بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا محمّد وآلہ الطّاھرین ولعنۃ اللہ علی اعدائھم اجمعین
جدید شاعری کی جو تصویر میرے ذہن میں ہے اور تھی اور گزشتہ برس بھی میں نے اس کو بیان کیا(2) آج رات زیادہ واضح اور محکم ہو گئی۔ الحمد للہ ہمارے ملک میں شاعری پیشرفت کر رہی ہے اور صرف تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ حقیقی معنی میں عروج کی طرف جا رہی۔ اس کی قدر کو سمجھنے اور جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
میں (اس سلسلے میں) چند نکات عرض کروں گا۔ ایک یہ ہے کہ شاعری ذریعہ ابلاغ ہے۔ آج دنیا میں چیلنج اور تصادم ابلاغیاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ دشمن کو پسپا کرنے میں میزائل، ڈرون، طیاروں اور جنگی وسائل وغیرہ سے زیادہ موثر واقع ہوتے ہیں اور دلوں اور اذہان کو متاثر کرتے ہیں۔ آج جنگ، ابلاغیاتی جنگ ہے۔ جس کے پاس ابلاغیاتی ذرائع قوی ہیں، وہ اپنے اہداف میں، جو ہدف بھی ہو، زیادہ کامیاب ہوگا۔ بنابریں شاعری اور شعرا کا فریضہ معلوم ہے۔ ہم ایرانیوں کی شاعری کی میراث دنیا میں کم نظیر ہے۔ بے نظیر اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں بہت سی تہذیبوں اور تمدنوں سے واقف نہیں ہوں۔ جتنا جانتا ہوں، اس میں میری نظر میں، شاعری کی میراث کے لحاظ سے، عرب شاعری کو چھوڑ کر، اس کی کوئی نظیر نہيں ہے۔ عرب شاعری ممتاز اور بلندی پر ہے۔ بنابریں اس ادبی اور شعری میراث کی بدولت ہمارے پاس طاقتور، قوی، موثر اور گہری تاثیر رکھنے والا شاعری کا ابلاغیاتی ذریعہ موجود ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ تاثیر مشروط ہے۔ شرط یہ ہے کہ شعر حقیقی معنی میں آرٹ اور ہنر ہو، اس میں ہنر اور فن پایا جاتا ہو۔ ایسے اشعار بھی ہیں کہ جو نام کے شعر ہیں لیکن ان میں یا ہنر بالکل نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ یہ متاثر نہیں کرتے۔ شعر میں ہنر کی تاثیر ہونی چاہئے۔ فارسی شاعری میں، آپ مثال کے طور پر حافظ کی شاعری کو دیکھیں، اس میں ہنر عروج پر ہے، گوٹے (3) کو متاثر کرتی ہے، اقبال (4) کو متاثر کرتی ہے، ان لوگوں کو بھی متاثر کرتی ہے جو فارسی نہیں جانتے۔ اقبال فارسی نہیں جانتے تھے۔ وہی مشہور اقبال جن کا فارسی کا دیوان ہے، انھوں نے فارسی نہیں پڑھی تھی، ان کا خاندان بھی فارسی نہیں جانتا تھا۔ حافظ اور انہی جیسے دوسرے شعرا کے توسط سے فارسی سے اس طرح واقف ہوئے کہ فارسی شاعری کا دیوان تیار کر دیا۔ یہ شاعری کی تاثیر ہے۔ وہ شاعری جس میں ہنر پایا جائے، اس طرح متاثر کرتی ہے۔ یا گوٹے وغیرہ ہیں جنہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔
اچھا تو اب اگر ہم فنی شاعری کرنا چاہیں تو اس کے لئے کیا ضروری ہے؟ ظاہر ہے کہ جسم و روح، لفظ اور مضمون۔ کمزور الفاظ یا ان الفاظ سے جو زیادہ محکم اور استوار نہ ہوں، فنی شاعری نہیں کی جا سکتی۔ میں بعض اوقات اخبارات میں ایسے اشعار پڑھتا ہوں کہ اگر انسان وہ نظم یاغزل جو بھی ہے، پوری پڑھے تو اس کو واقعی غصہ آ جاتا ہے یعنی اس کی تاثیر غصہ اور موڈ کی خرابی کا سبب ہے۔ اس کے الفاظ میں فن اور ہنرکا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔ اور پھر مضمون۔ مضمون موضوع سے نکلتا ہے، موضوع کے بیان کی کیفیت سے نکلتا ہے۔ آپ اگر کسی ایسے موضوع کو اپنی شاعری میں لائيں، جو قابل توجہ نہ ہو اور انداز بیان بھی نیا اور موثر نہ ہو تو اس سے شاعری میں بلندی نہیں آئے گی۔ آپ دیکھیں کہ بہت سے موضوعات جو سبک ہندی کے کلیم اور صائب جیسے شاعروں کے اشعار میں پائے جاتے ہیں، دوسرے شعرا کے اشعار میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن ان کا انداز بیان ایسا ہے کہ شعر کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے۔ بنابریں، مضمون اور استوار الفاظ، یہ دونوں ہی عناصر ضروری ہیں۔
ایک اور نکتہ پیغام سے تعلق رکھتاہے۔ ہم نے مضمون اور اس کے بیان کے لئے اچھے الفاظ کا انتخاب کر لیا۔ تو ہم اپنے مخاطبین کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ اب مثال کے طور پر فرض کریں، بعض حضرات کا پیغام یہی حالات کا شکوہ ہے جو تاریخ میں زیادہ تر شعرا کے ہاں پایا جاتا ہے، وہ اسی طرح تھے۔ یعنی آپ کو بہت کم شاعر ایسے ملیں گے جنہوں نے اپنے زمانے کے حالات کا گلہ اور شکوہ نہ کیا ہو کچھ کے ہاں یہ شکوہ شدید تر ہے اور کچھ کے ہاں اس کی شدت کمتر ہے۔ لیکن یہ مخاطب کے لئے ایسا پیغام نہیں ہے جس کا کوئی قابل ذکر اور قابل قبول فائدہ ہو۔ ہاں ان میں سے بعض کسی حد تک تاریخ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بس اسی حد تک ۔ اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن جو بات مد نظر ہے جو اچھا پیغام ہو سکتی ہے، وہ پیغام دین ہے، پیغام اخلاق ہے، پیغام تمدن ہے، ہم ایرانیوں کے لئے ایرانیت کا پیغام ہے۔
ہمارے پاس پیغام بہت ہے۔ کہنے کے لئے ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ ہمارے پاس تمدن کے بے شمار پیغامات ہیں، ہماری دینی تعلیمات، ہماری اخلاقی تعلیمات، ہماری ایرانی تعلیمات، ایرانی قوم کی شجاعت اور استقامت کا پیغام، یہ سب وہ باتیں ہیں جنہیں بیان کیا جا سکتا ہے۔ انہیں (شاعری کے) پیغام میں لانے کی ضرورت ہے۔ آج ایرانی قوم کے لئے باعث اعتبار و وقار باتوں میں سے ایک، دنیا میں ظلم، زور زبردستی اور کثرت طلبی کے مقابلے میں، جس کے مظہر امریکا اور صیہونی ہیں، دلیرانہ استقامت ہے۔ ایرانی قوم کسی رو رعایت کے بغیر، صراحت اور شفافیت کے ساتھ اپنا موقف بیان کرتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ دنیا میں بہت پسندیدہ ہے۔ ہمارے ملک کے حکام جیسے صدور اور دوسرے عہدیدار جب دوسرے ملکوں میں گئے تو حکومتی ذمہ داروں سے ملاقات کی بات نہیں، جب مساجد میں اور اجتماعات میں عوام کے درمیان گئے اور وہاں انھون نے یہ باتیں کیں تو لوگ جوش میں آ گئے۔ خود میں نے پاکستان میں (5) ہزاروں لوگوں کے اجتماع میں اپنی تقریر میں، جس میں اس وقت کے صدر پاکستان بھی بیٹھے ہوئے تھے، یہ جلسہ واقعی ایسا تھا کہ جیسے نبض چلتی ہے، بالکل اسی طرح اس میں جووخروش پایا جاتا تھا۔ یہ ان باتوں کی وجہ سے تھا ( جو تقریر میں بیان کی گئيں) جب ایرانی قوم کی استقامت اور پائیداری بیان کی جاتی ہے (تو یہ ہوتا ہے)۔ دوسرے بھی اسی طرح تھے میں نے سنا ہے مجھے علم ہے۔ بنابریں ان باتوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے پیغام ہیں۔ استقامت کا پیغام، تمدن کا پیغام اور اسلام کا پیغام۔
یہ ہمارا سالانہ جلسہ بہت اچھا ہے۔ بابرکت ہے۔ جو ممتاز ہستیاں اس جلسہ میں شریک رہیں جنہوں نے اس جلسے کا اعتبار اور وقار بڑھایا، وہ بڑی ہستیاں جن کے نام لئے گئے، اس جلسے میں تسلسل کے ساتھ آتے رہے، شرکت کرتے رہے، اشعار سناتے رہے، واقعی بہت اچھا جلسہ ہے۔
