بسم اللہ الرّحمان الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین المنتجبین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین۔

 سبھی خواہران و برداران عزیز، ہفتہ وحدت کے مہمانوں اور تہران میں اسلامی ملکوں کے نمائندوں کا خیرمقدم کرتا ہوں اور میلاد حضرت نبی اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور حضرت امام جعفرصادق (سلام اللہ علیہ) کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔  امید ہے کہ خدا وند عالم اس عید کو ایرانی قوم اور پوری امت اسلامیہ اور مسلمین عالم کے لئے مبارک قرار دے گا۔

 جناب صدر محترم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج کا اہم ترین اور بنیادی نکتہ، وحدت اسلامی کا مسئلہ، جس کی طرف میں بھی ان شاء اللہ اشارہ کروں گا، انھوں نے بہت اچھی طرح بیان کیا۔

میلاد پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دن تاریخ کا ایک استثنائی دن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم کی ولادت  ختم نبوت کا لازمی پیش خیمہ ہے۔ ختم نبوت در اصل انسان کی سعادت و رفعت کا مکمل ترین وسیلہ ہے۔ بنابریں یہ دن بہت اہم ہے۔

میں چند جملے پیغمبران خدا کی تحریک کے بارے میں عرض کروں گا۔ اگر ہم،  سفر بشریت کی عمومی  تاریخ کو ایک ایسے کارواں سے تشبیہ دیں جو ایک راستے پر گامزن ہے اور بشریت اس راہ زمان میں آگے بڑھ رہی ہے، تو یقینا انبیائے الہی اس کے کارواں سالار ہوں گے۔ انبیائے الہی راستہ بھی دکھاتے ہیں اور افراد بشر کے اندر راستے کی سمت کو تشخیص دینے کی صلاحیت کی تقویت بھی کرتے ہیں۔ صرف راستہ نہیں دکھاتے بلکہ افراد بشر میں تشخیص کی توانائی اور صلاحیت بھی بڑھاتے ہیں۔ امیر المومنین کے الفاظ میں لیستادوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسیّ نعمتہ...ویثیروا لھم دفائن العقول۔(2)

لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آتے ہیں کہ فطرت کو بیدار کرتے ہیں، عقل و خرد سے کام لینے کی قوت بڑھاتے ہیں اور فکر کو فعال کرتے ہیں جس کے وسیلے سے انسان آگے بڑھ سکتا ہے۔

 بعض ادوار میں اس کارواں میں شامل لوگوں یعنی افراد بشر نے انبیا کی بات سنی، جو راستہ انھوں نے دکھایا، اس پر چلے اور اس کے نتائج بھی انہیں ملے اور بعض ادوار میں اس کے برعکس کچھ لوگوں نے انبیا کی مخالفت کی ، ان کی باتوں پر توجہ نہیں دی،  اور ان کی ہدایت کو نظر انداز کر دیا تو اس کے برے نتائج انھوں نے دیکھے۔

  اسی طرح زمانہ اگے بڑھتا رہا۔ بعض نے ہدایت حاصل کی اور بعض نے ہدایت حاصل نہیں کی اور تاریخ بشریت میں ان کے نتائج بھی سامنے آتے رہے۔ یعنی حق اور باطل اور ایمان اور کفر میں محاذ آرائیاں اور تصادم بھی وجود ميں آئے ۔ تاریخ بشریت کی مجموعی تصویر یہ ہے۔

 انبیا نے انسان کی یہ ہدایت اور مدد اور یہ دعوت مختلف طریقوں سے انجام دی ہے۔

قرآن نے مختلف مواقع پر ان سبھی طریقوں کو بیان کیا ہے۔ میں مثال کے طور پر ان میں سے چند کا ذکر کروں گا۔

ایک جگہ " وما علینا الّا البلاغ المبین"(3) ہے۔  کہا جاتا ہے کہ پیغمبروں کا کام پہنچانا ہے؛ بس یہی۔ وما علینا۔ اس کے علاوہ اورکوئی فریضہ نہیں ہے۔ ایک وقت اس طرح ہے۔ لیکن ایک وقت " ما ارسلنا من رسول الّا لیطاع باذن اللہ" (4) ہے۔ اطاعت ہونی چاہئے۔ یعنی سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور افراد معاشرہ کا فریضہ ہے کہ سنیں اور اطاعت کریں ۔ ایک جگہ فرماتا ہے کہ " ادع الی سبیل ربّک بالحکمۃ والمو‏عظۃ الحسنۃ و جادلھم بالّتی ھی احسن (5)  اس طریقے سے دعوت دی جاتی ہے اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ" وکایّن من نبی قاتل معہ ربّیّون کثیر فما وھنوا لما اصابھم فی سبیل اللہ (6) الی آخر۔ حالات کے لحاظ سے  کہیں خوش گفتاری ہے اور کہیں فوجی طاقت ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے "فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضّوا من حولک (7) سختی کی بات کی جاتی ہے ۔ غلیظ القلب یعنی اگر ‎سخت دل ہوتے  تو یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے " جاھدالکفّار والمنافقین و اغلظ علیھم (8) اسی سختی کی ہدایت فرماتا ہے۔ بنابرین طریقہ دعوت ایک ہی طرح کا نہیں ہے۔ مختلف حالات میں پیغمبروں کی دعوت کا طریقہ ، مختلف زمان و مکان میں مختلف رہا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ عقل بشر کی تقویت کرتے ہیں، قوت تشخیص بڑھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں یہ دیکھیں کہ اس دعوت کی تبلیغ کس طرح ہو سکتی ہے اور اس کو کس طرح آگے بڑھا سکتے ہیں۔   

