"اکثر مغربی ملکوں میں پندرہ سے انتیس سال کے جوانوں میں موت کے چار اصل اسباب میں سے ایک خودکشی ہے۔"(1،2،3،4)
یہ اعداد و شمار بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں: ایک نوجوان اپنے تمام تر جوش، جذبے اور نوجوانی کی انرجی کے باوجود، ان ممالک میں اس کی پیشرفت کے لیے پائے جانے والے تمام وسائل کے باوجود، فیملی اس سے جو اتنا پیار کرتی ہے اس کے باوجود اور اس کے دل میں موجود اتنی آرزوؤں اور اہداف کے باوجود کیوں اس طرح کا کام کرے گا؟
شاید ہمیں یہ سوالات پوچھنے میں اپنے مفروضات پر تھوڑا شک کرنا چاہیے۔ کیا واقعی مغرب میں جوانوں کے اندر زندگي کے لیے وہی جوش اور اشتیاق پایا جاتا ہے جو میڈیا میں دکھایا جاتا ہے؟ کیا کالج اور یونیورسٹی کے اسپورٹس کے مقابلے، پرتعیش پارٹیاں اور سائنس کے اعلیٰ رتبوں کے حصول کے لیے مغربی اسٹوڈنٹس کے اندر پائے جانے والے ٹھوس عزم کے بارے میں انٹرنیٹ پر جو اشتہارات آتے ہیں وہ سب کے سب ان کی زندگي کی سچائي ہیں؟ اس کا جواب اسکول کے چالیس فیصد(5) بچوں میں پائي جانے والی مایوسی اور ڈپریشن، جوانوں میں انٹرنیٹ پر عریاں فلموں کی بڑھتی ہوئي لت اور شراب کے بے تحاشا استعمال(6) اور ڈپریشن کی دواؤں کی بہت زیادہ فروخت کے آنکھیں کھول دینے والے اعداد و شمار میں تلاش کرنا چاہیے جن سے پتہ چلتا ہے کہ مغرب میں جوانی کا جوش و جذبہ اور انرجی وہاں کی ثقافت اور طرز زندگي سے جڑے ہوئے ان عوامل سے متاثر ہے اور راہ اتنی بھی ہموار نہیں ہے۔
وسائل، معاشی حالات اور ثقافت نے بھی جوانوں کے ذہنی دباؤ اور انھیں حوصلہ عطا کرنے میں کوئي خاص مدد نہیں کی ہے۔ متعدد تحقیقات(7) سے، جو سرمایہ دارانہ نظام والے مغربی ملکوں(8) میں کی گئي ہیں، پتہ چلتا ہے کہ نئي نسل کو تعلیم، رہائش اور شادی جیسے مسائل میں روز افزوں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان ملکوں کی بنیادی پالیسیاں اور معاشی کلچر اس بات کا سبب بنے ہیں کہ یہ جوان زندگي گزارنے کے لیے ضروری کم ترین آمدنی کے لیے شدید ترین کمپیٹیشن کا سامنا کریں، یہاں تک کہ روزگار ہونے کے باوجود ان کے سامنے کوئي روشن افق نہ رہے۔ امریکا(9) برطانیہ(10) فرانس(11) اور کینیڈا(12) وغیرہ کے تقریبا پچاس فیصد جوانوں کے پاس مہینے کے آخر میں کوئي بچت نہیں ہوتی اور وہ "تنخواہ سے تنخواہ تک" والی زندگي گزارتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان پر کام کا بہت زیادہ ذہنی دباؤ ہوتا ہے اور یہ چیز ان کے لائف اسٹائل کو بدل دیتی ہے۔
بہت سے جوان، جو اس طرح ڈپریشن، نشے کی لت اور غربت میں مبتلا ہوتے ہیں، گھر کی پناہ گاہ کو بھی کما حقہ اپنے لئے مہیا نہیں پاتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں کئي عشروں سے طلاق کے اعداد و شمار چالیس پچاس فیصد سے زیادہ ہیں اور گھرانے میں اپنے بچوں کی حمایت کے لیے وہ گرمجوشی نہیں پائي جاتی۔ نئي نسل خود بھی، جس کی ایک بڑی تعداد یا تو طلاق یافتہ والدین کا بچہ ہے یا ان دونوں میں سے صرف کسی ایک کے ساتھ بڑا ہوا ہے، ماڈرن ناجائز تعلقات کے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں قریب قریب بیس فیصد جوڑے بغیر کسی قانونی شادی کے صرف لیو ان (live in) کے طور پر ایک گھر میں رہتے ہیں۔ ان ملکوں کے چالیس فیصد سے زیادہ جوان، اپنے جوڑے کے وفادار نہیں رہے ہیں(13) اور بغیر بچوں والے جوڑوں(14) کا پھیلتا رجحان بھی مغرب میں گھرانوں میں آنے والی سرد مہری کا ایک دوسرا مظہر ہے۔
