بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطاھرین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین.

میرے لیے یہ نشست بہت دلکش، شیریں اور جمیل ہے جو آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسم مبارک کی برکت سے یہاں تشکیل پائي ہے۔ ماضی میں ہمارے برادر علمائے اہلسنت کے ساتھ کبھی کبھی ہماری نشستیں ہوتی تھیں، خاص کر بلوچ علماء سے جن کے ساتھ میرا زیادہ رہنا ہوا ہے لیکن کچھ عرصے سے ہم نے آپ حضرات کی زیارت نہیں کی تھی، بحمد اللہ آج آپ لوگ یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ آپ میں سے بعض حضرات سے جیسے جناب مولوی عبدالرحمن، مولوی ساداتی، جناب ملا قادر، جو اس نشست میں نہیں ہیں اور جناب مولوی عبدالصمد وغیرہ سے ہمارے پرانے مراسم اور دوستی ہے، بعض سے ایرانشہر میں جلاوطنی کے زمانے سے اور بعض سے انقلاب کے اوائل سے۔ الحمد للہ یہاں جو افراد ہیں وہ ہمارے ملک کے اہلسنت کے چنندہ افراد ہیں۔ آپ لوگوں نے جو باتیں بیان کیں وہ بہت اچھی اور صحیح تھیں اور ان شاء اللہ خداوند عالم ہماری مدد کرے کہ ہم سب اسلام کے اعلیٰ اہداف کی سمت بڑھتے رہیں۔

میری بنیادی تاکید، "امت مسلمہ" پر ہے۔ میں برسوں سے خاص طور پر لفظ "امت مسلمہ" پر جان بوجھ کر زور دے رہا ہوں تاکہ ہم یہ نہ بھولیں کہ ہم ایک امت ہیں۔ جی ہاں ہم میں سے بعض ایرانی ہیں، بعض عراقی ہیں، بعض شامی ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سرحدیں امت مسلمہ کی حقیقت کو نہیں بدلتیں۔ اسلام کے دشمنوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہمیں اس واحد تشخص سے جس کا نام امت مسلمہ ہے لاپروا کر دیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میں خود کو مسلمان سمجھوں لیکن اس تکلیف و فریضے سے جو ایک مسلمان میانمار میں یا غزہ میں یا ہندوستان میں یا فلاں جگہ اٹھا رہا ہے، خود کو غافل سمجھوں، یہ نہیں ہو سکتا، یہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ ممکن ہے کہ آپ خود اس کی مدد کے لیے کوئي کام نہ کر پائيں لیکن ہمدلی اور ہمدردی ایسی حقیقت ہے جو ہونی ہی چاہیے۔

ہماری پوری کوشش، میری زیادہ کوشش اور میری سعی شیعہ اور سنی کے مسائل اور یہ جو مسائل ملک میں پائے جاتے ہیں ان کے بارے میں اس وجہ سے ہے کہ ہم "امت مسلمہ" کے عنوان کو فراموش نہ کریں۔ میری گزارش ہے کہ آپ حضرات نماز جمعہ میں اور ان اجتماعات میں جو مختلف میدانوں میں اہلسنت کے نمایاں اور اہم افراد کے سلسلے میں منعقد ہوتے ہیں، "امت مسلمہ" کے اس عنوان کو دوہراتے رہیے۔ ایسا کام کیجیے کہ ہم بیدار ہو جائيں، یہ جان جائيں کہ ایرانی ہونے کی صفت کے علاوہ بھی ہماری ایک زیادہ اونچی اور اہم شناخت ہے اور وہ مسلمان ہونا اور امت مسلمہ کا حصہ ہونا ہے، یہ ایک اصل اور بنیادی بات ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہی کچھ درجن افراد کا مجمع، جو یہاں تشریف رکھتے ہیں، یقینی طور پر دنیا میں کچھ دشمنوں کو ردعمل دکھانے پر مجبور کرے گا، ہمارا صرف ایک ساتھ بیٹھنا ہی، کچھ لوگوں کو ردعمل دکھانے پر مجبور کرے گا۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو، وہ نہیں چاہتے کہ مذہبی اختلافات نہ ہوں۔ البتہ اس سلسلے میں انگریزوں کو زیادہ تجربہ ہے، امریکیوں نے بھی حال میں ان سے سیکھ لیا ہے۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ ہمارے ملک کے اندر اور دوسری تمام جگہوں پر شیعوں اور سنّیوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے بااثر فکری، تشہیراتی اور معاشی عناصر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ کام اور زیادہ بڑھ گیا، انقلاب سے پہلے کی نسبت کئي گنا زیادہ ہو گيا۔ انقلاب سے پہلے دشمن، ملک کے اندر اس سلسلے میں کم کام کیا کرتے تھے، انقلاب کے بعد انھیں یہ محرّک مل گيا کہ اختلاف کے ایک سبب میں شدت پیدا کر دیں، اختلاف کا کوئي سبب وجود میں لے آئيں اور ان کی نظر میں سب سے اچھا حربہ، مذہبی اختلاف کا تھا کہ اِس طرف کے کچھ لوگوں کو ورغلائيں کہ وہ اُس طرف والوں کو ضد دلائيں، توہین کریں، بدگوئي کریں اور اُس طرف کے کچھ لوگوں کو ورغلائيں کہ وہ اِس طرف والوں کے خلاف وہی کام کریں۔ یہ مخالفت پائي جاتی ہے، تو جب یہ مخالفت پائي جاتی ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ ہم "اتحاد" پر تکیہ کریں۔

