بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین

برادران وخواہران عزیز خوش آمدید! میں آپ پر اور ان سبھی لوگوں پر جو یہ تقریر سن رہے ہیں، درود بھیجتا ہوں۔ بسیج کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا۔

ملک میں بسیج مستضعفین جو تشکیل دی گئی وہ بے نظیر ہے۔ کہیں بھی، دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ ادارہ اس شکل میں نہیں تھا۔ یہ منفرد ادارہ شمار ہوتا تھا۔ میں اس کی مختلف پہلوؤں سے وضاحت پیش کروں گا۔ کسی کی تقلید میں یہ ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ یہ کسی کی نقل نہیں ہے۔ یہ ہماری اپنی تاریخ اور قومی ثقافت کی دین ہے۔

یہ ہماری پہلی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ادارہ چونکہ کسی کی نقل اور تقلید میں تشکیل نہیں پایا ہے اس لئے باقی رہنے والا ہے۔ یہ ادارہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔  چونکہ اس کی جڑیں خود اپنی ہیں اس لئے محکم اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ خود اس قوم کا ادارہ ہے۔ یہ بسیج کی تاریخ اور ملّی تشخص ہے۔ یہ ایرانی ادارہ ہے۔ یہ ایک ثقافتی مرکز ہے۔  بسیج فوجی ادارہ ہونے کے ساتھ ہی ثقافتی اور سماجی مرکز ہے۔  

آج بسیج سے، سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ اس کا فوجی پہلو ہے جبکہ اس کا فوجی پہلو اپنی تمام تر اہمیتوں کے باوجود اس کے ثقافتی اور سماجی پہلو سے زیادہ نہیں ہے۔

امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ ادارہ قائم کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کب یہ ادارہ قائم کیا؟ اور وہ بھی ایک انتہائی خطرے کی حالت میں۔ یہ ہمارے امام کی ایک خصوصیت تھی۔ آپ میں سے اکثر نے امام کا دور نہیں دیکھا ہے۔ ہمارے عظیم امام کی ایک خصوصیت یہی تھی۔ آپ خطرات ميں سے مواقع نکال لیا کرتے تھے۔ اس مسئلے میں بھی یہی تھا۔

چار نومبر 1979 کو امریکی جاسوسی اڈے پر  یونیورسٹی طلبا کا قبضہ ہوا۔ اس زمانے کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیا۔ دھمکیاں دی گئيں اور پابندیاں لگائی گئیں۔ ان دھمکیوں کے دوران امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے کے تقریبا تیئیس دن بعد 26 نومبر1979 کو بسیج کی تشکیل کا فرمان صادر ہوا۔ ایسے وقت میں کہ ملک مں تازہ انقلاب آیا تھا، اپنے دفاع کا اس کے پاس کوئی سامان نہیں تھا، اس طرح کی بڑی دھمکیاں دی جا رہی تھیں، ایسے حالات میں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ملک  کی سماجی، ثقافتی اور فوجی زمین پر شجرہ طیبہ کا ایک پودا لگایا۔ وہ شجرہ طیبہ بسیج کا ادارہ تھا۔ آپ نے خطرات سے موقع پیدا کیا۔  

ہم نےعرض کیا کہ فوجی پہلو، بسیج کے جملہ پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ اب میں یہ کہتا ہوں کا بسیج پہلے درجے میں ایک مکتب ہے، ایک فکر ہے، ایک تفکر ہے، در واقع یہ ایک فکری اور ثقافتی ادارہ ہے۔ اب بسیج فوجی کام بھی کرتا ہے، سماجی کام بھی کرتا ہے، علمی کارنامے بھی انجام دیتا ہے لیکن اس کا سرچشمہ منطق اور فکر ہے جس نے اس کی بنیاد تشکیل دی ہے۔ اگر ہم اس منطق اور بنیاد کو جس پر بسیج استوار ہے، دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو یہ دو الفاظ قوت ایمان اور جذبہ خود اعتمادی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کو خدا پر یقین اور اپنے آپ پر یقین کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ بسیج کے دو ستون ہیں۔ بسیج کی بنیاد خدا پر ایمان اور اپنے آپ پر یقین پر رکھی گئی ہے۔  آج، کل اور مستقبل میں یہ شجر(طیبہ) جتنا بھی ثمر بخش ہو، وہ انہیں دو چیزوں کی دین ہے۔ خدا پر یقین اور خود اعتمادی۔