میرے ذہن میں جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اس جلسے کو صرف ظاہری شان وشوکت کا حامل نہیں ہونا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں شاعری کی ایسی محفل ہونی چاہئے! بات یہ نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس جلسہ کا تسلسل ہو یعنی ان مقاصد میں مددگار ہو جو شاعری میں پائے جاتے ہیں۔ انہیں آگے بڑھایا جائے، شاعری کے حلقے، انجمنیں اور محفلیں تشکیل پائيں اور وہ باتیں جو ایک طرح سے اس جلسے میں بیان کی جاتی ہیں، چاہے آپ اپنے اشعار میں بیان کرتے ہوں، یا میں اپنی گزارشات میں بیان کرو،ان میں تسلسل ہو۔
میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں جو بہت اچھی ہیں۔ ایک مسئلہ ترجمہ کا ہے۔ ہم ترجمہ میں بہت کمزور ہیں۔ بعض معروف عرب شعرا ایران میں جانے جاتے ہیں، سبھی انہیں پہچانتے ہیں، اس لئے کہ ان کے اشعار کا فارسی میں ترجمہ ہوا ہے۔ ہمیں اپنے شعرا کا عرب اور دیگر ملکوں میں کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اب ممکن ہے کہ مجھے علم نہ ہو، لیکن جہاں تک مجھے علم ہے، کوئی اثر نہیں ہے۔ کیوں؟ یہ نظم بہت اچھی ہے، اس کو دنیا کے عوام کے سامنے استفادہ کے لئے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ شاعر کے بقول:
می نابی ولی از خلوت خم چون در ساغر نمی آئي چہ حاصل
(یعنی مے خالص ہو لیکن اگر خلوت خم سے نکل کر ساغر میں نہ آئے تو کیا فائدہ۔)
اس نظم، اس بیان سے استفادہ ہونا چاہئے۔ دنیا اس سے استفادہ کرے، افکار اس سے مستفیذ ہوں۔ بنابریں ہمیں شاعری کے ترجمہ کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
شاعری کا ترجمہ نثر کے ترجمہ سے مختلف ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ شعر کا ترجمہ شعر میں نہیں ہوتا بلکہ نثر میں کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے مولوی کے اشعار کا ترجمہ عربی میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے دیکھا ہے۔ نہیں کر سکے ہیں۔ میرے پاس مثنوی کے عربی ترجمے کی ایک کتاب ہے میں نے اس کو پڑھا ہے۔ عراق کے ایک بڑے معروف شاعر، مشہور جواہری کے بڑے بھائی (7) عبدالعزیز جواہر کلام جو ایران میں مقیم تھے، میرے پاس آئے تھے، میں نے انہیں دیکھا تھا، انھوں نے مثنوی کا ترجمہ کیا، واقعی وہ بہت اچھے شاعر ہیں، لیکن نہیں کر سکتے۔ شعر کا شعر میں ترجمہ بہت مشکل ہے۔
مرحوم سید مہدی بحرالعلوم جو تیرھویں صدی ہجری کے علما میں تھے، جب درجہ مرجعیت پر فائز ہوئے تو نجف سے کربلا پیدل گئے۔ علمائے نجف بعض اوقات یہ کام کرتے تھے، نجف سے پیدل کربلا جاتے تھے۔ وہ بھی ابتدائے مرجعیت میں پیدل کربلا گئے اور کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے۔ وہ خود شاعری کرتے تھے اور با ذوق شاعر تھے۔ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ اپنے ہمراہ کچھ شعرا کو بھی لے گئے تھے۔ یہ بھی ایک نکتے کی بات ہے کہ ایک مرجع تقلید بغیر کسی شاعر کو اپنے ساتھ لئے، نجف سے کربلا کا سفر نہیں کرتے تھے۔ ان کے ہمراہ تین چار شعرا تھے۔ ایک منزل پر پہنچتے ہیں، وہ تھک جاتے ہیں، دوسرے آگے بڑھنا چاہتے تھے، وہ کہتے تھے نہیں میں نہیں چل سکتا اور طالب آملی کا یہ شعر پڑھتے ہیں کہ