جیسا کہ اشارہ کیا گيا، اتحاد ایک ٹیکٹک اور حکمت عملی نہیں ہے، اتحاد اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے، وحدت ایک قرآنی امر ہے۔ یہ جو قرآن فرماتا ہے: "وَ اعتَصِموا بِحَبلِ اللہِ جَمیعاً وَ لاتَفَرَّقوا"(2) یہ بہت اہم ہے، یعنی اعتصام بہ حبل اللہ (اللہ کی رسّی کو تھامنا) میں بھی کہ جو سب سے اہم کاموں میں سے ہے، اجتمعوا (اکٹھا رہو) یعنی اللہ کی رسی کو تھامنے تک میں، جس کا مظہر مثال کے طور پر حج ہے، اس کا مظہر نماز جمعہ ہے، ایک دوسرے سے اتفاق اور اجتماع، قرآن اور اسلامی شریعت کے مدنظر ہے، یہ چیز بہت اہم ہے۔ یا سورۂ حجرات کی ان آيتوں میں "وَ اِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنینَ اقتَتَلوا فَاَصلِحوا بَینَھُما فَاِن بَغَت اِحداھُما عَلَى الاُخرى‌ فَقاتِلُوا الَّتی‌ تَبغی حَتّىٰ تَفی‌ءَ اِلىٰ اَمرِ اللہ"(3) یعنی مسلمانوں کا اتفاق اور اتحاد اس قدر اہم ہے کہ اگر کسی نے بغاوت اور زیادتی کی تو اس سے لڑنا چاہیے، اس مسلمان سے لڑنا چاہیے تاکہ ہم اسے اتحاد کی طرف واپس لے آئيں، اتحاد اس قدر اہم ہے! ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اس کے بعد "اِنَّمَا المُؤمِنونَ اِخوَۃٌ فَاَصلِحوا بَینَ‌ اَخَوَیکُم"(4) ہے۔ مطلب یہ کہ اتحاد کا مسئلہ، قرآن کا ایک بنیادی اصول ہے اور ہمیں اس سے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔‌

کچھ لوگ اتحاد کو کمزور بناتے ہیں، کچھ تو جان بوجھ کر اور کچھ نادانستہ طور پر۔ فریقین کے عوام نادانستہ طور یہ کام کرتے ہیں جبکہ بہت سے خواص جان بوجھ کر یہ کام کرتے ہیں، ان کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ یہ نہیں سمجھتے، عالم اسلام کے لیے، خود اسلام کے لیے، امت مسلمہ کے لیے، تمام مسلم اقوام کے لیے مذہبی اختلاف کے نقصان کو یہ سمجھ نہیں پاتے، انسان کو تعجب ہوتا ہے کس طرح یہ لوگ یہ بات نہیں سمجھتے۔ یہ فریق مخالف کو مشتعل کرتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ ایک تکفیری دھڑا سامنے آ جاتا ہے، شیعہ عالم کو بھی قتل کرتا ہے، سنندج کے شیخ الاسلام(5) کی بھی جان لیتا ہے، بلوچستان کے مولوی حسین بر(6) کو بھی مار دیتا ہے، اس کے لیے ان کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے، اس شیعہ اور سنّی سے کوئي فرق نہیں پڑتا، وہ ہر اس شخص کا دشمن ہے جس کے اندر اتحاد کا جذبہ ہے۔ تو یہ دشمن ہے، اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

