5 آذر 1358 مطابق 26 نومبر 1979 کا دن، رضاکار فورس بسیج مستضعفین اور دو کروڑ کی فوج کی تشکیل کے لیے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے تاریخی فرمان کی یاد دلاتا ہے۔ یہ وہ فرمان تھا جس نے اسلامی انقلاب کی اقدار کے دفاع اور حفاظت کے لیے عوام کے مختلف طبقوں کو ایک پرچم تلے اکٹھا کر دیا۔ اگرچہ شروعات میں بسیج یا رضاکار فورس ملک کے اندر ہونے والی سازشوں اور غیر ملکی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عسکری تنظم محسوس ہوتی تھی اور خاص طور پر آٹھ سالہ مقدس دفاع میں اس نے ایران کی سرحدوں کی حفاظت اور دفاع میں بے نظیر کردار ادا کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے دکھا دیا کہ وہ ہر حساس سماجی موقع پر کردار ادا کرنے اور اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس عوامی فورس کی تشکیل میں امام خمینی کی بصیرت اور دور رس نگاہوں نے ملک اور مقدس اسلامی جمہوری نظام کو ہمیشہ کے لیے خطروں کے مقابل محفوظ کر دیا۔ اسی مناسبت سے ہر سال رضاکاروں کی ایک تعداد، اس عوامی تنظیم کے دسیوں لاکھ اراکین کی نمائندگي میں اسلامی جمہوریہ کے بانی کے اہداف کے سلسلے میں اپنے عہد اور رہبر انقلاب سے بیعت کی تجدید کے لیے حسینیۂ امام خمینی میں اکٹھا ہوتی ہے۔ اس سال بھی اپنے مقتدا کو قریب سے دیکھنے اور ان کے حکیمانہ بیان کو سننے کے لیے بسیجیوں کا اشتیاق اور جذبہ قابل دید تھا۔
5 آذر مطابق 25 نومبر 2024... ہلکی بوندا باندی کے ساتھ موسم خزاں کی ایک صبح جو رحمت الہی کی نوید دے رہی ہے ... صبح سویرے ہی رہبر انقلاب سے ملاقات کے مشتاق رضاکاروں کا جم غفیر گروہ در گروہ حسینیۂ امام خمینی میں داخل ہو رہا ہے۔ یہاں ہر صنف، قوم اور قبیلے کے افراد ہیں۔ اسکول اور کالج کے طلبہ سے لے کر یونیورسٹی کے پروفیسرز، دینی طلبہ، ڈاکٹرز، مزدور اور نوکری پیشہ افراد سبھی ہیں۔ اسی طرح ایرانی، کرد، لر، بلوچ، عرب، مازنی، گیلک اور ترکمن قوموں کے نمائندے بھی یہاں ہیں۔ کچھ لوگ اپنے رنگ برنگے اور خوبصورت مقامی لباس میں اس محفل میں آئے ہیں۔ مارشل آرٹ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کا ایک گروہ اپنے مخصوص لباس میں آيا ہے جس کا پیغام واضح ہے: ہم جنگ کے لیے تیار ہیں ... ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں دھیرے دھیرے ایک چھوٹا ایران بنتا جا رہا ہے۔ سبھی ہیں، عورت مرد، بچوں سے لے کر اسّی سال کے ضعیفت تک۔ رضاکار کے لیے عمر کی تو قید نہیں ہوتی۔ بس آپ نظام اور انقلاب کو اپنا دل دے دیجیے اور رہبر کے فرمان کی تعمیل کے لیے تیار رہیے، سمجھئے آپ بسیجی ہو گئے!
دھیرے دھیرے صفیں تشکیل پا رہی ہیں اور ہر صنف اور طبقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے جا رہے ہیں۔ سبھی نے سر پر لال اور ہرے رنگ کے ہیڈ بینڈ باندھ رکھے ہیں اور شانوں پر چفیہ (کوفیہ) ڈال رکھی ہے جس کے ایک طرف امام خمینی اور رہبر انقلاب کی تصویر ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمتی محاذ کے شہیدوں قاسم سلیمانی، ابو مہدی مہندس، سید حسن نصر اللہ، اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار وغیرہ کی تصویریں ہیں۔ کچھ لوگ کنارے جا کر تصویریں کھنچوا رہے ہیں۔ یہاں کوئي بھی اجنبی نہیں ہے، جو بھی یہاں پہنچتا ہے بڑی اپنائيت سے دوسروں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور کیمرہ مین اس ہمدلی اور یکجہتی کی تصویریں یادگار کے طور پر اپنے کیمرے میں محفوظ کرتے جا رہے ہیں۔ دھیرے دھیرے حاضرین کی تعداد کافی بڑھ گئي ہے اور اب بیٹھنے کے لیے جگہ باقی نہیں بچی ہے۔ انتظامیہ کے افراد صفوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے مزید سمٹ کر بیٹھنے کی درخواست کرنے پر مجبور ہیں تاکہ آنے والوں کو بھی جگہ مل سکے۔ جب سب لوگ بیٹھ گئے تو آگے کی صفوں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر رہبر انقلاب کی شان میں کچھ شعر پڑھنے شروع کیے جس کی حاضرین نے بہت تعریف کی۔ اس کے بعد تو ہر تھوڑی دیر بعد حاضرین میں سے کوئي کھڑے ہو کر کوئي نعرہ لگاتا ہے اور بقیہ لوگ بلند آواز سے اس کا جواب دیتے ہیں۔ یہ وہی نعرے ہیں جو ہمیشہ انقلابی اجتماعات کو رونق بخشتے ہیں۔ "ما اہل کوفہ نیستیم علی تنہا بماند... (ہم کوفے والے نہیں ہیں کہ علی تنہا رہ جائيں) "خونی کہ در رگ ماست ہدیہ بہ رہبر ماست... (ہماری رگوں میں جو خون ہے وہ ہمارے رہبر کے لیے نذرانہ ہے) اور "حیدر حیدر" وغیرہ۔ دس بج کر کچھ منٹ ہوئے تھے کہ اچانک پورا مجمع اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا... اپنے رہبر اور مقتدا کو دیکھ کر رضاکاروں کے جو جذبات ہیں، وہ ناقابل بیان ہیں۔ سبھی ہاتھ اٹھا کر اور "ای رہبر آزادہ، آمادہ ایم آمادہ" (اے آزاد منش رہبر، ہم تیار ہیں، تیار ہیں) رہبر انقلاب کا استقبال کرتے ہیں۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوتا ہے اور پھر ایران کے مشہور مدح خواں اور حماسی ترانے گانے والے الحاج صادق آہنگران ڈائس پر آتے ہیں۔ وہ اپنی فوجی وردی پہن کر آئے ہیں۔ سب سے پہلے بسیج اور مزاحتمی فورس کے بارے میں کچھ اشعار پڑھتے ہیں، پھر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام شہادت کی مناسبت سے کچھ اشعار پڑھتے ہیں اور پھر کچھ حماسی ترانے پڑھتے ہیں جن کا مجمع کی جانب سے بلند آواز میں جواب دیا جاتا ہے۔ آخر میں وہ اپنا سب سے مشہور ترانہ "ای لشکر صاحب زمان آمادہ باش آمادہ باش" پڑھتے ہیں جو حاضرین کے تصور کو مقدس دفاع کے زمانے میں اور باطل کے خلاف حق کے محاذ پر پہنچا دیتا ہے۔
اس کے بعد رضاکار فورس بسیج کے ایک اعلیٰ عہدیدار، اس فورس کی اہمیت اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کرتے ہیں اور پھر رہبر انقلاب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے خطاب سے حاضرین اور ٹی وی اور انٹرنیٹ پر اس پروگرام کو براہ راست دیکھنے والے لاکھوں رضاکاروں کو مستفید کریں۔ رہبر انقلاب کا خطاب شروع ہوتے ہی مجمع سراپا گوش بن جاتا ہے۔ ان کے خطاب کا ہر جملہ، ایک نکتہ اور ایک نصیحت لیے ہوئے ہے۔ بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں کاغذ اور قلم ہے اور وہ رہبر انقلاب کے خطاب کے اہم نکات نوٹ کر رہے ہیں۔ اس پرجوش اور اپنائیت بھری ملاقات سے، رہبر انقلاب کی رہنمائیوں اور نصیحتوں سے زیادہ گرانقدر تحفہ کیا مل سکتا ہے؟
رہبر انقلاب اسلامی اپنے خطاب کے آغاز میں بسیج اور رضاکار کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس رضاکار فورس کی تشکیل بے مثال کام تھا جس کی نظیر پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ یہ ہماری قوم سے نکلی اور تشکیل پائي ہے۔ خدا پر بھروسہ اور خود اعتمادی، ایسے دو بنیادی ستون ہیں، جن پر بسیج کی تشکیل ہوئي ہے اور انہی دو اصولوں پر بھروسہ کر کے رضاکار فورس بسیج اپنی راہ میں موجود ہر مشکل اور ہر رکاوٹ کو دور کر دیتی ہے۔ اس کے بعد رہبر انقلاب اس عمیق نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگرچہ بسیج، بظاہر ایک عسکری ادارہ ہے لیکن اس کے ثقافتی اور سماجی پہلو زیادہ اہم اور زیادہ گہرے ہیں۔ ایک دوسرا نکتہ جس پر شاید کم ہی توجہ دی گئي ہے اور رہبر انقلاب اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، یہ ہے کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کافی پہلے یعنی سنہ 1962-63 میں بسیج کی تشکیل کی کوشش شروع کر دی تھی۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا دوسرا حصہ مزاحمتی محاذ اور غزہ و لبنان میں صیہونیوں کے جرائم کے بارے میں ہے اور وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ گھروں پر بمباری، ان کی تباہی اور عام لوگوں کا قتل عام، صیہونیوں کی فتح نہیں بلکہ جنگي جرائم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نیتن یاہو اور اس کے وزیر جنگ کی گرفتاری کا وارنٹ کافی نہیں ہے بلکہ یہ لوگ سزائے موت کے حقدار ہیں۔ یہاں پر مجمع نعرہ تکبیر لگا کر اور اسرائیل مردہ باد کے فلک شگاف نعرے سے رہبر انقلاب کی بات کی تائيد کرتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا آخری حصہ اس نوید پر مشتمل ہے کہ اسرائيل کے مظالم اور جرائم نہ صرف یہ کہ مزاحمتی محاذ کو کمزور نہیں کر سکے ہیں بلکہ اس سے ان کی وسعت اور طاقت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور آخری فتح، حق کے محاذ کو ہی حاصل ہوگي۔
پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے اور رہبر انقلاب، حاضرین کے فلک شگاف نعروں کے درمیان حسینیۂ امام خمینی سے روانہ ہو جاتے ہیں لیکن ان کی امید بخش باتوں کی صدائے بازگشت اب بھی فضا میں موجود ہے: "باطل محاذ کی شکست اور حق کے محاذ کی فتح و کامرانی یقینی ہے۔" رضاکاروں کا دلی اطمینان اور مستحکم عزم اور زیادہ بڑھ گيا ہے۔