از ضعف بہ ھر جا کہ رسیدیم وطن شد وز گریہ بہ ہر سو کہ گذشتیم چمن شد
(یعنی ہم جہاں بھی پہنچے، کمزوری نے اسی کو وطن بنادیا اور ہم جہاں سے بھی گزرے، ہمارے گریے نے اس کو چمن زار بنا دیا)
وہ شعر پڑھتے ہیں۔ وہ عرب شعرا کہتے ہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں؟ وہ اس کی تشریح کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ان سے قریحہ شاعری سے کام لینے اور یہ مضمون عربی شعر میں بیان کرنے کے لئے کہتے ہیں۔ ان شعرا نے جو اشعار کہے ہیں وہ کتابوں میں موجود ہیں۔ طالب آملی کے اسی شعرکا انھوں نے عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور شعر میں بیان کیا ہے۔ وہ عرب کے صف اول کے شعرا تھے۔ لیکن جب کوئی طالب آملی کا یہ شعر پڑھتا ہے اور اس کے بعد ان کے ان اشعار کو پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ طالب آملی اور ان کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ خود مرحوم سید مہدی بحرالعلوم نے بھی کہا ہے جو ان کتابوں میں ہے۔ ( شعر کا ترجمہ شعر میں ) نہیں ہوسکتا۔ نثر میں ترجمہ ہونا چاہئے۔ لیکن نثر شاعرانہ ہونی چاہئے۔ قوی اور گویا یعنی بولتی ہوئی نثر ہونی چاہئے۔ یہ کام کون کرسکتا ہے؟ جس کو دونوں زبانوں پرتسط حاصل ہو۔ میری نظر جس زبان میں ترجمہ کیا جائے، وہ مترجم کی مادری زبان ہونی چاہئے۔ یہ ہونا چاہئے۔ میری نظر میں یہ کام اہم ہے۔ حکومت کا کام ہے۔ یعنی یہ کام عام لوگوں کا نہیں ہے۔ دشوار کام ہے۔ بنابریں میری ایک سفارش ترجمہ ہے۔
میری ایک اور سفارش یہ ہے کہ شاعری کو نصاب کی کتابوں میں شامل کیا جائے۔ اس کا تعلق تعلیم و تربیت کی وزارت سے ہے کہ شاعری کو نصاب کی کتابوں میں شامل کریں۔ اب بھی ہے لیکن زیادہ ہونا چاہئے۔ بچپن سے بڑے ہونے تک اور اس کے بعد نوجوانی تک شاعری سے لگاؤ ہونا چاہئے۔ شاعری ہمارے تمدن، ہماری تہذیب اور ہماری تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہماری بہت سی تعلیمات شاعری میں بیان کی گئی ہیں۔
ایک اور نکتہ جو میں نے نوٹ کیا ہے، لوگوں کا ادبی حافظہ بیدار کرنا اور لوگوں اور نوجوانوں کے اذہان کو خلاق بنانا ہے۔ ہمارے عوام کا ادبی حافظہ کمزور ہے۔ یعنی مناسب جگہوں پر، مناسبت کے تعلق سے جو اشعار انہیں یاد ہونے چاہئيں وہ انہیں یاد نہیں آتے۔ یعنی نہیں جانتے۔ بعض اوقات وہ جو شعر پڑھتے ہیں، غلط پڑھتے ہیں۔ بعض اوقات ہم ٹی وی پر بھی سنتے ہیں۔ ٹیلیویژن کھول کے بیٹھے ہیں، اینکر غلط شعر پڑھتا ہے تو طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ ایک بار ایک سن رسیدہ صاحب جو موسیقار تھے، مجھ سے کہنے لگے کہ یہ لوگ جو بعض اوقات ایک راگ میں گاتے ہیں اور پھر جب دفعتا اس سے نکل جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کان میں کیل ٹھونک دی ہے۔ انسان کو اتنی تکلیف ہوتی ہے۔ جب کوئی غلط شعر پڑھتا ہے تو بعض اوقات ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے کان میں کیل ٹھونک دی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کا ادبی حافظہ کمزور ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے کا طریقہ ہے، وہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے، لوگوں کے اندر شعری ذوق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اشعار سے مانوس کرنا چاہئے۔