البتہ میں واقعی خدا کا شکر گزار ہوں کہ بحمد اللہ ہمارے ملک کی سطح پر اہلسنت نے ان تمام سازشوں اور معاندانہ حربوں کا مقابلہ کیا، جدوجہد کی۔ جناب نے اشارہ کیا کہ چاہے مقدس دفاع میں اور چاہے دوسرے مواقع پر ہمارے یہاں اہلسنت کے پندرہ ہزار افراد شہید ہوئے ہیں، مختلف جگہوں پر علمائے اہلسنت شہید ہوئے ہیں، حق کی راہ میں، انقلاب کی راہ میں کتنے علمائے اہلسنت شہادت کے درجے پر پہنچے ہیں۔ ہمارا ہدف، امت مسلمہ کی عزت ہے اور امت مسلمہ کی عزت، اتحاد و اتفاق کے بغیر حاصل نہیں ہوگي۔ ہم سبھی کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہیے۔

میرے خیال میں آج ایک حتمی فریضہ، غزہ اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت ہے۔ یقیناً یہ ان واجبات میں سے ایک ہے جس پر اگر ہم نے عمل نہ کیا تو اس کے بارے میں خداوند عالم ہم سے قیامت میں سوال کرے گا۔ جو بھی جس طرح سے کر سکتا ہے کرے، کوئي پیسے دے سکتا ہے، کوئي ہتھیار دے سکتا ہے، کوئي سیاسی مدد کر سکتا ہے، کوئي پروپیگنڈہ کر سکتا ہے، منبر سے، نماز جمعہ میں باتیں بیان کر سکتا ہے، اگر ہم نے اس فریضے سے منہ موڑا تو قطعی طور پر ہم جوابدہ ہوں گے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم امت مسلمہ کو سربلند کرے۔

میں آپ برادران عزیز کا شکر گزار ہوں کہ آج یہاں تشریف لائے اور اسی طرح جناب محمدیان(7) اور ان کے دوستوں کا بھی جنھوں نے یہ نشست منعقد کی اور میرے لیے اس توفیق کا سامان فراہم کیا کہ میں یہاں آپ کی زیارت کر سکوں۔

ان شاء اللہ خداوند عالم امت مسلمہ کو سربلند کرے، خداوند عالم ان شاء اللہ مختلف مسالک و مذاہب کے مسلمان بھائيوں کے دلوں کو روز بروز ایک دوسرے سے زیادہ قریب کرے، دینی مشترکات کو ان کی نظر میں بڑا کرے۔ ہمارے اتنے زیادہ مشترکات ہیں، ہم ان مشترکات کو نہیں دیکھتے اور زیادہ تر اختلافی موضوعات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ خداوند عالم ان شاء اللہ مدد کرے کہ ہم ان مسائل پر عمل کر سکیں۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں مولوی عبدالرحمن چابہاری (صوبۂ سیستان و بلوچستان کے عالم اہلسنت اور چابہار کے امام جمعہ)، مولوی عبدالرحیم خطیبی (صوبۂ ہرمزگان کے ایک اہلسنت عالم دین اور قشم کے امام جمعہ) اور ماموستا عبدالسلام امامی (صوبۂ مغربی آذربائيجان کے سنّی عالم دین اور مہاباد کے امام جمعہ) نے مختصر تقاریر کیں۔
  2. سورۂ آل عمران، آيت 103، "اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔"
  3. سورۂ حجرات، آيت 9، "اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر تعدی و زیادتی کرے تو تم سب ظلم و زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ حکمِ الٰہی کی طرف لوٹ آئے۔"
  4. سورۂ حجرات، آيت 10، "بےشک اہلِ ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو تم اپنے دو بھائیوں میں صلح کراؤ اور اللہ (کی معصیت) سے ڈرو۔"
  5. ماموستا محمد شیخ الاسلام 17 ستمبر 2009 کو سنندج کی سید قطب مسجد کے سامنے گولی کا نشانہ بن کر شہید ہوئے۔
  6. مولوی فیض محمد حسین بر پر 17 مئي 1981 کو قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ گولی لگنے سے شہید ہو گئے۔
  7. رہبر انقلاب کے دفتر کے دینی مدارس کے روابط کے امور کے ڈائریکٹر حجت الاسلام والمسلمین محمد محمدیان