عوام کی مشارکت سے پیداوار میں جست" نئے ہجری شمسی سال 1403 کے آغاز کی مناسبت سے رہبر انقلاب کا خطاب
  7. اسلامی جمہوریہ ایران کا 1403 ہجری شمسی سے 1407 ہجری شمسی تک چلنے والا ساتواں ترقیاتی پروگرام
  8. حاضرین نے نعرہ لگایا: «ای رهبر آزاده آماده‌ایم آماده» (اے آزاد منش قائد ہم آمادہ ہیں آمادہ ہیں۔)
  9. حسینیہ امام خمینی میں داخلی پیداواری توانائیوں کی نمائش کا معائنہ تاریخ 29 جنوری 2024
  10. اما خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چونتیسویں برسی میں خطاب 4 جون 2023
  11. صحیفه‌ امام، جلد ۱۱، صفحہ ۱۲۱، پاسداران انقلاب فورس کے درمیان خطاب 25 نومبر 1979