بسیج کی خصوصیات بہت زیادہ ہیں لیکن ان کا سر چشمہ، یہی دو بنیادیں ہیں۔ 

بسیج میں شجاعت ہے، ایجاد اور کام شروع کرنے کی ہمت ہے، امور کی انجام دہی میں سرعت عمل ہے، اس کا نقطہ نگاہ اور ویژن بہت وسیع ہے، اسے دشمن کی شناخت ہے، مختلف نقل و حرکت اور اقدامات کے حوالے سے حساس اور ہوشیار ہے، لیکن یہ سب کچھ اور بسیج کی ساری خصوصیات، انہیں دو خصوصیات کی دین ہیں۔ اگر ہم ان پر غوروفکر کریں، تحلیل و تجزیہ کریں، جائزہ لیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی۔ میں یہاں اختصار کے ساتھ بیان کروں گا۔

جب ہم خدا پر یقین کی بات کرتے ہیں تو اس یقین کا نتیجہ خدا کے سامنے تسلیم و رضا ہے۔ خدا پر توکل ہے۔ خدا کے وعدے پر یقین ہے۔ خدا پر یقین کا مطلب یہ ہے۔ اول یہ کہ ہم خدا کے سامنے پوری طرح تسلیم ہیں اور دوسرے یہ کہ ہمارا توکل اس کی نصرت پر ہے۔ ہمیں اس کی مدد کی امید ہے اور تیسرے یہ کہ اللہ نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے ہم اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ جیسے اس کا یہ وعدہ ہے کہ " ان تنصراللہ ینصرکم (2)  یہ خدا پر یقین کی بات ہے۔  

خود اعتمادی کے بارے میں یہ عرض کرنا ہے کہ اپنے آپ پر یقین اور خود اعتمادی کے نتیجے میں صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے۔ اکثر ہم خود اپنی صلاحیتوں سے غافل ہوتے ہیں۔

فکری، باطنی اور روحانی صلاحیتیں تو دور کی بات ہیں، ہمیں حتی اپنی جسمانی صلاحیتوں کا بھی علم نہیں ہوتا۔

خود اعتمادی ہمیں اپنی صلاحیتوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں ان صلاحیتوں کا قدر شناس بناتی ہے اور اس بات کا سبب بنتی ہے کہ ہم ان صلاحیتوں سے کام لیں۔ اس کی مثالیں بہت ہیں لیکن اس وقت میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا۔

 لیکن خدا پر یقین کے تعلق سے عرض کروں گا کہ یہ بات، بسیجی اور ایک ادارے کی حیثیت سے خود بسیج کے اندر اسی وقت سے موجود ہے جب سے یہ ادارہ تشکیل دیا گیا اور وجود میں آیا۔ 

یہ حقیقت کہ وعدہ الہی ہے، انسان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر  ہوتی ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ"و للہ جنود السماوات والارض وکان اللہ علیما حکیما" (3) ایک اور جگہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ"و للہ جنود السّماوات والارض و کان اللہ عزیزا حکیما۔" (4) عزیز یعنی وہ جو غالب آتا ہے اور کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ یہ عزیز کے معنی ہیں۔ و للہ جنود السّماوات والارض؛ عالم وجود کے یہ سبھی بے شمار اجزا، لشکر خدا ہیں۔ اگر ہم خدا کے بندے ہوں تو یہ لشکر ہماری مدد کر سکتا ہے۔  یہ لشکر ہماری مدد کو آ سکتا ہے۔ یہ سنت الہی اور فطرت کا طریقہ ہے۔ البتہ اس لشکر کی کمان ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ ہم جب بھی چاہیں اس لشکر الہی سے کام لے لیں۔ اس لشکر کا کمانڈر خدا ہے۔ البتہ یہ کمانڈر خاص حالات میں اور معینہ شرائط کے ساتھ ، جب ہم خود آمادہ ہوں تو اس لشکر کو ہمارے اختیار میں دے دیتا ہے۔  یہ قرآن کی بات ہے۔ یہ قرآن کی واضح اور شفاف تعبیرات ہیں۔ : ان تصبروا و تتّقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمدد کم ربّکم بخمسۃ الاف من الملائکۃ مسوّمین (5)  اگر آپ کے اندر آمادگی پائی جائے تو خدا کے ملائکہ بھی آپ کی مدد کے لئے آ سکتے ہیں۔ ہم نے یہ نصرتیں دیکھی ہیں۔ دفاع مقدس میں بھی دیکھیں اور اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی دیکھی ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی دیکھیں اور فوجی میدان میں بھی دیکھی ہیں۔ علمی میدان میں بھی دیکھیں اور خدائی امداد  میں بھی دیکھی ہیں۔ نصرت الہی کو کب دیکھا جا سکتا ہے؟ اس وقت جب آپ کوئي کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کام ناممکن ہے، وہاں یہ نصرت سامنے آتی ہے۔ یہ سب بسیج کے خدا پر یقین سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ بسیجی میں بھی اور بسیج کے ادارے میں بھی، ہر بسیجی میں خود اعتمادی، اپنی فکری، روحانی اور جسمانی توانائیوں اور صلاحیتوں کی شناخت، قوت ارادی، فیصلے کی توانائی، اپنی قدر اور دشمن کے ارادے کا تابع نہ بننے کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔

