البتہ اس کے لیے کچھ چیزیں بہت ضروری تھیں۔ امریکی حکومت نے عالمی حالات کو سمجھتے ہوئے خلیج فارس میں اقتدار کے خلا کے مسئلے میں دو باتوں کو بنیادی طور پر توجہ کا مرکز بنایا: (1) مغربی دنیا کے مفادات کے خطرے میں پڑنے کا خدشہ (2) نکسن کی اسٹریٹیجی کی بنیاد پر پراکسی فورس کی حیثیت سے براہ راست مداخلت میں ناکامی۔ اس بنیاد پر امریکا نے انگریزوں کے انخلاء کی چہ میگوئياں شروع ہونے کے ساتھ ہی علاقائي تعاون پر زور دینا شروع کیا۔ سنہ 1968 میں امریکی وزارت خارجہ میں فار ایسٹ شعبے کی جزیرۃ العرب ڈیسک کے سربراہ نے ایک کانفرنس میں جو مشرق وسطی کے سلسلے میں تشکیل پائي تھی، کہا: "برطانیہ کے تاریخی کردار کے خاتمے کے بعد مقامی رہنماؤں کو ان کی جگہ لینی چاہیے اور ان کی مدد کے لیے امریکا سے جو کام بھی ہو سکے گا وہ ضرور کرے گا لیکن خلیج فارس کے مسائل میں امریکا کے لیے کسی خاص کردار کے بارے میں بات نہیں کی جا سکتی۔"

امریکا نے اپنے اگلے قدم میں اور اس وقت کے اپنے صدر جانسن کے منصوبے کے مطابق مغربی ایشیا میں براہ راست مداخلت کرنی شروع کر دی۔ اس وقت تک صیہونی حکومت کو فرانس اور برطانیہ کی جانب سے بے تحاشا اسلحہ جاتی مدد مل رہی تھی اور اسے نئے وقت کے لیے ایک نیا انتخاب کرنا تھا۔ جعلی صیہونی حکومت کے بانیوں کا ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ اس حکومت کو، جو طاقت کے بل پر تشکیل پائي تھی، اپنی سلامتی کے لیے ایک بڑی طاقت کا سہارا حاصل ہونا چاہیے۔ جانسن اس بات کو سمجھ گئے تھے اور ان کے بعد کے امریکی سربراہان مملکت نے بھی اس اسٹرٹیجی کو پوری اہمیت دی۔ بعد میں نکسن نے دو ستونوں کی پالیسی اختیار کی اور پہلوی دور کے ایران کے ساتھ، خطے میں اسرائیل کے کردار کو زیادہ مضبوط بنانا چاہا۔

امریکا کا دوسرا بڑا فیصلہ خطے میں ایک پراکسی فورس تشکیل دینے کا تھا جو سنہ 1967 کی جنگ کے زمانے میں کیا گيا۔ فرانس کے صدر جنرل ڈیگل، اب اسرائيل کی حمایت جاری نہیں رکھنا چاہتے تھے اور تل ابیب کی بھی سمجھ میں آ گيا تھا کہ اسے کسی دوسری طاقت کی پناہ میں جانا ہوگا۔ واشنگٹن نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس وقت مغربی دنیا کی دو زوال پذیر بڑی طاقتوں فرانس اور برطانیہ کی طاقت کے خلا کو پر کرنے کے لیے مشرق وسطی کے اہم میدان میں اترے گا۔

یہ پالیسی جاری رہی یہاں تک کہ آئزن ہاور، وائٹ ہاؤس میں تخت صدارت پر براجمان ہوئے۔ ان کی پالیسی، جانسن کی پالیسی کا ہی تسلسل ہے اور کمیونزم سے ٹکراؤ کے سلسلے میں ان کا اپنا طریقۂ کار تھا۔ مشرق وسطی میں آئزن ہاور کی پالیسی کا ایک نمونہ سنہ 1957 کا ہے جب امریکا نے اعلان کیا کہ وہ معاشی اور عسکری امداد بانٹے گا اور ضرورت پڑنے پر کمیونزم کو باہر نکالنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرے گا۔ مشرق وسطی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے آئزن ہاور نے سنہ 1957 اور سنہ 1958 میں اردن اور لبنان کی مغرب نواز حکومت کو مالی امداد بھیج کر اپنی پالیسی جاری رکھی۔

یہ پالیسی اسی وقت عملی جامہ پہنتی جب امریکا، مشرق وسطی کی سلامتی کو ایک پراکسی حکومت کے حوالے کر دیتا۔ ایران، سعودی عرب اور اسرائيل واشنگٹن کے آپشن تھے اور سنہ 1967 سے اس امر میں شدت آتی گئي اور سنہ 1979 میں شاہ ایران کا تختہ پلٹ جانے کے بعد یہ کام، اسرائیل کے حوالے کر دیا گيا۔ ان برسوں کے دوران اسرائيل کے لیے امریکا کی سخاوت کا ایک نمونہ تل ابیب کو فوجی امور میں دی جانے والی 318 ارب ڈالر کی مدد ہے جو اب بھی جاری ہے۔

