بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
حضرت صدیقۂ طاہرہ صلوات اللہ علیہا کے ایام ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ بحمد اللہ اس سال بھی یہ نشست منعقد ہوئي۔ میرے خیال میں یہ نشست، اس امام بارگاہ میں منعقد ہونے والی انتہائي اچھی اور غیر معمولی نشستوں میں سے ایک ہے۔ ہماری عزیز خواتین اور بیٹیوں کی اتنی کثیر تعداد کے ساتھ، اتنے بھرپور جذبات کے ساتھ، اتنے اچھے بیانات کے ساتھ جو محترم مقررین اور خواتین نے پیش کیے، واقعی یہ ایک یادگار نشست ہے۔
بیان شدہ مسائل پر ذمہ دار ادارے کام کریں
بہت اچھی باتیں بیان کی گئيں۔ میں اسی وقت، یہیں سے اپنے دفتر، دفتر کے امور کی نگرانی کے شعبے کے ذمہ داروں کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ان خواتین کی بیان کردہ باتوں پر سنجیدگي سے غور کریں۔ ان میں سے بعض کام خود ہمارے ہیں، مجھ سے یا میرے دفتر سے متعلق ہیں، ان من سے بعض کام بلکہ ان میں سے اکثر کام سرکاری اداروں وغیرہ سے متعلق ہیں، جو کام ہم سے متعلق ہیں، انھیں انجام دیا جائے، جو کام دیگر اداروں سے متعلق ہیں، انھیں کروایا جائے، نظر رکھی جائے۔
بیان شدہ مسائل اور باتوں کی اہمیت
جو باتیں کی گئيں، ان میں "عورت کے تیسرے آئيڈیل" کے بارے میں گفتگو ہوئي جو مسلمان انقلابی خاتون ہے، سائبر اسپیس میں گھرانے کے مسئلے پر گفتگو ہوئي، جو بہت اچھی طرح اور جامعیت سے کی گئي، گھرانے کی اکائي کے ذریعے آبادی کے مسئلے کو حل کرنے کی بات ہوئي جسے ان محترمہ نے بیان کیا اور آبادی کے مسئلے پر، افزائش نسل وغیرہ کی بات کی، البتہ خود انھوں نے کہا کہ ان کے دو بچے ہیں، جو کہ کم ہیں، فن و ہنر، خاص طور پر ایرانی سنیما اور تھیئٹر کے بارے میں ایک محترمہ نے باتیں بیان کیں جو اہم ہیں، شادی کے امور میں آسانیاں پیدا کرنے کی باتیں بہت اہم ہیں، واقعی، ہماری موجودہ مشکلات میں سے ایک، یہی ہے۔ اور یہ باتیں جو ان محترمہ نے بیان کیں، بہت اچھی باتیں ہیں۔ ان کاموں کی انجام دہی پر نظر رکھی جائے، یہ اہم مسائل ہیں۔ میں نے محترمہ عائدہ سرور کو پہلے بھی یہاں دیکھا تھا۔ وہ وہی دن تھا جب انھیں اپنے دوسرے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تھی۔ اسی امام بارگاہ میں ہماری نشست تھی اور میں نے ان محترمہ کو یہیں دیکھا تھا۔ اس جذبے پر میں انھیں مبارکباد اور بیٹوں کے بچھڑنے پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔
میں نے کچھ باتیں یہاں نوٹ کی ہیں اور جتنا وقت ہوگا، ان شاء اللہ انھیں بیان کروں گا۔ کچھ چیزیں حضرت صدیقۂ کبریٰ سلام اللہ علیہا کے بارے میں، اسلام کے نظریے کے مطابق کچھ باتیں عورت کے مسئلے میں، جو آج پوری دنیا میں ایک اہم انسانی مسئلہ ہے، اور پھر کچھ جملے خطے کے آج کے حالات کے بارے میں عرض کروں گا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا معنوی مقام اور عظمت
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں، میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ عظیم شخصیت، یہ نوجوان خاتون، عالم خلقت کے محیر العقول حقائق میں سے ایک ہیں۔ اگر انسان حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے تمام وجودی پہلوؤں کو نظر میں رکھے اور دیکھے تو اسے یقین آ جائے گا کہ یہ آفرینش کی ایک حیرت انگيز حقیقت ہے، وہ اس طرح کی ہستی ہیں۔ ایک نوجوان لڑکی جو اپنی نوجوانی میں ہی - ایک روایت کے مطابق وہ اٹھارہ سال کی عمر میں شہید ہوئي ہیں، ایک دوسری روایت کے مطابق بیس بائيس سال میں شہید ہوئي ہیں، بہرحال اس عظیم شخصیت کے بارے میں پیغمبر اکرم یا دوسروں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی سے متعلق ہے - معنوی لحاظ سے اور ملکوتی و جبروتی تشخص کے مرتبے کے لحاظ سے ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس کا غضب، خدا کے غضب کا سبب بن جائے، اس کی خوشی، خدا کی خوشی کا باعث بن جائے۔ اس روایت کو شیعوں نے بھی نقل کیا ہے اور اہلسنت نے بھی نقل کیا ہے؛ شیعہ کتابوں کی روایت میں اس طرح آيا ہے: "اِنَّ اللّہَ يَغضَبُ لِغَضَبِ فاطِمَۃَ وَ يَرضىٰ لِرِضاھا"(2) یہ ہماری کتابوں کی عبارت ہے۔ اہلسنت کی کتابوں میں یہی روایت، حضرت فاطمہ زہرا سے خود پیغمبر اکرم کے خطاب کی صورت میں ہے کہ پیغمبر نے فاطمہ سے فرمایا: "یا فاطِمَۃُ! اِنَّ اللّہَ لَيَغضَبُ لِغَضَبِكِ وَ يَرضىٰ لِرِضاك"(3) تمھاری خوشی سے خدا خوش ہوتا ہے اور تمھارے غضب سے خدا غضب ناک ہوتا ہے۔ یہ بہت عجیب چیز ہے! ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ یہ بلند مرتبہ انسان، جہاں خدا غضب ناک ہوتا ہے، وہ بھی غضب ناک ہوتا ہے؛ نہیں، اس کے برخلاف ہے، جب بھی وہ غضب ناک ہوتا ہے، اللہ بھی غضب ناک ہوتا ہے۔ آپ عظمت کو دیکھیے!
