شراب اور سگریٹ، خواتین کو فریب دینے کے اہم وسائل
انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے ابتدائي عشروں میں برطانیہ اور امریکا جیسے مغربی صنعتی ممالک میں، مردوں کے مساوی سماجی حقوق کے حصول کے لیے فیمینسٹ تحریکوں میں روز افزوں پھیلاؤ آتا جا رہا تھا۔ یہ دورانیہ جو، تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے درمیان "ووٹ کے حق" کے زمانے کے نام سے مشہور ہے، اپنے آپ میں، شادی کے بعد جائيداد کی ملکیت کے حق، ووٹ کے حق اور مردوں کے مساوی شہری حقوق کے حصول کے لیے بڑی بڑی زنانہ تنظیموں کے تشکیل کا شاہد رہا۔ یہ تحریکیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے صرف قانونی کوششوں پر ہی اکتفا نہیں کر رہی تھیں بلکہ سماج کی ذہنی اور ثقافتی سوچ کو بدل کر اور خاص طور پر ممنوعہ باتوں کو پیروں تلے کچل کر عورتوں کے لیے آزادی اور مساوات بھی حاصل کرنا چاہ رہی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ لوگوں کے ذہنوں سے مردانہ نظام کی زنجیروں کو توڑ کر ہی عورتوں کے لیے آزادی و مساوات کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ اس سوچ کے دو اہم ترین مظہر، سگریٹ پینا اور شراب نوشی تھی۔ "آزادی کے شعلے" وہ لقب تھا جو ان تحریکوں نے عورتوں کے گوشۂ لب میں پھنسی ہوئي سگریٹ کو دے رکھا تھا اور لفظ "ہیجان انگیز"(1) اس پارٹی کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا تھا جس میں شراب اور سگریٹ پینا رائج ہو۔ اسی طرح "جوان لڑکیوں کے لیے قابل رشک" عورت ہر جگہ ہوتی تھی(2) اور کوشش کی جاتی تھی کہ اسے مردانہ نظام کی قیود و حدود کو توڑنے والے ایک مظہر کے طور پر پیش کیا جائے۔
میرا پیسہ، میرا انتخاب
مغرب میں شہری آبادی کے پھیلاؤ اور مزدوروں، ملازموں اور مجموعی طور پر ورکنگ لیڈیز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی سماج کا یہ طبقہ جو اس سے پہلے تک مصنوعات کی منڈی میں کوئي سرگرم کردار نہیں رکھتا تھا، اب پیسے کمانے لگا تھا اور اس پیسے کو خرچ کرنے کی راہیں تلاش کرنے لگا تھا۔ مغرب کے سماجی اور روایتی اقدار سگریٹ اور شراب نوشی کو عورتوں کے لیے مناسب نہیں سمجھتے تھے اور مختلف طرح سے عورتوں کو ان چیزوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ "کوئي بھی معزز خاتون شراب نوشی کے ہال میں نہیں جاتی۔"(3) یہ ایک تسلیم شدہ عمومی خیال تھا اور "وہ عورت جو سگریٹ پیتی ہے، شراب پیتی ہے اور بات کرتے ہوئے گالی دیتی ہے" یہ جملہ ہنری فیلڈنگ کے ایک ناول میں ایک ناہنجار عورت کے لیے استعمال کیا گيا ہے۔ تاہم یہ اقدار، زنجیروں کو توڑنے والوں کے لیے پیشرفت، لذت، روزگار کے مساوی مواقع سے استفادے اور نئے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔ امریکا، برطانیہ اور یورپ کے دیگر حصوں میں فلیپر خواتین، ان اقدار کی بالکل مخالف سمت میں تھیں۔ وہ سگریٹ پیتی تھیں، شراب نوشی کرتی تھیں اور مردوں کے ساتھ بے تکلفی سے رقص کرتی تھیں اور جسمانی تعلقات قائم کرتی تھیں۔ بہت جلد ہالیووڈ اور مغرب کی فلمی صنعت کے سرغناؤں نے اسی طرز کی عورت کی تصویر کشی اور اس کی تعریف و تمجید شروع کر دی۔ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں، نام نہاد شجاع اور اقدار شکن خواتین کی تصویریں اپنی تشہیرات میں استعمال کرنے لگيں۔ اس طرح عورت اور مرد کے درمیان فرق کو ختم کر کے عورتوں کو سگریٹ اور شراب کی وادی میں دھکیل دیا گيا۔
زنجیر شکنی یا گھر کی دیوار کا انہدام؟
صنعتی انقلاب کے آغاز اور کام کے طویل اوقات اور کم تنخواہ پر مزدوروں کے پہلے احتجاج کے ساتھ ہی عام طور پر سرمایہ دار سماجی انصاف کی تحریکوں کی مخالف سمت میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی تھی کہ وہ صنعت و تجارت کے اپنے منافع میں، سماج کے ایک بڑے حصے کو حصہ دار نہ بنانا چاہیں لیکن خواتین کی انصاف طلب تحریکوں سے راک فیلر جیسے سرمایہ داروں کے تعاون پر کم ہی لوگوں کو شبہہ ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ خواتین کی سگریٹ اور شراب نوشی کے بارے میں سماج کے روایتی اقدار اور مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کے درمیان کیا منطقی رابطہ پایا جاتا ہے؟
