سنہ 2012 کے بعد سے ترقی یافتہ مغربی ممالک نے افریقا میں فیملی پلاننگ کے ایک جامع اور مہنگے پروگرام پر کام شروع کر دیا۔ اس پروگرام کا آغاز، افریقا کی موجودہ صورتحال پر تبصرے سے ہوا تھا۔ میڈیا کے پھیلاؤ کے زمانے میں اس بر اعظم کے لوگوں کی طرز زندگي اور خاندانی روایات میں براہ راست مداخلت کے لیے ایسے مؤثر پروپیگنڈے اور تصویر سازی کی ضرورت ہے جو مغربی رائے عامہ اور افریقی دانشوروں کو متاثر کر دے اور منفی ردعمل کے امکان کو ختم کر دے۔
بھوکا، غریب اور گنجان آبادی والا
سنہ 2000 کے بعد سے جنوبی افریقا کے ممالک کی تصویر کشی، ان ملکوں میں زندگي کے تمام پہلوؤں کو بحرانی دکھانے کے لیے کی جاتی رہی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ توجہ حالیہ عشروں میں ان ممالک کی آبادی میں بے تحاشا اضافے پر مرکوز کی گئي ہے۔ سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2017 تک افریقا کی آبادی میں 58 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور آبادی کے سالانہ اضافے کی شرح ڈھائي فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ آبادی میں یہ اضافہ، جو براعظم افریقا میں معاشی ترقی اور صحت و سلامتی میں پیشرفت کی وجہ سے ہوا ہے، اپنے ساتھ کچھ چیلنجز بھی لایا ہے۔ آبادی میں یہ اضافہ ابھی افریقا کی معیشت کی پیشرفت سے تناسب نہیں رکھتا اور صحرائے افریقا کے جنوبی ممالک بدستور ایک اطمینان بخش معاشی صورتحال سے دور ہیں۔ افریقا کے مقامی کلچر نے اپنے آپ کو ان چیلنجز سے ہماہنگ کر لیا ہے۔ بچوں کی زیادہ تعداد کے باوجود بڑے افریقی گھرانے، ماؤں اور نومولود بچوں کے سلسلے میں بڑا ہی معاون کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سب کے باوجود، حفظان صحت کا مناسب بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے ان ملکوں میں حاملہ خواتین کی موت کی شرح کافی زیادہ ہے اور اسی طرح اس خطے میں نومود بچوں کی شرح اموات بھی تشویش ناک ہے۔
شرح اموات کے زیادہ ہونے کے باوجود افریقی گھرانے، زیادہ بچوں کے خواہاں اور مشتاق رہے ہیں اور اسی وجہ سے افریقا کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ براعظم سنہ 2050 تک کرۂ ارض کی تقریباً ایک چوتھائي آبادی کا میزبان ہوگا۔ یہ چیز مغربی لیڈروں اور سرمایہ داروں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ "یہ ایک ٹائم بم ہے ... خاص طور پر ماحولیات کے مسائل کے پیش نظر غذائي اشیاء بہت کم ہو جائيں گي ... یہ ایک بڑا بحران ہے۔" افریقا میں غذائي اشیاء کی کمی پر مغرب والوں کی تشویش، جسے وہ میڈیا میں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، ایسے عالم میں ظاہر کی جا رہی ہے کہ جب یہ براعظم غذائي اشیاء، گوشت سے لے کر گنے، مکئي اور استوائي پھلوں وغیرہ تک کی پیداوار کی بہت زیادہ گنجائش رکھتا ہے جس کے لیے بس سرمایہ کاری اور صحیح پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آبادی کے مسئلے میں ایک انگریز ماہر کے مطابق، جن کے خود کے ملک میں ہر مربع کلو میٹر پر 280 لوگ رہتے ہیں، افریقا میں ایک بہت چھوٹی سی سرزمین پر بہت زیادہ لوگ رہیں گے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ جنوبی افریقا کے زیادہ تر ملکوں میں گنجان آبادی نہیں ہے اور ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے صرف دو افریقی ملکوں میں، ہر مربع کلو میٹر پر برطانیہ کی نسبت زیادہ لوگ رہتے ہیں۔
مغربی ممالک، خاص طور پر امریکا کے حکام نے حالیہ برسوں میں افریقا میں مقامی خاندانی رسومات و روایات پر گہری تنقید کی ہے اور وہ افریقا میں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز عطا کروانے اور جنسی بے راہ روی کو تسلیم کروانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ وہ گھرانے کے ڈھانچے پر افریقی عوام کے گہرے بھروسے کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے جنسی اقلیتوں پر ظلم بتاتے ہیں اور اپنی پالیسیوں میں اس سلسلے میں انصاف کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔
مغرب، افریقا کی مدد کرے گا!