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عالم وجود کی حیرت انگيز حقیقت اور خواتین کی برترین آئيڈیل
سختیوں میں پیغمبر کی غم گسار، جہاد میں امیر المومنین کی ہمراہ، عبادت میں فرشتوں کی آنکھیں چکاچوندھ کر دینے والی اور سیاست میں وہ فصیح و بلیغ اور آتشیں خطبے دینے والی تھیں، ان کے خطبوں میں، چاہے وہ جو انھوں نے مسجد میں دیے مہاجرین و انصار کے سامنے اور چاہے وہ جو انھوں نے مدینے کی خواتین کے درمیان دیے، سیاست بھی ہے، معرفت بھی ہے، شکوہ بھی ہے، منقبت بھی ہے، ہر چیز ہے، ایک غیر معمولی چیز ہے اور وہ بھی بہترین اور اعلیٰ الفاظ میں، نہج البلاغہ کے خطبوں کی طرح۔ وہ امام حسن کی پرورش کرنے والی ہیں، حسین ابن علی کی پرورش کرنے والی ہیں، حضرت زینب کی تربیت کرنے والی ہیں، دیکھیے جب یہ خصوصیات ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا ہوتی ہیں تو واقعی انسان کے سامنے دنیا کی ایک حیرت انگيز حقیقت آ جاتی ہے۔ ان کا بچپن آئيڈیل ہے، ان کی نوجوانی آئيڈیل ہے، ان کی شادی آئيڈیل ہے، ان کی زندگي کی سیرت آئيڈیل ہے، یہ سب برترین نمونہ ہائے عمل ہیں جو مسلمان خاتون کی بالاترین حد کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ اوج ہے۔ اسلام، مسلمان خواتین کو، تمام خواتین کو اس اوج کی طرف بلاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے لیکن اس سمت میں بڑھ تو سکتے ہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ مسلمان عورت کے آئيڈیل کے بارے میں سب سے خوبصورت، سب سے مناسب اور سب سے نمایاں بات ہے جسے ان خواتین نے "تیسرے آئيڈیل" کا نام دیا۔ حضرت فاطمہ زہرا، ایک آئيڈیل ہیں۔ تو یہ حضرت صدیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔
سیاسی و سامراجی مداخلت، عورت کے بارے میں عالمی سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کا مقصد
جہاں تک عورت کے مسئلے کی بات ہے تو آج دنیا میں خواتین کا مسئلہ مختلف پہلوؤں سے درپیش ہے۔ دنیا کے ہر گوشہ و کنار میں ہر گروہ اپنے ایک خاص محرک اور ایک خاص مقصد کے تحت عورت کے مسئلے کے بارے میں بولتا اور بات کرتا ہے۔ دنیا کے سرمایہ دار اور دنیا کے سیاستداں، وہ سیاستداں بھی انہی سرمایہ داروں کے کاسہ لیسی کرتے ہیں، طرز زندگي کے تمام مسائل کی طرح عورت کے اس مسئلے میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔ آج اور گزشتہ کل، دنیا کے سیاستداں اور سرمایہ دار، جو دنیا میں سامراج کی جڑ رہے ہیں، انسان کی طرز زندگي سے متعلق تمام مسائل میں مداخلت کرتے ہیں، ان کے پاس میڈیا بھی ہے، ان کے پاس دنیا کے سب سے بااثر ذرائع ابلاغ ہیں اور وہ میڈیا کی زبان بھی جانتے ہیں۔ ان کا محرک، عورت کے مسئلے میں دنیا کے سرمایہ داروں اور سامراجیوں کی مداخلت کا محرک، کوئي فکری اور فلسفیانہ نظریہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں عورت کے سلسلے میں کوئي فلسفیانہ نظریہ ہے اور وہ اس کی ترویج کرنا چاہتے ہوں، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ایک انسانی احساس اور جذبہ بھی نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ یہ محسوس کرتے ہوں کہ بعض مسائل میں دنیا میں عورت کمزور واقع ہوئي ہے اور وہ اس کی حمایت کرنا چاہتے ہوں، ان کے انسانی جذبات جوش میں آ گئے ہوں، نہیں! ایسا بھی نہیں ہے۔ ایک سماجی اور انسانی فریضے کی ادائيگي بھی نہیں ہے، یہ سب، سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کی مداخلت کے محرک نہیں ہیں۔ تو پھر محرک کیا ہے؟ محرک، سیاسی و سامراجی مداخلت ہے۔ وہ اس مسئلے میں شامل ہوتے ہیں تاکہ ان کی مزید مداخلت، مزید اثر و رسوخ اور ان کے نفوذ کے دائرے کی مزید توسیع کی تمہید رہے، بہانہ رہے۔ وہ اس مجرمانہ محرک کو، شر انگیز محرک کو بظاہر ایک فلسفیانہ لبادے میں، بظاہر ایک فکری آڑ میں اور بظاہر ایک انسان دوستانہ جذبے کے نام پر پیش کرتے ہیں۔ یہ مغرب والوں کا جھوٹ ہے، یہ مغربی سرمایہ داروں کا جھوٹ ہے جو آج دنیا پر مسلط ہیں۔ یہ جھوٹ مختلف معاملوں میں دیکھا گيا ہے، اسی جھوٹ کو، اسی دروغ گوئي کو، اسی ریاکاری کو ہم نے مختلف مسائل میں، مغرب کے سیاستدانوں اور ماہرین اقتصاد کی کارکردگي میں دیکھا ہے۔
