طوفان الاقصیٰ آپریشن اور سات اکتوبر کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد آج عالم یہ ہے کہ غزہ نے 42 ہزار سے زیادہ شہیدوں اور 95 ہزار زخمیوں کے ساتھ، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں(1) انسانی تاریخ کے سب سے بڑے نسلی تصفیوں میں سے ایک کا سامنا کیا ہے۔ یہ نسل کشی، جسے صیہونی حکومت نے امریکا کی مکمل اور قطعی شراکت سے انجام دیا، اور امریکی اور اسرائیلی حکام کے اعتراف کے بموجب ایک سال تک اس کا تسلسل صرف امریکی حمایت سے ممکن تھا۔ امریکی کانگریس میں صیہونی حکومت کی مدد کے لیے مالی پیکجز کی منظوری، اسرائيل کو اسمارٹ بموں اور دفاعی سسٹموں کی فراہمی اور مقبوضہ علاقوں کے قریب امریکی بحری بیڑوں کی تعیناتی جیسی مختلف اسلحہ جاتی امداد، عالمی فورمز میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے تل ابیب کے مختلف دورے، اسرائیل میں امریکی فوجی افسران اور فوجیوں کی موجودگی اور پورے امریکا میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاجات کی سرکوبی، غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا ساتھ دینے میں گزشتہ ایک سال میں امریکا کی سیاہ کارکردگي کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔
تاہم صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکا کی شراکت یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ حالیہ دنوں میں دنیا نے اس "جرائم پیشہ گینگ" کے ساتھ امریکا کی شراکت کا ایک نیا پہلو دیکھا ہے۔ یہ جرم 17 ستمبر کو پورے لبنان میں بیک وقت سینکڑوں پیجرز اور وائرلیس سیٹوں کے دھماکوں سے شروع ہوا۔ ان دہشت گردانہ دھماکوں کے نتیجے میں 12 افراد، جن میں دو بچے اور دو میڈیکل اسٹاف شامل تھے، جاں بحق اور 2800 افراد زخمی بھی ہوئے۔(2) یہ جرم بین الاقوامی اداروں اور حتیٰ کہ مغربی حکام کی نظر میں بھی ایک واضح "دہشت گردانہ عمل" تھا۔ مثال کے طور پر، سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا: "ایک جدید ٹیکنالوجی میں، جو آج کل بہت زیادہ رائج ہے، دھماکہ خیز مواد رکھنا اور اسے دہشت گردانہ جنگ میں تبدیل کر دینا، واقعی ایک دہشت گردانہ جنگ، ایک نئی چیز ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی شک ہے کہ یہ ایک قسم کی دہشت گردی ہے۔"(3) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی ایک رپورٹ میں لبنان میں صیہونی حکومت کے اس دہشت گردانہ عمل کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی اور خوفناک خلاف ورزی قرار دیا۔(4)
اسی طرح حالیہ کچھ دنوں میں صیہونی حکومت کے فضائی حملوں کے نتیجے میں لبنان کے مختلف علاقوں میں اب تک 2 ہزار سے زائد افراد شہید اور ہزاروں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ البتہ ان صیہونی جرائم کے ایک اہم شکار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بچے ہیں اور صرف پچھلے کچھ ہی دنوں میں سیکڑوں لبنانی بچے شہید ہو چکے ہیں۔(5)
بلاشبہ صیہونی حکومت کی یہ دہشت گردانہ کارروائی ہمیشہ کی طرح امریکا کی حمایت اور تائيد سے ہی ہوئی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام سرکاری بیانات میں خود کو ان جرائم سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عالمی رائے عامہ بخوبی واقف ہے کہ چاہے امریکا کو پیشگی اطلاع ہو یا نہ ہو، اسرائیل جو بھی کارروائی کرتا ہے، امریکا اس کی حمایت کرتا ہی ہے۔ کچھ ماہ قبل بین الاقوامی تعلقات کے مشہور پروفیسر جان مرشائیمر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل کی لابی نے امریکی کانگریس پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ جو چاہتی ہے اسے حاصل کر ہی لیتی ہے۔"(6)
گزشتہ چند دہائیوں کا عالمی تجربہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کی طرف سے صیہونیوں کے تمام وحشیانہ اقدامات کے لیے ایک دائمی اور مستقل گرین سگنل موجود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر شہید ہنیہ کے قتل کے معاملے کو ہی لیجیے، امریکی حکومت کی جانب سے اس قتل کی باضابطہ حمایت نہ کیے جانے کے باوجود، مزاحمتی محور کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر اس نے فوراً USS لنکن جیسے اپنے کئی بحری جنگي جہاز اسرائیل کی حمایت میں علاقے میں تعینات کر دیے۔ اس کے علاوہ، صیہونی حکومت کی حمایت کے لیے سینٹکام کے کمانڈر کی علاقے میں موجودگی کی کئي خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔(7) اس کے علاوہ امریکی حکومت کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد بھی ہے جو صیہونیوں کی ہر کارروائي کے بعد ان کی غیر قانونی حیات کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ ان کے کام آئی ہے۔ اس کی آخری مثال اگست میں شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کے لیے امریکا کی فوجی امداد ہے جو شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کو دی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیلی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ وہ علاقے میں جو بھی اقدام کریں گے، چاہے اس اقدام سے پہلے واشنگٹن اس کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، آخرکار انھیں امریکا کی دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی ہی۔ یہ وہ مستقل اور دائمی گرین سگنل ہے جو امریکا کی طرف سے اسرائیل کی کارروائيوں کے لیے ہمیشہ آن رہتا ہے۔
اس کے علاوہ، اس بات پر بھی توجہ ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں لبنان میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں کیے جانے والے بہت سے قتل براہ راست امریکا کے گرین سگنل پر بھی ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حزب اللہ کے کئی اعلیٰ کمانڈروں کو قتل کرنے کے لیے، جو حال ہی میں شہید کیے گئے، کئی سال پہلے خود امریکیوں نے دسیوں لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔(8) صیہونی حکومت کے جرائم کے لیے امریکا کا جدید ترین گرین سگنل نیویارک اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں دکھایا گيا اور فوراً ہی اس پر عمل کیا گيا۔ صیہونی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران مزاحمت کے بارے میں جھوٹے دعوے پیش کر کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی کارروائي کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور اس تقریر کے کچھ ہی منٹ بعد بیروت کے جنوب میں واقع ضاحیہ کی چھے رہائشی عمارتوں پر امریکا کے دو ہزار پونڈ کے بموں سے بمباری کی گئي اور اس کے بعد صبح تک شہر کے رہائشی علاقوں پر چالیس سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس وحشیانہ بمباری کے دوران ہی امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے صیہونی حکومت کے خلاف کسی طرح کا منفی ردعمل ظاہر کیے بغیر، تنازعات کو حل کرنے کے لیے سفارتکاری کی ضرورت کے بارے میں بات کی!
آخر میں؛ رہبر انقلاب اسلامی نے 25 ستمبر 2024 کے اپنے حکمت آمیز خطاب میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی ہمہ گير اور مستقل حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں! انھیں خبر بھی ہے، وہ دخل بھی دے رہے ہیں اور انھیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت بھی ہے۔"