اس ملاقات میں، جس میں چالیس جوان اور بزرگ شعراء نے اپنے کلام پیش کیے، آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شعر کو میڈیا وار کے دور میں ایک اہم اور بااثر ذریعۂ ابلاغ بتایا اور کہا کہ اس میدان میں ایک طاقتور، بااثر اور ٹھوس میڈیا کی حیثیت سے فارسی شعر و ادب کے بے نظیر ورثے سے کما حقہ فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔

انھوں نے مناسب اور مفید پیغام کے انتخاب کو شعر کے اثر اور دوام کی شرط بتایا اور کہا کہ شعر کے میڈیا کو دین و اخلاق، تہذیب و تمدن اور ایرانی روایات کے پیغام کو منتقل کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی منہ زوروں کے ظلم و توسیع پسندی اور اس کے مظاہر یعنی امریکا اور صیہونیوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی شجاعانہ مزاحمت کے پیغام کو بہترین اور منتقل کیے جانے کے قابل پیغام بتایا۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس سلسلے میں کہا کہ ایرانی قوم کی مزاحمت کا پیغام اور اس کی جانب سے سامراجیوں کے خلاف اپنے دو ٹوک اور ٹھوس موقف کا بیان بہت اہم اور دنیا کے لوگوں کے لیے اشتیاق انگیز ہے اور ان موقفوں کے خیر مقدم کے نمونے ایرانی سربراہان مملکت کے غیر ملکی دوروں اور عوامی اجتماعات میں ان کی تقاریر کے دوران دیکھنے میں آئے ہیں۔

انھوں نے شاعروں اور فارسی شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اچھے شعر سے عالمی رائے عامہ کو بھی مستفید کرنا چاہیے اور اس کے لیے ترجمے کی تحریک شروع کی جانی چاہیے تاکہ اشعار کو شاعرانہ، سلیس اور مضبوط نثر کے پیرائے میں دوسروں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

اس ملاقات کے آغاز میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی شان میں نیز غزہ کے عوام خاص طور پر غزہ کے بچوں اور خواتین کی مظلومیت، والدین کی تعریف و توصیف اور اسی طرح بعض سیاسی و سماجی موضوعات کے بارے میں اشعار پڑھے گئے۔