یورپ میں خواتین کی آزادی اور مالی خود مختاری کے مسائل میں مغرب والوں کا جھوٹ
اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قریب ایک صدی پہلے، مثال کے طور پر انھوں نے عورت کی آزادی اور عورت کی مالی خود مختاری کی بات اٹھائی کہ عورت مالی اعتبار سے خود مختار ہونی چاہیے یا اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ اس کا ظاہر تو اچھا تھا لیکن اس کا باطن کیا تھا؟ اس کا باطن یہ تھا کہ ان کے کارخانوں کو مزدور کی ضرورت تھی، مرد مزدور کافی نہیں تھے، وہ عورتوں کو مزدوری کے لیے لانا چاہتے تھے اور وہ بھی مردوں سے کم اجرت پر، یہ اس کا باطن تھا۔ یہ چیز زیادہ تر یورپ میں اور مغرب میں انجام پائي، یہ صرف امریکا سے مختص نہیں تھی، اس حقیقت کو انھوں نے ایک انسان دوستانہ ظاہر کی آڑ میں چھپایا، اس نام سے کہ عورت کی مالی خود مختاری ہونی چاہیے، اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے، وہ گھر سے باہر نکل سکے، کام کر سکے، انسانیت نے وہاں بھی اس جھوٹ کو دیکھا۔
امریکا میں غلاموں کی آزادی کے معاملے میں مغرب والوں کا جھوٹ
اس کی ایک دوسری مثال، البتہ اس کا عورت کے مسئلے سے کوئي تعلق نہیں ہے، امریکا میں غلاموں کی آزادی کا مسئلہ ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں، سنہ اٹھارہ سو ساٹھ کے آس پاس، امریکیوں نے ابراہم لنکن کے توسط سے جو اس وقت امریکا کے صدر اور ری پبلکن پارٹی کے رہنما تھے، غلاموں کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ معاملے کا ظاہری رخ یہ تھا کہ غلاموں کو آزاد ہونا چاہیے، وہ اس معاملے میں مدد بھی کرتے تھے اور غلاموں کو اسمگل کر کے جنوبی امریکا سے شمالی امریکا کی طرف لے جاتے تھے کیونکہ شمال اور جنوب کے درمیان جنگ تھی، لیکن معاملے کا حقیقی رخ یہ نہیں تھا، معاملے کی باطنی حقیقت یہ تھی کہ جنوب والے زراعت کے کام میں، تسلط رکھتے تھے، وہاں زرعی زمینیں تھیں اور ان زمینوں میں غلام مفت میں کام کرتے تھے، وہ غلام تھے، بس زندہ رہنے بھر کی تنخواہ ملتی تھی۔ شمال والوں نے حال ہی میں صنعت تک رسائي حاصل کی تھی اور انھیں مزدوروں کی ضرورت تھی، ان کے پاس اپنی ضرورت بھر کے مزدور نہیں تھے، وہ چاہتے تھے کہ ان غلاموں کو مزدور کی حیثیت سے اپنے کارخانوں میں استعمال کریں، اس کا راستہ یہ تھا کہ ان سے کہیں تم آزاد ہو، یہاں آؤ اور کارخانوں میں کام کرو! درحقیقت ان لوگوں نے انھیں کھیتوں کے غلام سے کارخانوں کے غلام میں بدل دیا۔ اصل بات یہ تھی۔ یہ مغرب والوں کا جھوٹ ہے۔
خواتین کے مسئلے اور حقوق کے بارے میں مغربی سیاستدانوں کی خطرناک پالیسیاں اور محرکات
آج بھی ایسا ہی ہے۔ عورت کے سلسلے میں اس وقت دنیا میں جو ہنگامہ بپا ہے، فیمینزم یا تانیثیت کا مسئلہ، عورت کے حقوق کا مسئلہ، خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کا مسئلہ، یہ سب ظاہری پہلو ہیں، ان کے پیچھے بہت سی پالیسیاں ہیں، خطرناک محرکات ہیں۔ یہ محرکات کیا ہیں؟ بعض کے بارے میں تو آج ہم جانتے ہیں، بعض کے بارے میں آگے چل کر جانیں گے، یہ بعد میں منکشف ہوں گے لیکن بہرحال یہ انسانی محرکات نہیں ہیں۔ یہ جھوٹ اور عدم صداقت آج بھی موجود ہے۔ محرکات، صرف سیاسی ہیں، صرف سامراجی ہیں، نفوذ کا ذریعہ ہیں، البتہ اس سلسلے میں بحث ہماری اس نشست سے متعلق نہیں ہے۔
تو ہم دنیا میں اس طرح کی ایک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں کہ کچھ لوگ، "عورت" کے اہم مسئلے میں بات کرتے ہیں لیکن ان میں اس سلسلے میں صداقت نہیں ہے۔ ہم مسلمان کی حیثیت سے، "عورت" کے مسئلے کے بارے میں بولنا چاہتے ہیں، بات کرنا چاہتے ہیں، اپنی رائے اور منطق پیش کرنا چاہتے ہیں، اپنے درمیان اس منطق کو رائج کرنا اور اس منطق کے مطابق عمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے اور آج یہ کام انجام پانا چاہیے۔ البتہ انقلاب کے آغاز سے ہی اسے انجام پانا چاہیے تھا اور بڑی حد تک کام ہوا بھی ہے لیکن کام پورا ہونا چاہیے، ختم ہونا چاہیے۔ میں اس سلسلے میں کچھ نکات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