شعرائے کرام سے بھی میری ایک سفارش ہے بالخصوص نوجوان شعرا سے اور وہ یہ ہے کہ شعرا کے دیوان اور ان کی شاعری کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات کا مطالعہ کریں۔ آپ یقینا (دیوان) حافظ، شاہنامے اور خمسہ نظامی کو پڑھتے ہوں گے۔ ان کو یقینا پڑھتے ہوں گے۔ پڑھیں لیکن صرف یہی نہیں ہیں۔ بہت سے شعرا ہیں جن کے اشعار ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی سبک ہندی کے شعرا اور سبک وقوع کے شعرا ہیں، واقعی ان کے بعض اشعار بہت بلند ہیں۔ ان کے اشعار کی زیبائی انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ یعنی انسان متحیر ہو جاتا ہے کہ یہ شعر کتنا خوبصورت ہے اس کے الفاظ اور مفاہیم کتنے اچھے ہیں۔ انہیں پڑھیں۔ جو کام انھوں نے کئے ہیں، جو ہنرمندی اور فنکاری انھوں نے دکھائی ہے، یہ جو مادہ تاریخ کے اشعار ہیں ( 8) جو بعض شعرا نے کہے ہیں۔ واقعی انسان کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی قم کے صحن قدیم میں جس کو پرانا صحن یا چھوٹا صحن کہا جاتا ہے، اس میں ایک کتیبہ ہے جس کا نام کتیبہ معجزیہ ہے(9) اس قصیدہ کا ہر شعر اس صحن کا مادہ تاریخ ہے(10) ہر شعر مادہ تاریخ ہے۔ دیگر تفصیلات بھی ہیں جو اس وقت مجھے یاد نہیں ہیں۔ پرانے زمانے کی ہیں۔ (مثال ک طور پر) جب دو اشعار کو جمع کریں تو ایک طرح کا مطلب ہوتا ہے اور تین اشعار کو جمع کریں تو دوسری طرح کا ہو جاتا ہے! یہ بہت اہم ہے۔ شاعری بہت اچھی اور قوی ہے۔ یعنی ہلکی شاعری نہیں ہے۔ بہت اچھے اشعار ہیں۔ قم کے دو صحن ہیں۔ (اگر) آپ قم کے صحن قدیم میں جائيں، پرانے صحن یا چھوٹے صحن میں جہاں ایوان اور گنبد طلائی ہے، یہ کتیبہ ایوان کے اوپر لکھا ہوا ہے، یہی قصیدہ ہے، اس کا نام " قیصدہ معجزیہ" بتاتے ہیں۔ یعنی واقعی معجزہ جیسا لگتا ہے۔ انہیں ہمارے نوجوان شعرا دیکھیں۔ یہ شاعر کے انتخاب الفاظ و معانی کی قوت و توانائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں آپ سے یہ سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ مثال کے طور پر مادہ تاریخ کہیں۔ نہیں، اس بات پر توجہ دیں کہ یہ شاعر کتنا قوی ہے کہ محکم الفاظ اور متیں معانی کو اتنی محدودیت کے باوجود بیان کرتا ہے خلق کرتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ یہ ایک نکتہ تھا جو میں عرض کرنا چاہتا تھا۔
ایک اور مسئلہ فارسی زبان کی پاسداری کا ہے۔ میرے خیال میں فارسی زبان پوری طرح مظلوم واقع ہوئی ہے۔ اس وقت کچھ کام ہو رہے ہیں، بعض لوگ انجمنوں میں کچھ کام کر رہے ہیں، لیکن فارسی زبان کی تقویت کے لئے اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ فارسی زبان میں بڑی کشش پائی جاتی ہے، یہ ان زبانوں میں شامل ہے جن میں توسیع آ سکتی ہے۔ اس لئے کہ یہ ترکیبی زبان ہے اور اس کی ترکیبات بہت خوبصورت ہیں اور اس زبان میں کسی بھی مفہوم کو بیان کرنے میں مشکل نہیں ہوتی۔ بہت ہی دقیق علمی مفاہیم، بہت ہی گہرے روحانی مفاہیم، ہر انتہائی باریک اور ظریف مفہوم فارسی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ بعض زبانوں میں واقعی بیان نہیں کئے جا سکتے، لیکن اس زبان میں بیان کئے جا سکتے ہیں۔ بعض مفاہیم ایسے ہیں کہ انہیں دوسری زبانوں میں منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ
شادم کہ از رقیبان دامن کشان گذشتی گر مشت خاک ما ھم برباد رفتہ باشد (11)