 یہ باتیں جو میں نے عرض کیں، یہ توصیف ہے۔ ہم نے کہا کہ اس عظیم کاروان بشریت میں انبیا کاررواں سالار ہیں۔ بیشک ان تمام قافلہ سالاروں اور رہبروں میں حقیقی اور اصلی رہبر اور کارواں سالار خود حضرت محمد مصطفی ( صلی اللہ علیہ و الہ و سلم) ہیں ۔ عظیم عارف کے بقول:

         دراین رہ انبیا چون ساربانند   دلیل و رہنمای کاروانند

    وزایشان سیّدما گشت سالار     ھم او اول ھم او آخر در این کار (9) 

وہ اول ہیں اس لئے کہ پیغمبران الہی کی صفوں میں سب سے آگے ہیں اور آخری ہیں اس لئے کہ بشریت کے لئے کامل ترین آخری منصوبہ الہی پیش کرتے ہیں۔ 

یوم ولادت پیغمبر فطری طور پر اس خورشید کے طلوع کا دن ہے۔ عالم وجود کے اس گوہر لاثانی کی رونمائی کا دن ہے۔ بنابریں یہ عظیم دن ہے، اہم دن ۔ یوم میلاد پیغمبر کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہمیں اس سے درس حاصل کرنا چاہئے۔ صرف اس کی تعریف و توصیف کافی نہیں ہے۔ پیغمبر کا درس، کامل، جامع اور ہمہ گیر درس ہے جو پوری زندگی کے لئے ہے، زندگی کے ہر شعبے کے لئے ہے ۔ اس کا ہر حصہ کافی  تشریح و توصیف کے قابل ہے۔  

   زندگی پیغمبر اور دعوت پیغمبر کا ایک درس جو شاید ہمارے لئے عظیم ترین درس نبوی ہے، وہ امت سازی، یعنی امت اسلامیہ کی تشکیل ہے۔ آپ کی مکہ کی تیرہ سالہ مجاہدت ہجرت مدینہ پر ختم ہوئی اور اس ہجرت میں امت اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ امت اسلامیہ کی بنیاد، ہجرت مدینہ سے شروع ہوتی ہے، سختیوں، مشکلات، دشواریوں اور اہل صفہ کے سخت حالات سے رکھی جاتی ہے(10) اہل مدینہ نے، مہاجرین نے ایک طرح اور انصار نے دوسری طرح سے ‎سختیاں برداشت کی ہیں۔ مجاہدتوں، جدو جہد، اور فداکاریوں سے امت اسلامیہ  محکم ہوئی ؛ حیات مبارک پیغمبر کے دور کی جاں نثاریوں سے اور رحلت پیغمبر کے بعد، ایثار اور فداکاریوں سے اس کے اندر پائیداری آئی ۔  البتہ جس طرح اس کو چلایا گیا، اس سے بہتر چلایا جاسکتا تھا لیکن وہ امت اسلامیہ جس کی بنیاد پیغمبر اکرم نے مدینے کی محدود آبادی میں رکھی تھی وہ باقی رہی۔ آج ہمیں اس درس کی ضرورت ہے۔ آج ہم امت اسلامیہ سے محروم ہیں۔ اسلامی ممالک بہت ہیں، تقریبا دو ارب مسلمان دنیا میں ہیں لیکن انہیں امت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے کہ ان میں ہم آہنگی اور یک جہتی نہیں ہے۔  