تل ابیب کو خطے میں اپنی طاقت کا مظہر بتانے کی امریکا کی ایک اور اہم پالیسی، عرب ملکوں کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات معمول پر لانے کا منصوبہ تھا۔ کیمپ ڈیوڈ اس سلسلے میں امریکا کا سب سے پہلا اقدام سمجھا جاتا ہے اور ڈیل آف سینچری اس سلسلے کی سب سے آخری کڑی تھی جسے ٹرمپ نے آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے ذریعے امریکا، اسرائیل کو خطے میں فوجی لحاظ سے سب سے اوپر رکھنے کے ساتھ ہی سیکورٹی اور سیاسی لحاظ سے تعلقات معمول پر لانے کے معاملے میں بھی اسرائیل کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے زمانے سے امریکی امداد کے عمل سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ امریکا سب سے پہلے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے اور اس کے بعد اسرائيل کی سلامتی کو۔ درحقیقت واشنگٹن نے اپنی منصوبہ بندی اس طرح سے تیار کی ہے کہ اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے خطے میں اس کی ایک پراکسی حکومت رہے۔ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت اور دوسرے دور صدارت میں امریکا کی جانب سے اسرائيل کو دی جانے والی امداد کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ امریکا کو خطے میں اپنے لیے ایک پراکسی حکومت کی ضرورت کیوں ہے؟

اس کے جواب میں ان باتوں پر توجہ ضروری ہے:

(1) سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا مغربی ایشیا میں جو نظام چاہتا ہے وہ صرف واشنگٹن کی براہ راست مداخلت سے عملی جامہ نہیں پہن سکتا۔

(2) دنیا اور خطے میں اسرائيل، امریکا کا وہ واحد اتحادی ہے جو کسی بھی صورت میں خارجہ پالیسی میں امریکی اصولوں کا پابند رہے گا۔

(3) خطے میں امریکا کے سیکورٹی اور اسلحہ جاتی منصوبوں کے صحیح طریقے سے آگے بڑھنے کے لیے اسرائيل، خطے میں عربوں کو ڈرانے کے لیے امریکا کی ایک پراکسی حکومت ہے اور واشنگٹن ہمیشہ عربوں کو ڈرانے کے لیے "اسرائيل کارڈ" استعمال کرتا ہے۔ یہ چیز امریکا کے ذریعے عربوں کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں کے اعداد و شمار سے پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:

الف: فروری سنہ 2525 میں ٹرمپ نے تجویز دی کہ امریکا، غزہ پٹی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے تاکہ اس کی تعمیر نو کے عمل کی نگرانی کر سکے۔

ب: جنوری سنہ 2525 میں ٹرمپ نے اسرائیل کو اٹھارہ سو، MK-84 بم دینے کو منظوری دی جن میں سے ہر بم دو ہزار پونڈ کا تھا۔ اس فیصلے نے پچھلی حکومت کے اسرائيل کو اس طرح کے بم نہ دیے جانے کے فیصلے کو منسوخ کر دیا جو اس نے غزہ جیسے علاقے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کے مارے جانے کے خدشے کے تحت کیا تھا۔

ج: 7 فروری سنہ 2525 کو امریکا نے بڑے پیمانے پر فوجی سازوسامان اسرائيل کو فروخت کیے جانے کی تجویز کو منظوری دی جس میں گائیڈڈ ہتھیار، بم اور متعلقہ آلات تھے۔

د: 28 فروری سنہ 2525 کو ٹرمپ حکومت نے اسرائيل کو 3 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے جانے کو منظوری دی جن میں ہزاروں بم اور وار ہیڈ شامل تھے۔ ٹرمپ نے ایک حکمنامے پر دستخط کیے جس کی رو سے امریکا اور اسرائيل سمیت اس کے اتحادیوں کے بارے میں تحقیقات کرنے کی وجہ سے عالمی فوجداری عدالت پر کچھ پابندیاں لگا دی گئيں۔ یہ پابندیاں ان افراد کو متاثر کرتی ہیں جنھوں نے امریکی شہریوں امریکا کے اتحادیوں کے شہریوں کے سلسلے میں تحقیقات کی ہیں۔

ذ: ٹرمپ نے اقتدار میں واپس آنے کے پہلے ہی دن اس حکمنامے کو منسوخ کر دیا جس کے تحت غرب اردن میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد سے کام لینے والے اسرائيلی سیٹلرز کے خلاف پابندیاں لگائي گئي تھیں۔ ٹرمپ کے اس اقدام کا اسرائيلی حکام نے بہت زیادہ خیر مقدم کیا۔

(4) امریکا کی خارجہ پالیسی کی بنیاد یہ ہے کہ مغربی ایشیا کے علاوہ پوری دنیا پر اس کا تسلط رہے کیونکہ اس علاقے میں دنیا کے تیل اور گيس کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور پوری دنیا کا معاشی ڈھانچہ، اسی روایتی ایندھن پر ٹکا ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں عرب ملکوں اور اسرائيل کی معاشی سلامتی کی حفاظت امریکا کے لیے اہم ہے کیونکہ نئے عالمی نظام میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک چین اور روس سے بھی دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں جس کی ایک واضح مثال بیجنگ کے ساتھ خلیج فارس کے ساحلی ملکوں کے کئي سو ارب ڈالر کے سمجھوتے ہیں۔

ان ساری باتوں پر توجہ دینے سے بائيڈن کی سنہ 2023 کی وہ مشہور تقریر یاد آ جاتی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ "اگر اسرائيل نہ ہوتا تو امریکا، اپنے مفادات کے لیے ایک اسرائيل پیدا کر دیتا تاکہ وہ خطے میں اس کے مفادات کی حفاظت کرے۔" بنابریں امریکا کی جانب سے اسرائيل کی حمایت نہ صرف سیاسی و سفارتی لحاظ سے غزہ کی جنگ کے دوران جنگ بندی کی سلامتی کونسل کی تجاویز کو ویٹو کرنے کے سلسلے میں جاری رہی بلکہ اسرائيل کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد کے لحاظ سے بھی جاری رہی ہے۔

 

تحریر: محمد علی حسن نیا (مغربی ایشیا کے امور کے ماہر)