افریقا میں آبادی اور خواتین کی صورتحال کو بحرانی بتانے میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک، ایک خاص پروگرام کے ساتھ میدان میں آ گئے۔ عالمی تنظیموں نے افریقا میں آبادی پر کنٹرول کے پروجیکٹس کے لیے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اطلاع دی۔ اس کا مطلب، مانع حمل دواؤں اور وسائل کی بڑے پیمانے پر تقسیم، افریقی جوانوں کو جنسی مسائل کی تعلیم، افریقی خواتین کے لیے اسقاط حمل میں آسانی اور افریقی عورتوں کے لیے مزید آزادی کا حصول تھا۔ سنہ 2014 میں نائیجیریا کے دار الحکومت ابوجا میں فیملی پلاننگ کی ایک کانفرنس میں USAID، UNFPA، برطانیہ کے بین الاقوامی پیشرفت کے ڈپارٹمنٹ جیسی بڑی سرکاری اور عالمی تنظیموں اور اسقاط حمل اور حمل سے روکنے کا پرچار کرنے والی کمپنیوں جیسے IPPF اور میری اسٹوپس وغیرہ نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں طے پایا تھا کہ سنہ 2020 تک افریقا کی بارہ کروڑ سے زیادہ عورتوں اور لڑکیوں کو مانع حمل دوائیں اور اسقاط حمل کے ضروری وسائل فراہم کیے جائيں گے۔ انہی کوششوں کے تحت ایسی تعلیمی کتابیں اور دستاویزات تیار کی گئيں جو آبادی پر کنٹرول کے لیے مغربی ملکوں کے پروگرام کی عکاسی کرتی تھیں۔ ان دستاویزات میں واضح طور پر جنسی بے راہ روی کی آزادی، ہم جنس پرستی کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے اور گھرانے کے بارے میں افریقی معاشروں کی سوچ اور رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت کی بات کی گئي ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ افریقا اور افریقی خواتین کے لیے مغربی ملکوں کا طویل مدت اور "خیر خواہانہ" پروگرام، گھرانے کے ڈھانچے کو بدلنا، شادی اور افزائش نسل کی طرف سے عورتوں اور لڑکیوں کو بے رغبت بنانا اور شادی کر لینے کی صورت میں بچے پیدا کرنے سے روکنا ہے۔ یہ پروگرام، افریقا میں آبادی اور کلچر کو کنٹرول کر کے، افریقی ملکوں کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہتا ہے!
کتے کی ٹیڑھی دم
امام خامنہ ای نے 17 دسمبر 2024 کو پورے ملک کے مختلف شعبوں سے وابستہ خواتین سے ملاقات میں اپنے خطاب میں، عورت کے مسئلے میں سرمایہ داروں کی مداخلت کے محرّک کا اس طرح جائزہ لیا: "دنیا کے سرمایہ دار، زندگي کے تمام مسائل کی طرح عورت کے اس مسئلے میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔ (اس مداخلت کا) محرک کیا ہے؟ محرک، سیاسی و سامراجی مداخلت ہے۔ وہ اس مسئلے میں شامل ہوتے ہیں تاکہ ان کی مزید مداخلت، مزید اثر و رسوخ اور ان کے نفوذ کے دائرے کی مزید توسیع کی تمہید رہے، بہانہ رہے۔ وہ اس مجرمانہ محرک کو، شر انگیز محرک کو بظاہر ایک فلسفیانہ لبادے میں، بظاہر ایک فکری آڑ میں اور بظاہر ایک انسان دوستانہ جذبے کے نام پر پنہاں کرتے ہیں۔"
جنوبی اور جنوب مغربی افریقا کی خواتین کے مسئلے پر غور کر کے بھی مغربی سرمایہ داروں کے جھوٹ اور ان کی اس عدم صداقت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ افریقا میں برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ملکوں کے صدیوں پر محیط خونیں اور مجرمانہ سامراج کے بعد یہ براعظم، دوسری جنگ عظیم کے بعد طاقت کے خلا سے دوچار ہو گیا۔ حریت پسند تحریکیں، نئي حکومتوں کی تشکیل کی خواہاں تھیں اور پرانے سامراجی، اس براعظم پر ایک بار پر اپنے پنجے گاڑنا چاہتے تھے۔ قحط، طویل جنگوں، سیاستدانوں کی حد درجہ بدعنوانی، غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت اور اسی طرح کی دوسری متعدد وجوہات کی بنا پر افریقا کما حقہ پیشرفت نہ کر سکا۔ اس کے باوجود افریقی ممالک نے کافی سیاسی و معاشی پیشرفت کی ہے لیکن اس پیشرفت کے کافی نہ ہونے کی وجہ سے پرانے سامراجی ممالک ایک بار پھر افریقا کے ذخائر کو لوٹنے کی غرص سے اس براعظم میں لوٹ آئے ہیں لیکن اس بار ایک الگ شکل میں۔