 ہمارے وجود میں ایک عنصر ایسا ہے کہ جس سے اکثر اوقات میں ہم غافل رہتے ہیں۔ وہ کیا ہے؟ وہ فیصلہ کرنے کی طاقت اور قوت ارادی ہے۔ ہمارے اندر ارادہ بھی ہے اور قوت ارادی بھی ہے۔ بعض اوقات انسان کے اندر قوت ارادی اس منزل پر پہنچ جاتی ہے کہ وہ کسی چیز کو خلق کر سکتا ہے، وجود میں لا سکتا ہے۔ یہ قوت ہمارے وجود میں موجود ہوتی ہے، ہم اس کو نہیں پہچانتے۔ اس کی قدر نہيں سمجھتے، اور اس کی تقویت نہیں کرتے۔ انسان کی اس ذاتی اور باطنی توانائی کی شناخت ایک بسیجی کی زندگی اور مکتب بسیجی کی ممتاز اور نمایاں ترین خصوصیات ميں سے ہے۔

دشمن کے ارادے کا تابع نہ ہونے اور اپنے ارادے کو غلبہ دینے کی خصوصیت کے لئے خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ آپ اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کو پہچان سکیں۔ یہ بات اقوام کے لئے عالمی سامراج کے منصوبوں کے منافی اور ان کے برعکس ہے۔

عالمی سامراج، یعنی دنیا کی تسلط پسند طاقتیں جو اقوام پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہیں، ان کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اقوام کی توانائیوں کا انکار کرتی ہیں اور ان کی تذلیل اور تحقیر کرتی ہیں۔ اس کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے۔ فرعون کے بارے میں  (قرآن کریم فرماتا ہے) " فاستخفّ قومہ فاطاعوہ" (6) جبکہ وہ آج کی دنیا کے سلاطین سے زیادہ شریف تھا۔ سلطان امریکا، سلطان یورپ، یہ سب سلاطین ہی تو ہیں وہ ان سے شریف تھا۔ وہ صرف اپنے ملک کے عوام کے ساتھ یہ کام کرتا تھا۔ یہ دوسرے ملکوں کی اقوام کے ساتھ یہ کام کام کرتےہیں۔ فاستخفّ قومہ فاطاعوہ" اپنی ہی قوم کو ہلکا کیا، اس کی تحقیر کی، اپنے ہی عوام کو چھوٹا ظاہر کیا اور اس کے حقوق اور امتیازات کا انکار کیا۔ الیس لی ملک مصر وھذہ الانھار تجری من  تحتی"(7) نتیجے میں لوگوں نے دیکھا کہ وہ ان سے بالاتر ہے لہذا اس کی اطاعت کی۔ 

سامراج کا منصوبہ یہ ہے کہ آپ کی تاریخ کا انکار کرے، آپ کے تشخص کا انکار کرے، آپ کی توانائيوں کا انکار کرے اور جب آپ اپنے تیل کو برطانیہ  کی اجارہ داری سے نکال کر قومیانے کا اقدام کریں تو ملک کے اندر ان کے ایجنٹ تقریر کریں اور لکھیں کہ "یہ کیسی بات ہے! کیا ایرانی آبادان کی ریفائنری کو چلا سکتے ہیں؟ ایرانی تو مٹی کا لوٹا بھی نہیں بنا سکتے۔" اس طرح  وہ اقوام کی تحقیر کرتے ہیں۔ بسیج اس قومی تحقیر کا نقطہ مقابل ہے۔ تسلط پسند طاقتیں، کسی قوم پر اپنا تسلط جمانے کے لئے اس کے ملی عقائد  میں تحریف کرتی ہیں۔ اس کی تاریخ میں تحریف کرتی ہیں، اس کی شبیہ بگاڑتی ہیں اور تحقیر کرتی ہیں۔

میرے عزیزو! میرے بھائیو! میری بہنو! اور میرے بچو! طویل برسوں تک بالخصوص قاجاری اور پہلوی دور میں ایران کی تحقیر کی گئی۔ انقلاب آیا تو صفحہ پلٹ گیا۔

