شاید برسوں پہلے، کسی مسلح دہشت گرد گروہ کی امریکا کی جانب سے حمایت کی بات کرنا، ایک سازشی تھیوری لگتی ہے لیکن حالیہ برسوں میں بہت سے مغربی سیاستدانوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے اور اب تو خطے میں دہشت گردوں سے امریکی حکومت کے رشتے، پوری طرح سے واضح اور عیاں حقیقت ہے۔
مثال کے طور پر امریکا کے صدارتی الیکشن کے ایک امیدوار اور ٹرمپ کی آئندہ حکومت کے ممنکہ وزیر صحت رابرٹ ایف کینیڈی نے کچھ مہینے پہلے العربیہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: "ہم نے داعش کو وجود عطا کیا۔ ہم نے شام میں جنگ شروع کروا کے بیس لاکھ پناہ گزینوں کو یورپ کی طرف روانہ کیا۔"(1) یا امریکی کانگریس کے رکن میٹ گیٹز نے کچھ سال پہلے کانگریس میں واضح الفاظ میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ امریکا نے شام کے باغیوں کی حمایت کی ہے۔ انھوں نے کہا تھا۔ "کبھی کبھی وہ باغی، جن کی ہم اسد سے جنگ کے لیے شام میں حمایت کر رہے تھے اور مالی امداد کر رہے تھے، داعش کا پرچم بلند کر دیتے تھے۔ اس لیے یہ کہنا احمقانہ ہوگا کہ ہم داعش کو روکنے کے لیے شام میں ہیں، جبکہ شام میں ہماری موجودگي، بعض مواقع پر داعش کے لیے سب سے اچھا تحفہ رہی ہے۔"(2) اس کے علاوہ کریگ موری جیسے برطانیہ کے بعض سابق سفیروں نے شام کی حالیہ صورتحال کے سلسلے میں نیا موقف اختیار کرتے ہوئے اسے ایک "انقلاب" نہیں بلکہ خطے کے استحکام کو تباہ کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے ایک "غیر ملکی مداخلت" قرار دیا ہے۔(3)
عالمی ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے بھی اس موضوع پر مختلف طرح کی رائے ظاہر کی ہے۔ مثال کے طور پر کولمبیا یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر جیفری ساکس نے کچھ دن پہلے ایک انٹرویو میں واضح طور پر شام کے موجودہ حالات میں امریکا کا ہاتھ ہونے کی بات کہی۔ انھوں نے کہا: "شام کی آج کی صورتحال امریکا اور اسرائيل کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جنھوں نے جان بوجھ کر یکے بعد دیگرے مختلف حکومتوں کو سرنگوں کیا ہے اور نہ صرف تباہی بلکہ عدم استحکام والا ایک بڑا خطہ تیار کر دیا ہے۔ امریکا نے سنہ 1979 سے لے کر اب تک سنّی مجاہدین کی حمایت کی ہے، بلقان، بوسنیا، مشرق وسطیٰ اور افغانستان وغیرہ بہت سے علاقوں اور ممالک میں اس نے یہ کام کیا۔ سبھی کے لیے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ امریکا، اسرائيل کے مطالبے پر سنہ 2001 سے عملی طور پر مشرق وسطیٰ میں مسلسل جنگ میں مشغول رہا ہے۔"(4) اسی طرح اسکائي نیوز عربی کے اینکر نے اپنی تازہ گفتگو میں شام میں موجود دہشت گرد گروہوں کے سرغناؤں کو امریکا اور مغرب کا پٹھو بتایا اور کہا کہ ایسی خبریں موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مشرقی یورپ کے فوجی مشیر، تحریر الشام کے افراد کو ٹریننگ دیتے رہے ہیں۔ الجولانی، پہلے سے ہی القاعدہ کے افراد کے درمیان امریکی جاسوس کے نام سے مشہور رہا ہے۔ سی آئي اے کے سابق تجزیہ نگار لیری جانسن نے بھی حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں خطے کے تازہ واقعات کو، یوکرین کی جنگ کو بڑھانے کے لیے مغرب کا ایک منصوبہ بتایا اور کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ یوکرین کے فوجی، شام میں، تحریر الشام کے لڑاکوں کے ساتھ موجود ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ وہاں کیسے پہنچے ہیں؟ امریکا اور برطانیہ اس معاملے میں مدد کر رہے ہیں اور وہی یہ کام کر رہے ہیں۔(5)