زوجیت، عورت کے سلسلے میں اسلام کے منشور اور نظریے کا پہلا موضوع
اگر ہم اسلام کے نظریے کے مطابق عورت کے سلسلے میں ایک منشور تیار کرنا چاہیں جس میں مختلف شقیں ہوں تو میرے خیال میں اس منشور میں جو سب سے پہلا موضوع آنا چاہیے، وہ زوجیت کا مسئلہ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ زن و مرد ایک دوسرے کا جوڑا ہیں، ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں، عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے خلق ہوئے ہیں۔ یہ بات قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئي ہے: "وَ اللَّہُ جَعَلَ لَكُم مِن اَنفُسِكُم اَزواجاً"(4) یہ خطاب، "جَعَلَ لَكُم"، تمھارے لیے قرار دیا، مردوں سے نہیں ہے، انسان سے خطاب ہے، چاہے وہ عورت ہو یا مرد۔ اے افراد بشر! خدا نے خود تمھاری جنس سے تمھارے لیے جوڑا بنایا ہے، قرار دیا ہے۔ "زوج" صرف مرد کو نہیں کہا جاتا، یہ لفظ مرد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور عورت کے لیے بھی۔ میں نے اس کے لیے آیت بھی نوٹ کی ہے؛ جس آيت میں زوج، عورت کے معنی میں استعمال ہوا ہے وہ "يا آدَمُ اسكُن اَنتَ وَ زَوجُكَ الجَنَّۃ"(5) ہے، یہاں پر لفظ "زوج" بیوی اور عورت کے معنی میں۔ ایک دوسری جگہ قرآن فرماتا ہے: "قَد سَمِعَ اللَّہُ قَولَ الَّتی تُجادِلُكَ فی زَوجِھا"(6) یہاں پر لفظ "زوج" مرد کے لیے استعمال ہوا ہے۔ بنابریں ہم نے تمھاری ہی جنس سے تمھارا لیے جوڑا پیدا کیا۔ البتہ یہ انسان سے بھی مختص نہیں ہے، یہ بات میں نے بحث کے ذیل میں کہہ دی ہے اور جو اس طرح کے کاموں کے اہل ہیں وہ اس پر کام کریں۔
زوجیت، اسلام کی نظر میں تاریخ کے جاری رہنے کا سبب
اسلام میں، اسلام کے نظریے کی بناء پر آفرینش، تاریخ انسانیت اور تاریخ عالم کی بنیاد ہماہنگي، ہمراہی، ازدواج اور رشتے پر مبنی ہے، اس چیز کے بالکل برخلاف جو ہیگل اور مارکس وغیرہ کے جدلیات (Dialetics) میں ہے جس کے مطابق دنیا کی بنیاد، تضاد پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئي چیز وجود میں آتی ہے، اس کی ضد بھی وجود میں آتی ہے، اس تضاد سے ایک تیسری چیز وجود میں آتی ہے اور پھر اس کی بھی ضد وجود میں آتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، تاریخ اس طرح آگے بڑھتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں، کوئي چیز وجود میں آتی ہے، پھر کوئي چیز اس کی ہمراہی اور اتحاد کے لیے وجود میں آتی ہے اور ان دونوں کی ہمراہی سے، ان دونوں کے اتحاد سے، ان دونوں کی زوجیت سے ایک تیسری چیز وجود میں آتی ہے اور تاریخ اس طرح آگے بڑھتی ہے۔ البتہ جیسا کہ میں نے عرض کیا اس سلسلے میں اس کے اہل افراد سوچیں، کام کریں، ایک سرا پکڑیں اور آگے بڑھیں اور دیکھیں کہ کہاں تک پہنچتے ہیں، یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
گھرانہ، الہی سنت اور ایرانی قوم کی ثقافتی طاقت کی ایک نشانی
تو انسان کے سلسلے میں خداوند عالم نے عورت اور مرد کو جوڑا بنایا یعنی ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے۔ زوجیت کے معنی، زوجیت کا لازمہ یہ ہے کہ ایک اکائي تشکیل پائے ورنہ جوڑا نہیں ہے۔ اگر دو اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ آئيں، ایک دوسرے سے متحد اور منسلک ہو گئيں تو ایک تیسری اکائي وجود میں آتی ہے جو گھرانہ ہے۔ مطلب یہ کہ گھرانے کے سلسلے میں اسلام کی فکری بنیاد اس طرح کی ہے۔ گھرانہ ایک الہی سنت ہے، آفرینش کی ایک سنت ہے۔ یہ کہ ایک مرد اور عورت، ایک دوسرے کی احوال پرسی کریں یا احوال پرسی سے بڑھ کر ایک دوسرے کے قریب سے گزر جائيں تو یہ زوجیت نہیں ہے۔ زوجیت کا مطلب ہے ایک تیسری اکائي کی تشکیل، گھرانے کی تشکیل، زوجیت کا مطلب یہ ہے۔ البتہ گھرانے پر اسلام میں بھی تاکید کی گئي ہے اور بحمد اللہ ایران میں بھی روایتی ایرانی گھرانہ، ایرانی قوم کی ثقافتی طاقت و گہرائي ایک اہم علامت ہے۔ بنابریں اسلامی منشور کی پہلی شق، گھرانے کی تشکیل، زوجیت کے مسئلے اور زن و مرد کے ایک دوسرے کی تکمیل کرنے کے مسئلے سے عبارت ہے۔