 پہلی جںگ عظیم کے بعد پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں متعدد ملکوں نے شرکت کی۔  یہ کانفرنس دنیا کی حالت کے بارے میں فیصلے کے لئے منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک وہ تھے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں شرکت کی تھی یا اس سے انہیں نقصان پہنچا تھا۔ ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا جنہیں پہلی جنگ عظیم میں نقصان پہنچا تھا۔ ایران نے بھی ایک وفد اس کانفرنس میں شرکت کے لئے پیرس بھیجا لیکن ایرانی وفد کو کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح تحقیر کرتے تھے۔ ایک دور میں ایرانی قوم کی اس طرح تحقیر کی گئی ہے۔ بسیجی فکر اس کے گرد حصار کھینچتی ہے۔ بسیجی تفکر اس انتہائی خطرناک اسلحے کو ناکام بنا دیتا ہے۔ بسیجی تفکر خود اعتمادی عطا کرتا ہے۔ اس فکر سے نوجوان اپنے وجود کا احساس کرتا ہے۔  وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے اندر  توانائی ہے، یہ اس کی خود اعتمادی ہے۔ اس کے خدا پر یقین کے بارے میں بھی میں نے عرض کیا۔ وہ سمجھتا ہے کہ پورا عالم وجود لشکر خدا ہے۔ "و للہ جنود السّماوات و الارض" (8)  اور اگر وہ راہ خدا میں آگے بڑھے گا تو یہ لشکر اس کی مدد کرے گا۔ آج بھی یہی ہے اور کل بھی یہی رہے گا۔ بے شک یہ بسیجی جذبہ، یہ بسیجی توانائی، یہ بسیجی کیفیت جو ہمارے ملک میں ہے اور خوش قسمتی سے بعض دیگر ملکوں میں استقامتی محاذ کے سپاہیوں میں بھی یہ جذبہ موجود ہے، یقینا یہ جذبہ امریکا، مغرب، سامراج اور غاصب صیہونی حکومت کی سبھی سیاستوں پر غلبہ حاصل کرے گا۔

دو تین باتیں بسیجی کے بارے میں۔  ایک نکتہ یہ ہے کہ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس ملک میں انقلاب کی کامیابی سے پہلے، اپنی تحریک اور جدوجہد کے پندرہ برس کے دوران بسیجی فکر کے لئے حالات کو سازگار بنایا، اس کو وجود بخشا اور اس کی تقویت کی۔ یہ خصوصیات جو ہم بسیج کی بیان کرتے ہیں، ان میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ بسیج کے ادارے کے باہر ظاہر ہوتی ہیں حتی بعض ایسی ہیں جو بسیج کی باضابطہ تشکیل سے پہلے ہی ظاہر ہو چکی تھیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے 1963 سے 1979 تک، تقریبا پندرہ سولہ برس اس بسیجی جذبہ، اس خود پر یقین، خدا پر یقین، اس خود اعتمادی، خدا پر اس اعتماد اور کامیابی کی اس امید اور روشن مسقبل کی ایرانی عوام کو نشاندہی اور تلقین کی اور ہمارے  نوجوانوں نے جن کے اندر ظرفیت اور صلاحیت تھی، امام کے اس پیغام کو سمجھا۔ کمزوری پیدا کرنے والے ان تمام عوامل کے مقابلے میں یہ پیغام قبول کیا گیا، لہذا بتدریج اس تحریک نے پیشرفت اور ترقی کی، وسیع تر ہوئی۔ اس نے انقلاب کی شکل اختیار کی اور ایک ایسی حکومت کا  خاتمہ کیا جس کو دنیا کی تقریبا سبھی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ پہلوی حکومت کی امریکی حمایت کر رہے تھے، یورپ والے حمایت کر رہے تھے، روس والے بھی حمایت کر رہے تھے، سب حمایت کر رہے تھے۔ اس  کے پاس وسائل بھی بہت تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا، اس کو نابود اور جڑ سے ختم کر دیا جبکہ عوام کی جانب سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔   

 دنیا میں حکومتوں کے خلاف بغاوتیں ہوتی ہیں، زیادہ تر ناکام اور نا پائیدار ہوتی ہیں  (لیکن)  یہاں مسلحانہ جنگ نہیں ہوئی، عوام اپنے جسم و جان اور اپنے ایمان کے ساتھ آئے، میدان ميں اترے ، انھوں نے میدان پر قبضہ کیا اور حریف کو میدان سے باہر کر دیا۔    