یہ ساری باتیں، شام اور مغربی ایشیا کے علاقے کے مستقبل کے لیے امریکا اور اسرائيل کے ایک مشترکہ تھنک ٹینک میں تیار کی گئي ایک پیچیدہ سازش کا پتہ دیتی ہیں۔ امریکا کی جانب سے شام کے حیاتی اور بنیادی ڈھانچے کے پچھتر مقامات پر بمباری(6) صیہونی حکومت کے ذریعے شام کے 500 حساس اور فوجی ٹھکانوں پر بمباری اور تحریر الشام گروہ کے سرغنہ کی گرفتاری پر رکھے گئے ایک کروڑ ڈالر کے انعام کو منسوخ کرنے کی امریکی حکومت کی جلد بازی(7) کی خبر، اس خطرناک سازش کے اہم شواہد ہیں۔
اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت امریکی میڈیا بھی پوری طرح سے حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے شام کے اندر دہشت گرد گروہوں کے جرائم کی پردہ پوشی کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی میڈیا جان بوجھ کر اور شام کی تقسیم کی سازش اور باغیوں کی دہشت گردانہ ماہیت پر توجہ دیے بغیر، اس ملک میں ایک مکمل عوامی انقلاب کی بات کر رہا ہے!
تاہم امریکا اور اس کے اصل حلیف یعنی صیہونی حکومت کے لیے شام کی خانہ جنگي کے سیکورٹی اور سیاسی مفادات سے قطع نظر اس صورتحال سے امریکا کے معاشی مفادات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہی مفادات کی وجہ سے امریکا نے ہمیشہ ہی مغربی ایشیا کے علاقے میں اپنے پیر زیادہ سے زیادہ جمانے کی کوشش کی ہے۔ امریکا کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ سال پہلے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے اس کا اعتراف کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا: "میں نے شام میں کچھ فورسز بھیجیں تاکہ وہ تیل پر قبضہ کر سکیں۔ میں نے شام کے تیل پر قبضہ کیا۔ شام میں ہماری کچھ فورسز ہیں جو صرف تیل پر قبضہ کر رہی ہیں۔ وہ شام کے تیل کی حفاظت کر رہی ہیں۔"(8)
آخر میں مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں رہبر انقلاب کے اہم خطاب کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ انھوں نے شام کے حالیہ واقعات میں امریکا اور صیہونی حکومت کے کھلے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "جو کچھ شام میں ہوا، اس کی سازش امریکا اور اسرائيل کے کمانڈ روم میں تیار کی گئي ہے، اس کے لیے ہمارے پاس کچھ قرائن ہیں جن سے کسی بھی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش نہیں بچتی۔" بلاشبہہ اس سازش میں، امریکی حکومت، مزاحمتی محاذ کی توانائيوں کے سلسلے میں اندازے کی غلطی کا شکار ہے اور پچھلے کچھ عشروں کے دوران امریکا کی تمام سازشوں کی طرح، یہ سازش بھی یقینی طور پر ناکام رہے گی۔

محمد مہدی عباس: امریکی مسائل کے ماہر

1.    https://english.alarabiya.net/features/2024/02/16/US-2024-elections-Riz-Khan-sits-down-for-interview-with-Robert-F-Kennedy-Jr
2.    https://www.c-span.org/video/?526548-3/house-debate-withdrawing-us-troops-syria
3.    https://x.com/CraigMurrayOrg/status/1865337217020735556
4.    https://www.youtube.com/watch?v=nFEwvjrelD4
5.    https://www.youtube.com/watch?v=K_VoYUKELBY
6.    https://www.commondreams.org/news/us-bombs-syria-again
7.    https://www.middleeasteye.net/news/us-officials-discussed-merits-removing-bounty-hts-leader-abu-mohammad-jolani
8.    https://www.politico.com/news/2019/11/13/trump-troops-syria-oil-pentagon-070567