 امت انسانوں کے اس مجموعے کو کہا جاسکتا ہے جس ميں سب کا ہدف اور جہت ایک ہو اور سبھی ایک ہی محرک اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ہم اس طرح نہیں ہیں۔ ہم  منتشر ہیں۔ اس انتشار کا نتیجہ دشمنان اسلام کا تسلط ہے۔ اس انتشار کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ باقی رہنے کے لئے ہمیں امریکا پر انحصار کرنا ہوگا۔ اگر ہم میں اختلاف و تفرقہ نہ ہوتا تو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ آج ہم متحد ہوکر، ہاتھ سے ہاتھ ملاکر، ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کر سکتے تھے، ایک دوسرے کی مدد کرسکتے تھے اور ایک یونٹ بن سکتے تھے۔ یہ یونٹ آج کی دنیا کی سبھی طاقتوں سے زیادہ طاقتور ہو سکتا تھا۔ چنانچہ کبھی ایسا ہی تھا۔  تمام تر کمیوں اور نقائص کے باوجود جو ان حالات میں تھے، چونکہ سب ایک تھے اس لئے ایک طاقت سمجھے جاتے تھے۔  لیکن آج ہم اس طرح نہیں ہیں۔ یہ آج کے دور میں ہمارے لئے سب سے بڑا سبق ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے قریب تر ہونا چاہئے۔

آج ہمیں امت اسلامیہ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں اس کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں کون مدد کرسکتا ہے؟ حکومتیں موثر ہو سکتی ہیں۔ لیکن حکومتوں میں اس کا جذبہ زیادہ قوی نہیں ہے۔ جو لوگ اس جذبے کی تقویت کر سکتے ہیں، وہ اسلامی دنیا کے خواص ہیں۔ یعنی آپ، سیاستداں، علما، دانشور، اسکالرس، بااثر طبقات، صاحبان فکر، شعرا، قلمکار، سیاسی و سماجی مبصرین، یہ لوگ موثر ہوسکتے ہیں۔

فرض کریں اگر دس برس تک پورے عالم اسلام کے سبھی اخبارات و جرائد اتحاد مسلمین کی تاکید کریں، مقالات لکھیں، شعرا اس بارے میں اشعار کہیں، مبصرین اور علمائے دین اس کا حکم دیں تو یقینا ان دس برسوں میں حالات یکسر تبدیل ہو جائيں گے۔اقوام بیدار ہوگئيں اور ان کے اندر اتحاد کا جذبہ پیدا ہوگیا تو حکومتیں اس جہت میں آگے بڑھنے پر مجبور ہو جائیں گی۔  خواص یہ کام کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ 

البتہ اتحاد اور امت اسلامیہ کی تشکیل کی جو بات میں کر رہا ہوں، اس کے دشمن بھی ہیں، دشمنان اسلام۔ دشمنان اسلام کے بارے میں سوچیں، یہ اہم نہیں ہے کہ کوئی کسی ملک کا دشمن ہے، اہم یہ ہے کہ کچھ لوگ اسلام کے دشمن ہیں۔ اگرچہ وہ  مسلمانوں  کے ایک حصے کو نابود کرنے کے لئے دوسرے حصے سے نزدیک ہوتے ہیں، لیکن در اصل وہ اسلام کے دشمن ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ امت اسلامیہ کی تشکیل ہو۔ وہ نہيں چاہتے کہ یہ اتحاد وجود میں آئے۔ وہ اسلامی دنیا میں مذہبی خلیج  پیدا کرتے ہیں۔ دینی اور اعتقادی اختلافات، معاشروں میں سب سے زیادہ دوریاں اور خلیج  بڑھاتے ہیں۔ جیسے زلزلہ وجود ميں لانے والے خلا ہوتے ہیں۔ اگر یہ خلیج اور خلا فعال ہو جائيں تو انہیں آسانی سے نہیں بھرا جا سکتا۔ صلیبی جنگیں دو سو سال تک چلیں۔ واقعی صلیبی تھیں، واقعی دینی جنگیں تھیں، یہ کام دینی تعصبات کی بنیاد پر شروع کیا گیا تھا۔ وہ نہیں چاہتے ( کہ مسلمانوں میں اتحاد ہو) ہمیں دشمن کی کوششوں پر غالب آنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے  امام (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے سے اسلامی دنیا کے، شیعہ اور سنی اتحاد کی تاکید کرتے تھے ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اسلامی دنیا کی طاقت اتحاد میں ہے اور دشمن یہ نہیں چاہتا لہذا کوشش کرتا ہے کہ اسلامی دنیا متحد نہ ہو۔ آج ہمارے لئے آنحضرت ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا درس یہ ہے۔

البتہ اس سلسلے میں ہمیں خود اپنے آپ پر، اپنے ملک کے عوام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پیغام اتحاد  کو دنیا میں صادقانہ سمجھا جائے تو ہمیں خود اپنے اندر بھی اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ طریقہ کار کے اختلاف، نظریاتی اور سیاسی اختلاف کو ہمارے ایک دوسرے کا دست بازو بننے اور ہمارے عوام کی یک جہتی اور ہمدلی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ ہمیں حقیقی اہداف کی طرف آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر یہ ہدف حاصل ہوگیا تو پھر دشمن، صیہونی حکومت جیسی خباثت اور گندگی کی دلدل کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ اس خطے میں اتنے جرائم انجام دے۔  