انقلاب کی کامیابی کے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے گوناگوں ضرب اور وار کو روکنے کے لئے  بسیج کی دیوار کھڑی کر دی۔ دفاع مقدس سے پہلے بھی، دفاع مقدس کے دوران بھی، دفاع مقدس کے بعد بھی، فوجی میدان میں بھی، سماجی میدان میں بھی، علمی میدان میں بھی، اسلحہ سازی میں بھی اور بین الاقوامی و سیاسی میدان میں بھی (بسیج نے عظیم کارنامے انجام دیے)  

 توجہ فرمائيں کہ سماجی اور علمی طاقت، سیاسی طاقت وجود میں لاتی ہے۔  جو قوام اپنے اندر اپنے اتحاد، اپنے عزم، اپنی استقامت، اور میدان میں موجود اپنی قابل توجہ فعال افرادی قوت، دکھانے ميں کامیاب رہے، اپنی علمی اور سائنسی توانائی ثابت کر سکے اور اپنی سماجی توانائی دکھا سکے وہ سیاسی لحاظ سے بھی طاقتور ہو جاتی ہے، بین الاقوامی میدان میں محکم انداز ميں بول سکتی ہے اور اپنی بات آگے بڑھا سکتی ہے۔ امام (رضوان اللہ علیہ ) نے یہ کام انجام دیے۔

بسیج نے دفاع مقدس میں بھی کردار ادا کیا، ملک کو محفوظ بنانے اور اس کی سلامتی کے تحفظ میں بھی کردار ادا کیا، تعمیرات میں بھی کام کیا اور علمی وسائنسی کارنامے بھی انجام دیے۔

جن لوگوں نے یورینیئم کی بیس فیصد افزودگی کے معاملے میں جس کی ملک کو ضرورت تھی، امریکا کی خباثت آلود سازش کو ناکام بنایا وہ بسیجی تھے۔ شہید شہریاری بسیجی تھے، ہمارے ایٹمی شہدا، ملک کے بسیجی اساتذہ میں تھے۔ اس کی اپنی تفصیل ہے۔

 ہمیں نیوکلیئر میڈیسن کے لئے بیس فیصد  افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی۔ ملک کو اس کی سخت ضرورت تھی۔ تھوڑی مقدار میں بیس فیصد افزودہ یورینیم موجود تھا جس کا انتظام پہلے کیا گیا تھا، وہ بھی ختم ہو رہا تھا، ہمیں خریدنا تھا لیکن کس سے؟ امریکا سے ۔ امریکیوں نے کہا کہ تمھارے پاس ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیئم جتنی مقدار میں ہے، ہمیں دو ہم اس کے بدلے میں بیس فیصد افزودہ یورینیئم دیں گے۔ اس وقت کے دنیا کے دو مشہور صدور نے جن کا میں اس وقت نام نہیں لینا چاہتا، ہم سے ان کے روابط اچھے تھے، انھوں نے ثالثی کی کہ یہ معاملہ طے پا جائے۔ ہمارے ملک کے حکام نے قبول کر لیا۔ دوہزار کے عشرے کا دوسرا نصف  ہے، بیچ مذاکرات میں دیکھا گیا کہ امریکی دھوکا دے رہے ہیں، ہم نے سمجھ لیا کہ وہ دھوکا دے رہے ہیں، اس کا تدارک کیا گیا۔ ٹھیک اس وقت جب وہ سمجھ رہے تھے کہ بیس فیصد افزودہ یورینیئم کی ضرورت کی وجہ سے ایران جھک جائے گا، ملک کے اندر ہمارے بسیجی ایٹمی اساتذہ نے بیس فیصد افزودہ یورینیم تیار کر لیا! امریکیوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ کام ہو سکتا ہے۔
 میں نے چند برس قبل یہیں پر کہا ہے (9) یورینیم کی افزودگی کے عمل میں سب سے مشکل مرحلہ بیس فیصد افزودگی تک پہنچنا ہے۔ اس کے بعد کے مراحل بہت آسان ہیں۔ ایسے وقت میں کہ دشمن ہمیں دھوکہ دے رہا تھا، ہمارے بسیجیوں نے، ہمارے بسیجی  نوجوانوں نے اور ہمارے بسیجی سائنسدانوں نے ملک کے اندر یہ مشکل مرحلہ انجام دے دیا، بیس فیصد افزودہ یورینیم تیار کر لیا  اور ہم ان سے بے نیاز ہو گئے۔  

بسیجیوں نے ان میدانوں میں کام کیا ہے۔ عالمی معاملات میں بسیج نے فعال کردار ادا کیا۔ بنابریں بسیج نے فوجی مسائل میں بھی، سماجی، علمی اور سائنسی میدان ميں بھی  اور بین الاقوامی سیاست کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کیا اور کارآمد اور توانا رہی ہے۔