حیات طیبہ تک پہنچنے میں زن و مرد کے درمیان کوئي فرق نہ ہونا، اسلام کے منشور کا دوسرا موضوع
دوسرا موضوع یہ ہے کہ یہ جوڑا، یہ دو فرد، یہ زن و مرد حیات طیبہ تک پہنچنے کے لیے، جو انسان کی خلقت کا ہدف ہے، ایک دوسرے سے کوئي فرق نہیں رکھتے، ان میں سے کوئی بھی، دوسرے سے برتر نہیں ہے۔ البتہ انسان ایک طرح کے نہیں ہیں، خواتین کے درمیان، مردوں کے درمیان بعض لوگوں میں زیادہ توانائیاں ہوتی ہیں، بعض توانائی کے لحاظ سے کم تر ہوتے ہیں لیکن عورت اور مرد کے درمیان، عورت کی حیثیت سے اور مرد کی حیثیت سے حیات طیبہ تک پہنچنے میں کوئي فرق نہیں ہے، یہ بات بھی قرآن میں ہے: "مَن عَمِلَ صالِحاً مِن ذَكَرٍ اَو اُنثىٰ وَ ھُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحيِيَنَّہُ حَياۃً طَيِّبَۃ"(7) عورت اور مرد اگر نیک عمل کریں اور ایمان رکھتے ہوں تو وہ یکساں ہیں، یہ سورۂ نحل میں ہے۔ یا سورۂ احزاب کی اس آيت کریمہ میں، جسے میں کئي بار خواتین کے مجمع میں پڑھ چکا ہوں: "اِنَّ المُسلِمينَ وَ المُسلِماتِ وَ المُؤمِنينَ وَ المُؤمِناتِ وَ القانِتينَ وَ القانِتاتِ وَ الصّادِقينَ وَ الصّادِقاتِ وَ الصّابِرينَ وَ الصّابِراتِ وَ الخاشِعينَ وَ الخاشِعاتِ وَ المُتَصَدِّقينَ وَ المُتَصَدِّقاتِ وَ الصّائِمينَ وَ الصّائِماتِ وَ الحافِظينَ فُرُوجَھُم وَ الحافِظاتِ وَ الذَّاكِرينَ اللَّہَ كَثيراً وَ الذَّاكِرات"(8) عورت اور مرد کے درمیان دس خصوصیات ہیں، خدا کی سمت، حیات طیبہ کی سمت معنوی سفر میں، عالم ملکوت میں اور توحید کے اعلیٰ معنوی و روحانی عالم میں انسانی عروج کی سمت آگے بڑھنے میں زن و مرد کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے جو اس منشور میں شامل کیا جانا چاہیے۔
مختلف میدانوں میں پہنچنے کے لیے ضروری فکری و روحانی توانائياں، منشور کا تیسرا موضوع
اگلا موضوع یہ ہے کہ اگرچہ جسمانی لحاظ سے عورت اور مرد کا ظاہر مختلف ہے، اس کا قد زیادہ بلند ہے، آواز زیادہ موٹی ہے لیکن فکری اور روحانی توانائيوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے دونوں ہی جنسوں میں بے انتہا صلاحیتیں پائي جاتی ہیں اور اس لحاظ سے ان میں کوئي فرق نہیں ہے۔ یعنی علم میں مرد اور عورت مقابلہ آرائي کر سکتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ مرد، عورتوں سے زیادہ عالم ہوں، نہیں! عظیم، بڑے مرتبے والی، علمی لحاظ سے نمایاں مقام کی حامل خواتین تاریخ میں رہی ہیں، البتہ آج سیکڑوں گنا زیادہ ہیں، یونیورسٹیوں میں بھی اور اعلی دینی تعلیمی مراکز میں بھی۔ علم کے لحاظ سے، فن و ہنر کے لحاظ سے، فکری و عملی جدت طرازی کے لحاظ سے، سماجی، فکری اور سیاسی اثر ڈالنے کے لحاظ سے، معاشی سرگرمیوں کے لحاظ سے، یہ صلاحیتیں دونوں جنسوں میں، عورت میں اور مرد میں پائي جاتی ہیں۔ لہذا عورت ان میدانوں میں اتر سکتی ہے اور بعض مواقع پر اسے اترنا ہی چاہیے، بعض جگہوں پر ضروری اور واجب ہے کہ عورت ان میدانوں میں آئے؛ سیاست میں، معیشت میں، بین الاقوامی مسائل میں، علمی مسائل میں، ثقافتی اور ہنری مسائل میں، ہر جگہ۔ تو یہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جو خواتین سے متعلق اسلامی منشور میں یقینی طور پر پایا جاتا ہے۔
گھرانے میں عورت اور مرد کے یکساں حقوق، منشور اسلام کا چوتھا موضوع