اس طرح کے سبھی تشخصی مسائل، صرف ایک ہی مشکل کا نتیجہ ہیں اور وہ ہے انسان کی زندگي میں بلند اہداف و مقاصد کا فقدان۔ مغرب میں انیسویں اور بیسویں صدی کے مشہور مفکرین اور فلاسفہ نے ایک لایعنی اور بے روح زندگي کا نظریہ پیش کیا اور اس کا تب تک خوب پرچار کیا جب تک یہ خودکشی پر منتج نہ ہو گيا۔ مغربی ملکوں میں عدمیت (Nihilism) کا بحران، براہ راست سرمایہ داروں کی خواہشات کی خدمت کر رہا ہے اور عدمیت والی طرز زندگي اس بات کا سبب بنی ہے کہ مغربی جوانوں کی فکر، نفسانی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ اور کچھ نہ رہے۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں بھی یورپ، امریکا اور جنوبی امریکا میں جوانوں کے عدل پسندانہ اہداف بھی معاشی انصاف سے آگے کسی چیز کو اپنا نشانہ نہ بنا سکے۔
اسی طرح یہ سوال بھی درپیش ہے کہ فکری اور حقیقی بند گلی یا تعطل کو کس طرح سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ کون سا جذبہ اور کون سی سوچ ہے جو ناامیدی سے بھرے اس ماحول سے مقابلے میں سرخرو اور سربلند ہوئی ہے اور جس نے آئيڈیل خلق کیا ہے؟
ایران میں سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مغربی مفکرین، اس وقت کی مادیت پسند دنیا میں ایک دینی انقلاب کے منصۂ وجود پر آنے سے سخت متحیر تھے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے گویا سامراج زدہ مسلم اقوام کی راکھ سے ایک زندہ اور زندہ کرنے والا جذبہ باہر نکال لیا تھا اور اسے "بسیجی یا رضاکار جذبے" کا نام دیا تھا۔
امام خمینی کے شاگرد یعنی امام خامنہ ای کے لفظوں میں بسیج کا مطلب ایک سوچ ہے جو خود اعتمادی اور خدا پر ایمان جیسے دو ستونوں پر استوار ہے۔ سنہ 1986 میں اسی سوچ کے مظہر ایک بچے نے دنیا میں قدم رکھا جس کا نام تھا مصطفیٰ صدر زادہ۔ وہ ایران اور عراق کے درمیان جاری جنگ کے دوران ایک جنگ زدہ شہر میں پیدا ہوئے اور اپنے بچپن میں ہی اہل خانہ کے ساتھ اطراف کے ایک شہر کی طرف ہجرت کر گئے۔ مصطفیٰ صدر زادہ کی زندگي کے بعض حصوں میں معاشی مشکلات اتنی شدید تھیں کہ وہ کبھی کبھی دو یا تین شفٹوں میں کام کرنے اور گھر نہ آنے پر مجبور ہوتے تھے۔ انھوں نے ایسے محلوں میں زندگي گزاری تھی جہاں نشے کی لت کی راہ ہموار تھی، وہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے ایسے مرحلے میں میدان میں آئے جب شام اور عراق میں مزاحمتی محاذ اکیلے ہی ان مسلح گروہوں سے لڑ رہا تھا جنھیں مغرب کی سب سے بڑی فوجی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان سب کے باوجود مصطفیٰ صدر زادہ کبھی بھی زندگي کے کسی بھی مرحلے میں معاشی، سماجی اور کسی بھی دوسری مشکل کے سامنے نہیں جھکے کیونکہ ان کے دل میں جو رضاکارانہ جذبہ تھا وہ انھیں ہر لمحہ ان کی زندگي کے ہدف کی یاد دہانی کراتا رہتا تھا اور ساتھ ہی اس مقدس ہدف کے لیے خدمت کا راستہ بھی دکھاتا رہتا تھا۔ اگر مالی پریشانی ہوتی تھی تو مصطفیٰ دگنی کوشش اور کام کرتے تھے اور پھر وہ اور ان کی اہلیہ سخت کام کے ساتھ ہی قناعت کے ذریعے اس مشکل پر غلبہ حاصل کر لیتے تھے۔ اگر رہائش کے مقام پر معاشی اور سماجی مسائل ہوتے تھے تو وہ انسان دوستی کے اپنے جذبے اور اپنے رضاکار دوستوں کی مدد سے ان مسائل کو دور کر دیتے تھے اور اگر داعش جیسے ہتھیاروں سے لیس دہشت گرد گروہ سے جنگ کی بات ہوتی تھی تو خدا پر ان کا توکل اور راہ خدا میں جہاد کے اجر پر ان کا عقیدہ انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا تھا، کبھی بے کار نہیں بیٹھنے دیتا تھا، کبھی تھکنے نہیں دیتا تھا اور کبھی تعطل کا شکار نہیں ہونے دیتا تھا۔
ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق خدا پر ایمان، انسانوں کا ایک فطری جذبہ ہے۔ خدا پر ایمان کا ایک واضح سماجی تشخص ہے اور وہ انصاف پسندی ہے۔ انصاف پسندی اگر خدا پر ایمان اور انبیائے خدا کی تعلیمات کی صف میں آ جائے تو ایک مجاہدانہ، انصاف پسند، محنت کش اور ایثار پیشہ تشخص کے سامنے آنے کا سبب بنتی ہے جو ایران میں بسیج کی شکل میں سامنے آئي۔ ممکن ہے کہ یہ فطری انصاف پسندی نامناسب جگہوں پر بھی سامنے آ جائے اور فکری اور حقیقی تعطل سے نکلنے میں مدد نہ کرے۔ اسی طرح جیسے گزشتہ عشروں میں پوسٹ ماڈرن انصاف پسندوں نے بعض مغربی جوانوں کی عقل اور روح میں نام نہاد انصاف پسندی کے بیج بوئے لیکن اس سے ان کے درمیان خودکشی اور نفسیاتی و جسمانی بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہی ہوا۔ انہی جوانوں کے درمیان، ان کی فطرت سے نکلنے والی انصاف پسندی کی ایک تحریک نے فلسطینی عوام کی حمایت میں آواز بلند کی۔ امریکی اسٹوڈنٹس کی انصاف پسندی کی یہ آواز کئي مہینوں تک، پچھلے کچھ عشروں کے دوران امریکی جوانوں کی زندگي کے سب سے زندہ مناظر میں سے ایک کو رقم کرتی رہی۔ اس طرح سے کہ امام خامنہ ای نے اپنے خط میں انھیں مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ کہہ کر مخاطب کیا۔
امام خامنہ ای نے اسی تناظر میں 25 نومبر 2024 کے اپنے خطاب میں کہا: "آج کی دنیا ميں مختلف ملکوں میں بہت سے نوجوان ہیں جو ذہنی طور پر اپنے سامنے سارے راستے بند پاتے ہیں، وہ اپنے وجود کو بیکار سمجھتے ہیں۔ جوان ہے لیکن اس کا کوئی ہدف اور مقصد نہیں ہے۔ کھوکھلے پن کا احساس کرتا ہے۔ خود کشی زيادہ ہوتی ہے۔ آپ سنتے ہیں اور اعداد و شمار میں پڑھتے ہیں کہ دنیا میں خودکشی بڑھ رہی ہے۔ جوان گوناگوں مشکلات اور رکاوٹوں کے مقابلے میں خود کو ناتواں سمجھتا ہے اور یہی احساس ناتوانی اسے کھوکھلے پن کی طرف لے جاتا ہے۔ بسیجی سوچ، بند راستے کھولنے والی ہے۔ بسیجی سوچ اور بسیجی ثقافت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ بند راستے کھولنے والی ہے، وہ جوان میں راستہ بند ہونے کا احساس نہیں پیدا ہونے دیتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ اول تو اس میں خود اعتمادی ہوتی ہے، اسے اپنی توانائیوں پر اعتماد ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اگر حوصلے سے کام لے تو کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ تسلط پسندوں کے ہنگاموں سے مرعوب نہیں ہوتا۔ بسیج ایسی ہی تو ہے۔ اس وقت آپ دیکھیں کہ مختلف مسائل میں امریکا، صیہونی حکومت اور دوسروں کے جھوٹے سچے پروپیگنڈے کیسا ہنگامہ مچاتے ہیں۔ بسیجی جوان کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آتی ہے اور وہ اس ہنگامے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ بنابریں مرعوب بھی نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ کہ بسیجی جوان کے سامنے ہدف ہوتا ہے، مقصد ہوتا ہے۔ وہ بے ہدف نہيں ہوتا اور وہ اپنے ہدف پر یقین رکھتا ہے۔"