میں نے عرض کیا کہ ان میں سے بہت سے کارنامے خود بسیج کے ادارے کے اندر انجام نہیں دیے  گئے ہیں۔ بلکہ اس ادارے سے باہر انجام پائے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے  جو چیز اہم ہے وہ بسیجی جذبہ، بسیجی مکتب اور بسیجی ثقافت ہے۔ کوشش کریں کہ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ آپ بسیجی، آج ملک میں جہاں بھی ہیں، کارخانے میں ہیں، یونیورسٹی میں ہیں، دینی تعلیم کے مرکز میں ہیں، سائنسی تجربہ گاہوں میں ہیں، جنگ کے میدان میں ہیں، جہاں بھی ہیں، یہ جذبہ، کام کے لئے یہ آمادگی، حوادث کے تعلق سے یہ جو حساسیت ہے اس کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ ہمیشہ تیار رہیں۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔     
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آج کی دنیا ميں مختلف ملکوں میں بہت سے نوجوان ہیں جو ذہنی طور پر اپنے سامنے سارے راستے بند پاتے ہیں، وہ اپنے وجود کو بیکار سمجھتے ہیں۔ نوجوان ہے لیکن اس کا کوئی ہدف اور مقصد نہیں ہے۔ کھوکھلے پن کا احساس کرتا ہے۔ البتہ بہت سے موٹی کھال کے ہیں۔ لیکن بعض نازک ہیں، حساس ہیں، کھوکھلے پن کے احساس میں مبتلا ہیں، خود کشی زيادہ ہوتی ہے۔ آپ سنتے ہیں اور اعداد و شمار میں پڑھتے ہیں کہ دنیا میں خودکشی بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے۔ نوجوان ذہنی جمود محسوس کرتے ہیں۔ کھوکھلا پن محسوس کرتے ہیں۔ گوناگوں مشکلات اور رکاوٹوں کے مقابلے میں خود کو ناتواں سمجھتے ہیں اور یہی احساس ناتوانی انہیں کھوکھلے پن کی طرف لے جاتا ہے۔ بسیجی تفکر سارے بند راستے کھول دیتا ہے۔ بسیجی تفکر کی ایک خصوصیت یہی  بند راستے کھولنے کی  بسیجی ثقافت ہے جو نوجوانوں میں راستے بند ہونے کا احساس نہیں پیدا ہونے دیتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے جو تعریف کی ہے اس کے مطابق اس کے اندر خود اعتمادی ہوتی ہے، اپنی توانائیوں پر اس کو اعتماد ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر ہمت کرے تو کر سکتا ہے۔ دوسرے وہ تسلط پسندوں کے مطالبات و خواہشات سے مرعوب نہیں ہوتا۔ بسیجی ایسا ہی ہوتا ہے۔    

اس وقت آپ دیکھیں کہ مختلف مسائل میں امریکا، صیہونی حکومت اور دوسروں کے پروپیگنڈوں نے کیسا ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بسیجی نوجوان کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آتی ہے اور وہ اس ہلڑ ہنگامے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ بنابریں مرعوب بھی نہیں ہوتا۔  

 تیسرے بسیجی نوجوان کے سامنے ہدف اور مقصد ہوتا ہے۔ وہ بے مقصد و بے ہدف نہيں ہے اور اپنے ہدف پر یقین رکھتا ہے۔ بسیجی نوجوان کا ہدف اسلامی معاشرہ ہے۔ اس کے بعد اسلامی تمدن ہے۔ وہ اس کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ بسیجی نوجوان کا مقصد عدل و انصاف کا نفاذ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ کام کر سکتا ہے اور اس راہ میں آگے بڑھتا ہے۔