اگلا موضوع یہ ہے کہ گھرانے کے ماحول میں عورت اور مرد کے الگ الگ کردار ہیں، یہ برتری کی دلیل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر گھرانے کے اخراجات مرد کے ذمے ہیں، یہ اس کی برتری کی دلیل نہیں ہو سکتی، بچوں کو وجود عطا کرنا، عورت کی ذمہ داری ہے، یہ بھی برتری کی دلیل نہیں ہے۔ یہ سب امتیازات ہیں، ایک ایسا امتیاز ہے جو عورت مرد دونوں کے پاس ہے۔ عورت اور مرد کے حقوق کو ان بنیادوں پر تولا نہیں جا سکتا، ان کے حقوق یکساں ہیں۔ یہ چیز بھی قرآن مجید میں ہے: : "وَ لَھُنَّ مِثلُ الَّذی عَلَيھِنّ"(9) گھرانے میں عورت اور مرد کے حقوق یکساں ہیں، یعنی اگر ہم حقوق کے لحاظ سے گھرانے پر نظر ڈالیں تو دو افراد جو حقوق کے لحاظ سے برابر ہیں، ایک ساتھ زندگي گزار رہے ہیں، ایک دوسرے کو مکمل کر رہے ہیں۔ البتہ جذباتی لحاظ سے عورت کی کچھ خصوصیات ہیں، پیغمبر اکرم نے خواتین کے بارے میں فرمایا: "اَلمَراَۃَ رَيحانَۃٌ وَ لَيسَت بِقَھرَمانَۃ"(10) گھر کے اندر عورت کو پھول کی طرح سے دیکھا جانا چاہیے۔ پھول کی دیکھ بھال کی جانی چاہیے، اس کی طراوت سے، اس کی خوشبو سے ماحول کو معطر کرنا چاہیے، استفادہ کرنا چاہیے، یہ جذباتی لحاظ سے ہے لیکن حقوق کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ تو یہ بھی اس منشور کا ایک موضوع ہے۔
عفت کا مسئلہ اور زن و مرد کے میل جول میں حد بندی، خواتین کے بارے میں اسلام کے منشور کا پانچواں موضوع۔
اس منشور میں ایک اور موضوع یہ ہے کہ آپسی میل جول کے لحاظ سے عورت اور مرد کی کچھ حد بندیاں ہیں، یہ ان خصوصیات میں سے ہیں جن پر اسلام تاکید کرتا ہے۔ البتہ آج مغرب میں جو بے راہ روی دکھائي دیتی ہے، یہ ہمیشہ سے نہیں تھی، یہ نئے زمانے کی ہے، شاید دو صدی پہلے، تین صدی پہلے۔ انسان جب بعض کتابیں پڑھتا ہے، اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ناول پڑھتا ہے اور ان میں یورپی خاتون کی توصیف کا مشاہدہ کرتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ بہت سے تحفظات تھے جو آج مغرب والوں کے درمیان نہیں ہیں۔ اسلام ان تحفظات پر تاکید کرتا ہے، اسلام حجاب کے مسئلے پر، عفت کے مسئلے پر، نگاہ کے مسئلے پر تاکید کرتا ہے۔ یہ بھی ان خصوصیات میں سے ایک ہے جو اس منشور میں ہونی چاہیے۔
ماں ہونے کی قدروقیمت اور عظیم افتخار، خواتین کے منشور کا چھٹا موضوع
ایک بہت ہی اہم مسئلہ ماں ہونے کی معنوی قدروقیمت ہے۔ ماں ہونا، افتخار ہے۔ آج میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ، انہی پالیسیوں کے زیر اثر، جن کی طرف میں نے اشارہ کیا، یعنی وہی سرمایہ دارانہ، سامراجی اور خودمختار معاشروں خاص طور پر ہمارے معاشرے کے بدخواہوں کی پالیسیاں، ماں ہونے کی ایک غلط تصویر پیش کرتی ہیں، اگر کوئي کہے کہ گھرانوں کے لیے افزائش نسل ضروری ہے تو طعنہ مارتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں کہ "آپ کو عورت، بچے کے لیے چاہیے، افزائش نسل کے لیے چاہیے۔" ماں ہونا ایک افتخار ہے، آپ جو ایک انسانی وجود کو بہت زیادہ زحمت کے ساتھ چاہے اپنے اندر یا باہر، اس کی زندگي کی شروعات میں پالتی ہیں، اس کی زحمتوں کو برداشت کرتی ہیں، اس کی ایک انسان کے طور پر پرورش کرتی ہیں؟ کوئي معمولی افتخار ہے؟ یہ بہت اہم ہے، بہت گرانقدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں، ماں کے سلسلے میں بہت تاکید کی گئي ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گيا: "مَن اَبَرّ؟" ایک شخص نے آ کر پوچھا کہ کسے ترجیح حاصل ہے کہ میں اس کے ساتھ اچھائي کروں، نیکی کروں؟ آنحضرت نے فرمایا: "اُمَّك" اپنی ماں کے ساتھ۔ اس نے پوچھا: اس کے بعد کس کے ساتھ؟ آپ نے پھر فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ اس نے تیسری دفعہ پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے پھر فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ آپ نے تین بار کہا کہ اپنی ماں کے ساتھ! اس نے پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ آنحضرت نے فرمایا: "اپنے باپ کے ساتھ"(11) یعنی باپ، چوتھے مرحلے پر ہے۔ یا ایک شخص آیا جو جہاد کے لیے جانا چاہ رہا تھا، البتہ اس معاملے میں اور اس داستان میں ضروری فوجی قوت موجود تھی، اس نے کہا کہ میری ماں راضی نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اپنی ماں کی خدمت کرو، اس کا ثواب جہاد سے زیادہ ہے۔(12) البتہ میں نے عرض کیا کہ یہ اس وقت کے لیے ہے جب ضروری افرادی قوت موجود ہو۔ تو ماں ہونے کا مسئلہ اس طرح کا ہے۔