افریقا کی بڑھتی ہوئي آبادی اس براعظم کی معاشی ترقی کے لیے ایک بے نظیر موقع ہو سکتی ہے۔ جوان آبادی میں یہ اضافہ کسی ملک کے لیے طاقت، نئے محرکات و جوش و جذبے، جدت طرازی اور بے مثال توانائي کا تحفہ ساتھ لاتا ہے لیکن اس صورتحال میں ملک کے ذخائر کو لوٹنے کے لیے غیر ملکی سامراجیوں اور سرمایہ داروں کا ہاتھ باندھنا بہت ضروری ہے۔
مغربی ممالک، ان کی انسان دوستانہ تنظیمیں اور دنیا کے بڑے سرمایہ دار اگر واقعی افریقا کے عوام کی مدد اور اس براعظم میں اپنے سیاہ ماضی کی تلافی کرنے کا ارادہ رکھتے تو انھیں اپنے پیسے افریقا میں تعلیم کے شعبے میں، بنیادی ڈھانچے کے فروغ، حفظان صحت کے سسٹم کو بہتر بنانے، ماہرین کی ٹریننگ اور سیاسی استحکام میں مدد پر خرچ کرنے چاہیے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔
جب افریقی خواتین مختلف جائزوں اور سروے میں، زیادہ بچوں کی پیدائش کے سلسلے میں اپنی پسند کی بات کرتی ہیں اور افریقی گھرانے ہر بچے کی پیدائش کو اللہ کی نعمت سمجھتے ہیں تب یہ ممالک اور سرمایہ دار مانع حمل دوائيں اور وسائل تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ جب اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے یورپی ملکوں میں رقبے کے لحاظ سے آبادی کا تناسب، افریقا سے زیادہ ہے اور افریقا میں زراعت و صنعت کے پھلنے پھولنے کا امکان، یورپ سے کہیں زیادہ ہے تب بھی مغرب والے، افریقا میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے بجائے آبادی کو ہی کم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ جب اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ محفوظ اسقاط حمل تک عدم رسائی، افریقا میں زچہ عورتوں کی موت کی وجوہات کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے اور وہ زیادہ تر ہائي بلڈ پریشر، پیدائش کے بعد زیادہ خون بہہ جانے اور زچگی کے مسائل کی وجہ سے مرتی ہیں، تب بھی مغرب والے اسقاط حمل کو افریقی خواتین کی جان کی نجات کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب افریقی لوگ اور خواتین اپنے خاندانی اور دینی کلچر سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہیں تو مغربی سیاستداں، بہت زیادہ پروپیگنڈہ کر کے اور امداد بند کرنے کی دھمکی(1) دے کر ان ملکوں میں جنسی بے راہ روی کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہدف واضح ہے۔ مغرب نہیں چاہتا کہ افریقا ایک پیشرفتہ، گھنی آبادی والے اور طاقتور براعظم میں تبدیل ہو۔ مغرب یہ ہدف، افریقا میں ماں اور بیوی کے کردار کو بگاڑ کر اور گھرانے کی اکائی کو تتر بتر کر کے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ گھرانے کی اکائي، ثقافتی اور معاشی تسلط پسندوں کے مقابلے میں مزاحمت کا اصل مرکز ہے۔ تنہا اور الگ تھلگ رہنے والے انسان، آسانی سے مغربی سرمایہ داری کی غلام بنانے والی مشین کی زد میں آ جاتے ہیں اور گھرانہ، غلام بنانے والی اس مشین سے مقابلے میں معاشروں اور ادیان کا سب سے اہم ہتھیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افریقی ماؤں اور بیویوں کے کردار پر، مغرب کے بڑے سرمایہ دار اس طرح زوردار حملے کر رہے ہیں۔
(1) Ekeocha, Obianuju, Target Africa: Ideological Neocolonialism in the Twenty-First Century, IGNATIUS PRESS. 24.