بسیجی نوجوان موت سے نہیں ڈرتا۔ آپ دیکھیں کہ دفاع مقدس کے دوران آتے تھے، گریہ کرتے تھے، التماس کرتے تھے کہ محاذ پر جانے کی اجازت دی جائے۔ ان کی عمر کم ہوتی تھی۔ اجازت نہیں ملتی تھی۔ گریہ و التماس کرتے تھے۔ یہ یہی کوئی 35 سال قبل اور 40 برس پہلے کی بات ہے۔ چند برس پہلے دفاع حرم کے مسئلے میں بھی یہی صورتحال تھی۔ دفاع حرم کے دوران کتنے نوجوان مجھے خط لکھتے تھے۔ بعض ملاقات کرتے تھے کہ جناب مجھے جانے کی اجازت دے دیں۔ اجازت نہیں ملتی تھی تو کسی ایسے گروہ ميں شامل ہونے کی کوشش کرتے تھے جس کو اجازت مل چکی ہوتی تھی۔ آپ نے یہ باتیں سنی ہیں اور پڑھی ہیں۔ ان کے احوال پڑھے ہیں اور جانتے ہیں۔  بسیجی موت سے نہیں ڈرتا۔ آخری منزل شہادت ہے۔ وہ شہادت پر یقین رکھتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ اگر اس راہ میں دنیا سے گیا تو اعلی ترین معنوی مرتبے تک پہنچ جائے گا۔  بنابریں اس کے سامنے راستہ کھلا ہوا ہے۔ وہ اپنے سامنے راستے بند نہیں پاتا۔ ایسا انسان اپنے سامنے راستے بند نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کا بسیجی یقین رکھتا ہے کہ صیہونی حکومت ایک دن یقینا ختم ہوگی۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ملک میں بسیج کی روز افزوں تقویت ہونی چاہئے۔ بسیج کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ پرچم بسیج، عوام کے حقوق کا پرچم ہے۔ پرچم دفاع حقیقت ہے۔ یہ پرچم ہمیشہ لہراتے رہنا چاہئے۔ اس کے لئے مدد ضروری ہے، اس کی تقویت ضروری ہے۔ کس طرح تقویت کی جائے؟ اس کی گہرائی و گیرائی بڑھائی جائے۔ اس کی کیفیت اوپر لائی جائے۔ اس میں گہرائی پیدا کریں۔ تاکہ بسیجی نوجوان کے ذہن میں بسیجی ثقافت اپنی جگہ بنا سکے۔ اس کی کیفیت بھی اوپر لانا چاہئے۔ مسائل کو سطحی نقطہ نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ اس کے لئے کتاب کی ضرورت ہے۔ مطالعے کی ضرورت ہے۔ مباحثے کی ضرورت ہے۔ تحقیقی حلقوں کی ضرورت ہے۔ یہ کام انجام دیے جائيں۔  

بسیج کی تقویت کا ایک پہلو یہ ہے کہ بسیج مجریہ کے اداروں کے فعال بازو کی حیثیت سے ہر جگہ موجود اور کام کے لئے تیار رہے۔ فوجی شعبے میں، علمی شعبے میں، عوامی خدمات کے شعبے میں، تعلیم و تربیت کے شعبے میں، تبلیغ اور حقائق بیان کرنے کے شعبے میں، روزگار کے مواقع ایجاد کرنے کے شعبے میں، یہ جو نمائش مجھے دکھائی گئی ہے، اس میں بہت سے کام بسیج کے ہیں۔ ان شاء اللہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ اسی طرح جاری رہیں۔
ماضی میں بھی یہی صورتحال تھی، گزشتہ طویل برسوں کے دوران بسیج نے حکومتوں کی مدد کی ہے۔ حکومت کے فعال بازو کی حیثیت سے کام کئے ہیں۔ بعض حکومتوں نے اس کی قدر کی اور بعض نے نہیں۔ بسیج کی مدد لی لیکن اس کا شکریہ نہیں ادا کیا۔
سیاسی میدان میں بھی (ایسا ہی ہے) اس میدان میں بھی بسیج کی تقویت کی ضرورت ہے۔ بسیج کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس علاقے کے ملکوں کے لئے امریکا کا منصوبہ دو طرح کا ہے، یا استبداد یا پھر نراجیت اور انگریزوں کے بقول یا ڈکٹیٹر شپ یا انارکی۔ امریکا نے اس علاقے کے لئے انہیں دو راستوں کو مد نظر رکھا ہے۔ جس ملک پر امریکیوں کی نگاہ ہے ، یا اس میں استبدادی حکومت ہونی چاہئے تاکہ اس کے ساتھ ان کی سودے انجام پا سکیں، جو وہ چاہیں وہ اس کی موافقت کرے اور ان کے سامنے جھکی رہے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو پھر اس ملک میں انارکی ہونا چاہئے، لوگوں کی زندگی دشوار کر دی جائے۔ بسیج کو ان دونوں سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ ڈکٹیٹرشپ اور استبداد لانے کی کوششوں کا بھی مقابلہ کرے اور نراجیت اور بلوے کا بھی۔ 

ملک میں ان دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو سمجھ لیں کہ دشمن کام کر رہا ہے۔ بسیج کو اس کے مقابلے پر ڈٹ جانا چاہئے۔  یہ بسیج سے متعلق مسائل تھے جو عرض کئے گئے، بسیج کے تعلق سے باتیں بہت ہیں۔ فی الحال اتنا ہی۔
چند جملے علاقے کے حالات کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔  لبنان، فلسطین اور غزہ کے مسائل کے حوالے سے، جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ دیکھ اور سن رہے ہیں، خبریں آپ کے سامنے ہیں، آپ کو علم ہے، میں دو نکات عرض کروں گا۔