آج آپ دیکھیں کہ صیہونی حکومت کیا کر رہی ہے۔ یعنی بے شرمی کے ساتھ کھلے عام جرائم  کا ارتکاب کر رہی ہے۔ غزہ ، غرب اردن، لبنان اور شام ہر ایک کے خلاف حقیقی معنی میں جرم و جارحیت کر رہی ہے۔ اس کے جرائم کا نشانہ بننے والے جنگجو نہيں ہیں، عام لوگ ہیں، عوام ہیں۔ صیہونی،  فلسطین میں مردان جنگ پر کوئی وار نہيں لگا سکے ۔ ان کا جاہلانہ اور خباثت آلود غصہ بچوں پر ، اسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں پر، اسکولوں پر اور نوزائیدہ بچوں پر اترتا ہے۔

 یہ سب اس لئے ہے کہ ہم اپنی اندرونی طاقت سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ ہمیں اس سے کام لینا چاہئے۔ ہماری اندرونی طاقت صیہونی حکومت کو، اس سرطانی پھوڑے کو قلب عالم اسلام، یعنی فلسطین سے باہر نکال سکتی ہے۔اس کو ختم کر سکتی ہے۔ امریکا کی زور زبرستی پر مبنی مداخلت اور تسلط کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ ہم یہ کام کر سکتے ہیں۔

آج مجرمین اور دہشت گردوں کے اس گینگ کے خلاف جو سرزمین فلسطین پر غاصبانہ حکومت کر رہا ہے اور اس سرزمین کو اس نے ویران کر دیا ہے، اسلامی دنیا کے اتحاد کی سمت میں پہلا قدم اور پہلا کام یہ ہے کہ اسلامی ممالک ان مجرمین کے ساتھ اپنے اقتصادی روابط  بالکل منقطع کر لیں، یہ کمترین کام ہے جو وہ کر سکتے ہیں۔ یہ کام ہونا چاہئے۔ اقتصادی روابط ختم کر لیں، سیاسی روابط محدود کر لیں، اس کے خلاف اخبارات وجرائد اور دیگر ابلاغیاتی ذرائع کے حملوں کی تقویت کریں اور صراحت کے ساتھ آشکارا طور پر اعلان کریں کہ مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں۔   

امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ہماری ہدایت فرمائےگا۔ حکومتوں، اقوام اور خواص ہم سب کی ہدایت فرمائے گا کہ ہم اپنا یہ فریضہ ادا کر سکیں۔  

 والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1۔ اس ملاقات میں پہلے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے مختصر تقریر کی۔

2۔ نہج البلاغہ خطبہ 1؛ تاکہ خدا کی شناخت کے اس عہد کو جو فطرت انسانی میں تھا، ایک بار پھر طلب کریں ، فراموش شدہ نعمت کو یاد کریں  اور علم و دانش کے پنہاں خزانے کو باہر نکالیں۔

3۔  سورہ یسین آیت نمبر 17 " اور ہمارا فریضہ آشکارا پیغام پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔"

4۔ سورہ نساء آیت نمبر 64 "اور ہم نے کسی بھی پیغمبر کو اس کے علاوہ کسی اور مقصد سے نہیں بھیجا ہے کہ توفیق الہی سے اس کی اطاعت کریں۔"

5۔  سورہ نحل آیت نمبر 125 "حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے اپنے پروردگار کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاؤ اور ان سے پسندیدہ ترین انداز میں مباحثہ کرو"

6۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 146" اور کتنے پیغمبر آئے کہ جن کے ہمراہ لوگوں کے جم غفیر نے جنگ کی اور راہ خدا میں ان تک جو پہنچا اس کے تعلق سے کوتاہی نہیں کی اور کمزور نہیں ہوئے۔

7۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 159" تو رحمت الہی کی برکت سے تم ان کے لئے مہربان ہو گئے اور اگر تم سخت دل اور تند خو ہوتے تو یقینا وہ تم سے دور ہو جاتے"

8۔ سورہ توبہ آیت نمبر 73 "یا پیغمبر، کافروں اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔"

9۔  شیخ محمود شبستری ۔ گلشن راز

10۔ وہ اصحاب پیغمبر جو مکے سے مدینے ہجرت کرنے کے بعد ایسی حالت ميں تھے کہ نہ ان کا کوئی گھر تھا، نہ رہنے کی کوئی جگہ تھی اور نہ سامان زندگی، وہ مسجد کے باہر کے حصے میں جس کو صفہ کہا جاتا تھا، رہتے تھے۔