دوسرے صنعتی انقلاب کی شروعات اور کارخانوں میں بڑے پیمانے پر پروڈکشن لائنیں بنائے جانے کے ساتھ ہی صنعت کے لیے افرادی قوت کی ضرورت کئي گنا بڑھ گئي۔ مغربی ممالک جو، فوجی تسلط اور آبی راستوں کے ذریعے دوسرے ملکوں کے قدرتی ذخائر پر قبضے کی وجہ سے سب سے پہلے صنعتی بن چکے تھے، بہت جلد اس بات کی طرف متوجہ ہو گئے کہ انھیں وسیع پیمانے پر سستی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ دوسرے صنعتی انقلاب کے آغاز کے ساتھ ہی عورتوں کو ملکیت کا حق دیا جانا اس بات کا غماز تھا کہ دنیا کے سرمایہ دار اب، سماج کے اس حصے کو استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ خواتین کو گھروں سے باہر لانے اور سماجی حدود و قیود کو توڑنے کے لیے عورتوں کے اندر ایک مضبوط خواہش کی ضرورت تھی اور سرمایہ داروں نے ملکیت اور ووٹ کے حق کے ان کے مطالبوں سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں کارخانوں میں لانے کا پہلا مرحلہ پورا کر لیا۔ پہلی عالمی جنگ شروع ہونے اور مرد افرادی قوت کے کم ہو جانے کی وجہ سے کارخانوں کے بہت سے بھاری کام بھی خواتین کے ذمے آ گئے۔ کام کی منڈی میں داخل ہونے کی خاطر عورتوں کو لبھانے کے لیے کچھ نئی باتوں کی ضرورت تھی۔ مغرب میں صنعتی مزدوری کا کلچر، شراب اور سگریٹ نوشی سے جڑا ہوا تھا۔ مرد مزدور جو شاید دن میں بارہ گھنٹے سخت جسمانی مشقت کرتے تھے، رات میں اپنی مزدوری مئے کدوں میں اڑا دیتے تھے اور خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے تھے۔ اس طرز زندگي سے جڑے ہوئے مسائل اس حد تک تھے کہ امریکا میں زنانہ تحریکیں، شراب نوشی اور گھریلو تشدد سے مقابلے کی اصل ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھیں۔ تاہم شراب اور سگریٹ نوشی کے چلن اور اس کی ستائش کے سلسلے میں مغربی سرمایہ داروں کی تشہیراتی جنگ نے ایک تیر سے دو نشانے لگائے۔ پہلی دسمبر سنہ 1932 کو شائع ہونے والی Britannia and Eve میگزین(4) کی رپورٹ کے مطابق انگریز خواتین، سگریٹ تیار کرنے کی صنعت کو زبردست منافع والی صنعت بنانے میں کامیاب رہیں اور اسے پچھلے کچھ عشروں میں ان کی اہم کامیابیوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے۔ دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ دار بھی اب سگریٹ اور شراب بنانے کی اپنی صنعت کو منافع بخش بنا چکے تھے اور خواتین کی طرف سے ان دونوں کے استعمال کو عام بنا کر انھوں نے اس مزدور طبقے کو کمزور بنانے اور اسے نشے کی لت لگانے کی راہ ہموار کر دی تھی۔
امام خامنہ ای نے 17 دسمبر 2024 کو اپنے خطاب میں اس تاریخی حقیقت کو اس طرح بیان کیا: "دنیا کے سرمایہ دار، طرز زندگي کے تمام مسائل کی طرح عورت کے اس مسئلے میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔ محرک کیا ہے؟ محرک، سیاسی و سامراجی مداخلت ہے۔ وہ اس مسئلے میں شامل ہوتے ہیں تاکہ ان کی مزید مداخلت، مزید اثر و رسوخ اور ان کے نفوذ کے دائرے کی مزید توسیع کی تمہید رہے، بہانہ رہے۔ وہ اس مجرمانہ محرک کو، شر انگیز محرک کو بظاہر ایک فلسفیانہ لبادے میں، بظاہر ایک فکری آڑ میں اور بظاہر ایک انسان دوستانہ جذبے کے نام پر پیش کرتے ہیں۔ یہ مغربی سرمایہ داروں کا جھوٹ ہے جو آج دنیا پر مسلط ہیں۔ اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قریب ایک صدی پہلے، مثال کے طور پر انھوں نے عورت کی آزادی اور عورت کی مالی خود مختاری کی بات اٹھائی۔ اس کا ظاہر تو اچھا تھا کہ عورت مالی اعتبار سے خود مختار ہونی چاہیے یا اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے لیکن اس کا باطن کیا تھا؟ اس کا باطن یہ تھا کہ ان کے کارخانوں کو مزدور کی ضرورت تھی، مرد مزدور کافی نہیں تھے، وہ عورتوں کو مزدوری کے لیے لانا چاہتے تھے اور وہ بھی مردوں سے کم اجرت پر۔ اس حقیقت کو انھوں نے ایک انسان دوستانہ ظاہر کی آڑ میں چھپایا، اس نام سے کہ عورت کو مالی خود مختاری حاصل ہونی چاہیے، اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے، وہ گھر سے باہر نکل سکے۔"
اب سوال یہ ہے کہ کیا ان موضوعات میں مغربی عورتوں کی جانب سے اقدار کی پامالی، امتیازی سلوک کی زنجیر شکنی تھی یا ان گھروں کی دیواروں کی مسماری تھی جو سرمایہ داروں سے ان کی حفاظت کر رہے تھے؟
[1] coed at Ohio State: Paula S. Fass, The Damned and the Beautiful: American Youth in the 1920s (New York: Oxford University Press, 1977), 307.
2 Zeitz, Joshua: Flapper. A madcap story of sex, style, celebrity, and the women who made America modern, New York, 2006: Crown Publishing, 15.
4 https://britishonlinearchives.com/posts/category/articles/528/from-the-archive-the-tobacco-industry-and-advertising-women-smoking-in-interwar-britain