 پہلا نکتہ یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں پر بمباری کامیابی نہیں ہے۔ احمق یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ لوگوں کے گھروں پر بمباری کر رہے ہیں، چونکہ اسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں چونکہ لوگوں کے مجمع پر بمباری کر رہے ہيں، اس لئے کامیاب ہو گئے۔ جی نہیں، دنیا میں کوئی بھی اس کو کامیابی نہیں سمجھتا۔ یہ کامیابی نہیں ہے۔ دشمن غزہ  میں کامیاب نہیں ہوا ہے ، دشمن لبنان میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ جو کام انھوں نے کئے ہیں وہ کامیابی نہیں ہے، جنگی جرائم ہیں۔ گرفتاری کا حکم صادر ہوا ہے (10) لیکن یہ کافی نہیں ہے نتن یاہو کو پھانسی ملنی چاہئے۔ جرائم پیشہ صیہونی حکام کی پھانسی کا حکم صادر ہونا چاہئے۔ یہ پہلا نکتہ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ لبنان، فلسطین اور غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا جو نتیجہ وہ چاہتے ہيں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ یعنی یہ جرائم استقامت کی تقویت کر رہے ہیں اور استقامت شدت اختیار کر رہی ہے۔  یہ بھی ایک قاعدہ کلی ہے۔ اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔ غیور فلسطینی نوجوان، غیور لبنانی نوجوان دیکھ رہا ہے کہ اگر میدان مجاہدت میں ہو تو خطرہ ہے میدان مجاہدت میں نہ ہو تو بھی خطرہ ہے۔  ڈاکٹر ہے، نرس ہے، مریض ہے، مزدور ہے، روزی کمانے والا ہے لیکن موت کا خطرہ، بمباری کا خطرہ اور دشمن کے خطرات ہیں۔ اس کے لئے کوئی اور راستہ نہيں بچا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جاکر مجاہدت کروں۔ اس لئے کہ وہ مجبور کر رہے ہیں۔ یہ احمق خود ہی اپنے کاموں سے  استقامتی محاذ  کو وسیع تر کر رہے ہیں، استقامت کی شدت بڑھا رہے ہیں۔ یہ ایک حتمی نتیجہ ہے اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔  میں آج کہتا ہوں کہ آج استقامتی محاذ جتنا وسیع ہے کل اس سے کئي گنا زیادہ وسیع ہوگا۔

پالنے والے تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، سبھی بندگان صالح کے مطلوب (امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف) کو جلد سے جلد بھیج دے۔

 والسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ

1۔ اس موقع پر پہلے بریگیڈیئرغلام رضا سلیمانی (بسیج مستضعفین کے کمانڈر) نے ایک رپورٹ پیش کی ۔

2۔ سورہ محمد آیت نمبر 7 "۔۔۔ اگر خدا کی مدد کرو تو وہ تمھاری نصرت کرے گا۔"

3۔ سورہ فتح، آیت نمبر4 کا ایک حصہ"۔۔۔۔ اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں، اور خدا  دانا اور کاموں کو ٹھیک کرنے والا ہے۔"

4۔  سورہ فتح آیت نمبر 7 " اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں اور خدا کو کبھی شکست نہیں دی جا سکتی اور وہ امور کو ٹھیک کرنے والا ہے"

5۔ سورہ آل عمران ، آیت نمبر 125 " ہاں اگر صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو  اور وہ اسی جوش و خروش کے ساتھ تم پر حملہ کریں تو خداوند عالم پانچ ہزار علامت والے فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا۔

6۔ سورہ زخرف آیت نمبر 54

7 ۔سورہ زخرف آیت نمبر 51"۔۔۔۔۔ کیا مصر کی بادشاہت اور یہ نہریں جو میرے محل کے نیچے بہہ رہی ہیں میری نہیں ہیں ؟"

8۔ سورہ  فتح کی آیت نمبر چار کا ایک حصہ:۔۔۔۔ "اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں۔۔"

9۔  نومبر 2015 میں یونیورسٹیوں، تحقیقی مراکز اور سائنس وٹیکنالوجی پارک کے سربراہوں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

10۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے مہینوں کی تاخیر سے آخر کار 21 نومبر 2024 کو صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اور سابق وزیر جنگ یواف گالانٹ کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ یہ حکم غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر صادر کیا گیا۔