(یعنی خوش ہوں کہ رقیبوں کے درمیان سے دامن گھسیٹتے ہوئے نکل گئے اگر میری مشت خاک بھی ہوا میں اڑ گئی ہو)
اس "دامن کشان گذشتی" کا ترجمہ عربی میں کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ ہم "اس دامن کشان گذشتی" کا ترجمہ کرنا چاہتے ہیں، مجھے عربی اچھی طرح آتی ہے۔ اس کا ترجمہ کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اس کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ قابل ترجمہ نہیں ہے۔ لیکن اس شاعر نے ایک لطیف اور ظریف مفہوم کو اسی لفظ "دامن کشان" کے ساتھ اس شعر میں بیان کر دیا ہے۔ یعنی اس طرح کی ظرافتیں فارسی زبان میں ہیں۔ ہم فارسی زبان کی طرف سے غفلت برت رہے ہیں۔ اس وقت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اغیار کی زبانوں کی یلغار بڑھ گئی ہے۔ یورپی زبانوں کی یلغار، مغربی زبانوں، بالخصوص انگریزی کا استعمال بڑھ گیا ہے، یونہی بے دریغ (انگریزی کے الفاظ) استعمال کئے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے برعکس ہونا چاہئے۔ فارسی کے متبادل الفاظ کی ترویج ہونی چاہئے۔ ہم نے "ہیلی کاپٹر" کی جگہ " بالگرد" لفظ متعارف کرایا جو ہیلی کاپٹر سے خوبصورت بھی ہے اور زیادہ آسان بھی۔ ایرانی بھی ہے اور معنی دار بھی۔ افغانوں نے اس کا ترجمہ چرخ بال کیا تھا جو صحیح نہیں تھا۔ "بالگرد" "چرخ بال" سے بہتر ہے۔ ہم اس طرح کے کام کافی کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے آج رات کی ملاقات کے لئے میرے پاس کچھ تحریریں بھیجی تھیں، فیض صاحب (12) کی تحریر میں ایک لفظ مجھے بہت اچھا لگا "رایانہ سپہر" مجھے نہیں معلوم کس نے یہ لفظ بنایا ہے۔ لیکن اچھا ہے! سائبر اسپیس کا فارسی ترجمہ، "فضای مجازی" کے بجائے "رایانہ سپہر" کیا ہے۔ اس طرح کے کام بہت ہیں۔ عجیب بھی نہیں لگتا ہے۔ اس کو بولنے لگیں تو دیکھیں گے کہ خوبصورت بھی ہے۔ میرے خیال میں یہ کام بھی ہونا چاہئے۔ امید ہے کہ رفقا یہ کام آگے بڑھائيں گے۔ یعنی فارسی زبان میں ولایتی الفاظ کی تعداد مزید نہ بڑھنے دیں۔ بلکہ ان الفاظ کو کچھ کم کریں اور فارسی زبان کو خالص کریں تاکہ ان شاء اللہ اصلی فارسی زبان ہو۔
بہرحال آج کی رات بہت اچھی تھی۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ رفقا کامیاب ہوں گے۔ جن لوگوں کے اشعار سننے کا موقع نہ مل سکا، ان شاء اللہ بعد میں ان کے اشعار سے استفادہ کر سکیں گے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ اس ملاقات میں پہلے کچھ شعرا نے اپنے اشعار سنائے
2۔ مورخہ 5-4-2023 کو فارسی ادب کے اساتید اور شعرا کے اجتماع سے خطاب
3۔ اٹھارھویں صدی کا جرمن شاعر اور مصنف
4۔ شاعر مشرق علامہ اقبال
5۔ سال 1986 کا سفر پاکستان
6۔ دیوان صائب تبریزی کی مشہور غزل "زخلوت برنمی آیی چہ حاصل بہ چشم تر نمی آيی چہ حاصل" کا شعر
7۔ محمد مہدی جواہری
8۔ لفظ یا جملہ، یا وہ عبارت جو معمولا کسی شعر میں ہوتی ہے اور ابجد کے اعداد کے لحاظ سے کسی اہم تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
9۔ میرزا محمد صادق کاشی المتخلص بہ ناطق کے ترانے
10 مآخذ میں 62 اشعار کا ذکر ہے۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ 256 اشعار ہیں
11۔ دیوان حزیں لاہیجی۔ معروف غزل " ای وای بر اسیری کز یاد رفتہ باشد در دام ماندہ باشد، صیاد رفتہ باشد " کا شعر
12۔ جناب ناصر فیض