یہ جو روایت میں ہے کہ "اَلجَنَّۃُ تَحتَ اَقدامِ الاُمّھات"(13) اس میں "تحت اقدام" ایک کنایہ ہے، یہ لفظ کنایۃً استعمال ہوا ہے۔ جنت، ماؤں کے پیروں کے نیچے ہے یعنی ماں کے پاس ہی ہے۔ اگر تمھیں جنت چاہیے تو ماں کے پاس جاؤ، وہ تمھیں جنت دے گي۔ اس سے محبت کرو، مہربانی سے پیش آؤ، اس کی خدمت کرو، اس کی اطاعت کرو، اس کا احترام کرو، وہ تمھیں جنت دے گی۔ یہ بھی اس منشور کی ایک شق ہے۔
یہ کچھ باتیں تھیں "عورت" کے مسئلے اور عورت کے بارے میں اسلام کی نگاہ کے سلسلے میں۔ البتہ اگر کوئي اس منشور کو تیار کرنا چاہے تو شاید اس میں مثال کے طور پر تیس یا چالیس شقیں، اہم شقیں ہوں گي جن میں سے بعض کو میں نے عرض کیا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی میں خواتین کا پراثر کردار
ہمارے ملک میں اسی سوچ کی بنیاد پر ہم بحمد اللہ انقلاب کے آغاز سے آج تک مومن، دانا اور سرگرم خواتین کے رشد و پیشرفت کے شاہد رہے ہیں۔ البتہ جدوجہد کے آخری برسوں میں یعنی ان آخری مہینوں میں یا آخری سال میں بھی خواتین کی موجود فیصلہ کن تھی اور یہی وجہ تھی کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں کبھی نہیں جھکے۔ بعض لوگ تھے جو ریلیوں میں خواتین کی شرکت کے مخالف تھے، امام خمینی اس سوچ کو، اس فکر کو، اس رائے کو شدت سے مسترد کر دیتے تھے۔ خواتین کی موجودگی مؤثر تھی، واقعی مؤثر تھی۔ جب خواتین میدان میں آ گئيں تو مردوں نے، یہاں تک کہ ہمیشہ الگ رہنے والے مردوں نے بھی محسوس کیا کہ انھیں میدان میں آنا ہوگا۔ عورتیں جب میدان میں آ گئيں تو ان کے شوہروں اور نوجوان بچوں نے محسوس کیا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ میدان میں آئیں۔ ایک طرح سے کہا جائے تو خواتین نے انقلاب کو فتح دلائي۔
ملک کے تشخص اور ثقافت کو محفوظ رکھتے ہوئے مختلف میدانوں میں خواتین کی متانت اور عفت کے ساتھ موجودگي
انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد بھی مختلف شعبوں میں خواتین میدان میں آئيں۔ کچھ باتیں ان خواتین نے بیان کیں جو بہت ٹھوس، مبنی بر حقیقت اور پختہ سوچ کی غماز تھیں۔ یقینی طور پر اس مجمع میں سیکڑوں یا اس سے بھی زیادہ اس طرح کی صاحب فکر خواتین موجود ہیں اور قطعی طور پر ملک میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے علمی، فکری، جدت طرازی، ایجاد اور اجتہاد کے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی کام ہوا ہے۔ ایرانی خاتون اپنی متانت سے، اپنی حیا سے، اپنی عفت سے ملک کے تشخص، ملک کی ثقافت کو محفوظ رکھ سکی ہے، وہ ملک کی تاریخی اور اصل روایات کی حفاظت کر سکی ہے۔ وہ یونیورسٹی پہنچی ہے، وہ سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوئي ہے، اس نے بین الاقوامی سرگرمیاں انجام دی ہیں لیکن وہ پاکیزہ رہی ہے، یہ بہت اہم ہے۔ آج ہم بہت سے مغربی ممالک میں دیکھتے ہیں کہ خواتین کچھ نقصان اٹھا رہی ہیں، ہمارے ملک کی عورت ان نقصانات سے دوچار نہیں ہوئي۔ ایرانی خاتون آج تک اس طرح آگے بڑھی ہے اور ان شاء اللہ اس کے بعد بھی اسی طرح آگے بڑھے گي۔ بڑے بڑے واقعات میں ہماری خواتین نے درخشاں کردار ادا کیا، جنگ میں درخشاں کردار ادا کیا، مقدس مقامات کے دفاع میں درخشاں کردار ادا کیا، سیاسی مقابلہ آرائي میں درخشاں کردار ادا کیا، تحقیقاتی مراکز میں نمایاں کام انجام دیے، یونیورسٹیوں میں بھی ایسا ہی کیا، اعلیٰ دینی تعلیمی مراکز میں بھی ایسا ہی رہا۔ جب ہم حوزۂ علمیہ (دینی تعلیم کے اعلیٰ مرکز) میں تھے تو مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئي خاتون فقہی اجتہاد کے مرتبے تک پہنچی ہو لیکن آج بحمد اللہ ایسی خواتین جو مجتہد ہیں، جو فقہی اجتہاد کے مرتبے تک پہنچ چکی ہیں، کم نہیں ہیں۔ میرا تو یہاں تک خیال ہے کہ بہت سے زنانہ مسائل میں، جن کا موضوع خواتین ہیں اور مرد اس موضوع کا ٹھیک طرح سے تعین نہیں کر پاتے، عورتوں کو خاتون مجتہد کی تقلید کرنی چاہیے۔ بنابریں انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہمارے ملک میں خواتین کی پیشرفت بہت اچھی ہے۔ ہمارے یہاں کبھی بھی خاتون سائنسدانوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں رہی، اتنی زیادہ خاتون پروفیسرز کبھی نہیں رہیں، اتنی زیادہ شاعرات، اتنی زیادہ صاحب قلم خواتین، اتنی زیادہ فنکار خواتین وہ بھی دیندار، کبھی نہیں تھیں۔ بحمد اللہ آج ہمارے یہاں اس طرح کی خواتین ہیں۔البتہ ہم متوجہ رہیں کہ دشمن بھی بیکار نہیں بیٹھا ہے۔ دشمن بھی سازش تیار کرنے میں مصروف ہے۔
اسلامی جمہوری نظام کے دشمن بہت جلد سمجھ گئے کہ ہارڈ وئير طریقوں سے انقلاب کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ وہ سافٹ وئير ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے۔ وہ سمجھ گئے کہ جنگ، بمباری، فتنہ انگیز فورسز اور نسل پرستی وغیرہ سے ایران اسلامی کو وہ توڑ نہیں سکتے، اسے جھکا نہیں سکتے۔ تو وہ سافٹ ہتکھنڈے استعمال کرنے لگے۔ سافٹ ہتھکنڈے، پروپیگنڈہ ہے، ورغلانا ہے، عدم صداقت ہے جو ان کے نعروں میں پائي جاتی ہے جسے انسان دیکھتا ہے۔ نام رکھتے ہیں، موسوم کرتے ہیں عورت کے دفاع کے نام پر، عورتوں کے معاشرے کے دفاع کے نام پر، عورتوں کے ایک گروہ کے دفاع کے نام پر، ایک عورت کے دفاع کے نام پر، ایک عورت کے دفاع کے نام پر کسی ملک میں ہنگامے کرا دیتے ہیں۔ سافٹ وئير ہتھکنڈوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہماری بیٹیاں، ہماری خواتین، ہماری ٹیچرز، ہماری طالبات، خواتین کا پورا معاشرہ اس سلسلے میں اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے۔ ایک محترمہ نے کہا کہ "مَن اَصبَحَ وَ لَم یَھتَمَّ بِاُمورِ المُسلِمینَ فَلَیسَ بِمُسلِم" (جو صبح اٹھے اور مسلمین کے امور کے سلسلے میں اہتمام نہ کرے، وہ مسلمان نہیں ہے۔)(14) یہ بات مردوں سے مختص نہیں ہے، خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔ ابھی یہاں کہا گيا، بالکل صحیح ہے۔ مسلمین کا ایک کام جس کے بارے میں اہتمام کرنا چاہیے، انہی وسوسوں، شیطانی سازشوں، نرم ہتکھنڈوں کی سازشوں اور نرم جنگ کے حربوں سے عبارت ہے جو بہت سے مسائل میں، خاص طور پر خواتین اور عورتوں کے مسائل سے متعلق اقدار میں تحریف کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور آپ کو اس طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ تو یہ کچھ باتیں خواتین کے بارے میں تھیں۔
مزاحمت کے شہیدوں کی راہ اور سوچ کا جاری رہنا اور اسرائيل کی نابودی
کچھ جملے خطے کے بارے میں عرض کروں۔ خطے میں، اس حرکت کی وجہ سے جو شام میں ہوئي اور ان جرائم کی وجہ سے جو صیہونی حکومت کر رہی ہے اور ان جرائم کی وجہ سے جو امریکا کر رہا ہے اور بعض دوسروں نے جو مدد کی ہے اس کی وجہ سے یہ سوچ لیا کہ مزاحمت کا کام تمام ہو گيا، یہ سخت غلط فہمی میں ہیں۔ سید حسن نصر اللہ کی روح زندہ ہے، سنوار کی روح زندہ ہے۔ شہادت نے انھیں میدان وجود سے باہر نہیں نکالا ہے، ان کا جسم گيا ہے، ان کی روح باقی ہے، ان کی سوچ باقی ہے، ان کی راہ جاری ہے۔ آپ دیکھیے کہ غزہ پر روزانہ حملے ہو رہے ہیں، لوگ شہید ہو رہے ہیں، روزانہ! لیکن وہ پھر بھی ڈٹے ہوئے ہیں، پھر بھی مزاحمت کر رہے ہیں، لبنان مزاحمت کر رہا ہے۔ البتہ صیہونی حکومت بزعم خود اپنے آپ کو شام کے راستے سے حزب اللہ کی فورسز کو گھیرنے اور انھیں جڑ سے اکھاڑنے کے لیے تیاری کر رہی ہے لیکن جو جڑ سے اکھڑے گا، وہ اسرائيل ہے۔ ہم فلسطین کے مجاہدوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم حزب اللہ کے مجاہدوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں، ہم ان کی ہر ممکن مدد کریں گے اور ہمیں امید ہے کہ یہ لوگ وہ دن دیکھیں گے جب ان کا خبیث دشمن ان کے پیروں تلے روندا جا رہا ہوگا۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