سوال: جناب عراقچی صاحب! آپ نے خطے کے اپنے حالیہ دوروں میں، جسے رہبر انقلاب نے بھی سراہا ہے، ان ملکوں کے سربراہوں سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں ایران کو دھمکانے میں ممکنہ طور پر صیہونی حکومت کا ساتھ دینے کے سلسلے میں آپ نے انھیں کیا انتباہ دیا اور آپ کے خیال میں ان انتباہات کا واقعات کے عمل پر کیا اثر پڑا؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ دیکھیے ان دوروں میں ہم نے خطے کے مسائل کے بارے میں، اپنے دفاع اور مزاحمتی محاذ کے دفاع کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹھوس موقف کو کھل کر بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ اسلامی جمہوریہ اپنے عزم میں پوری طرح سنجیدہ ہے اور اس نے فلسطین کے عوام کی مدد اور صیہونی حکومت سے مقابلے کی جو راہ اختیار کی ہے، اسے وہ پوری سنجیدگي سے جاری رکھے گی۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ پچھلے چار عشروں میں اس طرح کے نشیب و فراز بہت آئے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ ان سے اسلامی جمہوریہ ایران کے عزم و ارادے میں ذرہ برابر بھی خلل آئے گا۔ اسی طرح اپنے دفاع کے لیے ایران کی توانائي اور ایران پر حملے کا ارادہ رکھنے والوں کے خلاف جوابی کارروائي کی اس کی توانائي کی بھی ان کے سامنے تشریح کی اور ان سے کہا گيا کہ بہتر ہوگا کہ کوئي اپنے دفاع کے لیے ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران کے عزم کو آزمانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ وہ پیغام تھا جو ان تمام ملکوں کو دیا گيا۔ اس پیغام کے ساتھ ہی کشیدگي کم کرنے اور ہمسایگي کے اچھے رشتے استوار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گيا۔
ہم نے ان سے کہا کہ جس طرح اسلامی جمہوریہ ایران، مرد جنگ ہے، اسی طرح اپنے ہمسایوں کے سلسلے میں مرد امن و صلح ہے۔ ہم کشیدگي کے خواہاں نہیں ہیں، ہم خلیج فارس اور اس سے بھی آگے تک کے علاقے میں اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ صیہونی حکومت کا حساب الگ ہے، خطے سے باہر کی طاقتوں کا حساب الگ ہے لیکن ہمسایگي کی پالیسی میں، جو شہید رئیسی کی پچھلی حکومت میں شروع ہوئي تھی، ہم پوری طرح سے سنجیدہ ہیں اور اسی لیے ہم نے ان دوروں میں ایک ہمہ گير ڈپلومیسی کو آگے بڑھایا اور مجھے لگتا ہے کہ اس کے نتائج بھی سامنے آ گئے ہیں۔
سوال: جناب وزیر صاحب! اپنے مفادات اور ارضی سالمیت کے تحفظ کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کے عزم کی حد کیا ہے؟ کیا ایران سے تحمل سے کام لینے کی جو ریاکارانہ باتیں کہی جا رہی ہیں، ان کی وجہ سے جارح حکومت کو سزا دینے میں کچھ کوتاہی کی جائے گي؟
جواب: مجھے لگتا ہے کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ اپنے دفاع کے لیے ہمارے عزم کی کوئي حد نہیں ہے۔ یہ بات ہم نے صدام کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ میں بھی ثابت کی، پچھلے برسوں کے دوران امریکا کی دشمنی سے مقابلے میں بھی ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں۔ امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے میں اور رونما ہونے والے تمام واقعات میں ہم نے ثابت کیا ہے کہ اپنے عوام کے دفاع میں ہم کسی بھی حدبندی کے قائل نہیں ہیں۔ ہم اپنی سرزمین اور اپنے وطن کی ہر بالشت نہیں بلکہ ہر سینٹی میٹر کا دفاع کریں گے، ہم اسلامی جمہوریہ کے اہداف کا دفاع کریں گے اور ان اہداف کے لیے ہم پوری طرح ڈٹ کر کھڑے ہیں، مجھے لگتا ہے یہ چیز پوری دنیا دیکھ چکی ہے، اس کا آخری نمونہ وعدۂ صادق 1 اور 2 آپریشن ہیں جن پر ٹھوس طریقے سے عمل کیا گيا اور اسلامی جمہوریہ ایران اور ایران کے عوام پوری طاقت سے اس کے تمام نتائج کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! آخری سوال یہ کہ آپریشن وعدۂ صادق 1 اور آپریشن وعدۂ صادق 2 کا ملک کی ڈپلومیٹک طاقت کی تقویت اور ڈپلومیسی کا ہاتھ مضبوط بنانے میں کس طرح کا اثر رہا؟
جواب: دیکھیے اصولی طور پر سفارتکاری ملک کی داخلی طاقت کے عناصر پر مبنی ہوتی ہے۔ البتہ خود ڈپلومیسی بھی طاقت پیدا کر سکتی ہے لیکن ڈپلومیسی کی کامیابی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ اسے ملک کے اندر طاقت کے کن عناصر کا سہارا حاصل ہے۔ سفارتکاروں کے بازو ملکی طاقت سے مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ ملکی طاقت، فوجی طاقت بھی ہو سکتی ہے، معاشی طاقت بھی ہو سکتی ہے، سیاسی طاقت بھی ہو سکتی اور مذاکراتی طاقت بھی ہو سکتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے جو مذاکرات کیے ہیں وہ بھی اس کی طاقت کا ایک عنصر ہیں، البتہ اس کی دفاعی صنعت اور اس کے دفاعی ہتھیاروں کے ساتھ۔ یہ ساری چیزیں ہیں جو ایک سفارتکار کو مضبوط بنا کر پلیٹ فارم پر بھیجتی ہیں اور اسے طاقت عطا کرتی ہیں کہ وہ اپنے اہداف کو آگے بڑھا سکے۔ البتہ آگے بڑھتے بڑھتے خود سفارتکار بھی طاقت پیدا کر سکتا ہے یعنی وہ خود بھی اپنے ملک کے لیے طاقت کا ایک عنصر بن سکتا ہے۔ آپریشن وعدۂ صادق 1 اور 2 تو اپنے دفاع کے سلسلے میں اسلامی جمہوری ایران کی طاقت کا مکمل جلوہ تھے اور میرے خیال میں ہماری خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے والے ایک انجن تھے اور آگے بھی رہیں گے، ان شاء اللہ۔
* آپ کا شکریہ۔
* سلامت رہیے۔